مولانا ابو الکلام آزاد، ان کی گو نا گوں خدمات اور اُردو صحافت

ندیم احمد انصاری

(شعبۂ اردو، اسماعیل یوسف کالج، ممبئی)

            امام الہندمولانا ابو الکلام آزاد ملک و قوم کی وہ عظیم ہستی ہیں، جن کا نام تاریخِ ہند اور تاریخِ ادب اردو میں محبِ قوم و زبان کی حیثیت سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔مولانا ابو الکلام آزادکا اصلی نام ’احمد‘، تاریخی نام ’محی الدین‘ ،کنیت ’ابوالکلام‘اورتخلص’ آزادؔ‘تھا۔ ان کی ولادت 11نومبر 1888ء کو مکہ مکرمہ کے محلہ ’قدوہ‘ میں ہوئی۔مولانا کا مادری وطن مدینہ منورہ اور آبائی وطن دہلی ہے۔ عرب ماں نے عرب ماحول میں اپنے لختِ جگر کی پرورش کی اور اس طرح اُنھیں مادری زبان عربی اور اجداد کی زبان اردو کا عطیہ من جانب اللہ عطا ہوا۔مولانا کے والد1857ء کے ہنگامے کے بعد دل برداشتہ ہوکرمکہ مکرمہ چلے گئے تھے اور جب آزادؔ گیارہ سال کے تھے، اس وقت ملک واپس آئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔آزادیِ ہند کے بعد مولانا آزاد مرکزی حکومت میں پہلے وزیرِ تعلیم نام زد کیے گئے۔آگے ہم مولاناکی شخصیت و دیگر تصنیفات پر اجمالی اور صحافت پر قدرے تفصیلی معلومات پیش کریں گے۔

             مولانا کی شخصیت کا تعارف کرواتے ہوئے پنڈت جوہر لعل نہرو نے کہا تھا:

مولانا کو دیکھ کر مجھے اکثر وہ فرانسیسی قاموسی یاد آجاتے ہیں جو انقلابِ فرانس سے کچھ عرصے پہلے وہاں موجود تھے۔ تاریخِ اقوامِ ماضیہ میں ان کا درک و بصیرت یقیناً حیرت انگیز ہے اور پھر یہ وسیع علم ان کے دماغ میں عجیب ضبط و ترتیب کے ساتھ موجود ہے۔ ان کا ذہن مدلّل، با ضابطہ اور سُلجھا ہوا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے منطق و فلسفےکے کسی قدیم اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا عام رویہ معقولیت پسند ہے۔ بہ ایں ہمہ ان میں ایک ایسا انسان موجود ہے جو علم کے پہاڑوں کو نرم و نازک بنا کر بلند مگر خُشک ظرافت پیش کرتا ہے۔ـ

            مولانا ابوالکلام آزاد بہ یک وقت باکمال مفسرِ قرآن، جادو بیان خطیب، عمدہ انشا پرداز،بے مثال صحافی اور بلند قامت سیاست داںتھے ۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں کانگریس کے ہم نوا رہے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد بھی موجود تھا۔ یہی سبب ہے کہ تقسیم کے بعد جب مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا نے ہی آگے بڑھ کر اس معاملے میں مزاحمت کی۔مولانا عالی دماغ کے حامل شخص تھے۔ انھیں یہ غم ستاتا رہا کہ ان سے جیسا استفادہ کیا جا سکتا تھا، وہ نہیں کیا گیا۔ایک مقام پر فرماتے ہیں:

افسوس ہے زمانہ میرے دماغ سے کام لینے کا کوئی سامان نہ کر سکا۔ غالب کو تو صرف اپنی ایک شاعری ہی کا رونا تھا، نہیں معلوم میرے ساتھ قبر میں کیا کیا جاے گا۔۔۔بعض اوقات سوچتا ہوں تو طبیعت پر حسرت و الم کا ایک عجیب عالَم طاری ہو جاتا ہے۔ مذہب، علوم و فنون، ادب، انشا پردازی، شاعری کوئی وادی ایسی نہیں ہے جس کی بے شمار نئی راہیںمبدأ فیاض نے مجھ نامراد کے دماغ پر نہ کھول دی ہوں ۔۔۔لیکن افسوس جس ہاتھ نے فکر و نظر کی ان دولتوں سے گراں بار کیا، اس نے شاید سر و سامانِ کار کے لحاظ سے تہی دست رکھنا چاہا۔ میری زندگی کا سارا ماتم یہ ہے کہ اس عہد اور محل کا آدمی نہ تھا، مگر اس کے حوالے کر دیا گیا۔

            قلمی چہرہ

            شورش کاشمیری کے بیان کے مطابق قامت میانہ، بدن اکہرا، رنگ سرخ و سفید، نجیب الطرفین، ذات‘ سیادت، پیشہ‘ وزارت، خلوت کا شیدائی، خطابت میں یگانہ، صحافت میں منفرد، سیاست میں یکتا، عالمِ متبحّر، زبردست مجتہد، حسن چہرہ میں ہو یا آواز میں‘ اس کی دل پذیری پر جی جان سے فدا– دماغ یوروپی، طبیعت عجمی، دل عربی، وجود ہندوستانی– ایسے تھے مولانا ابو الکلام آزادؔ۔

