کسی کی بات نقل کرنی ہو تو اس کا حوالہ ضرور دیں

ندیم احمد انصاری

یہ کریڈٹ لوٹنے کا زمانہ ہے،اس لیے یہ پروا ہی نہیں کی جاتی کہ سرقہ یا چوری مذہب و اخلاق ہر اعتبار سے ایک مذموم عمل ہے اور چوری صرف مال و اسباب ہی کی نہیں ہوتی، بلکہ اس کا دایرہ بہت وسیع ہے۔ کسی علمی بات اور تحقیق وغیرہ کو اپنی طرف منسوب کرنا چوری کے زمرے میں آتا ہے، لیکن اسے تہذیب کے ساتھ علمی سرقہ کہتے ہیں، جب کہ لغت میں خفیہ طور پر دوسرے کی چیز لے لینے کو سرقہ کہا جاتا ہے۔(دیکھیے تاج العروس وغیرہ) اورفرہنگِ آصفیہ نامی اردو کی مشہور لغت میں اس کے معنی لکھے ہیں:دوسرے کے شعر یا مضمون کو اپنے شعر(وغیرہ) میں داخل کر لینا۔ (فرہنگِ آصفیہ)

ہمارا خیال ہے کہ یہ علمی سرقہ چند اعتبار سے مال و اسباب کے سرقے سے بھی زیادہ خطر ناک ہوتا ہے، پر افسوس کہ فی زمانہ بڑی جرات مندی کے ساتھ یہ عمل انجام دیا جاتا ہے، اور دنیا دار ہی نہیں دین دار سمجھے جانے والے لوگ بھی اس سے دریغ نہیں کرتے۔کتابیں،مقالات ، مضامین اور مفصل و مختصر تحریریں بلکہ استفتاو سوالات تک اس کی زد میں سے بچ نہیں پا رہے ہیں۔

کسی کی بات نقل کرنا برا نہیں، مگر اسے اپنا کہہ کر پیش کرنا ایک ناجائز اور نامناسب حرکت ہے۔ لیکن منصب، جاہ و مال اور اعلیٰ سندات کے حصول کے لیے یہ علمی سرقہ (plagiarism) اس دھڑلّے سے کیا جارہا ہے کہ اللہ کی پناہ۔یہ بھی خیال رہے کہ علمی سرقہ کرنے والا ہمیشہ غیر معروف شخص نہیں ہوتا، بلکہ خاصے معروف حضرات بھی اس آگ میں ہاتھ سینکنے کا کام کرتے ہیں۔ہم نہیں سمجھتے کہ ایسا کرنے والوں کا کوئی مقصد واہ واہی اور تعریف بٹورنے سے سوا ہوتا ہے۔جب کہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ کوئی نیک عمل کرنے کے بعد بھی اس پر مدح و ثنا کا انتظار و اہتمام کرے، تو عمل کرنے کے باوجود بھی قواعدِ شرعیہ کی رُو سے یہ مذموم ہے اور نہ کرنے کی صورت میں تو اور بھی زیادہ مذموم ہے۔ (معارف القرآن)

چند ماہ قبل اپنا ایک علمی مضمون جب راقم نے کسی دوسرے کے نام سے شایع ہوتا دیکھا تو دل پر کیا گزری، اسے تو میرا دل ہی جانتا ہے، لیکن آج صبح ہفتوں کی محنت کے بعد جب ایک صاحبِ علم کہنے جانے والے شخص کو اپنی تحریر پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے دیکھا تو ضبط نہ کر سکا۔ اس لیے کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس طرح کی نازیبا حرکت کرنے والوں کو روکنے ٹوکنے سے گریز کرنا انھیں شہ دینا ہے۔ جس کی تحریر پر کسی نے ناجائز قبضہ کر لیا، اسے اخلاص للہیت کی تلقین کرنا یقیناً ثواب کی بات ہے، لیکن جس نے قبضہ کیا ہے اس ظالم کو اس ظلم سے روکنے کی فکر کرنا بھی اخلاقی اور دینی ذمے داری ہے۔
ان حضرات کو خود بھی باری تعالیٰ کا یہ ارشاد فراموش نہ کرنا چاہیے:
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ.
یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو لوگ اپنے کیے پر بڑے خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انھوں نے کیے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔ (آلِ عمران)

ایک صحیح حدیث میں حضرت نبی کریم ﷺکا ارشاد مروی ہے:
مَنِ ادَّعَى دَعْوَى كَاذِبَةً لِيَتَكَثَّرَ بِهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا قِلَّةً.
اور جس نے (مال و جاہ میں) اضافے کے لیے جھوٹا دعویٰ کیا، اللہ تعالیٰ اس کی قلت ہی میں اضافہ کرے گا۔(صحیح مسلم)

