قربانی کے فضائل و مسائل


قربانی کے فضائل و مسائل

ندیم احمد انصاری

(اسلامی اسکالر و صحافی)

 

قربانی کا مفہوم بہت وسیع ہے لیکن ہم یہاں صرف اس قربانی کے ضروری فضائل و مسائل کا ذکرکریں گے، جو عید الاضحیٰ کے موقع پر کی جاتی ہے۔ 

علامہ راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں:

 ’القربان‘کے معنی ہیں ’ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ کی قرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان بمعنی ’نسیکۃ‘ یعنی ’ذبیحۃ‘ کے آتے ہیں‘۔

فرہنگِ آصفیہ میں ہے:

قربانی کرنے کا مطلب ہے؛عیدِ اضحی کو اونٹ یا دُنبہ وغیرہ قربان کرنا، ذبح کرنا۔ اس لفظ میں یاے تمنائی زائد ہے، کیوں کہ فارسی والوں کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات عربی مصدر کے آگے یاے مصدر ’ی‘ یا زائدہ اکثر بڑھا دیا کرتے ہیں، جیسے: خلاص سے خلاصی وغیرہ۔

قربانی کی فضیلت

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

 عید الاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل جانور کی قربانی کرنا ہے، یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کردیا جاتا ہے، اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ 

حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں؛ اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کے صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ تمھارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ انھوں نے عرض کیا: اس میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی اور فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلہ (بھی) ایک نیکی۔ 

قربانی نہ کرنے پر وعید

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 جو صاحبِ نصاب، باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے، یعنی وہ خوشی منانے کا مستحق نہیں۔

قربانی کس پر

قربانی ہر اس مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، مرد وعورت پر واجب ہے، جس کی مِلک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی قیمت کا مال، اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد موجود ہو؛ خواہ یہ مال سونا، چاندی اور زیورات کی شکل میں ہو یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان کے علاوہ کسی مکان یا پلاٹ وغیرہ کی شکل میں۔ 

اگر کسی شخص پر قرض ہو لیکن بنیادی ضروری اشیاء، رہائشی مکان، استعمالی چیزوں اور استعمالی کپڑوں کے علاوہ جو کچھ اس کی املاک ہو وہ اتنی ہو کہ بیچ دی جائیں تو قرض ادا کرنے کے بعد بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر اس کے پاس بچ رہے، تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے اور جس طرح دوسرے حقوق کی ادائیگی کے لیے حسبِ ضرورت قرض لینا درست ہے، ایسے ہی اس مقصد کے لیے بھی قرض لینا جائز ہے۔

خیال رہے کہ قربانی صاحب نصاب پر زکوٰۃ کی طرح ہر سال واجب ہوتی ہے لیکن اس میں زکوٰۃ کی طرح نصاب پر سال گزرنا ضروری نہیں۔

نیز ٹی وی، وی سی آر جیسی خرافات، کپڑوں کے تین جوڑوں سے زائد لباس اور وہ تمام اشیاء جو محض زیب وزینت یا نمود ونمائش کے لیے گھروں میں رکھی رہتی ہیں اور سال بھر میں ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں ہوتیں۔۔ زائد از ضرورت ہیں، اس لیے ان سب کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔

قربانی واجب ہے، محض سنت نہیں

 بعض حضرات کا خیال یہ ہے کہ قربانی واجب نہیں، محض سنت ہے، یہ درست نہیں، اس کے مفصل دلائل ہماری کتاب ’رسائل ابن یامین‘ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں بس مختصراًایک سوال وجواب ملاحظہ فرمائیں:

سوال: ایک صاحب کا قول ہے کہ قربانی واجب نہیں، محض سنت ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کا فرمان ہے: ’جو کوئی ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور اس کا ارادہ قربانی کا ہو تو وہ اپنے بال، ناخن، تاوقت یہ کہ قربانی کرلے، نہ کاٹے‘۔

 مقصد وارادہ ہو، یہ لفظ بتلاتا ہے کہ قربانی واجب نہیں، صرف سنت ہے، کیا یہ دلیل برابر اور درست ہے؟

جواب: قربانی محض سنت نہیں، بلکہ واجب ہے۔ سرکارِ کائنات حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے: ’جو صاحب نصاب باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘

یعنی جو کشائش پائے اور قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے پاس بھی نہ پھٹکے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی واجب ہے، باقی رہا یہ کہ حدیث شریف میں لفظ ’أراد‘ آیا ہے، تو یہ ایک محاورہ اور عام بول چال ہے، یہ وجوب کے خلاف نہیں۔ حج کے لیے بھی یہ لفظ آیا ہے، حدیث میں ہے؛’جو حج کا ارادہ کرے، تو چاہیے کہ جلدی کرے‘۔ تو کیا حج بھی سنت ہے، فرض نہیں؟

خلاصہ یہ کہ قربانی واجب ہے، محض سنت نہیں۔

قربانی واجب ہونے کی شرطیں

مندرجۂ ذیل شرائط کے پائے جانے پر قربانی واجب ہوتی ہے: 

(۱) مسلمان ہونا، غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں۔

(۲) عاقل ہونا، مجنون پر قربانی واجب نہیں۔

(۳) مالکِ نصاب ہونا اور اس میں اتنے مال کا مالک ہونا کافی ہے، جس کی قیمت حاجتِ اصلیہ سے زائد ہوکر نصاب کے برابر ہوجائے۔

(۴) بالغ ہونا، نابالغ پر قربانی واجب نہیں البتہ اگر والدین صاحبِ مال ہوں اور وہ اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں لیکن یہ مستحب ہے، واجب نہیں۔ 

(۵) مقیم ہونا، شرعی مسافر پر قربانی واجب نہیں۔

(۶) آزاد ہونا، غلام پر قربانی واجب نہیں۔

نوٹ: آزاد سے مراد یہ ہے کہ وہ غلام یا باندی نہ ہو، عورت خاوند کے ہوتے ہوئے بھی آزاد ہے، بیٹے اور نوکر سب آزاد ہیں۔ ہندوستان میں غلامی کا وجود نہیں، قیدی بھی آزاد ہیں اور ملازمِ سرکار وغیر سرکار سب آزاد ہیں۔ اگر یہ لوگ مالک نصاب ہوں تو ان پر قربانی واجب ہوگی۔

حاجی پر عید الاضحی کی قربانی

ابھی آپ نے اوپر پڑھا کہ عید الاضحی کی قربانی مسافر پر واجب نہیں ہوتی بلکہ مقیم پر واجب ہوتی ہے، لہٰذا جس آفاقی کا قیام مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد سے واپسی تک پندرہ دن سے کم ہو تو وہ مسافر ہے اور اس پر عید الاضحی کی قربانی واجب نہیں ہوگی اور اگر حدودِ مکہ میں داخل ہونے سے واپسی تک کے درمیان پندرہ دن یا اس سے زائد قیام رہا، تو وہ حاجی مسافر نہیں بلکہ مقیم ہوتا ہے اور ایسے حاجی پر صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں اہل مکہ کی طرح عید الاضحی کی قربانی بھی واجب ہوجاتی ہے لیکن یہ قربانی حدودِ حرم میں کرنا لازم نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں ایامِ قربانی میں کرنا جائز اور درست ہے، لہٰذا اپنے وطن میں قربانی کا انتظام کردے، تو بھی درست ہے۔

کسی اور کی طرف سے قربانی

کسی دوسرے شخص کی طرف سے اس کی اجازت کے بغیر واجب قربانی ادا کرنا یا اس کی طرف سے واجب قربانی کی نیت کرکے بڑے جانور میں حصہ لینا درست نہیں ہے، ایسا کرنے سے اس بڑے جانور میں شریک کسی کی قربانی بھی ادا نہیں ہوگی۔ 

 

خیال رہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر قربانی کرنا مستقلاً واجب ہے، لہٰذا شوہر وبیوی دونوں صاحب نصاب ہوں تو ہر ایک پر علیحدہ علیحدہ قربانی واجب ہے، دونوں کی طرف سے ایک قربانی کافی نہیں۔

بالفاظِ دیگر جو عورت صاحبِ نصاب ہو، تو خود اس پر قربانی واجب ہے، شوہر پر اپنی بیوی کی طرف سے قربانی واجب نہیں۔ عورت کو چاہیے کہ اپنے پیسوں سے قربانی کرے یا اپنا کوئی زیور بیچ کر قربانی کرلے، یا عورت کی اجازت سے اس کا شوہر اس کی طرف سے قربانی کردے لیکن اگر عورت کی اجازت اور اس کو مطلع کیے بغیر اس کا شوہر قربانی کرے گا تو واجب قربانی ادا نہیں ہوگی۔