            مولانا نے اپنی حیاتِ مستعار میں گو نا گوں علمی خدمات انجام دی ہیں۔ مضمونِ ہذا میں ہم صحافت کا قدرے تفصیلی جایزہ لیں، لیکن اس سے قبل ان کی دیگر خدمات کا مختصر تعارف سپردِ قلم کرتے ہیں۔

            تفسیرترجمان القرآن

            قرآن کریم جو کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے، مولانا نے شبانہ روز مطالعے کے بعد اس کی ترجمانی کا نازک فریضہ انجام دیا۔ نومبر 1930ء میں انھوں نے لکھا تھا:

 قرآن مجید کامل ستائیس برس سے میرے شب و روز کے فکر و نظر کا موضوع رہا ہے۔ ایک ایک سورت، ایک ایک مقام، ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ پر میں نے وادیاں قطع کی ہیں اور مرحلوں پر مرحلے طے کیے ہیں۔

            مولانا کا قرآن مجید کی ترجمانی و تفسیر لکھنے کا ارادہ تو عرصے سے تھا، لیکن انھیں اس کا موقع نہیں مل سکا۔ جس کا سبب  سیاسی زندگی کی شورشیں تھیں۔مولانا نے اپنی قرآنی خدمات کے متعلق ’ترجمان القرآن‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ قرآن کے درس و مطالعے کی تین مختلف ضرورتیں ہیں اور میں نے اُنھیں تین کتابوں میں منقسم کر دیا ہے؛ (۱) مقدمۂ تفسیر (۲) تفسیر ’البیان‘ (۳) ترجمان القرآن۔مقدمۂ تفسیر ؛ قرآن کے مقاصد و مطالب پر اصولی مباحث کا مجموعہ ہے اور اس میںکوشش کی گئی ہے کہ مطالبِ قرآن کے جوامع و کلیات مدون ہو جائیں۔ تفسیر ’البیان‘ فکر و مطالعہ کے لیے ہے اور ’ترجمان القرآن‘ قرآن کی عالمگیر تعلیم و اشاعت کے لیے۔

            ’ترجمان القرآن‘کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے سعید احمد اکبرآبادی نے لکھا ہے:

مولانا ابوالکلام آزاد نے اردو ادب کے چمن میں حسن و انشا و بیان کے جو پھول کھلائے ہیں، یوں تو وہ سب ہی سدا بہار ہیں، لیکن مستقل تصنیف کی حیثیت سے قرآن مجید کی تفسیر ترجمان القرآن مولانا کی تمام علمی اور ادبی تحریروں میں شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ قلم کی توانائی، اجتہادِ فکر، وسعتِ نظر و مطالعہ اور جذبۂ تحقیق و تدقیق، مولانا کی یہ وہ خصوصیات ہیں جو اُن کی ہر علمی و ادبی تحریر میں نظر آتی ہیں۔ لیکن مولانا کی یہ خصوصیات اس کتاب میں جا بجا نمایاں ہیں اور اس بنا پر اردو زبان کے علمی ذخیرے میں اس کو امتیازی مقام حاصل ہے۔

            سیرت النبیﷺ

            مولانا آزادنے باقاعدگی سے مستقلاً کوئی سیرت کی کتاب تو نہیں لکھی، البتہ’الہلال‘ اور ’ البلاغ ‘ میں سیرۃ النبیﷺ کے مختلف پہلوؤں پر مختلف اوقات میں متعدد مقالات لکھ کر شائع کیے تھے اور ہر سال ربیع الاول کے موقع پر ضرور ایک دو مقالے تحریر کیا کرتے اور لوگوںکے استفسارات پر بھی تفصیلی جواب سے نوازتے تھے۔ مولانا نے دیگر انبیاے کرام علیہ السلام ، خصوصاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعلق سے بھی بہت کچھ لکھ کر سیرت کے موضوع پر  قیمتی سرمایہ جمع کر دیا تھا۔ایسی ہے بعض مضامین و مقالات کو ترتیب واضافوں کے ساتھ غلام رسول مہرؔ نے ’رسولِ رحمت‘کے نام سے شایع کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

  میں نے سیرتِ طیبہ کے مقالے ترتیب سے رکھے او ان کی فہرست مرتب کی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ بابرکات کے متعلق نہایت قیمتی سرمایہ یک جا ہو گیا ہے۔ پھر مولانا کا اندازِ بیان ایسا تھا کہ جو کچھ زبانِ قلم پر آتا، دامنِ دل کو یقین و اعتماد کے گلہاے رنگارنگ سے بھر دیتا اور رشک و تذبذب کی خلش کے لیے کوئی گنجایش باقی نہ رہتی۔

            شاعری

            مولانا صرف نثر کے ہی بے تاج بادشاہ نہیں،انھیں شعر گوئی کا ملکہ بھی حاصل تھا۔گھر میں علم و ادب کے چرچے رہے، بڑے بھائی مولانا ابو نصر یٰسین آہؔ شاعر تھے، کچھ اُن کی دیکھا دیکھی اور کچھ فطری موزونیت کے سبب وہ بھی شعر کہنے لگے۔ ہاں آگے چل کر انھوں نے نثر کو ہی وسیلۂ اظہار بنایا۔مولانا  کی ایک غزل بہ طور نمونہ پیش ہے، جس میں روایتی شاعری کا رنگ غالب ہے۔

