Aap ﷺ ko dawat ka kaam apne logo se shuru karne ka hukm farmaya gaya

 

آپ ﷺ کو دعوت کا کام اپنے لوگوں سے شروع کر نے کا حکم فرمایا گیا

مولانا شاہد معین قاسمی

۱۹؍ویں پارے کی شروع کی آیتوں میں نہ ماننے والوں کی طرف سے فرشتوں کے اتارنے کا مطالبے اور اس کے جواب کا تذکرہ ہے جس میں یہ بیان ہے کہ قیامت کے روز فرشتوں کی آمد پر ایمان نہ لانے والے گھبر ائے ہوئے ہو ں گے ،آسمان بادل سے پھٹ جائیں گے ،اپنا نقصان کرنے والے لوگ اپنے برے دوستو ں کی بری دوستی پر مارے افسوس کے اپنے ہی دانتوں سے اپنے ہی ہاتھوں کو کا ٹ رہے ہوں گے اور یہ کہیں گے کہ کاش ہم رسول ﷺ کی صحبت اختیار کرلیتے اور ان دوستوں کی دوستی پر بہت ہی زیادہ غمگین ہوںگے جن کی وجہ سے وہ گمراہ ہوئے اور رسولﷺ یہ کہیں گے کہ میر ی قوم نے میر امذاق اڑایا ۔ اس میں خاص کر اس زمانے کے ہم مسلمانوں کے لیے بڑا سبق ہے کہ ہم بھی اللہ کے بے شمار احکام کو صرف اس لیے توڑ دیتے ہیں اور بہت سے گندے اخلاق اور انسانیت سوز رسم رواج کو اس لیے اپناتے ہیں کہ ہمارے دوست ہمیں اس پہ مجبور کرتے ہیں لیکن قرآن نے اعلان کردیا کہ ایسا کرنے والے قیامت کے دن اپنی اس دوستی پہ افسوس کریں گے اور مارے افسوس کے اپنے ہاتھوں کو خود اپنے ہی ہاتھوں سے کاٹ رہے ہوںگے لیکن اس افسوس سے اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہوگا!۔پھر آیت: ۳۲تا ۳۴؍تک قر آن کریم کے یکبارگی اتارے جانے کے سوال کا جو اب ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ تھوڑا تھوڑاکرکے اس لئے اتار اگیا کیوں کہ اس سے چیزیں ذہن میں رچ بس جاتی ہیں۔آیت:۳۵سے ۴۰؍ تک پچھلے انبیا :موسی ،ہارون،نوح،عاد اورثمود وغیرہم کا تذکرہ فرمایا اس کے بعد: ۴۱سے ۴۴؍تک اللہ تعالی نے اپنے لا ڈلے نبی کو مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں تسلی دی ہے۔آیت :۴۵ سے سور ت کے اخیر تک باری تعالی نے اپنی طاقت اور قدرت کی بے شمارے دلیلیں بیان فرمائی ہیں جن میں ایک دلیل یہ ہے کہ دوسمندر ایک ساتھ ہی چلتے ہیں ایک کا پانی خارہ ہوتا ہے اور دوسرے کا میٹھا لیکن دونوں میں سے کوئی بھی کسی سے نہیں ملتا اور ایک دوسری چیز یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالی نے محض اپنی قدرت سے خونی اور سسرالی رشتہ عطا فرما یا،جس سے رشتوں کی اہمیت اور خاندانی نظام کے بابرکت ہونے کا پتہ چلتا ہے کیوں کہ جو چیز اللہ کی قدرت کے طورپہ بیان کی جائے گی وہ یقینا بڑی اہم اور بابرکت ہو گی اور جس چیز پہ اللہ احسان جتلائیں گے وہ یقیناانسانوں کی بڑی ضرورت ہوگی اسلئے مسلمانوں اور قرآن پا ک سے محبت رکھنے والوں کو چاہئے کہ شادی او رنکاح کے ذریعہ رشتوں کو حا صل کریں اور دنیا میں ان کے مؤثر فروغ اور بقاء کے لئے اپنی تمام تر ممکن کوششیں کریں !