فرض نماز کے بعد مروج اجتماعی دعا، ندیم احمد انصاری

فرض نماز کے بعد مُروّج اجتماعی دعا: لمحۂ فکر
ندیم احمد انصاری

مخلوق کا خالق سے اور مملوک کا مالک سےاپنی احتیاج کا ذکر کرنا اور اُس سے مدد کی گُہار لگانا’’ دعا‘‘ کہلاتا ہے، جس کی اسلام میں نہ صرف ترغیب وارد ہوئی ہے بلکہ اسے محمود و مقبول عمل گردانا گیا ہے۔اس کے بے شمار فضائل بھی احادیث میں وارد ہوئےہیں اور رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ مانگنے والے بندے سے راضی اور نہ مانگنے والے سے خفاہوتے ہیں‘‘، ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘ ‘’’ دعا سراپا عبادت ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔مخلوق کا خالق سے اور مملوک کا مالک سےاپنی احتیاج کا ذکر کرنا اور اُس سے مدد کی گُہار لگانا’’ دعا‘‘ کہلاتا ہے، جس کی اسلام میں نہ صرف ترغیب وارد ہوئی ہے بلکہ اسے محمود و مقبول عمل گردانا گیا ہے۔اس کے بے شمار فضائل بھی احادیث میں وارد ہوئےہیں اور رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ مانگنے والے بندے سے راضی اور نہ مانگنے والے سے خفاہوتے ہیں‘‘، ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘ ‘’’ دعا سراپا عبادت ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ دعا کرتے رہنا چاہیے۔ پھر رسول اللہﷺ نے بوجہ شفقت بہت سے اُن اوقات کی بھی نشان دہی فرما ئی، جن میں قبولیتِ دعا کی زیادہ امید ہے، من جملہ ان اوقات کے فرض نمازوں کے بعد کا وقت بھی ہے لیکن جیسا کہ شیطان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ انسان نیک عمل ہی نہ کرے اووہ کوئی نیک عمل کر ہی لے تو پھر شیطان اس عمل کو اور اس کے نیک ثمرات کو اکارت کردینے کی تگ و دو کرتا  ہے، یہی حال دعا کے باب میں بھی ہے۔ اس وقت امّت میں بہت سے لوگ تو وہ ہیں، جو سرے سے نیک اعمال کی ہی پرواہ نہیں کرتےاور معتد بہٖ وہ، جو خود اپنے کیے کرائے پر پانی پھیردیتے ہیں۔ یہاں ہمیں ایک ایسے ہی مسئلے پر گفتگو کرنی ہے جس میںہمارا معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے اور وہ مسئلہ ہے’’فرض نمازوں کے بعد دعا‘‘کرنے کا۔ اس سلسلے میں مشہور مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ کی شہرہ آفاق تفسیر’’ معارف القرآن‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں؛

اماموں کو تنبیہ

ہمارے زمانے کے ائمۂ مساجد کو اللہ تعالیٰ ہدایت فرمادیں کہ قرآن و سنت کی تلقین اور بزرگانِ سلف کی ہدایات کو یکسر چھوڑ بیٹھے ۔ ہر نماز کے بعد دعا کی ایک مصنوعی سی کاروائی ہوتی ہے۔ بلند آواز سے کچھ کلمات پڑھے جاتے ہیں، جو آدابِ دعا کے خلاف ہونے کے علاوہ ان نمازیوں کی نماز میں بھی خلل انداز ہوتے ہیں جو مسبوق ہونےکی وجہ سے امام کے فارغ ہونے کے بعد اپنی باقی ماندہ نماز پوری کر رہے ہیں (جوشخص ایک یا کئی رکعتوں کو بعد امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہوا ہو اسے مسبوق کہتے ہیں)، رسموں کے غلبے نے اس بُرائی اور مفاسد کو ان کی نظروں سے اوجھل کر دیا ہے(یعنی اُن پر لوگوں کی نماز میں اس طرح خلل ڈالنے کا گناہ ہوتا ہے، لیکن انھیں احساس نہیں)۔کسی خاص موقع پر خاص دعا پوری جماعت سے کرانا مقصود ہو اور ایسے موقع پر ایک آدمی کسی قدر آواز سے دعا کے الفاظ کہے اور دوسرے آمین کہیں، اس کا مضائقہ نہیں، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ دوسروں کی نماز و عبادت میں خلل کا موجب نہ بنیں اور ایسا کرنے کی عادت نہ ڈالیں کہ عوام یہ سمجھنے لگیں کہ دعا کرنے کا طریقہ یہی ہے، جیسا کہ آج کل عام طور سے ہو رہا ہے۔ (معارف القرآن: ۳؍۵۷۸بتسہیل)