کوئی اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا

ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا

اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے

دل کا ہر ارماں فدائے دستِ قاتل ہو گیا

کوئی نالاں کوئی گرریاں کوئی بسمل ہو گیا

اس کے اٹھتے ہی دِگر گوں رنگِ محفل ہو گیا

قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں

ہر بگولہ دشتِ لیلیٰ کا محمل ہو گیا

انتظار اُس گُل کا اس درجہ کیا گُلزار میں

نور آخر دیدۂ نرگس کا زائل ہو گیا

یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمندِ زلف کا

لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا

            تذکرہ

            1916ء میں مولانا جب رانچی (بہار) میں نظر بند تھے اور ان کی عمر تقریباً تیس سال تھی، اس وقت ایک کتاب بنام ’تذکرہ‘تصنیف کی ۔ جس کے آغاز میں آبائی و خاندانی حالات، پھر جدِ امجد شیخ جلال الدین کے تفصیلی حالات، بعدہ عہدِ شیر شاہی اور سلیم شاہی کے اولیاء اللہ اور آخر میں امام احمد ابن حنبل، علامہ ابن تیمیہ اور مجددِ الف ثانی رحمہم اللہ کا تذکرہ ہے۔اس کا پہلا ایڈیشن 1919ء میں البلاغ پریس، کلکتہ سے شایع ہوا۔ یہ اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔

            غبارِ خاطر

             دوسری عالمی جنگ کے موقع پر یعنی اگست 1942ء میں جب مولانا آزاد کانگریس کے صدر تھے، 8تاریخ کی شب کو بمبئی میں انڈین نیشنل کانگریس کا ایک خاص جلسہ منعقد ہوا، جس کے آخری حصے یعنی 9اگست کو علی الصبح حکومت نے بشمول دیگر سرکردہ رہنماؤں کے مولانا آزاد کو بھی احمد نگر کے قلعے میں محبوس کر دیا گیا۔ مختلف مقامات پر تبدیلی کے بعد اس قید و بند سےبالآخر 15جون 1945ء میں رہا کیے گئے۔غبارِ خاطر اسی زمانے کی یادگار اور مولانا کی آخری تصنیف ہے، جو ان کی زندگی ہی میں شایع ہوئی۔مالک رام کے مطابق یہ چند متفرق مضامین کا مجموعہ ہے، جنھیں خطوط کی شکل دے دی گئی ہے۔

            سیاست

             مولانا ابو الکلام آزاد ایک دور اندیش و مخلص سیاسی لیڈر اور رہنما بھی تھےانھوں نے نامساعد بلکہ مخالف حالات میں اپنی صاحیتوں کو بروئے کارلاکر گو نا گوں کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ہندستان کی جنگِ آزادی کا خواب جب شرمندۂ تعبیر ہوا، اس وقت ایک اہم المیہ یہ درپیش تھا کہ ملک کو دو حصوں میں پاکستان اور ہندستان کی شکل میں منقسم ہونا پڑا گو بہت سے مسلمان اکابرین بھی اس کے مخالف تھے، لیکن آخر کار ملک دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہا۔ سردار پٹیل اور پنڈت نہرو کے پُر زور اصرار پر مہاتما گاندھی نے بھی بادلِ ناخواستہ ہتھیار ڈال دیے اور یہ عرضی منظور کر لی گئی۔ اُس وقت مسلمانوں کے مستقبل کو اپنی فہم و فراست کی نظر سے دیکھ کر مولانا آزاد نے جامع مسجد دہلی کے منبر سے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ رقت آمیز اور پُراز بصیرت خطبہ دیاتھا:

  کیا تمھیں یاد ہے کہ میں نے تم کو سمجھانا چاہا تو تم نے میری زبان پر تالے لگا دیے، میں نے قلم اٹھایا تو تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیے، میں نے آگے بڑھنا چاہا تو تم نے میرے پیر پابندِ زنجیر کر دیے، میں نے پلٹنا چاہا ، تم نے میری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔ پھر بھی میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم اس مسجد کے میناروں کوکس کے حوالے کرکے جانا چاہتے ہو؟ کیا تم کو یقین ہے کہ وہاں (پاکستان میں) تم کو وہی ملے گا، جس کے تم مستحق ہو؟ ہرگز نہیں، اس لیے تم یہیں رہو اور حالات کا پامردی سے مقابلہ کرو۔

             آج ستّر سال بعد بھی امام الہند کے ایک ایک جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ایک اجتہادی خطا کی بنا پر مسلمان ایک ایسی کشتی میں سوار ہو گئے، جس کا کوئی ناخدا نہیںاور خود انھوں نے ملک میں اپنا وقار و وزن ہلکا بنا دیا۔مولاناکے مطابق اگر ملک متحد ہندستان کی شکل میں آزاد ہوتا تو ملک کے تمام صوبوں کو تین زمروں؛ A،Bاور C میں منقسم کیا جاتا۔ حکومت وفاقی طرز کی ہوتی، مرکز کے پاس امورِ خارجہ ، دفاع اور مواصلات کے محکمے ہوتے۔ صوبائی حکومتیں خود مختار یونٹوں کی شکل میں کام کرتیں، جس صوبے میں ہندو یا مسلم‘ جس کی اکثریت ہوتی، اُ س صوبے میں اُسی کا وزیرِ اعلیٰ منتخب کیا جاتا، بقیہ یونٹوں میں آبادی کے تناسب سے یہ مرحلہ طے پاتا۔ سرکاری ملازمتیں تعلیمی، اداروں اور اسمبلیوں میں نمائندگی بھی آبادی کے متناسب ہوتی، لیکن ایسا ہو نہ سکا اور مولانا کو اپنوں اور غیروں کی انتہائی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔

            بقول مجیب خیرآبادی ؎

دشمنوں کو اپنایا، دوستوں کے غم کھائے

پھر بھی اجنبی ٹھہرے، پھر بھی غیر کہلائے

            معلوم ہوا امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی ہمہ جہت شخصیت میں متعدد و مختلف کمالات پوشیدہ تھے۔جن سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے محض ان کی صحافت پر گفتگو کرنا آسان نہیں۔ پھر اُن کی صحافت بھی موجودہ دور کی سی نہ تھی، جو صحافت کے بجائے کہ سفاہت کے مترادف ہے۔ مولانا کے مطالعے کی وسعت، جمالیاتی ذوق اور فضل و کمال کے متنوع امتزاج نے ان کی شخصیت کی شش جہات کو روشن کر دیا تھا۔ اس پر طرّہ یہ کہ ان کی صحافتی بوالعجمی وبو قلمونی ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتی کہ اس سے سرسری طور پر گزرا جائے۔ ’نیرنگِ عالم‘، ’لسان الصدق‘، ’المصباح‘، ’الندوہ‘، ’الہلال‘، اور ’البلاغ‘ وغیرہ ان کی اعلیٰ صحافت کے ان مٹ نقوش ہیں۔ مولانا آزاد نےصحافت کے توسط سے قومی و بین الاقوامی مسائل پر مجاہدانہ تحریریں لکھنے کے علاوہ قارئین کی ذہبی و اخلاقی اصلاح پر بھی توجہ مبذول رکھی اور اس کے لیے ادب و انشا کو وسیلۂ اظہار بنایا۔

            ہندستان کی صحافتی تاریخ میںمولانا ابو الکلام آزادکا مقام بہت بلند ہے۔ خاص طور سے ان کے شاہ کار ’الہلال‘کی حیثیت ایک مینارۂ نور کی  ہے۔مولانا نےایک طرف جہاں ’الہلال‘ کے ذریعہ خوابِ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہندستانی سماج کو بیدارکیا، وہیں تحریکِ آزادی کے کارواں کو بھی مہمیز کیا۔مولانا نے اپنی صحافت کے ذریعے نہ صرف قومی و ملّی جذبات کی ترجمانی کی بلکہ عالمی مسائل کا احاطہ بھی کیا۔ انھوں نے مذہبی، ادبی، سیاسی اور صحافتی مختلف النوع خدمات انجام دیںاور مسلم قوم کو احساس کم تَری سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کی صحافت نے درحقیقت اُردو صحافت کو ایک نیا معیار و اعتبار عطا کیا۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کی صحافت ایسی تھی جسے خود انھوں نے ایجاد کیا اور وہ اُن ہی کے ساتھ ختم ہو گئی۔

            مولانا آزاد ایک ایسے علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، جہاں صحافت کی حیثیت گھر کی لونڈی کی سی تھی۔ بچپن سے ہی انھوں نے ملک کے کونے کونے سے نکلنے والے اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا تھا اور ابھی ان کی عمر صرف 11برس کی تھی کہ انھوں نے ایک رسالہ’نیرنگِ عالم‘ شایع کرنا شروع کر دیا، لیکن یہ اخبار جلد ہی بند ہو گیا۔ اس کے بعد مولانا کا تعلق ’المصباح‘، ’احسن الاخبار‘، ’تحفۂ محمدیہ‘، ’خدنگِ نظر‘، ’لسان الصدق‘، ’الندوہ‘، ’وکیل‘ اور ’دا ر السلطنت‘ وغیرہ جرائد سے رہا۔ وہ ’مخزن‘ اور دیگر اخبار ورسائل میں بھی برابر لکھتے رہے۔ ’الہلال‘ سے قبل مولانا کو تقریباً متعدد اخبارات و رسائل کی ادارت کا تجربہ ہو چکا تھا، لیکن سچ بات یہ ہے کہ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز اور عروج ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کی اشاعت ہے۔

            مولانا آزاد کے نزدیک صحافت ایک مقدس پیشہ تھی جسے وہ بے لوثی اور بے غرضی کے ساتھ اپنانے کے داعی تھے۔ جو لوگ اس پیشے کو خود غرضی اور مطلب پرستی کے ہاتھوں بدنام کرتے ہیں، مولانا نے ان پر سخت تنقید کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے اور چاندی اور سونے کا تو سایہ بھی اس کے لیے سمِ قاتل ہے، جو اخبار نویس رئیسوں کی ضیافتوں اور امیروں کے عطیوں کو قومی اعانت، قومی عطیہ اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کرلیتے ہیں، وہ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ضمیر اور نورِ ایمان کو بیچیں‘ بہتر ہے کہ دریوزہ گری کی جھولی گلے میں ڈال کر اور قلندروں کی کستتی کی جگہ اور قلم دان لے کے رئیسوں کی ڈیوڑھیوں پر گشت لگائیں اور ہر گلی کوچہ ’کام ایڈیٹر کا‘ کی صدا لگا کر خود اپنے تئیں فروخت کرتے رہیں۔

