پروفیسر یونس اگاسکر کی تازہ تصنیف’غالب: ایک بازدید‘ اورغالب فہمی

پروفیسر یونس اگاسکر کی تازہ تصنیف’غالب: ایک بازدید‘ اورغالب فہمی
ندیم احمد انصاری

’غالب:ایک بازدید‘ اردو کے معروف محقق، ناقد، مترجم اور مصنف پروفیسر یونس اگاسکر صاحب کے اشہب قلم کا ثمرہ ہے۔یہ کتاب غالب فہمی کے موضوع پر درجِ ذیل بارہ مضامین کا مجموعہ ہے:۝۱نظم طباطبائی کی شرح دیوانِ اردوے غالبؔ۝۲غالب کے بعض شعروں کی بازدید ۝۳کھلے گا کس طرح مضموں ترے ہر شعر کا غالب۝۴تیغ کے زخم کا طالب غالب۝۵پردۂ ساز کے پیچھے کیا ہے؟۝۶گلِ نغمہ اور تفہیمِ غالب۝۷راہ زن کا استعارہ اور تفہیمِ غالب۝۸رخشِ عمر اور تفہیمِ غالب۝۹خودداریِ ساحل اور تفہیمِ غالب۝۱۰بلبلیں کیوں سُن کے نالوں کو غزل خواں ہو گئیں؟۝۱۱مقدمۂ حالی اور غالب شناسی ۝۱۲تنقیدِ حالی اور غالب۔

یہ تمام مضامین غالب فہمی یا غالب شناسی میں کس درجے ممد و معاون ہیں، اس کا فیصلہ تو قارئین خود کریں گے، راقم الحروف صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہے کہ مصنف تشکیک کی راہ سے تحقیق کرتے ہوئے جو نتائج اخذ کرتے ہیں،ان سے پوری طرح متفق نہ ہونے والے کے لیے بھی ان کی عرق ریزی و خداداد صلاحیتوں کو داد دیے بغیر نہیں بنتی۔مصنف نے غالب کے اشعار کی تشریح خود اُنھی کے اشعار سے کرنے کی سعیِ بلیغ کی ہے۔ اس کے لیے وہ شارحین سابقین کے حوالے بھی پیش کرتے ہیں، جس میں تقدمِ زمانی کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ شعری روایات بھی ان کے پیشِ نظر رہتی ہیںاور لغات سے بھی استفادہ کرتے ہیں‘ جس کے نتیجےمیںایسی اچھوتی بات لکھ جاتے ہیں، جو دل کو چھوئے بغیر نہیں رہتی۔یہ جدید تصنیف نہ سابقین کا ردّ ہے اور نہ مکمل مداحی۔ اس میں سابقین سے اتفاق بھی کیا گیا ہے اور اختلاف بھی۔اور متعدد مقامات پر مصنف نے اپنی خلاقیِ ذہن کو بروے کار لاتے ہوئے غالب کے بعض شعروں کی بازدید میں ایسے عمدہ نکات پیش کیے ہیں، جن میں واقعی شرح کی ضرورت محسوس ہوتی ہےاور عام دماغ یاری نہیں کرتا۔اس سلسلے میں درجِ ذیل شعر اور اس کی تشریح ملاحظہ ہو؎

کفِ ہر خاکِ بہ گردوں شدہ، قمری پرواز
دامِ ہر کاغذِ آتش زدہ، طائوس شکار

اس شعر کی تشریح میں طباطبائی پر استدراک کرتے ہوئے مصنف تحریر فرماتے ہیں کہ در اصل شعر میں جلتے ہوئے کاغذ کی جگہ جلے ہوئے کاغذ کا مفہوم لیا جائے تو اس میں پیدا ہونے والے روشن نقطوں اور طائوس کے پروں جیسی چمک کو طائوس کا استعارہ سمجھنے میں کوئی اشکال نہیں رہ جاتا۔ پرانے زمانے میں لکھنے کے لیے جو روشنائی استعمال ہوتی تھی اس سے تحریر کردہ حروف کاغذ کے جلنے پر روشن اور نمایاں ہو جاتے تھے اور ان کی چمک بھی طائوسی ہوتی تھی۔ اس اعتبار سے جلے ہوئے کاغذ کے مشبّک ہوجانے اور اس میں طائوسی رنگ کی جھلک پیدا ہونے سے اسے دامِ طائوس شکار کہنا، انتہائی بلیغ استعارہ ہے۔

تیسرےمضمون میں مصنف نے غالب کے بعض شعروں کی تہوں کو کھولنے کے لیے تدقیق کی ضرورت پر توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ شعر میں اور خصوصیت سے غالب کے اشعار میں کہی کے ساتھ بہت سی باتیں اَن کہی ہوتی ہیں، اُن تک رسائی حاصل کیے بغیر کسی شعر کو سمجھنا ممکن نہیں، اور پورے مضمون میں اسی امر کے شواہد پیش کیے گئے ہیں کہ کہی کے ساتھ ان کہی پر توجہ نہ دینے سے معنی کیا سے کیا ہو جاتے ہیں۔

