پندرہ شعبان کے بعد نفلی روزےرکھے جا سکتے یا نہیں؟

پندرہ شعبان کے بعد نفلی روزےرکھے جا سکتے یا نہیں؟
ندیم احمد انصاری

دورِ حاضر میں مسلمان فرائض تک میں جس سُستی و کاہلی کا شکار ہیں، اس سے کوئی دانا و بینا انکار نہیں کر سکتا۔اس لیے جب بھی وہ کسی نیک عمل کو کرنا چاہیں اور شریعت میں اس کی گنجائش موجود ہو،تو اس کی اجازت ضرور دی جانی چاہیے، اس امید کے ساتھ کہ یہ موسمی بخار اُنھیں رو بہ صحت لانے میں ممد و معاون ہوگا۔ لیکن یہ ضابطہ یاد رہنا چاہیے کہ کسی نفلی کام میں ایسی تعب و تکان کا شکار نہ ہرگز ہوا جائے، جو فرائض سے غفلت کا سبب بنے۔ اسی لیے فقہا نے تنہا جمعے کا نفلی روزا رکھنے اور حالتِ صوم میں بلاضرورت شدید مشقت والے کام انجام دینے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
خیر! اس وقت ہماری گفتگو پندرہ شعبان کے بعد نفلی روزہ رکھنے کے متعلق ہے۔ احباب نے سوال کیا کہ شعبان کے عظمت والے مہینے میں پندرہ شعبان کے بعدنفلی روزہ رکھنا کیسا ہے؟ جس کے جواب میں یہی کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو آدمی ان دنوں میں نفلی روزے رکھنے کے بعد بھی رمضان المبارک کے روزوں کو بشاشت کے ساتھ ادا کرنے پر قادر ہو، اس کے لیے اس کی گنجائش ہے،جو اس پر قادر نہ ہو ان کے لیے ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہوگا۔

حضورﷺکی ہدایت

حضرت ابو ہریرہ ؄سے روایت ہے:أن رسول اللہ ﷺقال:اذا انتصف شعبان فلا تصوموا۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب نصف شعبان ہو جائے تو روزہ نہ رکھو۔(ابو داود،ترمذی،شرح معانی الآثار) اِنھی حضرت ابوہریرہ ؄کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب نصف شعبان ہوجائے تو پھر رمضان آنے تک کوئی روزہ نہیں۔ ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:‏ إِذَا كَانَ النِّصْفُ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا صَوْمَ حَتَّى يَجِيءَ رَمَضَانُ. (ابن ماجہ)

حضورﷺکا معمول
ان روایات کے مطابق نصف شعبان کے بعد نفلی روزے رکھنا منع ہے،لیکن دیگر روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے اور کثرت کا مفہوم تب ہی صادق آئے گا جب کہ نصف سے زیادہ روزے رکھے جائیں،جیسا کہ کہا جاتا ہے للأکثر حکم الکل۔
حضرت عائشہ؅سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ روزہ رکھنے کے لیے شعبان کو بہت پسند فرماتے تھے، پھر آپ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے تھے۔ عَنْ عَائِشَةَ تَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ أَحَبَّ الشُّهُورِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَصُومَهُ شَعْبَان ثُمَّ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ. (ابوداؤد)حضرت عائشہ؅ ہی ایک روایت میں فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے رہتے تھے، یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ افطار نہیں کریں گے اور آپﷺ افطار کرتے تو ہم کہتے کہ آپ روزے نہیں رکھیں گے۔ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمضان کے مہینے کے علاوہ کسی اور ماہ میں پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی میں نے آپ ﷺ کو شعبان کے مہینے کے علاوہ کسی اور مہینے میں اتنی کثرت سے روزے رکھتے ہوئے دیکھا۔ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ؅ أَنَّهَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَصُومُ حَتَّی نَقُولَ لَا يُفْطِرُ وَيُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ لَا يَصُومُ، وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اسْتَکْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَکْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا فِي شَعْبَانَ۔(مسلم)

