اعتکاف میں دین کا علم سیکھنا سکھانا

اعتکاف میں
دین کا علم سیکھنا سکھانا

فی زمانہ دین بے زاری کا جو عالَم ہےاور دین سیکھنے کے معاملے میں ہر شخص جس طرح وقت کی تنگ دامانی کا شکوہ کرتا ہے کہ کیا کریں دیگر امور میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ دین سیکھنے اور اہلِ علم کی خدمت میں بیٹھنے کا موقع ہی نہیں ملتا، ان کے لیے اعتکاف میں بیٹھنا ایک غنیمت ہے کہ ایک دفع اپنے دنیوی امور کو سیٹ کرکے اگر کسی اہلِ علم کے ساتھ کسی مسجد میں اعتکاف کر لیا جائے تو ہر وقت اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن افسوس کہ اول تو یہ زریں موقع بھی غفلت کی نذر ہو جاتا ہے اور اگر کسی کو کچھ توفیق ہوئی تو بعض دوسرے صاحب اسے اعتکاف کے منافی قرار دینے سے نہیں چوکتے، اس لیے کہ ان کا ماننا ہے کہ اعتکاف ایسی انفرادی عبادت ہے، جس میں فقط نماز، تلاوت اور دعا وغیرہ میں مشغول رہنا چاہیے، سیکھنے سکھانے کے لیے تو سال کے باقی تمام دن ہیں! ہمارے خیال میں اس طرح کے موقع سے فایدہ نہ اٹھانا یا اگر کوئی شخص انفرادی معمولات میں لگا ہوا ہی ہو تو اسے زبردستی اِن امور کا پابند بنانا صرف اس صورت میں جائز و درست ہے، جب کہ وہ اپنا ماتحت ہو، اس لیے کہ ہر شخص کے حالات اور ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص انفرادی عبادت کرنا چاہے، تو اسے اپنا کام کرنے دیا جائے، اگر کوئی شخص دین سیکھنے سکھانے میں لگنا چاہے، تو اسے بھی اپنا کام کرنے دینا چاہیے، کیوں کہ ایسے امور میں ٹوکنے کا حق صرف مربی و استاد وغیرہ کو ہوا کرتا ہے۔
صحیحین کی روایت ہے:
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ، کَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُخْرِجُ إِلَيَّ رَأْسَهُ مِنْ الْمَسْجِدِ وَهُوَ مُجَاوِرٌ، فَأَغْسِلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ۔
حضرت عائشہ زوجۂ نبی رضی اللہ عنہاکہتی ہیں، رسول اللہ ﷺحالتِ اعتکاف میں اپنا سرِ مبارک میری طرف نکال دیتے اور میں آپ کے سر کو دھو دیتیں، اس حال میں کہ میں حائضہ ہوتی۔(مسلم:297)
ایک روایت میں ہے:
‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيُدْخِلُ عَلَيَّ رَأْسَهُ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَأُرَجِّلُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةٍ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا كَانَ مُعْتَكِفًا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زوجۂ نبیؐسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنا سر میری طرف جھکا دیتے، حالاں کہ آپﷺ مسجد میں حالتِ اعتکاف میں ہوتے اور میں اس میں کنگھی کرتی اور جب اعتکاف میں ہوتے تو بغیر کسی ضرورت کے گھر میں داخل نہ ہوتے۔(بخاری:2029، مسلم:297)
اس حدیث کے تحت علامہ زین الدین عراقیؒ تحریر فرماتے ہیں :
فإن الاشتغال بالعلم وکتابته اهم من تسريح الشعر۔
بلا شبہ علم میں مصروفیت اور اس کی کتابت بالوں کے سنوارنے سے زیادہ اہم ہے۔(تثریب فی تقریب التہذیب:4/174)
لہٰذا دورانِ اِعتکاف تعلیم و تعلم اور سیکھنا سکھانے جیسے اُمور بجا لانا بالکل جائز و درست ہے۔
امام شافعیؒ کا ارشاد ہے:
ولا بأس أن يشتري ويبيع ويخيط ويجالس العلماء ويتحدث بما أحب ما لم يکن إثم.
