تعدد ازواج کی رعایت فطرت کا تقاضہ ہے اور اس میں عورتوں کا بھی فایدہ ہے

فطرت کاتقاضہ ہے اور اس میں عورتوںکابھی فائدہ ہے
کہ مردکوایک سے زیادہ بیویاںکرنے کی اجازت قانونی طورپردی جائے!

افادات: حضرت مفتی احمد خانپوری مدظلہ
پیش کش: مولانا ندیم احمد انصاری

خالقِ کا ئنات جس نے سب کو پیدا کیا، وہی سب سے زیادہ واقف ہے{أَلایَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ}جوپیدا کرنے والاہے وہ سب کچھ جانتا ہے۔مثلاًآپ نے کوئی چیزبنائی،اس میںکیاخوبی اورکمال ہے اور کیاکمی اورکمزوری ہے،اس کو آپ بخوبی جانتے ہیں، جب بنانے والاہی جانتاہے تووہی اس کاعلاج بھی کرے گااور وہی اس کا صحیح طریقہ ٔ استعمال بھی بتلائے گا۔اگراس کے مطابق آپ نے اس چیزکواستعما ل کیا،تب توٹھیک ہے،ورنہ پھر گڑبڑشروع ہوجائے گی۔تواﷲتعالیٰ نے انسان کوپیداکیا، انسان کی دوصنف ہیں؛مرداور عورت۔ دونوںکوپیداکرنے والااﷲتعالیٰ ہی ہے، اوردونوں میںکیاخوبیاںاورکیانقائص ہیں کس میںکیاکمال ہے اورکس کی کیاکمزوری ہے؛وہ اﷲتعالیٰ بخوبی جانتے ہیں،اسی کے مطابق اس نے احکامات دیے ہیں:{وَھُوَاللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ}۔یہاں اﷲ تعالیٰ کی جو صفت بیان فرمائی ہے، اس کوسوچ کروجدآجاتاہے، فرمایا کہ وہ باریک بیںاورباخبرہے۔انسانی مشین میںکیاہے، وہ اﷲ تعالیٰ خوب جانتاہے اور اسی کے مطابق اس نے حکم دیاہے۔اگراس کے حکم کے مطابق چلو گے، تب توسب کچھ برابر رہے گا؛ ورنہ پھرگڑبڑ شروع ہوجائے گی۔

بہرحال!اسلام نے جوطریقۂ زندگی پیش کیاہے اورمعاشرت کاجواندازانسانیت کو بتلایاہے، وہ اﷲتعالیٰ کا دیا ہوا ہے،اگراس کے مطابق معاشرت ہوگی،تب توٹھیک ہے، ورنہ پھرتکالیف پیش آئیںگی۔

تعددِازواج پراعتراض کیوں؟

دوسری آیت میںباری تعالیٰ فرماتے ہیں:{وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْاأَنْ تَعْدِلُوْابَیْنَ النِّسَآئِ وَلَوْحَرَصْتُمْ فَلا تَمِیْلُوْاکُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَاکَالْمُعَلَّقَۃِ،وَاِنْ تُصْلِحُوْاوَتَتَّقُوْافَاِنَّ اﷲَ کَانَ غَفُوْراًرَّحِیْماً}اگر کسی آدمی نے ایک سے زیادہ بیویاں کی ہیں،توہرایک کے ساتھ ان کے حقوق میںبرابری ضروری ہے۔درمیان میںایک بات یادآئی تومناسب سمجھتاہوںکہ اس کو پیش کردوں؛

