عروس البلاد ممبئی میں اسلامک فقہ اکیڈمی کاستائیسواں فقہی سیمینار


تذکرہ وتعارف

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
(رکن مجلس استقبالیہ ستائیسواں فقہی سیمینارممبئی)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دین فطرت ہے،جس کو اللہ تعالیٰ نےاسےپوری انسانیت کےفلاح کے لئے ناز ل فرمایاہے، اس لیے اس کی تعلیمات زندگی کےتمام شعبوں اورسماج کے سارے طبقات کی رہنمائی کرتی ہیں۔اس میں رہتی دنیاتک کے مسائل کاحل موجودہے،اوریہ بھی ایک حقیقت  ہے کہ اسلامی تعلیمات کے ماخذقرآن اورسنت ہیں،جو محدود ہیں،جب کہ انسانی مسائل  لامحدود۔قرآن وسنت چوں کہ قانون اوراصول وکلیات کی کتاب ہے،اس لئے اس میں ہر جزئیہ کی وضاحت نہیں ہے، ہاں اس میں ایسے اصول موجود ہیں،جن سے پیش آمدہ مسائل کاحل تلاش کیاجاسکتاہے۔اس تلاش کرنے کوشریعت کی اصطلاح میں اجتہاد کہاجاتاہے۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب نبی کریم ﷺ نے یمن کاقاضی بناکربھیجا توآپ نے ان کاامتحان لیاکہ  تم وہاں پر کیسے فیصلہ کروگے؟آپ نے جواب میں کہاکہ قرآن کے مطابق فیصلہ کروں گا، آپ ﷺنے ان سے پوچھاکہ اگر قرآن میں تم کووہ مسئلہ نہ ملےتوپھرکیاکروگے،آپ نے جواب دیاکہ سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔آپ ﷺ نے سوال کیاکہ اگرسنت میں بھی تم کونہ ملے توپھرکیاکروگے،توحضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے جواب  دیااجتھدبرائی ولاآلویعنی  میں کوشش کرکےاپنی تحقیق سے کسی نہ کسی اصول سے تطبیق دوں گااوراس میں کوتاہی نہیں کروں گا۔نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:الحمدللہ الذی وفق رسول رسول اللہ ﷺ بمایرضی رسول اللہ یعنی تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق عطافرمائی جس سے اس کارسول راضی ہے۔(ابوداؤد:٣٥۹٢)قرآن وحدیث سے مسائل کونکالنے کے لیےاعلیٰ درجہ کی ذہانت،قرآن وسنت کے معانی ومطالب  پر گہری نظر،سیرت نبوی اورتاریخ  اسلامی سے واقفیت ہونے کے ساتھ فن نحووصرف اورلغت کابھی جانناضروری ہے۔نیزاللہ اوراس کے رسول سے محبت،تقویٰ وطہارت اورخوف آخرت  بھی  لازمی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک جگہ ارشادفرمایاکہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیروبھلائی کامعاملہ کرناچاہتاہے تواس کو دین کاتفقہ یعنی قرآن وسنت سے مسائل نکالنےکی سمجھ عطافرمادیتے ہیں اوراس کے لوازمات بھی آسان کردیتے ہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ:٣١٠٤۸)۔اس عظیم الشان کام کے لیےنبی کریم ﷺنے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کوایک موقعہ پر دعاء بھی دی اللھم علمہ الکتاب وفقہہ فی الدین، اے اللہ اس بچہ کو کتاب اللہ کاعلم اوردین کی صحیح سمجھ عطافرما۔(بخاری:١٤٣)۔ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ جس کو یہ صلاحیت  دی گئی تو گویاکہ اس کو دنیاوآخرت کی بھلائی دی گئی۔(مصنف ابن ابی شیبہ:٣١٠٤۹)۔