Dunya ki har cheez Allah ki tasbeeh bayan karti hai lekin insaan use samajh nahi paate

دنیا کی ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن انسان اسے سمجھ نہیں پاتے

مولانا شاہد معین قاسمی

پندرہویں پارے کی سب سے پہلی آیت میں نبی ﷺکی معراج کے مبارک واقعے کا بیان ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ رات کو آپﷺ کو مسجد حرام سے مسجد اقصی لے جایا گیا معراج کے واقعے کی پوری تفصیل حدیث کی کتابوں میں موجو دہے ۔پھر سورہ ٔ بنی اسرائیل کی آیت: ۲،۳؍ میں حضرت موسیؑ کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ انہیں کتاب یعنی توریت دی گئی جسے یہویوں کے لئے ہد ایت کا ذریعہ بنایا اور یہودیوں پے کئی طرح کے احسانات کو بیان کرکے انہیں ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے پھر آیت :۸؍تک اس بات کا بیا ن ہے کہ یہودیوں کو خود تورات میں خبر دیدی گئی تھی کہ تم (شام کی) زمین میں دومرتبہ فسا د مچاؤگے اس کے نتیجے میں پہلی مرتبہ بھی میرے بندے تم پہ مسلط کردئیے جائیںگے جو تمہیں تمہارے ظلم کی سزا دیں گے تمہارے گھروں میں گھس کر تباہی مچائیںگے چناں چہ ان کی پہلی شرارت کے نتیجے میں بخت نصر بادشاہ ان پہ مسلط ہوااور بڑی تباہی مچائی اور عیسائی بادشاہ ططوس بن اسیسیسانوس رومی اور اس کے پیرو کا ر نے یہودیوں کی دشمنی میں بخت نصر باد شاہ کی مددکی اور سب نے مل کر یہودیوں کو خوب قتل کیا ،ان کے بڑے بڑے سواروں کو گرفتار کرلیا ،تورات کو جلادیا اور بیت المقدس کو اجاڑڈالایہی نہیں بل کہ اس میں خنزیر ذبح کئے اورسڑی ہوئیں لاشیں بھی ڈالدیں کچھ دنوں ٹھیک رہنے کے بعد بھی انہوں نے شرارت شروع کردی تو پھر ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوا اور ان کے دشمنوں نے پھر ان کی حالت خراب کی اور اب فرمایاجارہاہے کہ اگر اب بھی اپنی عادت سے باز آکر نبی ٔ آخر الز ما ں ﷺ کو مان لوتواللہ تعالی کی رحمت تمہارے ساتھ ہو گی ورنہ تو پھر انجام پہلے ہی جیسا ہوگا ۔آیت :۱۰؍ سے ۱۲؍ تک قر آن کریم کے بارے میں یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ سب سے درست راستے کی طرف لوگو ں کو لے جاتاہے ایک طرف نیک کام کرنے والوں کو بڑے ثواب کی خوشخبری سناتاہے تو دوسری طرف اللہ پے ایمان نہ لانے والوں کو دردناک عذ ا ب کی وعیدبھی اور پھر فر مایا گیا ہے کہ انسان کبھی جلدبازی میں اپنے نقصان کی چیزیں ہی اللہ تعالی سے مانگنے لگتا ہے حالانکہ اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ اللہ تبارک وتعالی نے ہر رات کے پیچھے دن بنا یاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پریشانی کے بعد آسانی ہوتی ہے سا تھ ہی رات ودن دونوں کو الگ الگ بنانے کی ایک اور حکمت یہ بھی بیان کی کہ رات ودن دونوں کے الگ الگ بنانے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ رات میں انسان آرم کرتا اور دن میںاللہ کا عطا کیاہو ا رز ق تلاش کر کے حاصل کرتا ہے اور ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بدلتے رہنے سے دنوں ،ہفتو ں،مہینوںاور سالوں کا حساب معلوم ہوتا ہے اگر رات ہی رات ہوتی یا دن ہی دن ہوتا تو یہ سب کچھ بھی معلوم نہ ہو تااور کافی پریشانیاں اٹھانا پڑتیں۔آیت: ۱۳،۱۴؍ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہر انسان کو اس کا نامہ ٔ اعمال دیدیا جائے گاجب کہ آیت :۱۵،۱۶،۱۷؍ میں یہ بتلا یا گیا کہ جو لوگ بھی ہدایت قبول کرتے ہیں اس سے خو د ان کا ہی فائدہ ہوتا ہے وہ اللہ یا نبی پہ کوئی احسان نہیں کرتے اور قیامت کے روز ایسا نہیں ہوگا کہ کسی گنا ہ کی سزا کسی دوسرے کو ہو جائے یا کوئی دوسرا اپنے اوپر لے لے اور ایک ضابطہ بھی بیان فرمادیا کہ جب تک ہم کسی قوم میں نبی نہیں بھیجتے اس وقت تک اس میں عذاب بھی نہیںبھیجتے ۔کسی بھی بستی کے رہنے والے متکبر لوگوں کو پہلے اللہ کے دین پر چلنے کی دعوت دی جاتی ہے لیکن جب وہ اس میں نافرمانی ہی کرتے ہیں تو پھرعذاب آتا ہے اور ہم نے نوحؑ کے بعد کتنی قوموں کو ہلا ک کیاجن کے برے اعما ل کو ہم خود جانتے تھے اور ہمار ا جاننا ہی کا فی ہے کو ئی ہم سے زیادہ جان بھی نہیںسکتا کہ ہم اس کی تصدیق دوسروںسے کریں۔آیت :۱۹سے ۲۱؍تک اللہ تبارک وتعالی یہ ضابطہ بتلارہے ہیں کہ صرف دنیا چاہنے والوں میں سے میں ہر ایک کودنیابھی نہیںدیتا بل کہ جس کو چاہتا ہوں اسی کو دیتا ہوں اور جس کو جتنا چاہتا ہو ں اتنی ہی دیتا ہوں لیکن وہ آخرت میں پریشانیوں میں گھر جاتا ہے اور جہنم میں چلاجاتاہے اس کے برخلاف دین چاہنے والے کی ہر کوشش قبول ہوتی ہے چاہے اس کی شکل کوئی بھی ہو میں جس کو جتنا چا ہوں دیدوں کو ئی مجھے اس سے رو ک نہیں سکتا میر ا یہ ضابطہ دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی۔آیت :۳۰؍ میںیہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو معبود بنانا ایسا کرنے والے کی تباہی اور ذلت کا ذریعہ ہے ،اسی لئے صرف اللہ تعالی کی ہی عبادت کی جائے اور ساتھ ہی ماںباپ سمیت تما م رشتہ داروں اور حقداروں کا حق اداکیا جائے ،ماں باپ کے تعلق سے ایک خاص بات یہ بیان فرمائی کہ اللہ کو ناراض کرنے والے حکم کے علاوہ ان کے ہر حکم کو ماننا ہے او ر اگر ان کا کوئی حکم دین ودنیا کے لحاظ سے نقصاند ہ معلوم ہورہا ہو تو اس کے انکار میں بھی نہ تو زبا ن اور لہجہ سخت ہونا چاہئے اور نہ کوئی ایسا لفظ زبان پے آنا چاہئے جس سے انہیں ذرا بھی تکلیف ہو بل کہ ہمیشہ اد ب کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کو شش کی جائے،ہر گز ہرگز کسی کی آواز ماں پاب کی آواز سے اونچی نہیں ہونی چاہئے اور چو ں کہ ایک انسان