اس کے ساتھ ہی نیک بندوں کی اچھی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا کہ رحمن کے بندے زمین پر بہت ہی وقار وسکون کے ساتھ چلتے ہیں،جب ان سے جاہل لوگ کچھ بکواس کرنا چاہتے ہیں تو بس انہیںسلام کرکے الگ ہوجاتے ہیں،راتوں کو نمازیں پڑھ تے ہیں،اپنے رب سے جہنم کے عذاب سے حفاظت کی دعا کرتے ہیں،فضول خرچی نہیں کرتے ،اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے ،ناحق کسی کاقتل نہیں کرتے اورزنا نہیں کرتے،اور ایک ضابطہ یہ بتلایا گیا کہ گنا ہ کے بعد انسانوں کو مایوس نہیں ہوناچاہیے بل کہ دل سے توبہ کر لینی چاہیے اور توبے کے بعد بھی یہ احساس رہنا چاہیے کہ ہم نے غلط کیا ہے اور دوسرے اچھے اعمال کرتے رہناچاہئے اگر ایسا ہوا تو پھر کئے ہو ئے گناہ کے بدلے ثواب ملنا شروع ہوجائیں گے ۔(لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر آدمی کو توبے اور توبے کے بعد نیک کام کرنے کی توفیق بھی مل جائے ضروری نہیں ہے اس لیے اصل یہ ہے کہ ہم ہر حال میںگناہوں سے بچنے کی کوششیں کریں اور اس کی توفیق مانگتے رہیں )نویں خوبی یہ بیان فرما ئی کہ یہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے،۱۰ویں یہ بیان فرمائی کہ یہ لوگ غیر ضرور ی باتوںسے شرافت کے ساتھ گذر جاتے ہیں،گیارہویں خوبی یہ بیان کی کہ جب انہیں اللہ کی نشانیوں کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بغیر سوچے سمجھے اس پہ اوندھے منھ نہیں گر جاتے بل کہ اس کی حقیقت میں غور کرتے اور ان کی سچائی کو سمجھ کر دل و جان سے انہیں قبول کرتے ہیںاوروہ لوگ اللہ تعالی سے اپنے لئے ایسی بیویوں اور اولاد کی دعا کرتے ہیں جو ان کے لئے آزمائش کا ذریعہ بننے کی بجائے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیںان کی وجہ سے انہیں چین وسکون میسر آئے ان کی ان گیارہ صفتوں کے بیان کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ یہ لوگ ہی اپنے صبر کے بدلے جنت میں جائیںگے ۔اتنی صفات گنوانے کے بعد اخیر میں یہ صاف فرماد یاگیا کہ انہیں جنت ان کے صبر کے بدلے ملے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ ان ساری خوبیوں کو اپنانے کے لئے صبر کی ضرورت پڑتی ہے اگر صبر کی صلاحیت نہیں ہوگی تو یہ خوبیا ں نہیںپید ا ہوں گی اس لئے ہمیں اپنے آپ کو صبر کا عادی اور خوگر بنانے کے لیئے ہر طرح کی قربانی دینی چاہئے۔
سورہ ٔ شعرا کے پہلے رکوع میں باری تعالی نے محسن انسانیت ﷺ کے بارے میں یہ فرمایا کہ انہیں لوگوں کے ایمان کی بہت فکر ہے یہاں تک جب لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ ﷺ اتنے پریشان ہوجاتے ہیں کہ جان نکلنے کی قریب ہوجاتی ہے۔پھر آپ ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ زبردستی مسلمان بنا نا ہوتا تو یہ ضرور مسلمان ہوجاتے لیکن زبردستی کا ایما ن اللہ کو پسند ہی نہیں اس لیے بس لوگوں کے سامنے اپنا پیغام رکھ کر فارغ ہوجایئے اب یہ ان کے اوپر ہے چاہے ایمان لائیں یا نہ لائیں۔