جانور کی ’قربانی‘ کے ذریعے دلوں میں قربانی کاسچا جذبہ پیدا کریں

جانور کی ’قربانی‘ کے ذریعے دلوں میں قربانی کاسچا جذبہ پیدا کریں

ندیم احمد انصاری

(اسلامی اسکالر و صحافی)

اللہ سبحانہ وتعالیٰ؛ جو کہ خالقِ کائنات ہے۔۔۔اس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے سر پر شرف وبزرگی کا تاج رکھا، پھر چند امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے سرخ رو ہونے کے لیے، اسے اس دنیا میں بھیجا، اب جوشخض اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم واشارہ پاکر ’قربانی‘ پیش کرے گا، وہ سرخ رو ہوگا اور جو باوجود واضح دلائل کے حکم کی تعمیل میں چوں وچرا کرے گا، وہ راندۂ درگاہ ہوگا۔’قربانی‘ رسول اللہ حضرت محمد ﷺ کی سنتِ دائمہ ہے، اس لیے کہ آپﷺ نے مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد ہر سال قربانی کی اور امت کو بھی اس کی تعلیم وترغیب دی، یہی نہیں بلکہ آپﷺ نے باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرنے والے پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا، اس لیے ہمیں چاہیے کہ خوش دلی اور پورے اخلاص کے ساتھ قربانی کریں۔

اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ میں ہے:

قربانی کے معنی میں ہر وہ چیز داخل ہے، جسے اللہ تعالیٰ کے تقرّب کا ذریعہ بنایا جائے، خواہ وہ جانور کا ذبیحہ ہو یا نذر و نیاز یا عام صدقہ و خیرات وغیرہ۔ہر ایسا نیک عمل، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قریب ہونے کا قصد کیا جائے، وہ قربان ہے۔عُرفِ عام میں یہ لفظ جانور کی قربانی کے لیے بولا جاتا ہے۔

قرآنِ کریم میں یہ لفظ تین جگہ آیا ہے؛(۱)سورہ آلِ عمران، آیت:۸۳اور(۲) سورہ مائدہ، آیت: ۳۰میں اس کے معنی صاف طور پر ذبیحے کے ہیں، تاہم سورہ احقاف آیت: ۲۸ میں کہا گیا ہے کہ ’لَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ قُرْبَانًا آلِهَةً‘  پھر ان کی مدد ان لوگوں نے کیوں نہ کی، جنھیں انھوں نے تقرب کے لیے اللہ کے سوا معبود بنا رکھا تھا، یہاں یہ لفظ ’آلہٰۃ‘ (معبودوں) کا مرادف ہوگا، اس لفظ کی تشریح ’شفاعت کرنے والے‘ کی گئی ہے۔لسان العرب میں دو حدیثیں دی گئی ہیں، جو خاصی جاذبِ نظر ہیں؛(۱) تورات میں اس ملت (یعنی ملتِ اسلام) کی یہ خصوصیت آئی ہے کہ ان کی پیش کش ان کا اپنا خون ہے بالفاظِ دیگر انھوں نے دیگر پیش کشوں کے بجائے اپنے شہیدوں کا خون پیش کیا ہے اور (۲)دوسری حدیث یہ ہے کہ ہر متقی کی پیش کش اس کی نماز ہے۔ یہ دونوں حدیثیں لفظِ قربان کے وسیع معنوں کی مظہر ہیں۔

فرہنگِ آصفیہ میں ہے:

قربانی کرنے کا مطلب ہے؛عیدِ اضحی کو اونٹ یا دُنبہ وغیرہ قربان کرنا، ذبح کرنا۔ اس لفظ میں یاے تمنائی زائد ہے، کیوں کہ فارسی والوں کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات عربی مصدر کے آگے یاے مصدر ’ی‘ یا زائدہ اکثر بڑھا دیا کرتے ہیں، جیسے: خلاص سے خلاصی وغیرہ۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے:

لَن یَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَکِن یَنَالُهُ التَّقْوَى مِنکُمْ۔

یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس نہ اس(قربانی) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون لیکن اس کے پاس تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔۔۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کی روح یعنی تقویٰ خاص کی تعظیم شعار ہے، اس کی بہت حفاظت کرو اور سمجھو کہ ذبح بالذات مقصود نہیں، دیکھو وہاں نہ خون پہنچتا ہے، نہ گوشت، جو چیز مقصود ہے، وہ البتہ پہنچتی ہے یعنی تقویٰ۔ چناں چہ اگر گوشت وخون مقصود ہوتا تو سارا جانوراٹھ کر چلا جایا کرتا، پس صرف ذبح کو مقصود مت سمجھو، اللہ تعالیٰ کے یہاں تقویٰ پہنچتا ہے، اس کو دیکھو کہ اس ذبح کے ساتھ تقویٰ بھی شامل ہے یا نہیں؟

