ہم جشنِ عید میلاد النبیؐ کیوں نہیں مناتے؟


ندیم احمدانصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)

لفظی اعتبارسے ہر اس دن کو عید کہتے ہیں جس میں کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے۔ بعض نے کہا کہ عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے۔(المنجد، معجم الوسیط) ’عید‘ کو عید کہنا ایک طرح کی نیک فالی اور اس تمنّا کا اظہار ہے کہ یہ روزِ مسرّت بار بار آئے۔(قاموس الفقہ)اور’عید میلاد النبیﷺ‘ کے متعلق صاحب ِ فیروز اللغات فرماتے ہیں ’عید میلاد النبی ﷺ کا مطلب ہے،پیغمبرِ اسلام کی ولادت کا دن۔‘(فیروزاللغات)

ولادتِ نبوی ﷺ کی صحیح تاریخ

تمام مؤرخین اور اصحابِ سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ با سعادت پیر کے دن ہوئی،البتہ تاریخ میں شدید اختلاف ہے۔۲،۸،۹،۱۰،اور ۱۲ تاریخیں بیان کی گئی ہیں اور وفات کے سلسلے میں ۱۲؍ربیع الاول کو جب کہ ولادت کے سلسلے میں ۹؍ربیع الاول کو ترجیح دی گئی ہے۔شاید اسی لیے لوگوں کی زبانوں پر لفظ ’بارہ وفات‘کا رہتا ہے اور جشن عید میلاد النبی ﷺ کا مناتے ہیں۔یا للعجب!(دیکھئے رحمۃ للعالمین،سیرۃ النبیﷺللنعمانی ،سیرۃ المصطفیٰ للکاندھلوی،موسوعۃ نضرۃالنعیم،خطاتِ سیرت للندوی)

یومِ ولادتِ نبوی ﷺ

یومِ ولادت ِ نبویﷺ یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا جنم دن ،جسے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا۔اس لیے کہ اس مبارک دن میں رحمۃللعالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺاس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے۔اگرچہ شریعت نے سالانہ آقا کے یومِ ولادت کو’منانے‘کا حکم نہیں دیا نہ اسے عید ہی قرار دیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے،لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن آیا تھا ،وہ نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔آج جو لوگ اس دن کو ’’عید‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ اصلاً رسول ِ خداﷺ کی نافرمانی کرتے ہیں،اس لیے کہ خود ارشادِ نبوی ﷺ ہے :
اللہ تعالیٰ نے دیگر قوموں کے مقابلے میںمسلمانوں کے لیے عید کے دو دن مقرّر کیے ہیں :(۱)عید الفطر اور (۲) عید الاضحی۔یہ ارشاد اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا تھا جب کہ آپ نے اہلِ مدینہ کو دوسرے دنوں میں زمانۂ جاہلیت کے طز پر عید و خوشی مناتے دیکھا۔(ابو داود،نسائی) اس سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺنے اپنے ماننے والوں کے لیے سالانہ صرف دو دنوں کو عید کے طورپر مقرر فرمایا،اس کے علاوہ بعض روایتوں میں جمعہ کے دن کو بھی عید کہا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کے متعلق عید کا لفظ وارد نہیں ہوا۔اب اگر کوئی اس پر زیاتی کرکے اپنی طرف سے مزید ایک دن بڑھاتا اور اس میں عید جیسی خوشیاں مناتا ہے،تو وہ گویا رحمۃ للعالمین ﷺ کے اس ارشادِ عالی پر عدم رضامندی کا اظہار کرتا ہے،اور جو اسے دین کا حصہ سمجھتا ہے،وہ اپنی طرف سے نیا دین تراشتا ہے،اور یہ دونوں ہی طریقۂ عمل نہایت خطرناک ہیں۔

عید میلاد النبی ﷺ کی ابتدا

فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:یہ مروجہ مجلسِ میلاد قرآن ِکریم سے ثابت ہے نہ حدیث شریف سے۔نہ خلفائِ راشدین و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے نہ تابعین و ائمہ مجتہدینؒ؛امام اعظم ابو حنیفہؒ،امام مالکؒ،امام شافعیؒ،امام احمد ؒوغیرہ سے ،نہ محدثین ؛امام بخاریؒ،امام مسلمؒ،امام ابو داودؒ،امام ترمذیؒ،امام نسائیؒ اور امام ا بن ماجہؒ وغیرہ سے اورنہ اولیائِ کاملین؛ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ،خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ،خواجہ بہاء الدین نقشبندیؒ اور شیخ عارف شہاب الدین سہروردیؒوغیرہ سے۔چھ صدیاں اس امت پر اس طرح گزر گئیں کہ اس مجلس کاکہیں وجود نہیں تھا۔سب سے پہلے بادشاہ اربل نے شاہانہ انتظام سے اس کو منعقد کیا اور اس پر بہت مال خرچ کیا،پھر اس کی حرص و اتباع میں وزراء وامراء نے اپنے اپنے انتظام سے مجالس منعقد کیں،اس کی تفصیل ’’تاریخ ابن خلکان ‘‘ میں موجود ہے۔اسی وقت سے علماء ِ حق نے اس کی تردید بھی لکھی ہے،چنانچہ ’کتاب المدخل‘میںعلامہ ابن الحجاج نے بتیس صفحات میں اس کے قبائح و مفاسد دلائلِ شرعیہ کی روشنی میںلکھ ہیں۔۷۳۷ھ میں اس کی تصنیف سے فراغت حاصل ہوئی،پھر جہاں یہ مجلس پہنچتی گئی ،وہاں کے علماء تردید رفرماتے رہے۔چنانچہ عربی،فارسی اور اردو…ہر زبان میں اس کی تردید موجود ہے اور آج تک تردید کی جا رہی ہے۔(فتاوی محمودیہ جدید،بتغیر)