شعبان میں کثرتِ صوم کی وجوہات

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے مہینوں کے مقابلے میں شعبان میں حضرت نبی کریم ﷺ بکثرت روزے کیوں رکھتے تھے؟ اس کی مختلف وجوہات خود حضرت نبی کریمﷺ سے احادیث میںوارد ہوئی ہیں اور حضراتِ شراح نے بھی احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو بتلایا ہے۔ چناں چہ ایک وجہ تو اس کی یہ ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’اس مہینے میں ایک دن ایسا ہے، جس میں سال بھر کے اعمال اللہ کے دربار میں یعنی بندوں کے سال بھر کے اعمال دربارِ الٰہی میں پیش ہوتے ہیں‘۔ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ ’میرا جی چاہتا ہے کہ میرے اعمال جب اللہ کے دربار میں پیش ہوں، تو روزے کی حالت میں پیش ہوں۔ چوں کہ وہ دن شعبان کے مہینے میں ہوتا ہے، اس لیے حضرت نبی کریمﷺ شعبان کے مہینے میں بکثرت روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ایک دوسری وجہ یہ بھی آئی ہے کہ حضرت نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا کہ سال بھر میں جتنے لوگوں کی موت ہونے والی ہوتی ہے، ان کی جو فہرست ہے‘ وہ اسی شعبان کے مہینے میں تیار کی جاتی ہے کہ اس سال یہ یہ لوگ وفات پائیں گے۔ تو حضورﷺ فرماتے ہیں کہ وفات پانے والوں میں میرا نام درج کیا جائے، اس وقت میں روزہ کی حالت میں رہوں، اس لیے میں گویا بکثرت روزے رکھنے کا اہتمام کرتا ہوں۔یہ دو وجہیں حضرت نبی کریم ﷺ سے منقول ہیں اور دوسری وجوہات علما نے بتلائی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ دیکھیے حضرت نبی کریمﷺ کی عادتِ شریفہ ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کی تھی، لیکن کبھی ایسا ہوتا تھا کہ سال بھر میں سفر پیش آتا تھا۔ مدینہ منورہ ہجرت کے بعد کوئی سال ایسا نہیں گیا کہ آپ کو غزوات کی نسبت سے، جنگوں کی نسبت سے، سفر کی غرض سے، باہر نکلنے کی نوبت نہ آئی ہو۔ تو سفر کی وجہ سے وہ جو مہینے کے تین روزے ہیں، کبھی کبھی رکھ نہیں پاتے تھے، وہ سب جمع رہتے تھے۔ تو رمضان آوے اس سے پہلے پہلے حضرت نبی کریمﷺ اس سے نمٹ جاتے تھے۔ کبھی کوئی دو تین مہینے ایسے گذرے ہوں، جن میں وہ روزے نہ رکھ پائے ہوں، تو دس تو یوں ہی ہوجاتے ہیں۔ اور حضرت نبی کریم ﷺ کا ایک معمول پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے کا تھا۔ اب ہر ہفتے کے پیر اور جمعرات‘ گویا ہفتے کے دو یہ ہوئے۔ چار ہفتے کے آٹھ تو یہ ہوگئے، تو گویا وہ چھوٹے ہوئے دس اور یہ آٹھ۔ پھر اس مہینے کے اپنے جو تین ہیں، وہ۔ اس طرح پچیس کے قریب تو ہو ہی جاتے ہیں۔ اس طرح بڑا حصہ روزوں کا ہو جاتا ہے۔ اس لیے گویا حضرت نبی کریمﷺ اس مہینے میں بکثرت روزے رکھتے تھے۔ اسی لیے حضراتِ ازواجِ مطہراتؓ کے جو روزے باقی رہتے تھے‘ چوں کہ عورتوں کو حیض سے بھی واسطہ پڑتا ہے اور حیض کے زمانے میں روزے نہیں رکھ سکتیں، جن کی قضا بعد میں کرنی ہوتی ہے، تو وہ اس مہینے یعنی شعبان میں حضرت نبی کریمﷺ کے بکثرت روزے رکھنے کی وجہ سے اپنے بقایا روزوں کو پورا کر لیتی تھیں۔(افادات سیدی و مرشدی حضرت مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم)
رہا یہ مسئلہ کہ حضورﷺنے امت کو نصف شعبان کے بعد نفلی روزے رکھنے سے منع کیوں کیا؟ تو علما کے اس بابت مختلف اقوال ہیں:

(۱) بعض کا کہنا ہے کہ یہ حکم رمضان المبارک کی رعایت میں ہے ،تاکہ رمضان المبارک میں بشاشت باقی رہے۔أی لمعنی رمضان ورعایۃ رمضان،ہذا الحدیث فی حق من یصوم بعد نصف شعبان۔(العرف الشذی)

(۲)بعض کا کہنا ہے کہ یہ ’نہی‘مکروہِ تنزیہی ہے نہ کہ تحریمی۔قال القاری ؒفی المرقاۃ:والنھی للتنزیہ رحمۃ علی الأمۃ، الخ۔(تحفۃ الاحوذی)

(۳) بعض کا کہنا ہے کہ یہ ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جو کمزور ہوںیعنی جس شخص کو رمضان کے روزوں کے لیے کمزور پڑ جانے کا اندیشہ ہو اسے چاہیے کہ پندرہ شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھے۔اس لیے کہ فرض کا درجہ دیگر تمام عبادات سے بڑھا ہوا ہے۔ پندرہ شعبان کے بعدایسے کمزور شخص کے لیے نفلی روزے رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے۔وقال القاضی:القصو استجام من لا یقوی علی تتابع الصیام فا ستحب الافطار کما افطار عرفۃ لیتقوی علی الدعاء،فأما من قدر فلا نھی لہ۔(ایضاً)

(۴)بعض کا کہنا ہے کہ یہ ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے،جو لوگ نصف شعبان کے بعد خصوصی اہتمام سے روزے رکھتے ہوں،ہاں اگر یہ ان کے لیے معمول کے درجے میں ہو تو مضائقہ نہیں۔جیسا کہ امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:بعض اہل علم کے نزدیک اس حدیث کےمعنی یہ ہیں کہ کوئی شخص شعبان کے شروع پندرہ دن میں تو روزہ نہ رکھے اور جب نصف شعبان باقی رہ جائے تو رمضان کی خاطر روزے رکھنے شروع کر دے۔اس مفہوم سے ملتی جُلتی ایک روایت حضرت ابو ہریرہؓسے مروی ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’تم رمضان کے استقبال میں روزہ نہ رکھو ،مگر یہ کہ تم میں سے کوئی (معمول کے موافق ہمیشہ ہی ان دنوں میں) روزہ رکھتا ہو،تو اس کی روزے کے ساتھ موافقت ہو جائے۔یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ روزہ رکھنے کی ممانعت اس شخص کے لیے ہے جو عمداً رمضان المبارک کی خاطر ان دنوں میں روزے رکھے۔ومعنی ہذا الحدیث عند بعض اہل العلم أن یکون الرجل مفطرا،فاذا بقی من شعبان شیء أخذ فح الصوم لحال شہر رمضان ۔ وقد روی عن أبی ہریرۃ ، عن النبی ﷺ ما یشبہ قولہم حیث قال:(لا تقدموا شہر رمضانن بصیام الا أن یوافق ذلک صوماً ، کان یصومہ أحدک )وقد دل فی ہذا الحدیث انما الکراہیۃ علی من یتعمد الصیام لحال رمضان۔(ترمذی،کتاب الصوم ، باب ما جاء فی کراہیۃ الصوم فی النصف)

مختصر یہ کہ ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جن کو روزہ کمزور کرتا ہے۔ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ نصف شعبان کے بعد روزے مت رکھو، بلکہ کھاؤ پیو اور طاقت حاصل کرو، تاکہ رمضان کے روزے قوت کے ساتھ رکھ سکو اور رمضان میں خوب نمازیں پڑھ سکو اور عبادتیں کر سکو۔ اور نبیﷺ چوں کہ طاقت ور تھے اور امت میں سے جو اس کی طاقت رکھتے ہیں اور روزے ان کو کمزور نہیں کرتے، وہ بھی نصف شعبان کے بعد روزے رکھ سکتے ہیں۔ ممانعت صرف ان لوگوں کے لیے ہے، جن کو روزوں سے کمزوری لاحق ہوتی ہے۔ (تحفۃ الالمعی) یہ کراہت بھی غالباً شفقت للعباد ہے تاکہ شعبان کے آخری (دنوں میں) روزوں کی وجہ سے رمضان کے روزوں میں کسی قسم کے ضعف کا خطرہ باقی نہ رہے۔(درسِ ترمذی)
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here