            مولانا صحافت کو کسی بھی دباؤ میں آنے کو سخت نقصان دہ گر دانتے تھے، جس سے کسی دانا و بینا کو انکار نہیں ہو سکتا۔ وہ ایسے صحافیوں کو ایک دھبّا سمجھتے تھے جو کسی انسان یا جماعت سے کچھ حاصل ہونے کے سبب قلم کی حق بیانی سے منحرف ہو جائے۔ مولانا صحافت کو خدا کے عظیم الشان فرض یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وسیلہ سمجھتے تھے۔خود اُنھیں ایک موقع پر ایک رئیس کی طرف سے ایک چیک نذر کیے جانے پر انھوں نے یہ کہہ کر اسے لوٹا دیا:

 ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قیمت کے سوا کسی انسان یا جماعت سے کوئی اور رقم لینا جائز رکھتا ہو‘ وہ اخبار نہیں بلکہ اس فن کے لیے ایک دھبّا اور سر تاسر عار ہے۔ ہم اخبار نویسوں کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرضِ الٰہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں۔ پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباو سے آزاد ہونا چاہیے۔

            مولانا کی صحافت کے ادوار

            مولانا آزادکی صحافت کو تاریخی اعتبار سے مندرجۂ ذیل چار ادوارمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے؛پہلا دور جو 1889-1903ءکا زمانہ ہے،یہ تجربے اور مشق کا دور ہے۔ جس میں انھوں نے مختلف اخبارات و رسائل کے ذریعے میدانِ صحافت کی سیاحت کی۔ دوسرا دور وہ ہے،جب ان کی عمر تقریباً 20 سال ہوئی تو ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی، جس کے چلتے کچھ وقت کے لیے وہ صحافت سے کنارہ کش ہو گئے۔ لیکن یہ وقفہ ’الہلال‘صورت میں نمودار ہوا، جس نے صحافت کے نور کو عام کیا۔نہ صرف مولانا آزاد بلکہ اردو صحافت کا عظیم کارنامہ ہے۔ اسے ان کی صحافت کا تیسرا دور شمار کرنا چاہیے۔اس دور میں چھبیس ہزار کی اس کی تاریخی اشاعت نے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور علامہ اقبالؔ تک نے اس کے لیے خریدار فراہم کیے۔’الہال‘ نے موضوعات کا بے مثال تنوع پیش کیا،جس میں مذہب، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، عمرانیات، جغرافیہ، تاریخ و سوانح اورمسائل حاضرہ نیز ادب وغیرہ سب ہی کچھ موجود تھا۔مولانا کی صحافت کا چوتھا اور آخری دور رانچی میں نظربندی اور رسل رسائل کے منقطع ہو جانے کا دور ہے، جس میں انھوں نے تصنیف و تالیف کو خصوصی مشغلہ بنایا۔اسی زمانے میں ان کے دل کا غبار بصورت ’غبارِ خاطر‘ منظرِ عام پر آیا اور وہ خود اپنا ’تذکرہ‘ لکھنے پر مائل ہوئے۔یہ وہ ادبی و صحافتی اثاثہ ہے، جن سے براہ ِ راست محظوظ ہوئے بغیر ان کی قدر و قیمت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

            نیرنگِ عالَم

            یہ دراصل ایک ماہانہ ’گلدستہ‘ تھا،جس میں شعری کلام شایع ہوتا تھا۔ مولانا نے فقط گیارہ سال کی عمر یعنی نومبر 1899ء میںاسے ہریسن روڈ پر واقع ہادی پریس، کلکتہ سے جاری کیا۔ اس کے غالباًآٹھ شمارے شایع ہوئے، جو ان کی عمر کے لحاظ سے ہمیں حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔

            خدنگِ نظر

            1897ء میں منشی نوبت راے نے لکھنؤ سے ایک ماہنامہ بنام ’خدنگِ نظر‘ نکالنا شروع کیا تھا، جس میں ابتداء ً صرف منظوم کلام شایع ہوتا تھا۔ 1900ء سے جب اس میں مضامین شایع ہونا شروع ہوئے تو اس نثری حصے کی ترتیب مولانا کے سپرد کی گئی۔

            المصباح

            تقریباً بارہ سال کی عمر یعنی22جنوری 1901ءکو مولانا نے مصر کے ایک اخبار’مصباح الشرق‘ کی تقلید میں ہفتہ وار ’المصباح‘ نکالنا شروع کیا، جس میں پہلا مضمون ’عید‘لکھا۔ یہ اس قدر مقبول ہوا کہ متعدد اخبارات نے اسے شایع کیا۔ ’المصباح‘نے تین چار ماہ جاری رہ کر دم توڑ دیا۔

            احسن الاخبار

            1901ء میں سید احمد حسن نے کلکتہ سے ’احسن الاخبار‘نامی ایک ہفتہ وار جریدہ جاری کیا تھا۔مولانا اس میں جنوری 1902ء سے منسلک ہوئے اور تقریباً دو سال تک اس کی ترتیب کی خدمات انجام دیں۔ اس میں مولانا کے متعدد مضامین بھی شایع ہوئے اور اسی زمانے میں انھوں نے مصر، قسطنطنیہ، طرابلس اور تیونس وغیرہ کے اخبارات کا مطالعہ کیا۔جس کے زیرِ اثر انھوں نے مصر کے اخبارات ’الہلال‘ اور ’المنار‘کی طرح اپنے جریدوں کے نام ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ رکھے۔