آیت: ۱۱ سے ۵۱؍ تک حضر ت موسی ؑ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کا کچھ حصہ نویںاو ر سولہویں میںبیان ہوچکا ہے اس میں جو اضافہ ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت موسی سے اللہ تبارک وتعالی نے فرعون کے پاس جانے کا حکم فرمایا تو حضرت نے کہا فرعون کے لوگوں کے ساتھ میں نے ایک قصور کیا ہے جس کی وجہ سے یہ ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں وہ لو گ مجھے قتل نہ کردیں اللہ تبارک وتعالی نے کہا کہ میری حفاظت میں جاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں(حضرت موسیؑ کی اس معذرت اور اس کی علت بیانی سے یہ بات صاف طور پہ سمجھ میں آتی ہے کہ اگر ہمارا کوئی بڑا کوئی بھی ایسا حکم دے جسے کرنا مشکل یا خطرناک معلوم ہو رہا ہو یا اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہودکھتا ہو تو نہ تو بلاچوں چراں اسے قبول کرنا چاہئے اور نہ ہی بیک زبان ا س کے کرنے سے انکار کرنا چاہئے بل کہ انتہائی ادب واحترام کے ساتھ اس مشکل کو اپنے بڑے کے سامنے رکھدینا چاہئے ۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر بڑے کی نظر میں اس پریشانی کا کوئی حل ہوگا تو وہ پیش کردیا جائے گا یا ہوسکتا ہے کہ ہماری نظر میں جو فائدہ کم نظر آرہاہے وہ ان کی نظر میں بہت زیادہ ہو جسے وہ ہمیں سمجھا دیں اور ہم اس حکم کو کرکے اپنے بڑے کی خوشنودی بھی حاصل کرلیں اور اپنی ترقی بھی ) بہر حال! جب حضرت موسیؑ فرعون کے پاس پہنچے توفرعون نے وہی بکنا شروع کردیا کہ ہم نے ہی تمہاری پرورش کی تم ہمارے ہی گھر میں پلے بڑھے اور ایک لمبی مد ت تک میں نے تمہیں ناز ونعمت کے ساتھ اپنے یہاں رکھا لیکن تم نے اس کا بدلہ یہ دیا کہ تم ہمارے ایک آدمی کوقتل کر کے بھاگ نکلے ۔حضرت نے جواب دیا دیکھو میں نے جو کچھ بھی کیا وہ نبوت سے سرفراز ہونے سے پہلے کے زمانہ ٔجاہلیت میں اور پھر میں تم سے ڈرکر بھا گ گیا لیکن اب معاملہ دوسرا ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے نبی بنایا اور میں نبی کی حیثیت سے اللہ کاپیغام لیکر آیا ہوں اسے قبول کرو ۔اورسنو مجھ ایک آدمی پہ احسان کا بدلہ تم یہ لے رہے ہو کہ میری پوری قوم کو تم نے غلام بنارکھا ہے؟فرعون نے گستاخی کے انداز میں کہا تمہارا رب کیاہے ؟ جب حضر ت نے رب کی حقیقت بتلائی تو اس نے اپنے لوگوں کو متوجہ کرکے کہا تمہاری طرف بھیجا گیا یہ پیغمبر پاگل ہے اور حضرت ؑسے کہا اگر تم نے میر ے علاوہ کسی کو بھی رب مانا تو میں تمہیںقید کئے بغیر نہیں رہوں گاپھر حضرت موسی کے معجزے کو فرعون کی طرف سے جادو قرار دینا ،جادوگروں سے مقابلے میں حضرت کی جیت اور جادوگروں کے اسلام قبول کرنے پر فرعون کی دھمکی اور اس جواب کا باقی قصہ بیان کیا گیا ہے جوجادوگروں نے فرعون کو دیا۔ اور یہ سب نویں پارے میں تفصیل سے گذر چکاہے۔