اپنے ماں باپ کے احسانات کا اندازہ نہیںلگا سکتا اس لئے بس اللہ تعالی سے یہ کہکر دعا کر ے کہ اے اللہ جو احسانا ت ان کے ہیں آپ ہی جانتے ہیںمیں کہاں اندازہ لگا سکتا بس ان کا بدلہ انہیںعطا فرمائیے اور ان کے ساتھ اسی طر ح سے رحمت وشفقت کا معاملہ فرمائیں جس طرح سے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ہے یہ بھی فرمایا کہ رشتہ داروں کی مدد اور ان کے حق کی دائیگی میں قریب ترین کی ترتیب ہونی چاہئے اور ضرورت مندوں کے بارے میں جو ایک اہم بات ذکر کی گئی ہے وہ یہ کہ اگر ان کی مدد نہ ہوسکے تو انکارکرنے میں بھی انداز ایسا اپنا یا جائے جس سے ان کو یہ لگے کہ یہ آدمی دل سے مجھے دینا چاہرہاتھا لیکن یہ مجبور ہے مگر اس نے مال سے بڑی چیز عزت ضروردی ۔ساتھ ہی حقداروں کے حق کی ادائیگی اور غریبوں کے تعاون کی صلاحیت پیداکرنے اور اپنے آپ کو اس لائق بنانے کے لئے اللہ تبارک وتعالی نے بڑاہی مبار ک اور سوفی صد کامیاب طریقہ یہ بتلایا کہ اپنے مال ودولت اور پیسوں کو خود اپنے اوپر،حقداروں یا غریبوں پر خرچ کرنے میں خیا ل رکھو کہ ضرور ت سے زیا دہ خرچ نہ ہونے پائے اگر کہیں بھی ضرورت سے زیا دہ خرچ کیا گیا تو دوسری جگہ خرچ کرنے کے لائق نہیں رہوگے ۔اسی کا نام فضول خرچی سے بچنا ہے ۔آیت :۳۹؍ تک پہلی با ت تو یہ بتلائی گئی کہ انسان کو زنا جیسی مہلک بیمار ی میں مبتلا ہونے کے لئے ضرور ی ہے کہ وہ ہر اس عمل سے بچے جو زنا کی طر ف لے جاسکتاہوکیوں کہ زنا کے ذریعے ایک انسان زندگی سے فائدہ اور لذت حاصل کرنے کے غلط طریقے پہ چل کر دنیا میں ہی زندگی کے اصل لطف اور حقیقی مزے سے محروم ہوجاتاہے،ناحق قتل نہ کیا جائے ،جب تک یتم بڑے نہ ہوجائیں ان کے مال کو اپنے پا س رکھا جائے اور اسے ان کے فائدے کے کام میں لگایا جائے،وعدوں کوپورا کیاجائے ،ناپ تول میںکمی نہ کی جائے ،کسی بھی ایسے معاملے میں نہ پڑاجائے جس کا یقین کے ساتھ علم نہ ہو،زمین پہ اکڑکر نہ چلاجائے ۔ یہ سب سمجھداری کی چیزیں ہیں اور اس کے برخلاف نا سمجھی ہے۔آیت :۴۰ سے ۵۲؍تک اللہ تبارک وتعالی نے توحید کی کچھ دلیلیں بیان فرمائی ہیںاورایک خاص بات یہ بیا ن فرمائی کہ دنیا کی ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن انسان اسے سمجھ نہیں پاتے ساتھ ہی قیامت اور حساب وکتا ب کا بھی تذکرہ ہے۔ اس کے بعد سورت کے اخیر تک مختلف طریقوں سے ایمان کی ا ہمیت بیان کرتے ہوئے قرآن کریم اور آقا ﷺ پرہوئے چند سوالات کا بے معنی ہونا بیان فرمایا جس میں قر آن کی بڑائی اور اس کا معجزہ ہونا بتلاتے ہوئے یہ بھی بیان فرمایا کہ نہ صرف انسان بل کہ انسانوں کے ساتھ دنیا کے سارے جنات مل کر بھی قر آن جیسی کوئی کتا ب لانا چاہیں تو نہیںلاسکتے اور یہ بتلاتے ہوئے کہ شیطان گانے بجانے کے ذریعے انسانوں کو تبا ہ کرتاہے آپ ﷺ کی ایک فضیلت کا بھی تذ کرہ فرمایا کہ آپ ﷺ کو مقام محمود ملے گا جو آپ کے لئے خاص ہے آپ ﷺ سب سے پہلے وہ انسان ہوں گے جو قیا مت میںحساب وکتا ب کی شروعات کے لئے اللہ تعالی سے سفارش کریں گے…۔
