کان میں پانی جانے یا عمداً کھانے پینے وغیرہ کے بعد روزے کا حکم

کان میں پانی جانے یا عمداً کھانے پینے وغیرہ کے بعد روزے کا حکم

روزے کی حالت میں کان میں پانی چلا جانا

ز اگر صائم حالتِ صیام میں کان میں پانی ڈالے تو اس کا روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟ اور نہ ٹوٹنا تو ظاہر ہے، شرح وقایہ کے حاشیہ میں لکھا ہے، لیکن ارادۃً ڈالے تو بعض جاہل لوگ روزہ ٹوٹ جائے گا بیان کرتے ہیں۔ تو برائے کرم روزہ ٹوٹنے کی علت واضح کیجیےاور نہیں ٹوٹتا تو بھی علت بیان کریں، تاکہ جاہلوں کاجہل دور ہوجائے۔

لروزےکی حالت میں کان میں پانی چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، لیکن اگر کوئی آدمی قصداً کان میں پانی داخل کرے تو روزے کے فساد اور عدمِ فساد میں دونوں قول ہیں، اس لیے قضا کرلینے میں احتیاط ہے۔أو دخل الماء في أذنه وإن کان بفعله علی المختار۔ (درالمختار) قال الشامی:(قوله: وإن کان بفعله) اختاره في الھدایة والتبیین وصححه في المحیط، وفي الولوالجیة: أنه المختار، فصل في الخانیة بأنه إن دخل لا یفسد، وإن ادخله یفسد في الصحیح؛ لأنه وصل إلی الجوف بفعله، فلا یعتبر فیه صلاح البدن، ومثله في البزازیة واستظھره في الفتح والبرھان شرنبلالیة ملخصا۔ (شامی۲/ ۱۰۷)

نسیاناً کھانے کے بعد عمداً کھانا یا جماع کرنا

زمسائلِ روزہ مکتبہ رضی ص:۵۹ پر لکھا ہے- مسئلہ جانتے ہوئے بھول کر کھانا کھانے کے بعد عمداً جماع کرنے کی صورت میں کفارہ بھی لازم ہوگا اور عمداً محض کھانا کھانے کی صورت میں صرف قضا ہے-دریافت یہ ہے کہ جب دونوں صورتوں میں عمداً ہےتو پھر دونوں صورتوں میں کفارہ ہونا چاہیے، ایک میں کفارہ اور ایک میں قضا کیوں؟

لصورتِ مسئولہ سے متعلق جو عبارتیں شامی، فتح القدیر وغیرہ میں ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں صورتوں میں (یعنی بھول کر کھالینے کے بعد جان بوجھ کر کھانے اور جان بوجھ کر جماع کرنے سے)صرف قضا ہی واجب ہوگی، کفارہ نہیں۔ وہ عبارتیں یہ ہیں:ومن أکل في رمضان ناسیا وظن أن ذلك یفطره، فأکل بعد ذلك متعمدا علیه القضاء دون الکفارة؛ لأن الاشتباه استند إلی القیاس، فتحقق الشبهة إلخ۔ (هدایه)(قوله ومن أکل في رمضان ناسیا)أو جامع ناسیا وظن أنه أفطر فأکل أو جامع عامدا، لا کفارة علیه. (فتح القدیر ۲؍۳۲۵)أکل أو جامع ناسیا، أو احتلم أو أنزل بنظر،أو ذرعه القيء، فظن أنه أفطر فأکل عمدا للشبهة، ولو علم عدم فطره لزمته الکفارة؛إلا في مسئلة المتن، فلاکفارة مطلقا علی المذهب، لشبهة خلاف مالك، خلافا لهما کما في المجمع وشروحه،فقید الظن إنما هو لبیان الاتفاق. (درمختار)(قوله إلا في مسئلة المتن)وهي مالو أکل وکذا لو جامع أو شرب؛ لأن علة عدم الکفارة خلاف مالك، وخلافه في الأکل والشرب والجماع کما في الزیلعي والهدایة وغیرهما. (شامي ۲؍۱۱)وإنما لم تجب الكفارة بإفطاره عمدا بعد أكله أو شربه أو جماعه ناسيا؛ لأنه ظن في موضع الاشتباه بالنظير وهو الأكل عمدا؛ لأن الأكل مضاد للصوم ساهيا أو عامدا، فأورث شبهة، وكذا فيه شبهة اختلاف العلماء؛ فإن مالكا يقول بفساد صوم من أكل ناسيا وأطلقه؛فشمل ما إذا علم بأنه لایفطره،بأن بلغه الحدیث أو الفتویٰ، أولا وهو قول أبي حنیفة، وهو الصحیح. (بحر الرائق ۲؍ ۳۱۵)٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here