مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں

مولانا ندیم احمد انصاری

چند سالوں پہلے تک مسلمان ہی نہیں، غیر مسلموںمیں بھی مرد و زن کے اختلاط سے پرہیز اور پردہ کرنے کا خوب اہتمام کیاجاتا تھا اور ایسا کرنا شرافت و بزرگی کی نشانی سمجھی جاتی تھی، کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بغیر پردے کا اہتمام کیے شرم گاہ، انسانی نسب اور سماج و معاشرے کی حفاظت ممکن نہیں۔پر افسوس! ایک گہری سازش کے تحت لوگوں کو اس سے بغاوت پر آمادہ کیا گیا اور ایسے لوگوں پر دقیانوسیت اور پرانے پن کے فقرے کسے جانے لگے، تاکہ شریروں کی راہ ہموار ہو اور اس ذہنیت کے افراد کسی قسم کی روک ٹوک نہ کرسکیں۔جس کے لیے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جانے لگی کہ اس بابت زیادہ پس و پیش کرنا تعلیم و ترقی میں رکاوٹ ہے، جس سے آزادی ملنی چاہیے۔ ویسے یہ بھی مشاہدہ ہے کہ ا س طرح کی باتیں کرنے والے دوسروں کو لیکچر تو دیتے ہیں، لیکن خود اپنی بہو بیٹیوں کے معاملے میں بہت حسّاس بلکہ سخت ہوتے ہیں۔وجہ صاف ہے کہ وہ بھی دل ہی دل میں اس کے برے نتائج کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کے کھانے اور دکھانے کے دانت جدا جدا ہیں۔

اسلام جو کہ آفاقی مذہب اور دینِ فطرت ہے، اس نے انسانی زندگی کے تمام اصولوں پر رہنمائی کی ہے اور جو معاملہ جتنا نازک تھا اسے بیان کرنے میں اسی قدر شرح و بسط سے کام لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں نماز جیسی مہتم بالشان عبادت کا بیان تو اجمال کے ساتھ،لیکن نکاح، طلاق، وراثت اور نگاہ و شرم گاہ کی حفاظت جیسے امور کا بیان خاصی تفصیل سے کیا گیا ہے،کیوں کہ یہ وہ مسائل ہیں جن میں صحیح رہنمائی نہ ہونے کے سبب فساد کاخطرہ زیادہ ہوتا ہے۔مضمونِ ہٰذا میں اسی سلسلے کی چند آیات پیش کرنا مقصود ہے، اس مناسبت سے کہ ہمارے معاشرے میں فروری کی چودہ تاریخ کو ویلنٹائن ڈے کے نام سے بے حیائی کی ایک پھوہڑ رسم ایجاد کر لی گئی ہے، جسے عیب سمجھنا بھی دھیرے دھیرے کم ہوتا جا رہا ہے۔

اس دن اجنبی نوجوان لڑکے لڑکیاں بہت سی ایسی نامناسب حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں جو عقل و شرع کے لحاظ سے مذموم و ممنوع ہیں۔واضح رہے کہ جنسی تقاضوں کے فطری ہونے کے سبب ربِ کائنات نے اس کا پورا پورا لحاظ رکھا اور ارشاد فرمایاہے:
وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ، وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ.
تم میں سے جن (مَردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمھارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انھیں بےنیاز کردے گا، اور اللہ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔ (النور)

لیکن ساتھ ہی زنا جیسی انسانیت سوز حرکت سے باز رکھنے کے لیے یہ پابندی بھی عائد کر دی :
وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ.
اور بےحیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو! (الانعام)
نیز ارشاد فرمایا:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا.
اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو، وہ یقینی طور پر بڑی بےحیائی اور بےراہ روی ہے۔ (الاسراء)

زنا کی قباحت میں سلف سے خلف تک عقلا کو اتفاق ہے، اس میں یہ چند قباحت ہیں:
(١) انساب کا خلط ملط ہونا، یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کس کا بیٹا ہے؟ پھر باہمی حصے، ترکے میں خرابی آتی ہے
(٢) عورت کو شرعی یا عرفی طور پر اگر ایک شخصِ خاص سے تعلق نہ ہو جس کو نکاح کہتے ہیں، تو اس کے پاس آنے والوں میں باہمی قتال وجدال کی نوبت آئے گی، جیسا کہ مشاہدے میں آتا ہے اور یہ بات تخریبِ عالم کا باعث ہے
(٣) عورت سے مقصود صرف شہوت رانی ہی نہیں بلکہ باہم مل کر خانہ داری کے امور میں ایک دوسرے کا معین ہونا ‘ مرد کما کر لائے ‘ عورت دردمندی اور کفایت کے ساتھ اس کو گھر میں اٹھائے، دونوں مل کر بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوشش کریں اور نیز بیماری اور پیری میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دے، ہر ایک کو دوسرے کے ساتھ کمال درجے کی درمندی ہو، اور یہ بات جب تک ممکن نہیں کہ عورت کی نظر ایک ہی شخص پر رہے اوروں سے علاقہ نہ رکھے، اور یہ بغیر اس کے کہ زنا کو حرام کیا جائے، ممکن نہیں
(٤) اگر زنا کا دروازہ کھل جائے تو انسان اور بہائم میں کیا فرق رہے، جس عورت کو چاہے رکھے اور نیز باہم الفت و محبت کبھی پیدا نہ ہو۔ ان سب باتوں کے لحاظ سے شرع نے زنا کو حرام کیا اور یہاں تک تاکید کے لفظ استعمال کیے کہ اس کے پاس جانے کی بھی ممانعت کردی یعنی اس کے اسباب سے بھی روک دیا۔ زنا کے بہت سے اسباب ہیں؛ نامحرم عورتوں سے تخلیہ کرنا، ان سے ہنسی مذاق کرنا ‘ ان سے رسمِ ملاقات بڑھانا، لگاوٹ کی باتیں کرنا، فحش تصاویر دیکھنا، فساق کے عشق آمیز افسانے سننا، اس قسم کی نظم و نثر کا عادی ہونا ‘ تھیٹروں اور ناجائز مجامع میں جانا ‘ راگ و باجے سننا ‘ ناچ دیکھنا دکھانا وغیرہ۔(تفسیرِ حقانی)