معتکف کے لیے ضروری خرید و فروخت، حسبِ ضرورت کپڑے سی لینے، علماء کی مجلس میں بیٹھنے اور ایسی گفتگو– جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو–کرنے میں کوئی حرج نہیں۔(الام:2/105)
بلکہ بعض علما نے اعتکاف میں تعلیم کے حوالے سے باہر نکلنے تک کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اعتکاف میں بیٹھنے سے قبل بعض امور کے کرنے کو مشروط کرے تواس دوران اس کے لیے وہ عمل کرنا جائز ہوگا اور اس سے اس کا اعتکاف متاثر نہیں ہوگا ۔( فتاوی حقانیہ:4/201 )جب کہ دیگر علما کا کہنا ہے کہ درس کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں ہے اور استثنا کرنا بھی درست نہیں، مسنون اعتکاف استثنا کرنے سے نفل بن جاتا ہے، ہاں نذر کا اعتکاف ہو تو استثنا جائز اور درست ہے۔(فتاویٰ دارالعلوم زکریا:3/327)البتہ حالتِ اعتکاف میں مسجد ہی میں رہتے ہوئے دینی مسائل وغیرہ سیکھنا سکھانامندوب و مستحب قرار دیا گیا ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
فان لا یتکلم الا بخیروان یلازم بالاعتکاف عشرا من رمضان وان یختار أفضل المساجد کالمسجد الحرام الجامع،ویلازم التلاوۃ والحدیث والعلم وتدریسہ وسیرۃ النبی والانبیاء علیہم السلام الخ۔ (ہندیہ:1/212)
نیز علامہ طحطاویؒ رقم طراز ہیں:
(قولہ و تدریس فی سیر الرسول) ﷺ الذی فی البحر و تدریس و سیر الرسول ﷺ وھو اولیٰ لعموم التدریس و سیر الرسول ﷺ ما وقع لہ فی مغازیہ، (قولہ حکایات الصالحین) ای المتعلقۃ بذکر اخلاقھم و افعالھم و مخرج بذلک الحکایات الملھیۃ،(وکتابۃ امور الدین) کالفقہ و التوحید و الحدیث والتفسیر و ما یتبع ذلک من الآیۃ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار:1/477)
معلوم ہوا اعتکاف میں رہتے ہوئے بلا اجرت درس و تدریس میں مشغول رہنا بڑے ثواب کا باعث ہے، جس میں تفسیر ، حدیث، فقہ،سیرت اور حکایاتِ صالحین وغیرہ تمام جائز علوم داخل ہے۔
اور بعض روایاتِ حدیث بھی اس کا اشارہ مل سکتا ہے،مشتِ نمونے ازخروارے:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
‏‏‏اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ فَكَشَفَ السِّتْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ: أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فِي الصَّلَاةِ۔
رسول اللہ ﷺنے مسجد میں اعتکاف کیا، آپ ﷺ نے لوگوں کو بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ اٹھا کر فرمایا: تم میں سے ہر ایک اپنے پروردگار کو پکارتا ہے، لہٰذا کوئی دوسرے کو ایذا نہ دے اور نہ اپنی آواز قرآن پڑھنے میں دوسرے کے مقابلے میں بلند کرے، یا یہ فرمایا کہ اپنی آواز دوسرے کے مقابلے میں نماز کے اندر بلند نہ کرے۔ (ابوداود: 1332 )
اورحضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ يُحَدِّثُنَا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ حَتَّى يُصْبِحَ مَا يَقُومُ إِلَّا إِلَى عُظْمِ صَلَاةٍ.
حضرت نبی کریم ﷺ ( بعض اوقات ) ہمیں بنی اسرائیل کی باتیں بیان کرتے رہتے، حتیٰ کہ صبح ہوجاتی اور پھر نماز کے خیال ہی سے اٹھتے ۔ (ابوداؤد: 3663 ، ترمذی:2671)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here