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے قاضی عیاض رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
ھذا عام فی کل دعوی یتشبع بھا المرء بما لم یُعط من مال یحتالُ فی التجمل بہ من غیرہ، او نسب ینتمی الیہ لیس من جذمہ، او علم یتحلَّی بہ لیس من حَمَلتہ، او دین یرائی بہ لیس من اھلہ، فقد اعلم ﷺ انہ غیر مبارک لہ فی دعواہ ولا زاک ما اکتسبہ بھا۔
یہ عام ہے ہر اس دعوے کے بارے میں جس کے ذریعے کوئی شخص ایسی چیز کا حامل ہونے کا دعویٰ کرے جو اسے نہیں دی گئی،خواہ وہ مال ہو جسے وہ مصنوعی زینت بنا کر تکبر کرتا ہے،خواہ نسب ہو جس کی طرف وہ منسوب کیا جاتا ہو، حالاں کہ اس سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں، خواہ علم ہو، جس کے ذریعے وہ خود کو آراستہ ظاہر کرے،حالاں کہ وہ اس کا حامل نہیں، خواہ دین داری ہو، جب کہ وہ اس کے لائق ہی نہیں۔ ان سب کے بارے میں حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ان کے اس دعوے میں برکت نہیں دی جائے گی اور یہ چیز اس کی کمائی کو پاک نہیں کرے گی۔ (اکمال المعلم)

اسی لیے امام قرطبیؒ جیسے عالم نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر لکھتے ہوئے یہ اہتمام فرمایا تھا، جیسا کہ وہ رقم طراز ہیں:
وشرطي في هذا الكتاب: إضافة الأقوال الى قائليها، والأحاديث الى مصنفيها، فإنه يقال: من بركة العلم أن يضاف القول الى قائله.
اس کتاب میں میری شرط یہ ہے کہ میںاقوال کو ان کے قائلین کی طرف منسوب کروں گا اور احادیث کو ان کے مصنفین کی طرف، کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ قول کو اس کے قائل کی طرف منسوب کرنا علم کی برکت میں سے ہے۔(الجامع لاحکام القرآن)

یہی وجہ ہے کہ جب راقم نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری کیا تو سیدی و مرشدی حضرت مفتی احمد خانپوری صاحب نے یہی تاکید کی اور موصوف فتاویٰ نویسی کی مشق کرنے والے طلباکو باربار یہ نصیحت فرماتے تھے کہ جو عبارت جس کتاب سے لی ہے، اس کتاب کا نام ضرور لکھو، چاہے تم نے چھوٹے رسالے ہی سے عبارت کیوں نہ لی ہو۔ ایسا ہرگز نہ کرو کہ تم چھوٹے رسالے سے عبارت لو اور اس رسالے کا حوالہ چھوڑ کر اس میں لکھے گئے حوالے کو پیش کر دو۔آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ؒ کی کتاب ’ڈاڑھی کا وجوب‘ منگوائی اور اس کے صفحہ: ۲۱ کی یہ عبارت– ’مولانا سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم، مدرس دار العلوم دیوبند نے اپنے رسالہ’ڈاڑھی اور انبیاء کی سنتیں‘ میں لکھا ہے کہ ڈاڑھی منڈانے کی حرمت پر ساری امت کا اجماع ہے‘ پڑھ کر سنائی‘–اور فرمایا مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم حضرت شیخ رحمہ اللہ کے شاگردوں کے شاگردہیں، اور آپ نے دیکھا کہ حضرت شیخ نے ان کی کتاب سے جو عبارت لی ہے، اس کا بھی حوالہ لکھ دیا ہے۔ تو کیا اس سے حضرت شیخ کی شان گھٹ گئی؟ ہر گز نہیں!اگر تم اپنے علم میں برکت پیدا کرنا چاہتے ہو تو میری اس بات پر عمل کرو کہ جس کتاب سے جو عبارت لو، وہاں اس کتاب کا حوالہ ضرور لکھ دو، چاہے وہ چار صفحے کا کتابچہ ہی کیوں نہ ہو، اس سے علم میں برکت ہوگی۔(ملاحظہ ہومحمود الفتاویٰ)

خلاصہ یہ کہ کسی کی کتاب، مقالہ، مضمون، تحریر، تحقیق یا کوئی بھی بات کو اس کی طرف منسوب کرنے سے آدمی چھوٹا نہیں ہو جاتا اور یہ علم میں برکت کا باعث، جب کہ کسی کی بات کو اپنی طرف منسوب کرنادھوکا اور خیانت ہے، جس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ دے۔آمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here