فرعون ڈب گیا :آیت: ۵۲سے ۶۸ ؍تک فرعون او ر اس کی قوم کے دریامیں ڈوب جانے کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ جب ایک لمبی مدت تک فرعو ن اور ا س کی قوم میں دعوت کاکام کر نے کے بعد بھی یہ قوم اللہ کی نافرمانی اور بنی اسرئیل پہ زیادتی سے باز نہ آئی تو اللہ تبارک وتعالی نے حضرت موسی سے کہا آپ اپنی قوم کو لیکر راتوںرات نکل جائیں اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ آپ کا پیچھا کیا جائے گا حضرت موسی نے اللہ تعالی کے حکم پہ عمل کرتے ہوئے اپنی قوم کو لیکر رات و رات شہر سے نکل گئے جب صبح سویرے فرعون کو اس کی خبر ہوئی تو وہ بہت ہی نارض ہوا اور اپنے لوگوں کو حوصلہ دلایا کہ یہ تھوڑے سے لوگ ہیں ہم ان کو ضرور پکڑ لیں گے پھردوڑ پڑا ۔جب موسی کی قوم کے قریب پہنچ گیا اور موسیؑ کی قوم نے دیکھا کہ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ہم سے اتنا قریب ہوگیا ہے تو وہ چلا اٹھی کہ ہم تو بس اب فرعون کے ہاتھوں پکڑ لئے گئے حضرت موسی نے تسلی دی اور فرمایا میر ے رب میر ے ساتھ ہیں ۔پھر اللہ تعالی نے موسی سے فرما یا کہ آپ اپنی لاٹھی دریا پہ ماریںوہاں دریامیں راستہ بن جائے گا حضرت موسی نے دریا میںاپنی لاٹھی ماری تو دریا بارہ جگہوں سے پھٹ گیا اور بارہ راستے بن گئے پھر سب لوگ دریا پارکرگئے ۔اب دریا میں بنے راستوں کو دیکھ کر فرعون بھی اپنے لشکر کے ساتھ دریامیں آگیا حضرت موسی تو اپنی قوم کے ساتھ نکل گئے لیکن فرعون اپنی قوم کے ساتھ ڈوب گیا ۔ آیت :۶۹سے ۱۹۱؍تک حضرت ابراہیم ، حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، اور حضرت لوط ،اور حضرت شعیب علیہم السلام کے اپنی اپنی قوم کو دعوت دینے کا اجمالی تذکرہ ہے۔آیت :۱۹۲؍سے قرآن پاک کے بارے میں یہ بیان فرمایاگیاہے کہ اسے اللہ تبارک وتعالی نے اتارا ہے ،حضرت جبرئیل اسے لیکر آئے ہیںاوراس کا بیان پہلے کی کتابوں میں بھی ہے اور فرمایا کہ خود بنی اسرائیل کے علما بھی اسے جانتے ہیںتو کیا ان کے علما کا اسے جاننا اور ان میں سے بعض کا اس پہ ایمان لانا ان کے یقین کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟پھر فرمایا کہ اگر قر آن عر ب کے علاوہ کسی غیر عرب پہ اتا ردیا جاتا اور وہ اسے پڑھ کر سنا بھی دیتا پھر بھی یہ لوگ ایما ن لانے والے نہیں تھے۔اور جہاںتک شیطان کے اسے لیکر آنے کا تعلق ہے تو اس لئے صحیح نہیں ہے کہ یہ شیطان کے بس کا کام نہیںہے شیطان کوئی اچھا کا م نہیں کرتا اور نہ اس کی کسی نبی سے دوستی ہوتی ہے قرآن کر یم کا کام لوگوں کو اچھائیوں کی طرف بلاناہے لوگو ں کو جہنم سے جنت کی طرف لے جانا ہے اور شیطان کا کام لوگوں کو جہنم میں لے جانا اور دنیا میں تباہی پھیلا نا ہے ساتھ ہی آپ ﷺ کو دعوت کا کام اپنے لوگوں سے شروع کر نے کا حکم فرمایا گیا ہے اور نہ ماننے کی صورت میں پریشان ہونے کی بجائے ان سے براء ت ظاہر کرنے کو کہا گیا ہے ساتھ ہی مشرکوں سے یہ کہاگیاہے کہ ہم تم کو بتاتے ہیں کہ شیطان کس کے یہاں آتاہے شیطان تو جھوٹے اور دھوکہ دینے والوں کے پاس آتاہے وہ لوگ جو لوگو ں کو ان کے کا موں کے بارے میںغلط خبریں دیتے رہتے ہیں شیطان ایسے لوگوں کے پاس آتاہے اور آسمان کی باتیں جلدی سے سنکر آجاتا ہے اور اس میںکچھ ملا کر بتادیتاہے ۔ اسی طرح سورت کی آخری آیتوں میں یہ بتایاگیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے شعر کہنے والے شعراء کے علاوہ سب گمر اہ ہوتے ہیں اور وہ خیا لی پلاؤ پکاتے اور وہمی باتوں میں خود بھی الجھے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی الجھائے رہتے ہیں۔
سورہ ٔ نمل کی شروع کی چھ آیتوں میں قرآن کریم اور اس پے عمل کرنے والوں کی فضیلت کا بیان ہے ۔آیت: ۷سے ۱۴؍تک موسی کے سسرال سے واپسی پر راستے میں نبوت ملنے کا بیان ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسی اپنے سسر ال مدین سے اپنے گھر والوں کو لیکر مصر واپس آرہے تھے اسی دوران وہ راستہ بھول گئے جاڑے کی اندھیری رات تھی آپ ؑ نے دور سے طور پہاڑ پہ ایک آگ دیکھی اور گھروالوں سے کہا تم لوگ یہیں رہو میں وہا ںجا کر راستہ بھی معلوم کرلیتا ہو ں اور آگ بھی لے آتا ہوں تا کہ تم اپنی ڈھنڈی دور کرسکولیکن جب وہاں پہنچے تو اللہ تعالی نے آواز دی اور پھر وہیں انہیں باری تعالی سے گفتگو بھی ہوئی اور نبوت بھی ملی حضر ت موسی کے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ اس لاٹھی کو زمین پہ ڈال دیں جب انہوں نے ایسا کیاتو ان کی لاٹھی اچانک سانپ بن کر دوڑنے لگی اب حضر موسی اپنی لاٹھی سے ڈرنے لگے اور بھاگے تو پیچھے دیکھابھی نہیں اللہ تعالی نے آواز دی کہ ڈرنے کی بات نہیں ہے۔پھراللہ تعالی نے فرمایا اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈالئے وہ بہت ہی چمکدار نظر آئے گا۔اور نو معجزے دیکر فرمایا انہیں لیکر فرعون کے پاس جائیں۔
حضرت سلیمان کا تفصیلی واقعہ :آیت: ۱۵ سے ۴۴؍ میں حضرت سلیمان کا تفصیلی واقعہ بیان کیاگیا ہے جس کاخلاصہ ہے یہ کہ حضرت سلیمان کو داؤد کا وارث بنایاگیا تھا حضر ت سلیمان کو ہر جانور اور پرند کی بولیاں سکھلائی گئی تھیںآپ کو پوری دنیا پہ حکومت ملی تھی نہ صرف انسان بل کہ جنات جانور اور پرندسب آپ کے لشکر میں جمع ہوجاتے ۔ایک دن حضرت سلیمان اپنے لشکر کو لیکر جارہے تھے آپ چینوٹیوں کی آبادی کی طرف سے گزرے تو ایک چینوٹی نے یہ اعلا ن کیا کہ تما م چینوٹیوں کو اپنے بلوں میں گھس جانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہوکہ سلیمان کا لشکر تمہیں روند دے اس موقع پہ حضر ت سلیمان مسکرائے اور اپنی شان وشوکت پر نظر کرتے ہوئے اللہ تعالی سے شکر کی توفیق مانگی ۔حضر ت سلیمان کے لشکر میںایک ہد ہد پرندہ بھی تھا اس سفر میں وہ ایک مرتبہ غائب نظر آیا تو آپنے فرمایا کہ اگر ہد ہد اپنے غائب ہونے کی صحیح وجہ نہیں بتلائے گا تویا تو اسے قتل کردوں گا یا پھر دوسری کوئی سخت سزا دوںگا۔