القدس کے خلاف صلیبی و صیہونی فیصلہ

شہر القدس کے خلاف صلیبی اور صیہونی فیصلہ
اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ موجودہ حیثیت سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں پر لگام کسیں

ندیم احمد انصاری

تمنا تو یہ کی جا رہی تھی کہ اسرائیل کے زیرِ تسلط’مقبوضہ فلسطین ‘ میں شہر القدس جلد ہی نہ صرف صہیونی شکنجے سے آزاد اور اسرائیل کی جانب سے مسجدِ اقصیٰ کے انہدام اور اس کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کا خواب پارہ پارہ ہو جائے گا، اس لیے کہ بیت المقدس سے مسلمانوں کا ماضی اور مستقبل جڑا ہوا ہے ، نیز مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور نبی کی پیشین گوئیوں کے مطابق اس مقام سے مستقبل اور قربِ قیامت میں بہت سی نشانیاں ظاہر ہونی ہیں۔شیخ رائد صلاح نے بھی تقریباً چار سال قبل اسرائیلی تسلط سے آزادی کے بعد القدس کے عرب انقلاب کا دارالخلافہ بننے کی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسجدِ اقصیٰ کو ایک دن کامیابی ضرور ملے گی،لیکن گذشتہ دنوں موصولہ اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم اور گویا اسے مسلمانوں کی ملکیت سے خارج کرکے صیہونیوں کی راجدھانی قرار دے دیا۔ جس کے بعد بین الاقوامی سطح پر سخت تنقید اور شدید مذمت کا سلسلہ جاری ہے ۔

سعودی عرب ،ایران، لبنان، جرمنی وغیرہ نے اس اعلان کی مذمت کی ہے ، نیز فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ اس شرمناک اور ناقابلِ قبول اقدام نے امن کی تمام کوششوں کو کمزور کر دیا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گرتیرس نے ٹرمپ کے اس اقدام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یروشلم کے تنازع کو بہر صورت اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے ،انھوں نے مزید کہا کہ اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل کی حیثیت سے میں روزِ اوّل سے مسلسل کسی بھی یک طرفہ حل کے خلاف ہوں، جس سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے امکانات کو زِک پہنچ سکتی ہے ۔اس کے علاوہ یورپی یونین کی فارن پالیسی کی سربراہ فیڈریکا مگیرینی،برطانوی وزیرِ اعظم ٹریزا مے اور ترکی، فرانس و مصر وغیرہ نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے سے اختلاف اور اس پر تنقید کی ہے ۔

دراصل ٹرمپ کی شخصیت صدارت کے پہلے دن سے ہی خود امریکا کی تاریخ میں مبغوض رہی ہے ۔ عوام میں اس سے ناراضگی کا عالَم یہ ہے کہ اس کے صدر بننے پر مظاہرے کیے گئے ، نیزامریکا کی عدالتوں میں اس کے اور اس کے داماد و دیگر اہم لوگوں پر مقدمے چل رہے ہیں۔پھر موجودہ حالات میں یہ اقدام فلسطین اور اس کے حامیوں اور پورے عالمِ اسلام کے لیے تشویش کا باعث و سخت بے چینی کا باعث ہے ۔ اس لیے بھی کہ گذشتہ سال یونیسکو (اقوامِ متحدہ) نے ایک تاریخی فیصلے میں دیوار براق اور مسجدِ اقصیٰ (بیت المقدس)پر مسلمانوں کے حق کوتسلیم کیا تھا ، اس لیے اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ موجودہ حیثیت سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں پر لگام کسیں، جیسا کہ مولاناارشد مدنی نے کہا ہے ۔سچ یہ ہے کہ ٹرمپ کا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا تمام عالَمِ اسلام اور امتِ مسلمہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے ، جس سے مسلم دشمنی کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ ایک صلیبی اور صیہونی فیصلہ ہے ، جس کا پہلے سے خدشہ محسوس کیا جا رہا تھا۔اس اعلان کو جو مقصد ہے وہ بھی اہلِ نظر سے مخفی نہیں، اس ایک فیصلے کے ذریعے گویا مسلمانوں کا مسجدِ اقصیٰ سے مکمل رشتہ کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

واضح رہے ،بیت المقدس محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ مسلمانوں کا قبلۂ اول اور وہ مقام ہے جہاں پر آخری نبی حضرت محمدﷺنے معراج کی رات تمام نبیوں کی امامت کی تھی۔جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ہم جب بیت المقدس پہنچے تو جبرئیل ؑ نے اپنی انگلی سے اشارہ کرکے ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھا۔(ترمذی)میں نے اپنے آپ کو انبیا کی جماعت میںدیکھا،پس اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے ہیںاورپھر اچانک دیکھتاہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھڑے نماز ادا کررہے ہیں،حضرت ابراہیم کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں، پس اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا تو میں نے ان کو نمازپڑھائی۔(مسلم)اور بخاری شریف کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس کی طرف سولہ مہینے یا سترہ مہینے نماز پڑھی اور رسول اللہﷺچاہتے تھے کہ کعبے کی طرف منہ کیا جائے ، تو اللہ عز وجل نے حکم نازل فرمایا: قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَائِ، پس آپ قبلۂ جدید کی طرف پھرگئے۔ (بخاری)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! دنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ آپ نے فرمایا: مسجدِ حرام(جو مکّے میں ہے)۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سی ؟ آپ نے فرمایا:مسجدِ اقصیٰ (جو بیت المقدس میں ہے)۔(بخاری) تفسیرمیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی جگہ کو پوری زمین سے دوہزار سال پہلے بنایا ہے اور اس کی بنیادیں ساتویں زمین کے اندر تک پہنچی ہوئی ہیں اور مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمانؑ نے بنایا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش سے دریائے فرات تک مبارک زمین بنائی ہے اور اس میں سے فلسطین کی زمین کو تقدس خاص عطا فرمایا ہے ،اس کی برکات دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی، دینی برکات تو یہ ہیں کہ وہ تمام انبیاے سابقین کا قبلہ اور تمام انبیا علیہم السلام کا مسکن ومدفن ہے اور دنیوی برکات اس کی زمین کا سرسبز ہونا اور اس میں عمدہ چشمے نہریں باغات وغیرہ کا ہونا ہے ۔(معارف القرآن)نیز بہ طور پیشین گوئی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمھیں مسیح دجال سے ڈرا دیا ہے ، اس کی (بائیں) آنکھ پونچھ دی گئی ہوگی، اس کے ساتھ روٹیوں کے پہاڑ اور پانی کی نہریں چلتی ہوں گی، اس کی علامت یہ ہوگی کہ وہ چالیس دن تک زمین میں رہے گا اور اس کی سلطنت پانی کی ہر گھاٹ تک پہنچ جائے گی، البتہ وہ چار مسجدوں میں نہیں جاسکے گا؛ خانہ کعبہ، مسجدِ نبوی، مسجدِ اقصیٰ اور مسجدِطور۔(مسند احمد)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here