دیکھیے!اسلا م نے چاربیویاںکرنے کی اجازت دی ہے۔اسلام کایہ حکم بھی آج کل لوگوں کے لیے اعتراض کی چیزبن گئی ہے کہ اسلام میں ایک سے زیادہ بیویوںکی اجازت ہے،حالانکہ تنورکیس اور مدگل کیس وغیرہ جوسپریم کورٹ میں چلے اورمسلم پرسنل لاء کامعاملہ زیرِغورآیا،تواس میںان کوتسلیم کرنا پڑاکہ یہ ایک فطری حکم ہے،اس لیے کہ اگردوسرانکاح کرنے کی اجازت نہیںدی گئی اورپہلے سے جوبیوی ہے اس کو چھوڑنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی،توپھرشوہراس کوتنورمیںنہیںجھونکے گاتواورکیاکرے گا؟ اوراسلام معاشرے میں زندگی گزارنے کاصحیح طریقہ بتلاتاہے،بعض مرتبہ ایسے حالات پیداہوجاتے ہیںکہ دوسری بیوی کی ضرورت پیش آتی ہے، مثلاًعورت ایسی بیماری میںمبتلاہوگئی کہ اب وہ مردکے لیے فائدہ اٹھا نے کے قابل نہیںرہی، تواب شوہرکیااس عورت کو چھوڑ دے؟اس کوایسے حالات میںچھوڑدینے کوبھی شرافت گوارا نہیں کرتی، لہٰذااس کورہنے دو،لیکن مردکی ضرورت کااب کیاکیاجائے؟توشریعت ِ مطہرہ نے اس کے لیے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔

یہ کہاںکاانصاف ہے؟

لیکن ان کے یہاںتوکسی بھی حیثیت سے دوسرے نکاح کی اجازت ہی نہیںہے۔ ہاں!ان کے یہاںایک شکل ہے کہ کسی عورت کے ساتھfriendshipقائم کرلیجیے یعنی دوستی کامعاہدہ کرلیجیے،لیکن اس عورت کوبیوی ہونے کے حقوق حاصل نہیںہوں گے،وہ عورت اس مردکے ساتھ زندگی گزارے گی اوریہ مرداس سے فائدہ بھی اٹھائے گا،اور اگر اس سے بچے پیداہوںگے توان بچوںکووراثت بھی ملے گی،لیکن اگریہ مردمرجائے گاتو اس عورت کووراثت میںحصہ نہیںملے گا۔ اب غورکیجیے کہ یہ کون سے انصاف کی بات ہے۔ یہ عورت بھی آخراس مردکو راحت پہنچا رہی ہے،ایک عورت کی طرف سے مرد کو جو ضرورتیں ہوتی ہیںوہ تمام یہ مہیاکررہی ہے،اس سے پیداہو نے والی اولادبھی اس کی شمارہوتی ہے، پھران کوسگی اولاد کی طرح وراثت میںحصہ بھی مل رہاہے،توپھرآخراس عورت کوکیوںحصہ نہ ملے؟انسانوں کے بنائے ہوئے تمام قوانین کایہی حال ہوتاہے،حالاں کہ اسلا م کے قوانین پر اعتراضات کرتے ہیں،لیکن ان کے پاس جومشکلات ہیںان کاکوئی بھی حل ان کے پاس ہے ہی نہیں۔

حضرت مولاناعلی میاںصاحب رحمۃﷲعلیہ نے احمدآبادمیںمسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میںکسی فرانسیی عورت کانام لیاتھا،جس نے عورتوںکے حقوق کے سلسلے میںبہت کچھ مطالعہ ،تحقیق اوراسٹڈی کی تھی۔اس عورت نے کہاکہ یہ فطرت کاتقاضہ ہے اور اس میں عورتوںکابھی فائدہ ہے کہ مردکوایک سے زیادہ بیویاںکرنے کی اجازت قانونی طورپردی جائے،اوربھی بہت تفصیل فرمائی تھی،یہ ساری چیزیںتسلیم کرنے کے باوجودبھی اسلامی قوانین پر اعتراض ہے، تواب کسی کوکیا کہا جائے۔