            لسان الصدق

            ماہ نامہ ’لسان الصدق‘اس کا پہلا شمارہ 20نومبر 1903ء کو شایع ہوا تھا، جب کہ مولانا کی عمر فقط پندرہ سال تھی۔ اس زمانے میں بھی مولانا کی سنجیدگی و متانت کا یہ عالم تھا کہ ان کی تحریروں سے متاثر ہو کر ’انجمن حمایتِ اسلام، پنجاب‘کے اصحاب نے  1904ء کے سالانہ اجلاس میں مدیرِ لسان الصدق کو خطاب کی دعوت دی۔ یکم اپریل 1904ء کو مولانا نے اس اجلاس میں ’تبلیغِ اسلام کا طریقِ کار‘کے موضوع پر تقریر کی۔ ’لسان الصدق‘ بھی تقریباً اٹھارہ ماہ جاری رہ کر بند ہو گیا۔اس رسالے کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا آزاد نے لکھا تھا کہ ’لسان الصدق‘ میں ذیل کی خصوصیتیں ایسی جمع ہو گئی ہیں، جن کی نظیر اُردو کے عام رسائل میں نہیں مل سکتیں:(۱) نئے نتیجہ، لٹریری اور تفریحی ترک کرکے صرف کارآمد علمی مضامین اس میں شایع کیے جائیں گے (۲) مضامین کے علاوہ ایک سلسلہ مشاہیر الشرق کا قایم کیا جاے گا، جس میں انیسویں صدی کے مشرقی افاضل اور مشاہیر کے حالات مع تصویر شایع کیے جائیں گے(۳) مشاہیر الشرق کے علاوہ اور تاریخی اور سائنٹفک مضامین انگریزی رسائل کی طرز پر با تصویر شایع کیے جائیں گے(۴) سائنس کی مختلف شاخوں پر دلچسپ مضامیں لکھے جائیں گے اور اُن کے مرتَّب سلسلے ماہوار شایع ہوں گے(۵) ملک کے وہ مشہور مصنف جن کی تحریرات مستقل تصانیف کے علاوہ عام اخبارات و رسائل میں بہت کم شایع ہوتی ہیں، ان کی پاکیزہ تحریریں اس رسالے میں نظر آئیں گی۔

             رسالے کی مذکورہ بالا خصوصیات کو پڑھیے اور مولانا کی عمر پر نظر رکھیے تو انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا کیسےاصول و ضوابط کی سنجیدہ باتیں کرتا ہے۔

            ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے بیان کے مطابق لسان الصدق مولانا آزاد کی ادارت میں نکلنے والا پہلا رسالہ تھا جو علمی، ادبی، تعلیمی اور معاشرتی اصلاح اور ترقی کے اہم مقاصد کے تحت جاری کیا گیا تھا اور پہلے پرچے سے لے کر آخری پرچے تک اس کے تمام مضامین اور ان کا ایک ایک لفظ ان مقاصد کا ترجمان اور ان کے حصول کا محرک ثابت ہوا۔ اس کے مقاصد کی اہمیت کے اعتراف سے اس وقت کی ادب و صحافت کی پوری دنیا گونج اٹھی تھی۔ اس کے موضوعات کی اہمیت، مضامین کی افادیت، اسلوب کی دل ربائی اور ترتیب و تدوین کے حسن نے وقت کے تمام اہلِ ذوق کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ لسان الصدق کے اجرا سے مولانا کے پیشِ نظر زبان و ادب اور تنقید میں ذوق کی تسکین و تربیت اور معاشرتی اصلاح کے جن مقاصد کا حصول تھا، ان کا ہر جز جس طرح اس وقت لائقِ توجہ تھا، اسی طرح آج بھی ان کی اہمیت اور افادیت مسلّم ہے۔

          الندوہ

            1905ء میں مولانا شبلی نعمانی نے مولانا آزاد کو لکھنؤ آنے اور ماہ نامہ ’الندوہ‘کی ترتیب و تدوین میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ یہ خالص علمی و تحقیقی مجلّہ اور دارالعلوم، ندوۃ العلماء لکھنؤ کا آرگن تھا اور اس وقت مولانا کی عمر تقریباً سترہ سال تھی۔جس سے مولانا آزاد کے فضل و کمال کا اندازہ لگانا آسان ہے کہ شبلی نعمانی جیسے محقق و مصنف نے انھیں ایسی اہم ذمّے داری سونپنے کا فیصلہ کیا۔مولانا آزاد ان کی دعوت پر اکتوبر 1905ء سے مارچ 1906ء تک چھے ماہ ’الندوۃ‘ میں خدمات انجام دیتے رہےاور پھر کسی سبب علاحدہ ہو گئے۔

            ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے بیان کے مطابق ماہ نامہ ’الندوہ‘ ندوۃ العلما، لکھنؤ کا علمی ترجمان تھا اور ندوے کی روحِ رواں علامہ شبلی کی خواہش تھی کہ ابوالکلام اس کے معاون مدیر بننے کی ذمّے داری قبول کریں۔ سبب یہ تھا کہ طرفین میں کئی برس پہلے ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ نیز شبلی، آزاد کے جاری کردہ ’نیرنگِ عالم‘ (گلدستہ)، ’المصباح‘ اور ’لسان الصدق‘ وغیرہ کے ذریعے ان کے غیر معمولی علمی ذوق اور دقیقہ رس مزاج سے بہ خوبی واقف ہو چکے تھے۔ ’خدنگِ نظر‘ میں ابوالکلام کے شایع ہونے والے مضامین بھی ان کی نظر سے گزر چکے تھے۔ وہ ایک موقع پر آزاد سے کہہ چکے تھے’تمھارا ذہن و دماغ تو عجائبِ روزگار میں سے ہے‘۔ مختصر یہ کہ آزاد نے شبلی سے اپنی غیر معمولی عقیدت اور مؤخر الذکر کے اصرار کے پیشِ نظر اکتوبر 1905ء میں ’الندوہ‘کے معاون مدیر کی حیثیت سے ذمّے داری سنھبالی اور قریباً چھے سات ماہ تک اس کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

          وکیل

            ’الندوہ‘سے علاحدہ ہونے پر امرتسر سے شیخ غلام محمد نے انھیں ’وکیل‘کی ادارتی ذمّے داری سپرد کی، جس کی مقبولیت میں مولانا نے اپنی صلاحیتوں و محنتوں سے خوب اضافہ کیا۔ لیکن اس دوران بھائی–  مولوی ابوالنصر غلام یاسین جو عراق میں سیاحت کی غرض سے گئے ہوئے تھے– کا انتقال ہو جانے کے سبب انھیںاپریل سے نومبر( 1906ء) فقط آٹھ ماہ میں امرتسر کو خیر باد کہنا پڑا۔ اگست 1907ء میں ایک بار پھر وہ اس خدمت پر مامور کیے گئے، لیکن ناسازگیِ طبیعت کے سبب تقریباً ایک سال میں جولائی یا اگست 1908ء کو علاحدہ ہو گئے۔

          دارالسلطنت

            یہ کلکتہ سے شایع ہونے والا ایک ہفت روزہ اخبار تھا، جس کے مالک و مدیر عبدالہادی تھے۔ ان کے انتقال کے بعد اس کی اشاعت موقوف ہو گئی تھی۔ 1907ء میں ان کے صاحب زادے محمد یوسف نے اسے دوبارہ جاری کیا اور اسی زمانے میں قلیل عرصے کے لیے مولانا نے اس کی ادارت سنبھالی۔

            الہلال اور البلاغ

            اس کے بعد مولانا نے ’الہلال‘ جاری کیا، جو کہ ملتِ اسلامیہ کے جذبے کے تحت نکالاگیاتھا۔ اِ س کا اپنا پریس ، انتظامی اور ادارتی عملہ تھااور مولاناآزاد اُس کے تمام امور کے نگراں اور مدیرِ مسئول تھے۔ اس کے بعد’ البلاغ‘جاری کیاگیا،جو گویا کہ ’الہلال‘ ہی کا دوسرا نام تھا۔

            ’الہلال‘ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مولانا نے لکھا تھا کہ ۱۹۰۸ء میں کلکتہ چھوڑنے سے پہلے میں سیاسی خیالات کے اعتبار سے انقلابی سرگرمیوں کی طرف مائل ہو چکا تھا۔۔۔عرب اور ترک انقلابیوں سے تعلقات ہونے کا یہ نتیجہ نکلا کہ میرے سیاسی عقائد راسخ ہو گئے۔۔۔اب میرے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ ہندستانی مسلمانوں میں سیاسی بیداری کی ایک نئی تحریک شروع کی جائے۔۔۔میں کچھ دنوں تک غورکرتا رہا کہ مجھے اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا اور کیا پروگرام بنانا چاہیے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمیں اپنے خیالات پبلک تک پہنچا کر اپنی موافقت کے لیے رائےعامّہ پیدا کرنا چاہیے اور اس کے لیے ایک اخبار جاری کرنا ضروری تھا۔۔۔[اسی مقصد سے میں نے ایک اخبار نکالنے کی ٹھانی اور] میں نے فیصلہ کیا کہ میرا اخبار طباعت کے اعتبار سے بھی دیدہ زیب ہوگا اور دعوت و اسلوبِ بیان کے اعتبار سے بھی ایسا ہوگا کہ پڑھنے والوں کے دل جوش و جذبات سے لبریز ہو جائیں۔ میں نے اسے لیتھو کے بجاے ٹائپ میں نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس عزم کے مطابق میں نے الہلال پریس قایم کیا اور 1912ء میں ’الہلال‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار جاری کیا۔ اس کا پہلا نمبر 13جولائی کو نکلا تھا۔ اس کی اشاعت سے اُردو صحافت کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس اخبار کو قلیل مدت کے اندر بے نظیر ہر دل عزیزی حاصل ہوئی۔ پبلک کے لیے صرف اس کی اعلیٰ طباعت باعثِ کشش نہ تھی، بلکہ اس سے زیادہ قومیت کا وہ جذبہ تھا، جس کی وہ دعوت دیتا تھا۔ ’الہلال‘ نے عوام میں ایک انقلابی تحریک پیدا کر دی اور لوگوں میں وہ ایسا مقبول ہوا اور اس کی طلب کا جذبہ تین مہینوں کے اندر اندر اس کے تمام ابتدائی نمبروں کو دوبارہ شایع کرنا پڑا، اس لیے کہ ہر نیا خریدار چاہتا تھا کہ اس کے پاس اس کے ابتدائی نمبروں کا بھی مکمل سیٹ ہو۔