 اگر کسی عورت کا شوہر یا اسی طرح بالغ اولاد کے والدین وغیرہ ہر سال ان کی طرف سے قربانی کیا کرتے ہیں، تو استحساناً یہ واجب قربانی درست ہوجائے گی، خواہ اہلِ خانہ نے اجازت دی ہو یا نہ دی ہو۔ 

قربانی کا وقت

قربانی کے دن، ذی الحجہ کی دسویں، گیارھویں اور بارھویں تاریخیں ہیں، ان میں جب چاہیں قربانی کرسکتے ہیں البتہ پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے، اس میں مزید تفصیل یہ ہے :

(۱) جن مقامات پر عیدین کی نماز نہیں ہوتی یعنی دیہات وقریہ جات، وہاں فجر کے بعد ہی قربانی کی جاسکتی ہے۔

(۲) شہر میں؛ جہاں عید کی نماز ہوتی ہے، وہاں عید کی نماز کے بعد ہی قربانی درست ہے۔ اگر ایک شہر میں کئی مقامات پر نمازِ عید ادا کی جاتی ہو تو سب سے پہلے جہاں نمازِ عید ادا کی جائے، اس کا اعتبار ہوگا، اس کے بعد قربانی کی جاسکتی ہے۔

(۳) اگر خدانہ خواستہ کسی وجہ سے ۱۰؍ذی الحجہ کو عید کی نماز ادا نہ ہوپائے تو پھر اس دن آفتاب ڈھلنے کے بعد یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد ہی قربانی جائز ہوگی۔

(۴) رات میں فی نفسہ قربانی کرنا مکروہ نہیںبلکہ چوں کہ تاریکی کی وجہ سے غلطی کا احتمال ہوتا ہے اور اندیشہ ہے کہ ذبح میں جن رگوں اور نالیوں کا کاٹنا مطلوب ہے وہ صحیح طور پر نہ کٹ پائیں گی، اس لیے فقہاء نے رات میں قربانی کرنے کو منع کیا ہے، لہٰذا اگر روشنی کا انتظام ایسا ہو کہ غلطی کا اندیشہ باقی نہ رہے، جیسا کہ اب ممکن ہے، تو رات میں بھی قربانی کرنے اور جانور کے ذبح کرنے میں کچھ حرج نہیں۔

نوٹ: قربانی واجب ہونے کی شرطوں میں آخری وقت کا اعتبار ہے، یعنی اگر کوئی شخص قربانی کے اول وقت میں اہل نہیں تھا اور آخر وقت میں اہل ہوگیا، تو اس پر قربانی واجب قرار پائے گی۔ مثلاً: غیر مسلم یا مرتد شخص آخر وقت میں مسلمان ہوگیا، غلام آزاد ہوگیا، مسافر مقیم ہوگیا، فقیر مالکِ نصاب ہوگیا، نابالغ بالغ ہوگیا یا مجنون عاقل ہوگیا، تو ان سب صورتوں میں اس پر قربانی واجب ہوگی اور اگر بالعکس ہوا تو قربانی واجب نہیں۔

 

قربانی کے جانور

احناف کے یہاں فضیلت واولیت کے اعتبار سے قربانی کے جانوروں کی ترتیب اس طرح ہے؛ اونٹ، بھینس اور اسی طرح کے چوپائے، بکری، بھیڑ، البتہ بکری یا بھیڑ اونٹ وغیرہ کے مقابلے میں نہ ہو، صرف اس ۷/۱ کے مقابلے میں ہو اور اونٹ وغیرہ کے ساتویں حصّے کے مقابلے میں بکری وغیرہ کی قیمت زیادہ ہو تو بکری کی قربانی افضل ہوگی۔

قربانی کے چند مستحبات وآداب

قربانی میں مندرجۂ ذیل امور کی رعایت کرنا مستحب و پسندیدہ ہے:

(۱) قربانی سے چند دن پہلے جانور کو گھر میں باندھ کر خوب کھلانا پلانا۔

(۲) تیز چھری سے ذبح کرنا۔

(۳) ذبح کرنے کے فوراً بعد کھال نہ اتارنا بلکہ کچھ دیر بعد جانور کے جسم کے ساکن اور ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنا۔

(۴) کسی اور جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرنا۔

(۵) اگر اچھے طریقے سے ذبح کرنا جانتا ہو تو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا اور خود تجربہ نہ رکھتا ہو تو بہتر ہے کہ کسی دوسرے سے ذبح کرائے مگر خود بھی موجود رہے تو بہتر ہے۔

