رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرامؓ پوری امت میں سب سے افضل ہیں

رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرامؓپوری امت میں سب سے افضل ہیں

ندیم احمد انصاری

            آج کل صحابی کی تعریف وغیرہ کو لے کر ایک لاحاصل بحث چل رہی ہے، جس میں بہت غلو ہو رہا ہے۔ ہمارے نزدیک تمام صحابۂ کرامؓکی عزت واحترام اور ان سے محبت رکھنا جزوِ ایمان ہے، ان میں سے کسی کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی سخت محرومی کا باعث ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ بعض لوگوں کی کج فہمی عوام الناس کے لیے خطرہ بن جائے، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ اس موضوع پر ایک مختصر تحریر سپردِ قلم کر دی جائے۔اللہ کرے مفید ثابت ہو۔ آمین

صحابی کسے کہتے ہیں؟

            امام بخاریؒ ارشاد فرماتے ہیں:

من صحب النبی ﷺ او راہ من المسلمین فھو صحابی۔

            جس مسلمان نے آپ ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل کیا یا اس نے آپ کو دیکھا، وہ صحابی ہے۔(الکفایہ فی علم الروایہ)

            در اصل لفظ-صحابی- کے اصل معنی رفیق اور ساتھی کے ہیں، لیکن یہ ایک اسلامی اصطلاح ہے، جس کے مطابق صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہوا ہو۔ (دیکھیے تدریب الراوی فی تقریب النواوی للسیوطی) نیز ’نخبۃ الفکر ‘ میں ہے کہ صحابی وہ ہے جس کو بحالتِ ایمان آنحضرت ﷺ سے شرفِ ملاقات حاصل ہواور ایمان ہی پر فوت بھی ہوگیا ہو۔ملاقات کے لیے گفتگو شرط نہیں ،باہمی نشست یارفتار سے یا ایک دوسرے کی جانب پہنچ جانے سے یا ایک دوسرے کو قصداً یا تبعاً دیکھ لینے سے بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ا س تعریف کی بنا پر آنِ واحد کے لیے جس کو حضور ﷺ کی رویت یا صحبت ایمان کی حالت میں نصیب ہوئی ہوگی وہ بھی صحابی ہے، گو شرفِ صحبت حاصل ہونے میں تمام صحابہؓ مساوی ہیں، تاہم مراتب میں تفاوت ضرور ہے،چناں چہ جو صحابہ ؓآنحضرت ﷺ کی ملازمت میں رہے، آپ ﷺ کے ساتھ نبرد آزمائی میں شریک ہوں، یا آپ کے زیرِ عَلم جامِ شہادت پا گئے، ان کو اس صحابیؓپر ترجیح ہے جو نہ آنحضرت ﷺ کی ملازمت میں رہے، نہ کسی معرکے میں آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے، اور اس پربھی ترجیح ہے جس کو آپ ﷺ کے ساتھ قلیل گفتگو یا نشست ورفتار کا موقع ملا ،یا دور سے یا بحالتِ طفولیت آپ ﷺ کے دیدار کا شرف حاصل ہوا ،البتہ شرفِ رویت چوں کہ سب کو حاصل ہے، اس لیے تمام صحابہ سمجھے جاتے ہیں،یہی قول مختار ہے۔(مرغوب الفتاویٰ)

            مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ہے:

(عن أبي أمامة ) ، أي : الباهلي ( أن رسول الله ﷺ  قال : طوبى لمن رآني ) يعني : وآمن بي( وطوبى سبع مرات لمن لم يرني وآمن بي ) . ولا يبعد أن يكون هذا قيدا لهما .

             حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مبارک با دی ہے اس شخص کے لیے جس نے مجھ کو دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، الخ۔

صحابہ کرامؓکا رتبہ

            صحابہ کرامؓکا رتبہ بقیہ تمام امت سے بڑھا ہوا ہے۔حضرت عبداللہ بن مبارکؒسے حضرت معاویہؓاورحضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے متعلق سوال کیا گیا کہ دونوں میں افضل کون ہے؟تو انھوں فرمایا تھا: حضرت معاویہؓچوں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں،اس لیے حضرت نبی کریمﷺ کی معیت میںجب وہ جہاد میں تشریف لے گئے ،اس وقت ان کی ناک میں جو غبار لگا،عمر بن عبد العزیزؒجو کہ اول درجے کے تابعی ہیں- ان کا مقام اس غبار کے برابر بھی نہیں۔اس لیے کہ حضرت معاویہؓکو شرفِ صحابیت حاصل ہے،جو عمر بن عبدالعزیزؒکو حاصل نہیں۔

سئل عن عبد اللہ بن مبارک ؒ بہ جلالۃ و علماً، أیما أفضل معاویۃؓأو عمر بن  عبد العزیز؟ فقال: الغبار الذی دخل أنف معاویۃمع رسول اللہﷺخیر من عمر بن عبدالعزیز،کذاوکذامرۃ۔(الصوائق محرقہ فی الرد علی أہل البدعۃوالزندقہ)