            مختصر یہ کہ’ الہلال‘ نے بہت جلدشان دار مقبولیتِ عام حاصل کر لی۔جس کی وجہ ترقی پسند سیاسی تخیلات، معقول مذہبی ہدایات اور عمدہ و سنجیدہ ادبی شہ پارے کا شامل ہونا تھا۔مولانا کا یہ کارنامہ حکومت کی آنکھ میں ابتدا سے ہی کھٹکتا رہا اور اس کی طرف فقط دو مہینے یعنی 18ستمبر1912ء کو دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی، جو ادا کر دی گئی۔لیکن الٰہ آباد کے ایک انگریزی روزنامے ’پانئیر‘کی طرف سے لکھے جانے والے ایک سخت مضمون کی پاداش میں سابقہ رقم ضبط کر کے مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کی، جس کی عدم استطاعت کے سبب 8نومبر 1914ء میں بیس شمارے مکمل کرکے اسے موقوف کرنا پڑا۔

            تقریباً سال بھر کے بعد 12نومبر 1915ء کو مولانا نے نئے نام ’البلاغ‘ سے ایک رسالے کا اجرا کیا، جو کہ ’الہلال‘نقشِ ثانی تھا۔ لیکن یہ بھی فقط پانچ ماہ جاری رہ کر مارچ 1916ء کو حکومت کے عتاب کا شکار ہو کر بند کر دیا گیا۔

            پھر تقریباً بارہ سال کے بعد ’الہلال‘کے دورِ ثانی کا آغاز ہوا اور 10جون 1927ء کو اس دور کا پہلا شمارہ شایع کیا گیا۔جس میں مولانا شبلی نعمانی،مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبد السلام ندوی اور مولانا عبد اللہ عمادی وغیرہ کی قلمی کاوشیں شایع ہوتی تھیں اور اس کی ترتیب وغیرہ کے ذمّے دار مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی تھے لیکن اس بار بھی بیس شمارے شایع ہو کر 9دسمبر 1927ء کو بند کر دیا گیا۔

            پروفیسر سید سفارش حسین لکھتے ہیں:

الہلال کا انداز بالکل نرالا تھا اور اس کا اندازِ تخاطب سب سے انوکھا۔ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی بات کو دل کی گہرائیوں ہی میں پہنچ کر قرار آنا تھا۔ اس کے صفحات تلخ حقیقتوں سے لبریز تھے اور اس کی ایک ایک سطر نشتر کا حکم رکھتی تھی، پھر بھی پڑھنے والا ایسا محسوس کرتا گویا وہ بھی یہی کہنا چاہتا تھا۔ اس کا طرزِ تنقید، اس کا طریقۂ اعتراض اور اس کی حق گوئی، جذبۂ مخالفت کو ابھارنے کے بجائے لوگوں کے دلوں کوگرمیِ عمل سے گرماتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ الہلال نے جتنی کم مدت میں لوگوں کے ذہن، معتقدات اور رجحانات میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دی، اس کی دوسری مثال ممکن نہیں۔ الہلال کے بعد البلاغ نے اس کی جگہ لی، لیکن کم مایہ قوم کی کم نصیبی کہ جلد ہی وہ اِن جواہر ریزوں سے محروم ہو گئی۔

            نیز امداد صابری کے مطابق مولانا کی ادارت میں الہلال نے ہندستان کے عوام کو انگریزوں کے خلاف جد و جہد کی ہی دعوت نہیں دی تھی بلکہ انھیں یہ بھی بتایا کہ انگریز سامراج کے خلاف ان کی جد و جہد تمام آزاد پسند اقوام کی جد و جہد کا ایک جزو ہے۔ اس طرح الہلال نے ہندستان کے مجاہدینِ آزادی کے ذہنی افق کو وسعت بخشی اور ان کے عزائم اور ارادوں کو پختگی دی۔

          پیغام

            مولانا نے23ستمبر 1921ء کو کلکتہ سے ’پیغام‘نامی ایک رسالہ جاری کیا تھا، جس کی ترتیب مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے سپرد کی گئی تھی۔ اس میںمولانا نے معرکہ آرا تحریریں شایع کی ہیں، لیکن دیگر ملکی و سیاسی ذمّے داریوں کے سبب وہ اس جانب کماحقہ توجہ نہیںدے سکے۔اسی سال 17 نومبر کو شہزادہ ’ویلز‘ہندستان آیا، جس کا ’پیغام‘نے بایکاٹ کیا اور بالآخر مولانا آزاد اور مرتب مولانا ملیح آبادی 9فروری 1922ء کو عدالتی فیصلے کے بعد جیل چلے گئے، اور  ’پیغام‘بند کر دیا گیا۔ اس کا آخری شمارہ 16دسمبر 1921ء کو شایع ہوا۔

            علاوہ ازیں روزنامہ اقدام، مخزن،ماہ نامہ ریویو، تحفہ احمدیہ، رسالہ محمدیہ اور ماہ نامہ الجامعہ(عربی) میں بھی مولانا نے صحافتی خدمات انجام دی ہیں۔مولانا کے نزدیک صحافت ترسیل و ابلاغ کے ساتھ رائے سازی و رہنمائی کا بھی وسیلہ تھا لیکن ان کی سیمابی طبیعت کسی ایک جگہ ٹھہر کر کام کرنے کا موقع نہ دیتی تھی۔

****

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here