سورہ ٔ کہف:اس سور ت کے مطالعے سے پہلے یہ جان لینا دلچسپ ہوگا کہ قریش مکہ نے اس وقت جب کہ آپ ﷺ ابھی مدینے تشریف نہیں لا ئے تھے یعنی ہجرت سے پہلے اپنے لوگوں کودمدینے میں یہودی علماء کے پا س بھیجا چناں چہ یہ لوگ مدینے پہنچے اور یہاں یہود ی علما سے مل کر ان سے آپ ﷺ کے بارے میں تفصیلات بتائیں اور کہا کہ تمہارے پاس تورات ہے ہم تمہارے پاس اس لیے آئے ہیں کہ تم ہمیں اس شخص کے بارے میں کچھ بتاؤ۔ان یہوی علما نے کہا کہ تم جاکر ان سے تین سوالات کرو اگر وہ تینوں کے جوابا ت دیدیں تو وہ سچے ہیں ورنہ جھو ٹے پہلا سوال تو ان سے یہ پوچھو کہ پہلے زمانے میں کچھ نوجوان اپنے عقیدہ ٔ توحید کو بچانے کی غرض سے اپنے شہر کو چھوڑ کر نکل گئے تھے ان کا واقعہ کیا ہے ؟دوسرا سوال ان سے اس شخص کے بارے میں پوچھو جو پوری دنیا میں گھوماتھا اور تیسرا سوال روح کے بارے میں پوچھو ۔یہ لوگ مدینے پہنچ کر نبی ﷺ سے آپ سولات کیے تو آپ ﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے ان کے جوابات کل مل جائیں گے لیکن اتفاق سے اس موقع پہ آپ انشاء اللہ کہنا بھول گئے آپ نے یہ سمجھا کہ جبرئیل ؑتو آتے ہی رہتے ہیں حسب ِمعمول آج بھی آئیںگے میں ان سے ان سوالوں کے جوابات معلوم کرلوںگا لیکن ہوا کہ اگلے پندر ہ دنوں تک جبرئیل ؑ تشریف نہیں لائے ۔اب کیا تھا! ان اہل مکہ کو آپ ﷺ کا مذاق اڑانے کا بڑا موقع ہاتھ آگیا! اور کہنے لگے دیکھو !کل کا وعدہ تھا اور اب پندرہ دن گزرگئے لیکن اب تک کوئی جواب نہ ملا ۔ ایک تو وحی کا اچانک پندرہ دنوں تک نہ آنا اور دوسرے ان مکہ والوں کا آپس میں خوش ہوکر مذاق اڑانا دونوں کے مجموعے سے آپ بڑے غمگین ہوئے پھر حضرت جبرئیل سورہ ٔ کہف لیکر تشریف لائے۔ اس کی شروع کی آیات میں اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا کہ اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے اور آقا ﷺ کے بارے میں بتلایا کہ آپ ﷺکو انسانوں کی آخرت کی بھلائی کی اتنی زیادہ فکر تھی کہ ایمان قبول نہ کرنے والوں کی فکر میںجان دیدینے کی حدتک تکلیف محسوس کرنے لگتے تھے۔
پھر اصحاب کہف کا قصہ بیان کیا گیاہے جس کا خلا صہ کچھ اس طرح ہے کہ یہ سات لوگ تھے (ابن کثیر عن ابن جریر عن ابن عباس وبیان القرآن عنہ عن الدر المنثور عن ابی حاتم وغیرہ)یہ جس قوم میں یہ رہتے تھے اس کا بادشاہ خود بھی بت پرست تھا اور دوسروں کو بھی بت پرستی پہ مجبورکرتھا ایک دن کا واقعہ ہے کہ یہ لوگ اپنی قومی عید منانے کے لیے گئے جس میں وہی بت پرستی ہوتی تھی قوم اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ یہ لوگ بھی نکلے لیکن وہاں کھلم کھلا بت پرستی کے کاموں سے بیزار ہوکر ایک ایک کرکے وہاں سے الگ ہونے لگے اور اتفاق سے سب ایک ہی جگہ آکر بیٹھے اور پھر ایک دوسرے سے معلوم کیا کہ قوم کی اس مجلس سے نکلنے کی وجہ کیا ہوئی تو جب ایک نے ہمت کرکے یہ وجہ بتلائی کہ بھائی یہ بت پرستی کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے اس لیے میں اس سے الگ ہوگیا تو سب نے کہا ہمارے الگ ہونے کی وجہ بھی یہ ہی ہے پھر انہوں نے اپنے لیے ایک الگ عبادت خانہ بنایا اور وہیں عبادت کرتے تھے لیکن بعدمیں لوگوں کے ذریعے بادشاہ کو ان کے عقیدے کا علم ہوگیا اور اس نے انہیں اپنے پاس بلواکر ان سے جواب طلب کیا اور انہوں نے بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوکر پوری قوت سے یہ بیان کیا کہ ہاں ہم بت پرستی سے بیزار ہیں اور ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں اورکریںگے ساتھ ہی اس کے غلط ہونے کو بیان کر تے ہوئے یہ کہا کہ ہماری قوم گمراہ ہے اور بت پرستی کرکے اللہ کے خلاف جھوٹا الزام لگایاجارہاہے اس طرح پوری قوم سمیت خود بت پرستی پہ مجبور کرنے والے بادشاہ کو بھی ایک خداکی عبادت کی دعوت دیدی لیکن بادشاہ نے ان کی بات قبول کرنے کی بجائے انہیں ڈانٹاا ور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ان کے کپڑے اتار لیے جائیںاور اگر پھر بھی اپنے عقیدے سے باز نہیں آتے تو میں سخت عذاب دوںگا اور کہا جاؤ کچھ دنوں کی مہلت ہے اس کے بعد تم سے پھر پوچھا جائے گا ۔ لیکن یہ مہلت بھی ان حضرات کے لیے رحمت ثابت ہوئی اور سبہوں نے تجویز رکھی کہ اب شہر سے نکل جاناچاہیے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اللہ تعالی ہمارے ساتھ رحمت وعافیت کا معاملہ فرمائیں گے اور ہماری زندگی کی ضروریات بھی پوری فرمادیںگے ۔اس غار میںداخل ہونے کے بعد یہ ہوا کہ یہ لوگ اس کے اند رایک کشادہ جگہ میںپہنچ کرلیٹ گئے اور اللہ تعالی نے انہیں آرام کی نیند سولا دیا جہاں روزانہ سورج پورب سے نکل کر پچھم میں ڈوب جاتا لیکن اس کی دھوپ ان لوگوں پہ نہیںپڑتی جب سورج نکل کر چڑھتا اور دھوپ پھیلتی تو غار کی داہنی جانب سے اس طرح ہٹی ہوئی رہ جاتی کہ اس کے دروازے تک نہ پہنچتی اور جب سورج چھپنے لگتا تواس وقت جو تھوڑی بہت دھوپ ہوتی وہ غار کی بائیں جانب رہ جاتی اور اسو قت بھی دروازے پر نہ پڑتی تھی ا للہ تعالی نے اس انتظام کو اپنی قدرت کے طورپہ بیان فرمایا۔دیکھنے والا انہیں جگاہوا سمجھتا لیکن وہ سورہے تھے اور اللہ تبارک وتعالی ان کی کروٹیں بدل دیتے تھے ان کے ساتھ جو کتا چلاگیا تھاوہ چوکھٹ پے اپنے ہاتھ بچھائے ہوئے تھایہ لوگ تین سو نوسالوں تک سونے کے بعد جگے تو ان میں کے ایک نے پوچھا کہ ہم کتنے دنوں تک اس غار میں رہے ؟