ایک مغالطہ اوراس کاازالہ

بہر حال!اسلام میں ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ حکم بھی دیاہے کہ انصاف سے کام لو، عدل ومساوات اور سب کے ساتھ برابری ہونی چاہیے۔ اب برابری کاجو حکم دیاہے اورانصاف کے تقاضوںکومدنظررکھنے کی جوتاکید کی گئی ہے،اسی سلسلے میں ایک بات کی طرف قرآنِ پاک نے اشارہ کردیا،چوں کہ وہ بھی انصاف و برابری کے ذیل ہی میںآتاہے،اوروہ یہ ہے کہ اگر تم چاہوتب بھی پورے طورپرعورتوںکے درمیان انصاف اور برابر ی نہیں کرسکتے۔اس آیت سے بعض نادان جو اپنے آپ کویہ سمجھتے ہیںکہ ہم بہت زیادہ اسٹڈی کرنے والے ہیں، انھوںنے ایک اوربات نکالی کہ دیکھو! قرآن میں یوںہے کہ تم چاہو تب بھی عورتوںکے ساتھ انصاف نہیںکرسکتے،اورایک سے زیادہ کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی گئی ہے کہ انصاف کرواورچوں کہ انصاف کرہی نہیں سکتے، لہٰذا ایک سے زیادہ بیویاںکرناجائز نہیںہے۔ انھوںنے توڑپھوڑکریہ مطلب نکال لیا۔لیکن قرآنِ کریم جوبات صاف کہہ رہاہے وہ ان کو نظرنہیںآتی،قرآن ہی میں یہ آیت بھی ہے: {فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآئِ مَثْنیٰ وَثُلاثَ وَرُبَاعَ}یہ آیت ان کونظر نہیں آئی۔

حالاں کہ اُس آیت کامطلب کیاہے، وہ مَیں عرض کرتاہوںکہ شوہربحیثیت شوہر کے عورت کوجوکچھ دیتاہے اور اس کے جوحقوق اداکرتاہے،وہ دوطرح کے ہیں؛ایک تووہ ہیں جن میںطبعی اورفطری طورپرشوہرانصاف کے تقاضوں کو پورا کرسکتاہے،مثلاً نان نفقہ،کسوہ،سکنٰی، جس کوہم اردو میں کھانا پینا،کپڑالتہ،رہائش کاانتظام،تحفہ اورہدیہ دیناوغیرہ وغیرہ کہتے ہیں۔ ان تمام چیزوںمیںبرابری ہوسکتی ہے،اس میںکوئی اشکال کی بات نہیںہے۔جیساگھرایک کودیا،دوسری کوبھی ویساہی دے سکتے ہیں۔جیسافلیٹ ایک کوبناکردیا،ویسا ہی دوسری کوبھی بناکردیجیے۔جو فرنیچر ایک کو دیا،دوسری کو بھی دو۔ ایک ہی انٹیر یر کوآرڈردوکہ ایک ہی طرح کا فرنیچر(Same to Same)دونوں فلیٹوں میں لگادیجیو۔یہ سب ہوسکتا ہے۔اسی طرح کپڑوںمیںبھی ہوسکتا ہے کہ ایک جیسے دونوں کے لیے سلوا دیے،یا برابررقم دونوں کودے دی کہ اپنی اپنی پسندسے بنالینا،یہ اوراس جیسی چیزیں تووہ ہیںجن میںکوئی آدمی اگربرابری کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ،اوراگر نہ کرنا چاہے تو پھر دوسری با ت ہے ۔