پانچویں مضمون میں ’پردۂ ساز‘ کی اصطلاح کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔اس بحث کو چھیڑنے کی ضرورت بقول اُن کے اس لیے پیش آئی کہ حالی ہوںکہ طباطبائی، بیخود دہلوی ہوںکہ بیخود موہانی یا حسرت موہانی ، یہ حضرات ’پردۂ ساز ‘ کی حقیقت سے تو واقف تھے مگر شعر کی تشریح کرتے وقت اس کی معنویت کو اجاگر کرنے سے قاصر رہے، جس کے سبب بیان کی بلاغت تک ہماری رسائی نہ ہوسکی اور اس اصطلاح سے ہماری واقفیت کی کمی ان اشعار کی تہہ تک پہنچنے میں مانع ہوئی جن میں یہ ترکیب یااصطلاح برتی گئی ہے۔اوروہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تاروں کے آلاتِ موسیقی میں آڑے لگے ہوئے پیتل کے ٹکڑوں یا آڑے تاروں کو جن پر موسیقار اپنی انگلیاں چلاکر مختلف راگ نکالتا ہے ،پردہ کہاجاتا ہے۔ہارمونیم میں یہ پردہ نہیں ہوتا۔

ساتویں مضمون میں غالب کے شعر میں موجود ’راہ زن‘ کی مراد معلوم کرنے کی کوشش کی ہے اور شارحین سابقین کی شرحوں میں تشنگی کی شکایت کے ساتھ استدراک کرتے ہوئے بڑی عمدہ باتیں زیرِ قلم آگئی ہیں۔ اول شعر ملاحظہ ہو؎

بھاگے تھے ہم بہت، سو اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پانو

مصنف لکھتے ہیں کہ دراصل ہو ایہ کہ راہ زن کی زد سے بچنے کے لیے متکلم بے تحاشا بھاگا۔راہ زن نے سمجھا’اس کے پاس بہت مال ہوگا‘اس لیے اس نے بھی جان توڑ کے پیچھا کیااور جب متکلم ہاتھ لگا تو پتا چلا کہ اس کے پاس تو مال وزر کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے۔ متکلم نے راہ زن کو بے وجہ اتنا دوڑایا کہ اس کے پیروں میں درد ہونے لگا۔تھکن بھی ہوئی اور مال بھی ہاتھ نہیں لگااس لیے سزا کے طور پر راہ زن نے متکلم کو بندی بنا یا اور پیر دابنے کا کام اس سے لینے لگا۔پھر اختتام کی طرف آتے ہوئے بلیغ انداز میں تحریر فرماتے ہیں:اس شعر میں ’راہ زن‘ کو فلکِ کج رفتار کی جگہ اگر دنیا کا استعارہ مانیں تو یہ مفہوم نکل سکتا ہے کہ دنیا سے جتنا بھاگیں ،دنیا اتنا ہی آپ کا پیچھا کرتی ہے اور ایک نہ ایک دن جب آپ اس کی گرفت میں آجاتے ہیں تو آپ کو بندی یا قیدی بناکے اپنی خدمت کراتی ہے۔ پیر دبوانانہایت حقیر اور ادنا قسم کی خدمت ہے۔اس اعتبار سے اس شعر میں دنیا کی ہوس میں گرفتار ہونے والوں کی تحقیر مقصود ہے۔

گیارہویں مضمون میں اول مولانا الطاف حسین حالی کے مقدمۂ شعر و شاعری میں بیان کردہ شاعر کے اوصاف پر غالب کے کھرا اترنے کو مثالوں سے ثابت کیا ہے۔اس کے بعد غالب کے غزلیہ اشعار پر حالی کی تنقیدپر تنقید کی ہے۔اور پھر غالب کی انفرادیت کو واضح کیا ہے۔

آخری مضمون کے ابتدائی حصے میں حالی اور ان کی تنقید پر تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے اور اس پر جامع تبصرہ کیا گیا ہے۔مصنف نے اس پر بھی زور دیا ہے کہ خواہ حالیؔ خود غالبؔ سے استفادے کے منکر ہوں، لیکن ان پر شیفتہ و سرسید کے بہ جاے غالبؔ کے اثرات غالب ہیں۔ آخر میں یہ ثابت کیا ہے کہ مقدمۂ شعر و شاعری میں حالیؔ نے از خودجو اصول و معیارات مقرر کیے تھے، غالبؔ کے لیے وہ جداگانہ معیارات اپنانے کے طرف دار ہیں۔جسے انھوں نے غالبؔ کی شخصیت اور فن کا کرشمہ مانا ہے۔

المختصر! کتاب اپنے موضوع پر نہایت عالمانہ و فاضلانہ ہے اور غالب شناسی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں غالب کے اشعار کے معانی کی پرتیں مزید کھل کر سامنے آئی ہیں۔مصنف نے بعض اشعار میں ان باتوں کی طرف خصوصی توجہ رکھی ہے، جن پر شارحین سابقین کماحقہ توجہ نہیں دے سکے۔اہلِ علم کی آرا سے نہایت سنجیدگی و متانت سے اختلاف درج کراتے ہوئے، ان کے ادب و احترام کو پورا لحاظ رکھ کر تحقیقی و تنقید کے میدان میں قدم رکھنے والوں کی رہنمائی کی گئی ہے،جوقابلِ تقلید ہے۔

(طویل مضمون سے ماخوذ )

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here