چنانچہ صحابہ کرام کےزمانہ سے لیکر آج تک اس امت میں  ایسے جیالےپیداہوتے رہےہیں،جن کو اللہ کی طرف ایسے کاموں کی توفیق ملتی رہی، انھوں نے ایسےبہت سے مسائل قرآن وسنت سے مستنبط کئےجوان میں صراحت کے ساتھ موجودنہیں تھے،مگرجب انھوں نے غورسے جائزہ لیااورقرآن وسنت کی گہرائی میں جاکرتلا ش کیاتوان کوان گنت مسائل کاحل مل گیا۔ان میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ ،حضرت امام مالک ؒ ،حضرت امام شافعی ؒحضرت امام احمدبن حنبل ؒ،حضرت امام ابویوسفؒ،حضرت امام محمدؒ،امام سفیان ثوریؒ ،امام سعیدبن المسیبؒ ،امام اوزاعیؒ وغیرہم بہت مشہورہوئے،مگراوائل الذکرچاروں ائمہ کرام کواللہ تعالیٰ نے ایسی قبولیت عطافرمائی کہ  آج دنیاکاکوئی بھی مسلمان ان کے بتائے ہوئے مسائل  کے بغیردورکعت نماز بھی نہیں پڑھ سکتاہے۔مسلمان کہیں کا بھی رہنے والا ہو اس کو ان ائمہ کرام کے بتائے ہوئے مسائل پرعمل کئے بغیرکوئی چارہ کارنہیں؛یقیناہرمسلمان ان کا مرہون منت ہے۔آج بھی  نت نئے مسائل روزبروز وجودپذیرہورہےہیں،سائنس اورجدیدٹکنالوجی کی ترقی  نےمعاشرہ میں کافی تبدیلیاں رونماکی ہے،پوری دنیاایک چھوٹی سے بستی بن گئی ہے۔معاشی اوراقتصادی امورمیں بہت سارے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔اس لیےان نت نئے مسائل کاحل کرناضروری ہے،اللہ تعالیٰ کاارشادہے:وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ۔ (سورۃالتوبہ:١٢٢) مسلمانوں کے لیے یہ بھی مناسب نہیں کہ سب کےسب اللہ کے راستے میں نکل جائیں،پس ایساکیوں نہ ہوا کہ ان کے بڑے گروہ میں سے ایک چھوٹاگروہ نکل جاتا،تاکہ جولوگ رہ جائیں وہ دین کی فہم حاصل کریں،اورجب وہ لوگ واپس آئیں توانھیں واقف کرائیں،تاکہ وہ بھی اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہیں۔اس آیت کریمہ کے تحت مفسرین نے لکھاہے کہ  مسلمانوں کی ہربڑی آبادی میں چندایسے لوگوں کاہوناضروری ہے جو دین کی سمجھ حاصل کریں اوروہ اس میدان میں  مہارت حاصل کرکے قرآن وسنت سے نئے مسائل کاحل تلاش کرسکیں۔نئے مسائل کوحل کرنے کے دوطریقے ہیں، ایک یہ ہےکہ اس میدان کاماہر از خود غوروفکرکرکےمسئلہ کااستنباط کرے،جیساکہ ائمہ  اربعہ رحمہم اللہ اوران کے بعض شاگردوں نیزقرن اولیٰ کے بعض نابغہ روزگارہستیوں نے اس کام کوبحسن وخوبی انجام دیا۔دوسراطریقہ یہ ہے کہ ماہرین کی ایک جماعت سر جوڑکرمل بیٹھیں اورباہمی تبادلہ خیال کریں ،ایک دوسرے سے استفادہ کریں پھرکوئی رائے قائم کریں۔آج کے حالات کے پیش نظریہ طریقہ نہایت ہی محتاط ہےاوراختلاف رائے سے دوربھی ۔چنانچہ خودنبی کریم ﷺاہم امورمیں اورجن میں وحی الٰہی نہیں اتری تھی ،صحابہ کرام سے مشورہ لیا، اسی طرح خلفاء راشدین بھی نئے پیش آمدہ مسائل میں دیگرصحابہ کرام سے مشورہ کرتے تھے ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نےباضابطہ طورپرایک کمیٹی بنائی تھی ،اس کمیٹی میں عمرکےتفاوت کالحاظ کئےبغیردانائی وقابلیت،علم وفضل،ورع وتقوی اور فقہی سوجھ بوجھ کومعیاربنایاگیاتھا۔ اسی نقطہ نظرسےحضرت عمر ؓ نےحضرت عبداللہ بن عباسؓ کو-جبکہ آپ عمرکےلحاظ سے چھوٹے تھے اورجن کے لیےآپ ﷺ نے تفقہ کے لیے دعاء فرمائی تھی- اکابرصحابہ کےساتھ مجلس شوری میں شریک فرمالیاتھا۔ (بخاری:٢/۷٤٣)۔ اس مجلس میں اہم اورنئے مسائل پربحث ومباحثہ کے بعد تجاویز طے ہوتی تھیں۔حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نےباضابطہ طورپرچالیس فقہاء کرام کی ایک کمیٹی بنوائی تھی جس میں نئے مسائل پر کافی غوروخوض اوربحث ومباحثہ کے بعد تجویزپاس ہوتی تھی۔ ہندوستان میں بھی یہ کام انفرادی طورپراسلام کی آمدکے ساتھ ہی شروع ہوچکاتھا،صحابہ کرام کے زمانہ سےلیکرہرعہدمیں محدثین اورفقہاء کی ایک جماعت ہمیشہ اس خطہ میں رہی اورپوراعالم اسلام ان سے سیراب ہوتارہا،تاہم باضابطہ طورپرمغل بادشاہ حضرت اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ نےاپنی نگرانی میں سرکاری فنڈسےعلماء کرام کی ایک جماعت کو اسی کام کے لئے منتخب کیا،جس کے نتیجہ میں فتاویٰ عالمگیری وجود میں آئی،جس سےآج کوئی بھی مفتی بے نیازنہیں ۔ماضی قریب میں بھی جمعیۃ علماء ہندکی ماتحتی میں ادارہ مباحث فقہیہ اوردارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤمیں بھی مجلس علمی کاقیام عمل میں آیا،مگراس طرح کی باضابطہ اورکامیاب کوشش فقیہ عصر حضرت اقدس قاضی مجاہدالاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ نے ١٩۸٩ء میں مجمع الفقہ الاسلامی الہند،یااسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکے نام سے کی۔جس کامقصدنئے مسائل میں ہندوبیرون ہندکےمایہ نازمفتیان کرام اورفقہاء عظام کی آراء سےاستفادہ کرکےفقہی اعتبارسے امت  کے سامنے ایک ہی فتویٰ پیش کرناہے۔الحمد للہ اکیڈمی اس مقصد میں بڑی حدتک کامیاب بھی ہے؛کیوں نہ ہوجب کہ اکیڈمی کی باگ ڈور ملک کےایسے اکابرعلماء کرام  سنبھالےہوئےہیں، جن کے اندراخلاص وللہیت ،تقویٰ اورخوف آخرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہےنیزوہ فقہ وفتاویٰ میں یدطولیٰ  رکھتے ہیں۔اکیڈمی کی یہ خوش قسمتی ہےکہ شروع ہی سےاس کواکابرعلماء امت کی سرپرستی حاصل رہی ہے، چنانچہ حضرت مولاناسید ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ،حضرت مولانامنت اللہ رحمانیؒ، حضرت مولانامفتی عبدالرحیم لاجپوری ؒاورحضرت مولانامفتی نظام الدین اعظمی فاروقی وحضرت مولاناسیدنظام الدین ؒ(پٹنہ)اکیڈمی کے سابق سرپرستان تھے۔اب اس وقت حضرت مولانامحمد رابع حسنی ندوی صاحب صدرآل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ،وناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤاورحضرت مولانامحمد سالم صاحب قاسمی(نائب صدرآل انڈیامسلم پرسل لابورڈ،ومہتمم دارالعلوم وقف دیوبند)کی سرپرستی حاصل ہے۔حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ کی وفات کے بعد حضرت مولانامفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی رحمہ اللہ صدرمفتی دارالعلوم دیوبنداکیڈمی کے صدرمنتخب ہوئےاوران کی وفات کے بعد متفقہ طورپراستاذالاساتذہ،محدث کبیر، بحرالعلوم حضرت اقدس مولانانعمت اللہ اعظمی دامت برکاتہم استاذحدیث وصدرشعبہ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبنداس کی صدارت فرمارہے ہیں۔