اس آیت کے تحت اس طرح کے تمام امور ناجائز و حرام ٹھہرے۔گویا اس جامع اندازِ تکلم میں صرف زنا سے نہیں بلکہ ہر اس کام سے بھی روک دیا گیا، جو زنا کے قریب لے جانے والا ہو۔

ظاہر ہے کہ زنا ایساعمل نہیں کہ بغیر نظریں ملائے اور تعلق بنائے انجام پاجائے، اور اس کے کچھ چور دروازے ہیں، جنھیں بند کیے بغیر اس گناہ سے بچنا مشکل ہے، اس لیے اپنی شانِ رحمت سے باری تعالیٰ نے خود ہی ان کی بھی نشان دہی فرما دی اور نہایت اہتمام کے ساتھ مَرد و عورتوں کو مستقلاً حکم دیا:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ.
مومن مَردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔ وہ جو کاروائیاں کرتے ہیں، اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے۔ (النور)

اس کے ساتھ ہی اگلی آیت میں ارشاد فرمایا:
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ.
اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی سجاوٹ کو کسی پر ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو خود ہی ظاہر ہوجائے، اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں، اور اپنی سجاوٹ اور کسی پر ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ، یا اپنے شوہروں کے باپ کے، یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے، یا اپنی عورتوں کے، یا ان کے جو اپنے ہاتھوں کی ملکیت میں ہیں، یا ان خدمت گزاروں کے جن کے دل میں کوئی (جنسی) تقاضا نہیں ہوتا، یا ان بچوں کے جو ابھی عورتوں کے چھپے ہوئے حصوں سے آشنا نہیں ہوئے، اور مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ انھوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہوجائے، اور اے مومنو ! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو۔ (النور)

سجاوٹ سے مراد جسم کے وہ حصے ہیں جن پر زیور پہنا جاتا ہے، یا خوشنما کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس آیتِ کریمہ نے عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ غیر محرم مَردوں کے سامنے اپنا پورا جسم کسی ایسی چادر یا برقع سے چھپائیں جو ان کے سجاوٹ کے مقامات کو چھپالے، البتہ ان مقامات میں سے کوئی حصہ کام کاج کے دوران بےاختیار کھل جائے، یا کسی ضرورت کی وجہ سے کھولنا پڑے، تو اسے یہ کہہ کر مستثنیٰ کردیا گیا ہے کہ سواے اس کے، جو خود ہی ظاہر ہوجائے۔۔۔ یہاں سے ان افراد کی فہرست دی جا رہی ہے جن سے عورتوں کو پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اور اپنی عورتوں سے مراد مسلمان عورتیں ہیں، لہٰذا غیر مسلم عورتوں سے بھی پردہ ضروری ہے، لیکن چوں کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ غیر مسلم عورتیں ازواجِ مطہرات کے پاس جایا کرتی تھیں، اس لیے امام رازیؒ اور علامہ آلوسیؒ نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اپنی عورتوں سے مراد اپنے میل جول کی عورتیں ہیں، تو چاہے مسلمان ہوں یا کافر، ان سے پردہ واجب نہیں ہے۔(دیکھیے توضیح القرآن)

نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے محض احکام ہی نازل نہیں کیے بلکہ ان احکامات کی پاسداری کرنے والوں کو یہ مژدہ بھی سنایا:
اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا.
بے شک فرماں بردار مرد ہوں یا فرماں بردار عورتیں، مومن مرد ہوں یا مومن عورتیں، عبادت گزار مرد ہوں یا عبادت گزار عورتیں، سچے مرد ہوں یا سچی عورتیں، صابر مرد ہوں یا صابر عورتیں، دل سے جھکنے والے مرد ہوں یا دل سے جھکنے والی عورتیں،صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا صدقہ کرنے والی عورتیں، روزے دار مرد ہوں یا روزے دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد ہوں یا حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد ہوں یا ذکر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور شان دار اجر تیار کر رکھا ہے۔ (الاحزاب)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ اور اپنی نگاہ اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here