صحابۂ کرامؓکا مقام قرآن و احادیث میں

            اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

مُّحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّهِ ۚ وَالَّـذِيْنَ مَعَهُ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَـمَآءُ بَيْنَـهُـمْ ۖ تَـرَاهُـمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّهِ وَرِضْوَانًا   ۖسِيْمَاهُـمْ فِىْ وُجُوْهِهِـمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۚ ذٰلِكَ مَثَلُـهُـمْ فِى التَّوْرَاةِ  ۚ وَمَثَلُـهُـمْ فِى الْاِنْجِيْلِۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَهُ فَاٰزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِـهِـمُ الْكُفَّارَ  وَعَدَ اللّهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْـهُـمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۔(الفتح: 29)

            حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انھیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، (غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں اور انجیل میں۔ ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشت کار اس سے خوش ہوتے ہیں، تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کرلیا ہے۔(توضیح القرآن)

            علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر قرآن کے ان اولین مخاطین کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: {رضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ}اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔

            صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ.(بخاری)

            حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ  نے ارشاد فرمایا: میرے اصحاب کو برا نہ کہو، اس لیے کہ اگر کوئی تم میں سے احُد پہاڑ کے برابر سونا اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو میرے اصحاب کے ایک مد (سیر بھر وزن) یا آدھے (کے ثواب) کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔

            ایک حدیث شریف میں ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:  اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي،‏‏‏‏ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، ‏‏‏‏‏‏لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ.(ترمذی)

            حضرت عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا اور ان کو ہدفِ ملامت نہ بنانا، اس لیے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض کیا، اور جس نے انھیں ایذا (تکلیف) پہنچائی، گویا اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت دی، گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی، اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اپنے عذاب میں گرفتار کرے گا۔

صحابۂ کرامؓاور اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ

             علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

 ویتبروؤن من طریقۃ الروافض الذین یبغضون الصحابۃ، ویسبونہم، وطریقۃ النواصب الذین یؤذون اہل البیت بقول، او عمل، ویمسکون عما شجر بین الصحابۃ ویقولون: ان ہذہ الاثار المرویۃ فی مساویہم منہا ما ہو کذب، ومنہا ما قد زید فیہ ونقص، وغیر عن وجہہ، والصحیح منہا ہم فیہ معذورون: اما مجتہدون مصیبون، واما مجتہدون مخطؤن۔ وہم مع ذلک لا یعتقدون ان کل واحد من الصحابۃ معصوم عن کبائر الاثم وصغائرہ، بل یجوز علیہم الذنوب فی الجملۃ، ولہم من السوابق والفضائل ما یوجب مغفرۃ ما یصدر منہم ان صدر، حتی انہم یغفر لہم من السیئات ما لا یغفر من بعدہم، لان لہم من الحسنات التی تمحو السیئات ما لیس لمن بعدہم۔ (شرح العقیدۃ الواسطیۃ من کلام ابن تیمیۃ)

             اہل سنت والجماعت ان روافض کے طریقے سے براء ت کرتے ہیں، جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بغض رکھتے ہیں اور اُنھیں سب وشتم کرتے ہیں۔ اسی طرح ان ناصبوں کے طریقوں سے بھی براء ت کرتے ہیں جو کہ اہلِ بیت اطہار کو اپنی باتوں سے نہ کہ عمل سے ایذا وتکلیف پہنچاتے ہیں اور صحابہ کرامؓکے درمیان جو اختلافات واقع ہوئے ہیں، ان کے بارے میں اہل سنت والجماعت سکوت اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابہ کرامؓکے بارے میں ان کی شان کے خلاف جو باتیں منقول ہیں ان میں سے بعض تو بالکل جھوٹ ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ ان میں کمی زیادتی کردی گئی ہے اور ان کا صحیح مفہوم بدل ڈالا گیا ہے اور اس قسم کی جو روایتیں بالکل صحیح بھی ہوں، ان میں بھی صحابہ کرامؓمعذور ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات نے تو اجتہاد سے کام لے کر حق وصواب تک رسائی حاصل کرلی اور بعض سے اجتہاد میں خطا ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی اہل سنت والجماعت کا یہ اعتقاد بھی نہیں ہے کہ صحابہ کرامؓکا ہر فرد تمام کبائر وصغائر سے معصوم ہے، بلکہ ان سے فی الجملہ گناہوں کا صادر ہونا تو ممکن ہے، لیکن ان کے فضائل وسوابق اتنے زیادہ ہیں کہ اگر کوئی گناہ ان سے صادر بھی ہو تو یہ فضائل ان کی مغفرت کے موجب ہیں۔ حتی کہ ان کی مغفرت کے مواقع اتنے ہیں کہ ان کے بعد کسی کو حاصل نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ ان کی نیکیوں نے ان کے گناہوں کو محو کرڈالا ہے۔

٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here