تین غلط موقف

دورِ حاضر میںبعض لوگ تو فرض نمازوں کے بعد مطلق دعا کرنے کو بدعت کہتے ہیں، بعض خود ساختہ طو ر پر ایک نہیں دو دو بار اجتماعی دعا کا اہتمام کرتے ہیں اور بعض اس موقع پر دعا نہ کرنے والے کو ملامت کرتے ہیں؛یہ تینوں ہی موقف غلط اور بے بنیاد ہیں۔ فرض نمازوں کے بعد دعا کرنا فی نفسہٖ بدعت ہے نہ اس موقع پر دو دو بار التزام کے ساتھ اجتماعی دعا کرنا سنت سے ثابت ہے اور نہ ہی اس موقع پر دعا نہ کرنے والا ملامت کا مستحق ہے۔ فرض نمازوں کے بعد متصلاً دعاکے بارے میں خاصا مواد اور معتبر احادیث موجود ہیں۔ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ دعاکس وقت زیادہ قبول ہوتی ہے؟تو آپﷺ ارشاد فرمایا: ’جوف اللیل الاخر و دبر الصلوات المکتوبات‘ رات کے آخری حصہ میں اور فرض نمازوں کے بعد۔(مشکاۃ: ۱؍۸۹) لیکن یہ ایک مستحب عمل ہے، جس کے ترک پر کسی کو ملامت کرنا جائز نہیں۔

ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

بلا شبہ عام حالات میں ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا متعدد احادیث سے ثابت ہے۔امام نووی نے ’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں ’’صفۃ الصلاۃ‘‘ کے آخر میںتقریباً تیس ایسی احادیث جمع کی ہیں جن میں دعا میں رفع الیدین کی تصریح موجود ہے،اس لیے یہاں بھی ہاتھ اٹھا کر دعاکرنادر ست ہوگا۔ بس یہ خیال رہے کہ کوئی بھی انفرادی یا اجتماعی عمل جس طرح رسول اللہﷺ نے کیا ہے، اسی طرح اسے انجام دینا ثواب ہے اور اس میں جس قدر مشابہت زیادہ ہوگی اسی قدر اس میں کمال پیدا ہوگا اور جس قدر اس میں سنت سے مشابہت کم ہوتی جاے گی، اس کا ثواب بھی کم ہوتا جائے گا اور اگر وہ عمل سنت سے بالکل ہٹا ہوا ہوگا توپھر بدعت و ضلالت ہوگا۔ (مستفاد از الکلام البلیغ فی احکام التبلیغ:۱۸۹) مولانا یوسف صاحب لدھیانویؒ لکھتے ہیں: نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دُعا کرنے کی صراحت تو منقول نہیں، البتہ فرض نماز کے بعد دُعا کرنے کی ترغیب آئی ہے اور ہاتھ اُٹھاکر مانگنا دُعا کے آداب میں سے فرمایا ہے۔ اس لیے فرض نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دُعا کرنا ارشاداتِ نبویﷺ کے عین مطابق ہے، مگر بلند آواز سے دُعا نہ کی جائے ،جس سے کہ نمازیوں کی نماز میں خلل پیدا ہو۔(آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۳؍۵۰۱، جدید محقق )

سعودی عرب کا فتویٰ

جو لوگ اس عمل پر واجب کا سا اصروار کرتے ہیں،شاید ایسے لوگوں کے لیے سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی نے یہ فتویٰ صادر فرمایا ہے: عبادات کی جملہ اقسام توقیفی ہیں،جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی ہیئات اور کیفیات کا طریق کار کتاب و سنت سے ثابت ہونا چاہیے۔ نماز کے بعد اجتماعی دعا کی مزعومہ صورت کا ثبوت نبی اکرمﷺ کے قول، فعل اور تقریر سے نہیں ملتا۔ ساری خیر اسی میں ہے کہ ہم آپﷺ کی اتباع کریں۔نماز سے فراغت کے بعد آپﷺ جو وِرد و و ظائف پڑھتے تھے، وہ مستند دلائل سے ثابت ہیں بعد میں انھی وظائف پر آپ کے خلفاے راشدین،صحابہ کرامؓ اور ائمہ سلف صالحین ؒ عمل پیرا رہے۔ رسول اللہﷺ کے فرامین کے خلاف جو طریقہ ایجاد کیا جاے گا، وہ مردود ہے۔حضرت نبیﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهوردّ‘ جو دین میں نیا طریقہ ایجاد کرے، وہ ناقابل قبول ہے۔جو امام سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور اس کے مقتدی بھی ہاتھ اٹھائے آمین، آمین کہتے ہیں، ان حضرات سے مطالبہ کیا جائے کہ نبی کریمﷺ کے عمل سے دلیل پیش کریں ورنہ اس عمل کی کوئی حقیقت نہیں، وہ ناقابلِ قبول اور مردود ہے۔ جس طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْنَ‘۔ سنت سے ہمیں کوئی دلیل نہیں ملی سکی، جو ان کے دعویٰ کو مستند بنا سکے۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ :۷؍۹۹)

دار العلوم دیوبند کا موقف

اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کی دو ٹوک الفاظ میں یہ وضاحت بھی ملاحظہ ہو: فرض نماز کے بعد دعا کرنا احادیث سے ثابت ہے، مگر دونوں (امام و مقتدی) کا ایک ساتھ دعا شروع کرنا ضروری نہیں اور نہ ایک ساتھ ختم کرنا ضروری ہے۔ امام کے سلام پھیرتے ہی اقتدا ختم ہو جاتی ہے ، اب امام اور مقتدی دونوں اپنے اپنے عمل میں آزاد ہیں اور حسبِ منشا اپنی اپنی دعا کر سکتے ہیں۔تذلل ظاہر کرکے اور چپکے چپکے دعا کرے اس میں سہولت یہ ہے کہ ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق دعا کر سکتا ہے، کیوں کہ ہر شخص کی ضرورت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ (ماخوذ از چند اہم عصری مسائل: ۱۸۰)

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here