بریلوی مکتبۂ فکر کا اعتراف

بریلوی حضرات کے ایک عالم قاضی فضل احمد صاحب لکھتے ہیں:’یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اس مخصوص شکل سے یہ عملِ خیر و برکت و نعمت ۶۰۴ھ سے جاری ہے‘۔(مروجہ محفلِ میلاد،ملخصاً)
عیدِ میلاد کا حکم

اس سے بعض لوگ اس غلط بات کی طرف چلے جاتے ہیں، گویا کہ ہم ذکر نبویﷺ کو منع کرتے ہیں۔ نعوذ باللہ ! ثم نعوذ باللہ! نفسِ ذکر میلاد فخرعالم علیہ السلام کو کوئی منع نہیں کرتا،بلکہ ذکرِ ولادت آپ ﷺکا مثل ذکر دیگر سیر و حالات کے مندوب ہے۔(البراہین القاطعۃعلی ظلام انوار الساطعۃ)لیکن اس زمانہ میں مجالسِ میلاد بہت سے منکرات وممنوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ممنوع ہے۔(فتاویٰ محمودیہ،جدید محقق)بالفاظِ دگرمیلاد ِ مروجہ وقیام مروج جوامور ِ محدثہ ، ممنوعہ کو مشتمل ہے ، ناجائز اور بدعت ہے۔(عزیز الفتاویٰ)

یومِ ولادتِ نبویﷺ یقینا باعث ِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے،لیکن اس تاریخ میں ہر سال اگر یہ دن ’منانے‘ کا ہوتا، تو اس کے متعلق احکامات و ہدایات شریعت ِ مطہرہ میں کثرت سے وارد ہوتیں۔یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دن حضورﷺ اور صحابہ کرامؓ کے سامنے بھی تھا ،تو جب خود حضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے اس خوشی کا اظہار مروجہ طریقہ پر نہیں کیااور’عید ِمیلاد‘نہیں منایا،تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت میں اظہارِ خوشی کا یہ طریقہ درست نہیں،ورنہ آپ ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام ؓ اس پر عمل کرکے اس کا جواز ضرور بتلاتے۔یہی ایک دلیل مروجہ میلاد کے غیر درست ہونے کے لیے کافی ہے۔

ارشادِ ربّانی ہے:{ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا}۔(المائدۃ)آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل و مکمل کر دیا(اب اس میں کسی طرح کمی بیشی کی نجائش نہ رہی)اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیااور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔ نیز ارشادِ رسول ﷺ ہے:جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے ،جو دین میں سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔(بخاری،مسلم)
ایک دوسری روایت میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میری سنّت کو لازم پکڑو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائِ راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو،اسے کو ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو،کیوں کہ دین میںپیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ)

کیا رسول اللہ ﷺ کا بس یہی حق امت پر ہے کہ سارے سال میں صرف ایک دن اور وہ بھی صرف تماشہ کے طور پر ،آپﷺ کا ذکرِ مبارک جھوٹے سچے رسالوں سے پڑھ دیا اور پھر سال بھر کے لیے فارغ ہو کر آئندہ بارہ وفات اور عیدِمیلاد کے منتظر ہوکر بیٹھ گئے۔افسوس !مسلمانوں کا فرض تو یہ ہے کہ کوئی دن آپﷺکے ذکرِ مبارک سے خالی نہ جائے،البتہ یہ ضروری نہیںکہ فقط ولادت کا ہی ذکر ہو،بلکہ کبھی آپ ﷺکی نماز کا،کبھی آپکے روزے کا،کبھی جہاد کا،اور کبھی آپ کے اخلاق و اعمال کا،جو کہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔کبھی ولادتِ با سعادت کا بھی ہو کہ یہ بھی باعثِ خیر و برکت ہے۔(جواہر الفقہ،امداد المفتیین)
محبت کی علامت بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر بات کا ذکر ہو،ولادتِ شریفہ کا بھی،سخاوت اور عبادت کا بھی۔اس میں کسی مہینہ اور تاریخ اور مقام کی کوئی تخصیص نہیں،بلکہ دوسرے وظیفوں کی طرح روزمرہ اس کا وظیفہ ہونا چاہئے۔یہ نہیں کہ سال بھر میں مقررہ تاریخ پر یومِ میلاد منا لیا جائے اور اس کے بعد کچھ نہیں۔حالاں کہ حضورﷺ کا ذکرِ مبارک تو غذا ہے،ہر وقت ہونا چاہئے،اس میں وقت کی تخصیص کی کیا ضرورت؟(الفضائل والاحکام،امداد الفتاویٰ)

اس پوری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ محفلِ میلاد میں اگر کوئی تاریخ معین اور ضروری نہ سمجھی جائے،شیرینی اور روشنی وغیرہ کو ضروری نہ سمجھا جائے،غلط روایات نہ پڑھی جائیں،نظم پڑھنے والے بے ریش نہ ہوں،اور گانے کی طرح نہ پڑھیں،اسی طرح دوسری بدعات سے خالی ہو،تومضائقہ نہیں۔(امداد الفتاویٰ ، وانظر نظام الفتاویٰ ، حصہ دوم)

غرض یہ کہ ر سول اللہﷺ کا ذکرِ مبارک جب کہ ان رسوم و بدعات سے خالی ہو تو ثواب اور افضل ہے،اوراگر مروجہ طریقہ پررسوم وبدعات سے بھرا ہو تو نیکی برباد گناہ لازم ہے۔جیسے کوئی بیت الخلاء میں جاکر قرآن ِکریم کی تلاوت کرنے لگے۔(جامع الفتاویٰ، فتاوی عثمانی)

المختصر !ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی خوشی اور غمی ،ہر حالت میں شریعت کی اتباع کرنا واجب اور ضروری ہے اور شریعت میں امرِ مندوب پر اصرار کرنا اور واجب کی طرح اس کا التزام کرنا اتباعِ شیطان ہے۔(عزیزالفتاویٰ، بتغیر)

’ اہل ِ حدیث ‘ علماء کا موقف

جناب مولانا مفتی ابو محمد عبد الستار صاحب فرماتے ہیں:ہیئت ِمروجہ کے ساتھ مجلس ِ میلاد کا انعقاد ازروئے کتاب و سنت قطعاً حرام اور بدعت بلکہ داخل فی الشرک ہے،کیوں کہ اس کا ثبوت نہ تو خود رسو اللہ ﷺ سے ثابت ہے،نہ کسی صحابی ؓ سے،نہ کسی تابعی ؒ سے۔غرض قرونِ ثلاثہ میں اس کا وجود بالکل مفقود ہے،نہ ازمنہ ائمہ اربعہ میں اس کا پتہ لگتا ہے،بلکہ ساتویں صدی میں یہ بدعت بجانب خود ایجاد کی گئی ہے۔(فتاویٰ ستاریہ)

جناب مولانا ثناء اللہ امرتسری فرماتے ہیں: ہم مجلسِ میلاد کو کارِ ثواب نہیں جانتے۔اس لیے کہ زمانۂ رسالت و خلافت میںاس کا ثبوت نہیں ملتا۔آگے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:مولود کی مجلس ایک مذہبی کام ہے،جس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ کسی کام پر ثواب کا بتلانا شرع شریف کا کام ہے،اس لیے کسی کام پر ثواب کی امید رکھنا،جس پر شرع شریف نے ثواب نہ بتلایا ہو،اس کام کو بدعت بنا دیتا ہے۔مولود کی مجلس بھی اسی قسم سے ہے،کیوں کہ شریعت ِ مطہرہ نے اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کیا،اس لیے ثواب سمجھ کر تو یقیناًبدعت ہے،رہا محض محبت کی صورت، یہ بھی بدعت ہے۔کیوں کہ رسول ﷺ سے محبت کرنا بھی ایک مذہبی حکم ہے،جس پر ثواب کی امید ہے۔پس جس طریق سے شرع شریف نے محبت سکھائی ہے،اس طریق سے ہوگی تو سنّت،ورنہ بدعت۔(فتاویٰ ثنائیہ)

مفتی اعظم مکہ مکرمہ کا فتویٰ

شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن بازؒفرماتے ہیں:
مسلمانو کے لیے ۱۲؍ربیع الاول کی رات یا کسی اور رات میلاد النبیﷺ کی محفل منعقد کرنا جائز نہیں ہے۔بلکہ نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور کی ولادت کی محفل منعقد کرنا بھی جائز نہیں ہے۔کیوں کہ میلاد کی محفلوں کا تعلق ان بدعات سے ہے،جو دین میں نئی پیدا کر لی گئی ہیں۔نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات ِ پاک میں کبھی اپنی محفلِ میلاد کا انعقاد نہیں فرمایا تھا،حالاں کہ آپ ﷺ دین کے تمام احکام کو بلا کم وکاست ،من وعن پہنچانے والے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسائلِ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے۔آپ ﷺ نے محفلِ میلاد نہ خود منائی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔یہی وجہ ہے کہ خلفائِ راشدین ،حضراتِ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ میں سے کسی نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا تھا،الخ۔(مقالات وفتاویٰ)

اللّٰہم ارناالحق حقاًوارزقنا اتباعہ
وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here