قربانی کا واضح ثبوت

سورۂ کوثر میں ارشادِ ربانی ہے:

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔

صحیح قول یہ ہے کہ یہاں نحر سے مراد قربانی کرنا ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نمازِ عید سے فارغ ہوکر اپنی قربانی ذبح کرتے تھے۔

عید الاضحی کے دن بہترین عمل

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا، اور آپﷺ ہر سال برابر قربانی کرتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک عید الاضحی کے دن سب سے پسندیدہ عمل جانور کی قربانی کرنا ہے، یہ قربانی قیامت کے دن، اپنے بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے، اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردیا جاتا ہے، اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اللہﷺ کے صحابہؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ تمھارے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں۔ انھوں نے عرض کیا: ان میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔ انھوں نے عرض کیا: اور اون میں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلہ بھی ایک نیکی۔

نیا پروپیگنڈہ

کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس قدر واضح ثبوت کے باوجود بعض کج فہموں نے رسول اللہﷺ کے اس دائمی عمل ’قربانی‘ کو ایک کارِ فضول گر دانا ہے، جیسا کہ درسِ ترمذی میں مذکور ہے:

ہمارے دور میں منکرینِ حدیث نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ قربانی تو فضولی چیز ہے اور اصل تو قربانی کی مشروعیت اس لیے تھی کہ چوں کہ حج کے موقع پر بہت لوگ جمع ہوجاتے تھے اور ان کے کھانے پینے کا انتظام نہیں ہوپاتا تھا، اس لیے حج کے موقع پر قربانی مشروع کی گئی تھی، تاکہ حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوجائے، لہٰذا دوسرے لوگ جو مکہ مکرمہ کے علاوہ دوسرے شہروں میں مقیم اور آباد ہوں ان پر قربانی واجب نہیں اور منکرینِ حدیث یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں ایسا بے عقلی کا حکم نہیں ہوسکتا کہ کروڑوں روپے کی دولت خون کی شکل میں نالیوں میں بہادی جائے، کیوں کہ ایک دن میں ہزارہا جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔جب انسان کے دماغ پر ہر وقت مادّے اور پیسے کا غلبہ ہو تو وہ ایسی بے تکی باتیں کیا کرتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ قربانی کا تو مقصود ہی یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا عادی بنایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجانے کے بعد وہ اس میں مادی منافع تلاش نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوجائے۔ چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کرنے کا جو حکم دیا، اس کو عقل کی کس میزان میں تولا جائے کہ کوئی باپ اپنے معصوم بیٹے کو ذبح کرے؟ یہ بات عقل میں نہیں آتی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس حکم کو تسلیم کیا اور اسی تسلیم کو قرآن کریم نے فرمایا:

{فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ}۔

معلوم ہوا، اسلام اس کانام ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اس حکم کے آگے جھکادے، چاہے وہ عقل میں آئے یا نہ آئےاور جب تک انسان کے اندر یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا، انسان، انسان نہیں بنتابلکہ وہ جانور اور درندہ رہتا ہے، جیسے آج کل ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر جھکانے کا جذبہ دل میں نہیں ہے، اس جذبے کو پیدا کرنے کے لیے قربانی مشروع کی گئی ہے، اب اگر کوئی شخص قربانی کرنے میں حساب کتاب لگانا شروع کردے اور معاشی فوائد تلاش کرنا شروع کردے اور مادی منفعت تلاش کرنا شروع کردے، تو یہ قربانی کے اصل فلسفہ ہی سے جہالت اور ناواقفیت کا نتیجہ ہے، جب کہ بذاتِ خود حضور اقدسﷺ نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران ہر سال قربانی فرمائی ہے۔

قربانی کی مشروعیت میں اصل حکمت یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے مسلمان اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا سیکھ لے اور اللہ و رسول کے حکم کے آگے اپنی عقل کے گھوڑوں کو رام کر لے، اس لیے اگر یہ بات پیدا نہ ہو تو گویا قربانی کا اصل مقصد ہی فوت ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقصد کو بدرجۂ اتم پورا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

اللّٰہم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ

وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ

(اس ویب سائٹ کو عام کرکے دینی کو فروغ دینے میں ہمارا ساتھ دیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here