(۶) جانور کو قبلہ رخ لٹانا اور خود بھی ذبح کرنے والا قبلہ رخ ہو (یہ سنت مؤکدہ ہے)۔

(۷) قربانی کی جھول، رسی وغیرہ صدقہ کردینا۔

(۸) جانور کو لٹانے کے بعد یہ دعا پڑھنا:

 اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔

پھر بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے:

 اللّٰہُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمّد (ﷺ) وَخَلِیِلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ۔

قربانی کی کھال کا حکم

 (۱) قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا، جیسے مصلیٰ بنالیا جائے یا چمڑے کی کوئی چیز ڈول وغیرہ بنالی جائے تو یہ جائز ہے لیکن اگر اس کو فروخت کیا تو اس کی قیمت اپنے خرچ میں لانا جائز نہیںبلکہ اس کا صدقہ کرنا واجب ہے اور قربانی کی کھال بدونِ نیتِ صدقہ، فروخت کرنا بھی جائز نہیں۔

(۲) قربانی کی کھال، کسی خدمت کے معاوضے میں دینا بھی جائز نہیں، اس لیے مسجد کے مؤذن یا امام وغیرہ کے حق الخدمت کے طور پر بھی ان کو کھال دینا درست نہیں۔

(۳) مدارسِ اسلامیہ کے غریب ونادار طلبہ ان کھالوں کا بہترین مصرف ہیں کہ اس میں صدقےکا ثواب بھی ہے اور احیائِ علمِ دین کی خدمت بھی، مگر مدرسین وملازمین کی تنخواہ اس سے دینا جائز نہیں۔

قربانی کے گوشت کا حکم

بہتر یہ ہے کہ قربانی کے جانور کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں؛ ایک حصہ خود استعمال کریں، دوسرا حصہ اقربا واحباب پر خرچ کریں اور تیسرا حصہ فقراونادار پر۔ 

 تاہم ضرورت وحالات کے لحاظ سے اس تناسب میں کمی بیشی کی گنجائش ہے۔

حلال جانور کی حرام اشیاء

سات چیزیں حلال جانور کی بھی کھانا حرام ہیں؛

(۱) ذکر (۲) فرج(۳) مثانہ(۴) غدود (۵) حرام مغز جو پشت کے مہرے میں ہوتا ہے(۶) خصیہ اور (۷) پتّہ مرارہ، جو کلیجی کے پاس پانی کا ظرف ہوتا ہے اور حرام خون جو کہ قطعی حرام ہے۔

قربانی کی قضا

اگر ایامِ قربانی میں قربانی نہ کی، حالاں کہ قربانی اس پر واجب تھی تو بعد میں اس پر اس کی قضا واجب ہوگی، اگر خوش حال آدمی تھا اور کوئی متعین جانور اس نے قربانی کی نیت سے نہیں لیا تو قضاکی دو صورتیں ہیں:

(۱)یا تو زندہ جانور خرید کر صدقہ کردے، یا اس کی قیمت صدقہ کردے اور اگر غریب محتاج آدمی نے کوئی جانور قربانی کی نیت سے خرید لیا یا کسی جانور کے متعلق قربانی کی نذر مانی تو ایامِ قربانی گزر جانے کے باوجود قربانی نہ کیے جانے کی صورت میں بعینہٖ اسی جانور کو صدقہ کردینا واجب ہے، نیز اس کا مصرف اب صرف فقرا ہوں گے۔

(۲) اگر کوئی غنی قربانی کا جانور لے اور وہ ایامِ قربانی میں گم ہوجائے اور وہ اس کی جگہ دوسرا کوئی جانور ذبح کردے، پھر وہ پہلا جانور مل جائے تو اب اس جانور کی قربانی واجب نہیںلیکن اگر کوئی محتاج (جس پر قربانی واجب نہیں تھی) اس کے ساتھ یہی صورت پیش آئے تو اس گمشدہ جانور کے ملنے کے بعد اس کی قربانی کرنی ہوگی۔ اس طرح قربانی کی نیت سے خریدے ہوئے جانور کو اگر کسی عذر کے باعث قبل از وقت ذبح کرنا پڑے تو وہ صدقے کا جانور شمار ہوگااور اس کا اپنی ذات کے لیے استعمال درست نہ ہوگا، صرف فقرا ہی اس کے مستحق ہوں گے۔

(اس ویب سائٹ کو عام کرکے دینی کو فروغ دینے میں ہمارا ساتھ دیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here