والدین کو ان کی ضرورت سے کچھ زیادہ خرچ دینا

والدین کو ان کی ضرورت سے کچھ زیادہ خرچ دینا
ندیم احمد انصاری

بعض موقعوں پر بوڑھے والدین یا خاندان کے وہ بڑے جن کا نفقہ ان کے چھوٹوں پر محتاجی کی صورت میں واجب ہے، اگر وہ محتاج نہ ہوں، خود صاحبِ ثروت ہوں تب بھی وہ اپنی اولاد سے یا ان لوگوں سے جن پر بحالتِ حاجت نفقہ واجب ہوتا ہے، زیادہ سہولت کے لیے یا دوسرے لوگوں پر خرچ کرنے کے لیے یا کچھ رقم محفوظ کرنے کے لیے زائد رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، تو چوں کہ اسلام ہر معاملے میں اعتدال چاہتا ہے، اس لیے یہ پسند نہیں کیا گیا کہ والدین اس صورتِ حال میں اولاد وغیرہ سے مال کا مطالبہ کریں اور نہ ہی اولاد ان کی اس خواہش کی تکمیل نہ کرنے پر پر گنہ گار ہوگی۔ ان شاء اللہ

نفقے کے وجوب کے شرائط میں سے مندرجۂ ذیل امور بھی داخل ہیں ؛(۱)والدین فقیر یا تنگ دست ہوں، ان کے پاس خود کوئی مال یا ایسا کوئی ذریعہ نہ ہو جس کے باعث وہ دوسروں کے (ان پر) خرچ کرنے سے مستغنی ہو سکیں(۲) جس پر نفقہ واجب ہو رہا ہے، اس کے پاس اپنے نفس وغیرہ کے خرچ سے زائد مال ہو۔ویشترط لوجوب الانفاق ثلاث شروط: أحدہما؛ أن یکونوا فقراء، لا مال لہم۔۔۔ الثانی؛ أن یکون لمن تجب علیہ النفقۃ ما ینفق علیہم فاضلاً۔۔۔ الثالث؛ أن یکون المنفق وارثاً۔(المغنی، دار عالم الکتب، ریاض)

اس مسئلے کووضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے درجِ ذیل احادیث اور ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کریں:
ابو داؤد شریف میں ہے: عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا وَإِنَّ وَالِدِي يَحْتَاجُ مَالِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ.عمر بن شعیب اپنے والد سے اور وہ عمرو کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے پاس ایک آدمی حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسولﷺ میرے پاس مال و دولت بھی ہے اور میری اولاد بھی ہے، بے شک میرے والد میرے مال کے محتاج ہیں، حضورﷺ نے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے، تمھاری اولادیں تمھاری پاکیزہ ترین کمائی ہیں، اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔ (ابوداؤد)

ابن ماجہ شریف میں ہے: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أَبِي يُرِيدُ أَنْ يَجْتَاحَ مَالِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏ أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ.حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک مرد نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ میرا مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرا باپ چاہتا ہے کہ میرا تمام مال ہڑپ کر جائے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کے ہیں۔ (ابن ماجہ)

لیکن اس حدیث کا صحیح مطلب وہ نہیں جو الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے، بلکہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں اس کا صحیح مطلب وہ ہے، جو طبرانی کی روایت میں درجِ ذیل الفاظ میں وارد ہوا ہے: عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلٰی أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ فَقَالَ إِنَّ أَبِیْ یُرِیْدُ أَنْ یَّاخُذَ مَالِیْ کُلَّہٗ لِحَاجَۃٍ فَقَالَ لِأَبِیْہِ إِنَّمَا لَکَ مِنْ مَالِہٖ مَا یَکْفِیْکَ فَقَالَ یَا خَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺأَ لَیْسَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ص أَنْتَ وَمَالُکَ لأَبِیْکَ فَقَالَ نَعَمْ وَإِنَّمَا یَعْنِیْ بِذٰلِکَ النَّفَقَۃَ اِرْضَ بِمَا رَضِیَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔قیس بن ابی حازم رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک شخص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میرے والد اپنی کسی (غیر بنیادی) ضرورت سے میرا سارا مال لینا چاہتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر نے اس شخص کے والد سے فرمایا کہ تم بس اتنا لے سکتے ہو جو (تمھاری بنیادی ضرورتوں میں ) تمھارے لیے کافی ہو۔ اس نے پوچھا اے خلیفۂ رسول اللہ ﷺ کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی اور تمھارا مال بھی تمھارے والد کا ہے! حضرت ابوبکر نے فرمایا: ہاں (آپ نے یہ فرمایا ہے) لیکن اس سے آپ کی مراد ضروری خرچہ ہے، تو جس حکم پر اللہ عزو جل راضی ہیں تم بھی اس پر راضی ہو جائو!

اسی لیے حضرت فقیہ الامتؒ کا ارشاد ہے؛ اصل یہ ہے کہ ہر شخص اپنا خرچہ خود برداشت کرے، بعض اسباب کے ماتحت شریعت نے خاص صورتوں میں دوسروں پر نفقہ لازم کیا ہے، بیٹا اگر مال دار، صاحبِ وسعت ہو اور باپ حاجت مند، غریب ہو تو باپ کا نفقہ بیٹے پر واجب ہے۔(فتاویٰ محمودیہ جدید محقق)اور اولاد کا از خود والدین کی جائز خواہشات کا ہر ممکن خیال رکھنا اور انھیں ہدیے تحائف سے نوازنا ضرور نیکی قرار پائے گا۔ کما فی ’بر الوالدین‘:برہما بکل ما تصل الیہ یداہ، و تتسع لہ طاقتہ من أنواع البر والاحسان، کاطعام و کسوتھما، و علاج مریضہما، و دفع الأذی عنہما، و تقدیم النفس فدائً لہما۔(بر الوالدین)

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ بوڑھے والدین یا خاندان کے وہ بڑے جن کا نفقہ ان کے چھوٹوں پر محتاجی کی صورت میں واجب ہے، اگر وہ محتاج نہ ہوں، خود صاحبِ ثروت ہوں ، اس صورت میں ان کا اپنی اولاد سے یا ان لوگوں سے جن پر بحالتِ حاجت نفقہ واجب ہوتا ہے، زیادہ سہولت کے لیے یا دوسرے لوگوں پر خرچ کرنے کے لیے یا کچھ رقم محفوظ کرنے کے لیے زائد رقم کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں، اُنھیں اس سے گریز کرنا چاہیے۔ویسے بھی اس طرح کی خواہشات والدین کے دل میں تبھی موجزن ہوتی ہیں جب وہ اپنی ہمت سے بڑھ کر کسی کا تعاون کرنے کو اپنی سوچ کے مطابق کارِ ثواب یا ضروری سمجھنے لگتے ہیں، جب کہ اسلام انسان پر ایسی مشقت نہیں ڈالتا، جسے وہ برداشت نہ کر سکے۔ اس لیے اُنھیں بھی خود پر یا اپنے عزیزوں پر ایسی مشقت نہیں ڈالنی چاہیے۔ساتھ ہی اولاد کو اپنی ہمت کے موافق والدین کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر پیش کرنا چاہیے، اس لیے کہ وہ عموماً بے مصرف مال خرچ نہیں کرتے اور ہر ضرورت کے لیے اولاد سے کہنے سے بھی عام طور پر کتراتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here