انہوں نے کہا کہ ایک یا آدھے دن رہے پھر کہا کہ اللہ ہی تعالی کو صحیح معلوم ہے کہ کتنے سالوں رہے پھر انہوں نے مشورہ کر کے ایک آدمی کو شہر میں کھانا خریدنے کے لئے بھیجا اور کہا بھئی دوچیزوں کا خیال رکھنا ایک تو کھانا اچھا خریدنا اور دوسرے یہ کہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ تم غار سے آئے ہوکیوں کہ اگر ان کو معلوم ہوگیا اور وہ یہاں آکر ہم پے غالب ہوگئے تویاتو سنگسار کردیںگے یا پھر اپنے مذہب میں واپس لے جائیںگے ۔اللہ تبارک وتعالی فرمارہے ہیں کہ ہم نے اصحاب کہف کے بارے میں ان لوگوں کواس لیے بتلایا تاکہ یہ لو گ یہ جان لیں کہ اللہ تبارک وتعالی مرنے کے بعد زندہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیںاور قیامت بہر حال آئے گی۔ لوگوں کو ان کی اطلا ع اس طرح ملی کہ کھانا خریدنے والے اس شخص نے کھانے کے بدلے جو پیسے دیئے وہ تین سوسال پرانے تھے دکاندار نے کہا یہ پیسے تمہیں کہاں سے ملے ؟ ایک نے دسرے کو بتایا کہ اس آدمی کو اتنے پورانے پیسے کہاں سے ملے؟ضرور اسے پورانے زمانے کا کوئی خزانہ ہاتھ آیا ہے اس نے کہا بھائی میں تو کل ہی اس شہر کو چھوڑ گیا تھا میںاسی شہر کا رہنے والاہوں لوگوں نے اسے پاگل سمجھ کر اس وقت کی حکومت کے حوالے کردیابادشاہ کو اسنے سارا واقعہ بتلا دیا پھر یہ باد شاہ اپنے لوگوں کے ساتھ آیا اور ایک قول کے مطابق یہ لوگ بادشاہ سے ملے بھی اور سلام کلام کے بعد جا کر سو گئے۔ پھر اللہ تعالی نے انہیں موت دیدی اللہ تعالی نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ان لوگوں نے ان کی قبروں کے بارے میں باہمی اختلاف بھی کیا کہ ان کو کیسے رکھنا چاہیے تاکہ ان کی لاشوں کی حفاظت ہوسکے الگ الگ مشورے آئے عمارت بنانے کی اور مسجد بنانے کی بھی لیکن اس وقت کی حکومت کا کہنا تھا کہ ہم مسجد بنادیںگے۔
اس کے بعد بھی پارے کے اخیر تک آخرت کے تذکرے کے ساتھ مختلف قدرتوں اور کرشموں کابیان فرماتے ہوئے چند واقعات بیان فرمائے جن میں ایک واقعہ آیت :۳۲سے ۴۴؍میں بیان فرمایا ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ ایک زمانے مین دودوست تھے ان میں سے ایک کے پاس دو بہت ہی ہرے بھرے اور پھلوں والے باغات تھے اس نے اپنے دوست سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں تم سے زیادہ مالدارہوںاور میں یہ سمجھتا ہوں کہ نہ یہ سب کبھی ختم ہوگا اور نہ کبھی قیامت آئے گی اوراگر قیامت آئی بھی تو مجھے اس سے اور زیادہ ہی ملے گا اس کے دوست نے سمجھایا کہ اس طرح نہیں کہنا چاہئے بل کہ اپنے خالق کویاد کرتے ہوئے ان کی ا ن نعمتوں کا شکر یہ اد ا کرناچاہئے ایسا ہوسکتا ہے کہ کل مجھے اللہ تعالی تم سے زیادہ مالدار بنادیںاور تمہار ا یہ سب ختم ہو جائے اور ایسا ہی ہوا بھی …اس کے ساتھ ہی جنت وجہنم ،فرشتوں کے حضر ت آدم کاسجدہ کرنے اور شیطان کے اس سے انکا