جب کہ قاضی صاحب کے انتقال کے بعد جنرل سیکریٹری کے عہدہ پرعالم اسلام کے ممتاز فقیہ حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب فائزہیں۔نئے مسائل کوحل کرنے میں اکیڈمی کاطریقہ کاریہ ہوتاہے کہ پیش آمدہ مسائل کے انبارسے مختلف قسم کےکئی مرکزی عناوین طے کئے جاتے ہیں،ان کے تحت حسبِ ضرورت کئی ذیلی عناوین ہوتے ہیں اورہرعنوان کے تحت کم وبیش پندرہ بیس سوالات ہوتے ہیں، جن کواکیڈمی کی مجلس علمی مرتب کرتی ہے اورملک وبیرون ملک کےفقہ وفتایٰ میں مہارت رکھنے والے علمائے کرام کی خدمت میں چھ ماہ قبل ارسال کردئے جاتے ہیں،کم وبیش تین سوچنیدہ فقہاء کرام کی خدمت میں سوالنامہ بھیجاجاتاہے۔ان علمائے کرام کے لیے ضروری ہوتاہے کہ وہ قرآن وسنت اجماع اورقیاس نیز فقہی اصول وضوابط اورفقہاء کے اقوال کی روشنی میں نئے مسائل کاحل  مدلل اندازمیں  تحریرکرکےاکیڈمی کوروانہ کریں، اکیڈمی پھر ان جوابوں کاخلاصہ مرتب کرواتی ہے۔پھر ملک کے کسی حصہ میں ان علماء کرام کاایک اجتماع منعقدکیاجاتاہےجس میں وہ زبانی بات چیت کرتے ہیں،بحث ومباحثہ کرتے ہیں،اپنے دلائل پیش کرتے ہیں اوربعض دفعہ دوسروں کے دلائل کارد بھی کرتے ہیں، تین دن تک کافی غوروخوض اوربحث ومباحثہ کے بعد تجاویز کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جاتی ہے اوروہ کمیٹی مقالات اوران مباحثوں کی روشنی میں کوئی تجویز پیش کرتی ہے،اس پر سارے مفتیان کرام کی تائید حاصل کی جاتی ہے۔اس طرح امت کے سامنے نئے پیش آمدہ مسئلہ  کاحل قرآن وسنت سے چھَن کراورنکھر کرسامنے آتاہے۔١٩٩۷ء میں قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ کی زیرسرپرستی اکیڈمی کادسواں سیمینارممبئی میں منعقدہواتھا،اہلیان ممبئی کی خوش نصیبی اورسعادت کی بات ہے کہ علم وفقہ کایہ قافلہ مکمل  بیس سال کے بعد پھر ایک بارممبئی حج ہاؤس میں فروکش ہونے والاہے۔یعنی مورخہ ٢٥-٢۷نومبر٢٠١۷ء کواسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکےستائیسویں فقہی سیمینارکی میزبانی کاشرف ممبئی کے مسلمانوں کوملاہواہے۔جس میں حالات حاضرہ کے پیش نظرچارعناوین کے تحت سوالنامہ مرتب کرکے فقہاء کرام کی خدمت میں ارسال کردیاگیاہے،عناوین حسب ذیل ہیں:(١)عصری تعلیمی اداروں(اسکول وکالج وغیرہ)سے متعلق شرعی مسائل(٢)جانوروں کےحقوق اوران کے احکام(٣)مکان کی خریدو فروخت سے متعلق مسائل(٤)طلاق اوراس سے پیداہونے والے سماجی مسائل اوران کاحل۔ ان عناوین کےتحت کل چھیالیس سوالات ہیں۔ممبئی میں منعقد ہونے والےسیمینارکے استقبالیہ کمیٹی کی سرپرستی نمومہ اسلاف حضرت اقدس مولانامنیر احمدصاحب (کالینہ)اورحضرت مولاناابوظفرحسان ندوی صاحب اورصدارت مفتی عزیزالرحمٰن صاحب فتحپوری فرمارہے ہیں،جب کہ جنرل سیکریٹری جیسی اہم ذمہ داری مفتی سعیدالرحمٰن فاروقی قاسمی  اورمولاناشاہدناصری صاحب کے حصہ میں آئی ہے، ان کے علاوہ ممبئی کے علمائے کرام ،قضاۃ عظام  اورممتازہستیاں اراکین کی حیثیت سے شامل ہیں۔فقط

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here