تھوڑی ہی دیر بعد ہدہد آیا اور اس نے آکر بتایا کہ میں آگے کا راستہ معلوم کرنے کے لئے گیا تھا اور مجھے قوم سبا کے بارے میں علم ہواہے میں نے ایک ایسی عورت کو ان پہ حکومت کرتے دیکھا جس سے ہر چیز سے نوازا گیاہے اور سا تھ ہی اس کا بہت بڑا تخت بھی ہے وہ اس کی قوم کے لوگ سب کے سب سورج کی پوچا کرتے ہیں حضر ت سلیمان نے ہدہدسے کہا کہ ابھی ہم تہاری بات پہ یقین نہیں کرسکتے تم میر اخط لیکر جاؤ اور اسے ان کے پاس ڈال کر ان سے الگ ہوجاؤاور دیکھو کہ وہ اس کاکیا جواب دیتے ہیں ۔ہد ہد نے ایسا ہی کیا اورخط ڈال کر الگ ہو گیا ملکہ نے اپنے لوگوں سے کہا کہ سلیمان کے پاس سے میر ے پاس ایک خط آیا ہے جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعدیہ لکھا ہو اکہ تم میرے مقابلے میںسرکشی نہ کرو اور مسلمان بنکر میرے پاس آجاؤ اب بتاؤ کے اس خط کاکیا جواب دیاجائے اور یہ میری عادت ہے کہ کوئی بھی فیصلہ تمہارے مشورے کے بعد ہی کرتی ہوںملکہ کے لوگوں نے کہا گھبرانے کی بات نہیں ہے ہم لوگ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ سلیمان کا مقابلہ کرسکیںلیکن بہر حال فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہے آپ جس طر ح کہیں ہم کرنے کے لئے تیا رہیںملکہ نے کہا دیکھو بادشاہوں کی تاریح یہی رہی ہے کہ وہ جب بھی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کردیتے ہیں اس کے با عزت لوگوں کوذلیل کردیتے ہیں اور ذلیل لوگوںکو عزت دیتے ہیں اس لئے اگر ہم لڑائی کرکے ہا رجاتے ہیں پھر تو وہ ہمار ابرا حال کریں گے اس لئے بہتر ہے کہ ان سے دوستانہ تعلقات کرلئے جائیں اس کے لئے میں ان کے پا س تحفہ بھیج کر دیکھتی ہوں کیا جواب دیتے ہیں لیکن جب ان کا آدمی ہدیہ لیکر پہنچا تو حضرت نے بہت سخت جواب دیا اور کہا کہ ہم تو بس حملہ کرکے وہاں کے با عزت لوگوں کو ذلیل کریںگے ۔پھر اس کے بعد اپنے درباریوں میں یہ اعلا ن کرادیا کہ کون شخص اس عورت کے تخت کو اٹھا کر لائے گا ؟ ایک مضبوط جنات نے کہامیںاس کا م کو کروںگا اور اتنی جلد لاؤں گا کہ آپ ابھی یہیں اپنی اسی مجلس میں ہوں گے ۔کتا ب کا علم رکھنے والے ایک شخص نے کہا کہ میں اس سے بھی پہلے لادوںگا اور آپ کے اپنی پلک چھپا نے سے پہلے پہلے وہ یہاں حاضرہوگا چناں چہ ایسا ہی ہوا اوہ تحت ان کے سامنے اتنی ہی جلدی آگیا یہ دیکھ کر حضرت سلیمان نے اللہ تعالی کا شکر یہ اداکیا اس کے بعد فرمایا کہ اس تخت میں کچھ تبدیلی پید ا کردو اور ملکہ سے پوچھو کہ وہی اس کا تخت ہے یادوسرا ؟ اور پھر دیکھو کہ وہ اسے پہچان پاتی ہے یا نہیں چناں چہ اس تبدیلی کے بعد بلقیس سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اسی جیسا معلوم ہوتا ہے جس سے ان کی ہوشیا ر ی کا پتہ چل گیا پھر حضر ت نے پا نی پہ ایک محل بنویا جس میں شیشے کا فرش بنوایا لیکن وہ فرش دیکھنے میں پانی ہی نظر آتا تھا پھران سے کہا گیا کہ تم اس محل میں داخل ہو (اور مقصد امتحان تھا کہ یہ سمجھ پاتی ہیں یا نہیںلیکن ہوا یہ کہ) بلقیس سمجھ نہیں سکیں اور اسے پانی سمجھ کر اس میں داخل ہونے کے لئے اپنی پنڈلیوں سے کپڑے ہٹا نے لگیں تو کہا کہ یہ محل پانی کے اوپر ہے اور اس کے اوپر شیشہ ہے اس لئے بھیگنے کاخطر نہیںہے لہذا پنڈلی مت کھولوا اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی خدائی طاقت کو دیکھ کر ا نہوں نے حضرت سلیمان کے دین کوقبول کرلیا اور ہمیشہ کے لئے اللہ کی عبادت میں لگ گئیں۔
اس کے بعد پارے کے اخیرتک حضرت صالحؑ اور حضرت لوط ؑ کابیان ہے کہ حضرت صالح نے جب اپنی قوم کو اللہ تعالی کی طرف بلایا تواس میں دو جماعتیں ہوگئیں اور نافرمانوں نے کہا کہ آپ جس عذاب کا وعدہ کرتے ہیں وہ آتا کیوں نہیں؟ حضرت ؑ نے نصیحت کی کہ عذاب کے مطالبے سے بہتر یہ ہے کہ اللہ کے احکام پہ چلاجائے جو غلطیاں ہوگئی ہیں ان کی اللہ تعالی سے معافی طلب کی جائے انہوں نے کہا کہ آپ اور آپ کی قوم کی وجہ سے ہم پریشانی ( آپسی نا اتفاقی یا قحط وغیرہ)کے شکار ہورہے ہیں آپ لوگ منحوس ہیں لیکن اللہ کے نبی ؑ نے جوا ب دیا کہ ایسا نہیں ہے بل کہ تمہارے گندے اعمال کی وجہ سے خود اللہ تعالی کی طرف سے ہی تمہیں یہ پریشانیاں جھیلنا پڑ رہی ہیں پھر ان لوگوں میں ۹؍لوگ خا ص تھے جو برائیوں کی جڑ تھے لوگوں کو ایمان سے روکنے میں پیش پیش رہتے تھے ان کا کا م صرف لوگوں میںفتنہ و فساد پھیلاناتھا انہیں لوگوں نے حضرت صالح کی اونٹی کو بھی مار ڈالاتھا اور اس کا عذاب نہیںآیاتو اور ہمت بڑھ گئی اور اب تو ان لوگو ں نے خود حضرت صالحؑ کے قتل کی ہی سازش کرلی! اور آپس میں یہ مشورہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ قسمیںلیں کہ رات میں ہم سب مل کر ان کے گھر پہ حملہ کریں گے اور انہیں قتل کردیں گے پھر صبح کو ان کے ورثہ اور ان کے گھر والوں سے مل کر ان کے قتل پہ افسوس بھی ظاہرکردیں اور یہ کہکر نکل جائیں گے کہ ہم تو اس موقع پہ تھے بھی نہیں بھلا اس میں ہمارا کیسے ہاتھ ہوسکتاہے؟ لیکن ان کی یہ تدبیر دھری کی دھری رہ گئی اور اللہ تعالی نے ایک چٹان ان پہ گرادی جس سے ان سب کے بھیجے نکل گئے اور ان کا قصہ ہی ختم ہوگیا اور ساتھ ہی ان کی جماعت کے دوسرے لوگ بھی ہلاک کردیئے گئے اور حضرت صالح کو ماننے والے لو گ محفوظ رہے۔ حضرت لوطؑ کے بارے میں یہ فرمایاگیاہے کہ جب حضرت لوط ؑ نے اپنی قوم کو ہم جنس پرستی کی لعنت سے نکلنے کی نصیحت فرما ئی تو اس نے کہنا شروع کیا کہ یہ بڑے پاکدامن بنتے ہیں جیسے انہیں تقوی کا حیضہ ہوگیاہو پھر اللہ تبارک وتعالی نے اس قوم کو ہلاک کیا جس کا تذکر ہ بارہویں اور چو دہویں پارے میں تفصیل سے ہوچکاہے ۔اخیر میںپیارے نبی محمد ﷺ سے یہ کہا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالی کی تعریف بیان کریں اوراللہ کے نیک بندوں یعنی ان کے انبیاء اور رسولوں پہ سلام بھیجیں۔��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here