کرنے کا بیا ن ہے اس کے بعد حضرت خضر کا واقعہ شروع ہواہے جس کا مختصر تذکرہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ موسی ؑ نے اپنی قوم میں بیان کیا جو بہت ہی مؤ ثرتھا اخیر میں کسی نے پوچھا کہ کیا روئے زمین پہ آپ سے زیادہ کسی کے پاس علم ہے حضرت نے اپنے علم کے مطابق صحیح فرمایاکہ نہیں لیکن انہوں نے اپنے علم کو اللہ تعالی کی طر ف منسوب نہیں کیا جو خاص طور سے پیغمبری شان کے خلاف تھا اس لیے اللہ تعالی نے اس پہ تنبیہ کے لیے فرمایاتم سے زادہ علم رکھنے والا بندہ بھی ہے جو دوسمندروں کے ملنے کی جگہ پہ رہتا ہے حضرت موسی نے ان سے ملنے کی خواہش کی توا للہ تعالی نے فرمایا توشہ دان میں مچھلی رکھ لووہ مچھلی جہاں تم سے گم ہوجائے وہ وہیں ملیں گے حضرت موسی نے ایسا ہی کیا اور حضرت یوشع کے ساتھ نکلتے ہوئے کہا کہ جب تک میںدونوں دریاؤں کے ملنے کی جگہ پے پہنچ نہ جاؤں اس وقت تک نہیں ٹھہروں گا لیکن اس کے برخلاف اتفاق سے ہوا یہ کہ جہاں رکنا چاہیے تھا وہیں پہنچ کر تھکے ہوئے تھے اور آنکھ لگ گئی اور ادھر مچھلی بھی توشہ دان سے نکل کر عجیب طریقے سے سرنگ بناتے ہو پانی میں چلی گئی جب حضرت ؑ بیدار ہوئے تو حضرت یوشع بتا بھی نہیںسکے کہ مچھلی توشہ دان سے نکل گئی اور آگے بڑھ گئے پھر جب بھو ک کا احساس ہوا تو کھانا مانگا اور فرمایا تھک گئے ہیںا س موقع سے انہوں نے حضر ت موسی سے قصہ بیان کیا کہ مچھلی تو پہلے ہی اسی جگہ نکل چکی تھی جہاں آپ آرام کر ہے تھے لیکن شیطان نے میرے ذہن سے یہ بات نکالد ی اور میں آپ کو بتا نہ سکا پھر یہ حضرات وہاں سے اسی جگہ واپس تشریف لائے اور خضرؑ سے وہیںملاقات بھی ہوئی ۔ملاقات کی غرض بیان کی کہ جو علم خاص اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو ملا ہے آپ مجھے بھی سکھادیں اورکیا میں اس غرض سے آپ کے ساتھ رہ سکتاہوں؟حضرت خضر نے فرمایا بہت سے کام میں ایسے کروں گا جن کی حکمتیں آپ کو معلوم نہیں ہوںگی اور آپ ا نہیں برداشت نہیں کرپائیںگے نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ میرے پاس رہ بھی نہیں پائیں گے حضرت موسی نے کہا میں برداشت کرلوں گاحضرت نے کہا اگر ایسا ہے تو مجھ سے کسی کام کی وجہ اس وقت تک معلوم نہ کریں جب تک کہ میں خو دہی آپ سے نہ بتادوں اور دونوں ایک کشتی پہ سوار ہوگئے جسکا ایک تخت حضرت خضر نے اکھاڑدیا اور حضرت موسی بول پڑے کہ آپ نے تو سب کو ڈوبانے کا م کرکے بہت ہی برا عمل کیا حضرت خضرنے وعدہ یا دلایا تو کہنے لگے اچھا آئند ہ ایسانہیں ہوگا لیکن آگے بڑ ھ کر یہ ہوا کہ حضرت خضر نے ایک خوبصورت معصوم بچے کو قتل کرڈالا حضرت موسی سے پھر نہیں رہا گیا اور پھر فر مایا کہ آپ نے ایک معصوم بچے کو ناحق قتل کردیا انتہائی برا عمل کیا۔
��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here