محبت تو غیراختیاری چیزہے

اوربعض چیزیںایسی ہیںجوآدمی کے اختیارکے ساتھ تعلق نہیںرکھتیںبلکہ اس کی طبیعت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔مثلاً کسی کے ساتھ محبت کازیادہ ہونااور کسی کے ساتھ کم ہونا ، کوئی آدمی چاہے کہ دونوںکے ساتھ محبت برابررکھے؛یہ ممکن ہی نہیںہے۔ اس لیے کہ محبت تو غیراختیاری چیزہے،دل کاکسی کی طرف مائل ہونا،اختیارکی چیزنہیں ہے۔اور محبت کی کمی بیشی جن بنیادوںپرہواکرتی ہے، وہ بنیادیں بھی ہمارے اختیارمیں نہیں ہیں۔ کسی کی خوبی کی وجہ سے،کسی کے حسن کی وجہ سے ،کسی کے کمال کی وجہ سے، کسی کے اچھے اخلاق کی وجہ سے محبت زیادہ ہوتی ہے۔کسی میںکوئی کمال ہوتاہے اور کسی میںکوئی دوسری خوبی ہوتی ہے۔جس طرح سب کے چہرے یکساں نہیں،اسی طرح سب کے اوصاف بھی یکساں نہیں،سب کی خوبیاں ایک طرح کی نہیں،ہر ایک کی عادتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔اسی وجہ سے کسی کے ساتھ محبت زیادہ ہوتی ہے، اور کسی کے ساتھ کم ہوتی ہے۔ اس میں آدمی کے اختیا ر کو دخل ہی نہیں،وہ اگر چاہے، تب بھی برابری نہیں کرسکتا ۔ یہ سیدھی سادی بات ہے ۔اسی طرح صحبت کرنے کا معاملے آتاہے ،تو صحبت کا تعلق بھی آدمی کی طبیعت کے نشاط سے ہے،گزشتہ کل جس کی باری تھی اس وقت طبیعت میںنشاط تھااورآپ کو بھی ضرورت محسوس ہوئی، تواس کے ساتھ صحبت کی۔اب ضروری تونہیںہے کہ دوسرے روزدوسری کی باری کے وقت بھی طبیعت کے اندرنشاط ہو،اگرضرورت محسوس نہیںہوتی توآج کل جوگولی ویاگرانکلی ہے،وہ لیناضروری نہیںہے،بلکہ یہ تو طبیعت کی آمادگی سے تعلق رکھنے والی چیزہے۔

اے اﷲ ! یہ میری تقسیم ہے

بہرحال!مَیںیہ عرض کررہاتھاکہ عورتوںکے حقوق سے تعلق رکھنے والی بعض چیزیںتو وہ ہیں،جن کے اوپرآدمی کابس نہیںچلتااوروہ آدمی کے اختیارمیںبھی نہیں ہیں۔ اسی لیے حدیث ِپاک میںآتاہے کہ نبی کریم ا ازواجِ مطہرات کے حقوق کی ادایگی میںبرابری کرنے کے ساتھ ساتھ دعابھی فرماتے تھے:{أَللّٰھُمَّ ھٰذَاقَسْمِیْ فِیْمَا أَمْلِکُ، فَلا تَلُمْنِیْ فِیْمَا تمْلِکُ وَلاأَمْلِکُ}اے اﷲ ! یہ میری تقسیم ہے، ان چیزوں میں جو میرے اختیار میں ہیں اور جن کامَیںمالک ہوںیعنی جن میںمَیںبرابری کرسکتاہوں،پس تومیری پکڑنہ کیجیو،ان چیزوںمیں جن کا تو مالک ہے،( یعنی محبت) اوروہ میرے اختیار میں نہیں ہے (ابوداودشریف:۲۱۳۶)

اسی بات کو اس آیت کے اندر بیان کیا گیا ہے:{وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْا أَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَلَوْحَرَصْتُمْ}اورعورتوں کے درمیان ہرگزتم پورا پورا انصاف نہیںکرسکوگے، اگرچہ تم خود چاہو، جیساکہ ابھی مَیںنے تفصیل سے ذکرکیاکہ تم چاہوتب بھی ان چیزوں میں برابری نہیں کرسکوگے ،ا س لیے کہ وہ غیراختیاری چیزیںہیں۔آگے باری تعالیٰ فرماتے ہیں:{فَلاتَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَاکَالْمُعَلَّقَۃِ}اس لیے ایسا نہ کیجیوکہ ایک ہی طرف پورے پورے جھک جاؤیعنی ایک کی محبت کے نتیجے میںسب کچھ اسی کے حصے میں آرہاہے،اوردوسری بے چاری کامعاملہ بالکل معلّق کررکھاہے،اگرمیلان ومحبت میں انصاف نہ ہوسکے تو کوئی بات نہیں،لیکن کھانے پینے،کپڑے ،نفقے میں اور دوسری چیزوں میںتو انصاف کرو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here