عید الاضحیٰ کی قربانی کا نصاب یعنی کتنے مال پر قربانی واجب ہے

عید الاضحی کی قربانی کا نصاب یعنی وہ مال جس پر قربانی واجب ہے !
ندیم احمد انصاری

قربانی ہر اس مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، مرد وعورت پر واجب ہے ، جس کی مِلک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی قیمت کا کوئی بھی مال، اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد موجود ہو، خواہ یہ مال سونا چاندی اور زیوارت کی شکل میں ہو یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا اس مکان کے علاوہ کوئی مکان یا پلاٹ وغیرہ کی شکل میں… جس میں وہ رہتا ہے ۔ (الدر المختار) قربانی ہر اس مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، مرد وعورت پر واجب ہے ، جس کی مِلک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی قیمت کا کوئی بھی مال، اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد موجود ہو، خواہ یہ مال سونا چاندی اور زیوارت کی شکل میں ہو یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا اس مکان کے علاوہ کوئی مکان یا پلاٹ وغیرہ کی شکل میں… جس میں وہ رہتا ہے ۔ (الدر المختار) خیال رہے کہ قربانی صاحبِ نصاب پر زکوٰۃ کی طرح ہر سال واجب ہوتی ہے ، لیکن اس میں زکوٰۃ کی طرح نصاب پر سال گزرنا ضروری نہیں، نیز ٹی وی، وی سی آر جیسی خرافات، کپڑوں کے تین جوڑوں سے زائد لباس اور وہ تمام اشیا جو محض زیب وزینت یا نمود ونمائش کے لیے گھروں میں رکھی رہتی ہیں، اور سال بھر میں ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں ہوتیں… زائد از ضرورت ہیں، اس لیے ان سب کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔(احسن الفتاویٰ) دراصل سونے چاندی کے علاوہ باقی تمام اشیا عروض(سامان) میں داخل ہیں، اور سامان میں جب تک تجارت کی نیت نہ ہو، وہ مالِ نامی نہیں ہوسکتا ہے ، اور زکوٰۃ کے نصاب میں مالِ نامی کا ہونا ضروری ہے ، لہٰذا کپڑوں کو نصابِ زکوٰۃ میں شامل نہیں کیا جائے گا، چاہے جتنے جوڑے بھی ہوں، البتہ نصابِ صدقۂ فطر اور قربانی میں صرف ’غنا‘(مال داری) ضروری ہے ، جو بہ قدر نصاب مال سے حاصل ہوجاتی ہے ، اگرچہ وہ نصاب غیر نامی ہو۔ اس وجہ سے صدقۂ فطر اور قربانی کے نصاب میں ان کپڑوں کو بھی شامل کیا جائے گا جو روز مرہ استعمال کے نہ ہوں، یعنی وہ کپڑے جو آدمی کے پاس استعمال سے زائد ہوںاور بہ قدرِ نصاب ہوں اور اس پر عید الفطر یا ایامِ قربانی آئیں تو صدقۂ فطر اور قربانی واجب ہوگی۔(نجم الفتاویٰ) معلوم ہوا وجوبِ قربانی کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے لیے ہے ۔جس کے پاس رہائش کے مکان کے علاوہ زائد مکان موجود ہے ، خواہ تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو، ضروری مکان کے لیے پلاٹ کے علاوہ پلاٹ ہیں، ضروری سواری کے علاوہ دوسری گاڑیاں ہیں، تو یہ شخص قربانی کے حق میں صاحبِ نصاب ہے ، اس پر قربانی واجب ہے ۔اسی طرح کوئی کاشت کار اور کسان جن کے پاس ہل چلانے اور دوسری ضرورت کے علاوہ جانور اتنے موجود ہیں کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہیں، تو اس کی وجہ سے قربانی واجب ہے ، اور اگر ایسا نہیں اور دوسرا کوئی مال بھی نہیں تو قربانی واجب نہیں۔(ماخوذ از فتاویٰ بینات) نصاب یعنی جو مال 200 درہم چاندی، جو اس سے کم ہو، اس پر زکوٰۃ و قربانی وغیرہ واجب نہیں، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ حضرت نبی کریمﷺنے فرمایا: لاؤ چالیسواں حصہ، ہر چالیسویں درہم میں سے ایک درہم(یعنی چالیسواں حصہ)، اور تم پر کچھ بھی(یعنی زکاۃ، صدقۃ الفطر اور قربانی واجب) نہیں ہے یہاں تک کہ دو سو درہم پورے ہوجائیں، پس جب دو سو درہم ہوں تو ان میں سے پانچ درہم ہیں، اور جو زیادہ ہو تو اس کی زکوٰۃ اس کے حساب سے ہوگی۔(ابو داود:)یہ حدیث الفاظ کے تغیر کے ساتھ مختلف کتبِ حدیث میں آئی ہے ،ملاحظہ ہومصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ۔ موجودہ زمانے میں رائج اوزان کے اعتبار سے چاندی کا نصاب612گرام،360ملی گرام اور سونے کا نصاب87 گرام،480ملی گرام ہوتا ہے ۔ (جدید فقہی مسائل)اگر کوئی صاحبِ نصاب ہو لیکن فی الوقت قربانی کے لیے نقد اس کے پاس موجود نہ ہو تو جس طرح دوسرے حقوق کی ادایگی کے لیے حسبِ ضرورت قرض لینا درست ہے ، ایسے ہی اس مقصد کے لیے بھی قرض لینا جائز ہے ۔(کتاب الفتاویٰ)ایسی صورت میں کسی اور سے قرض لے کر بھی قربانی کی جا سکتی ہے اور خود جانور والے سے جانور بھی اُدھا لیا جا سکتا ہے ، جیسا کہ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ شریعت نے من وجد سعۃً کی حد مقرر کر دی ہے ، اور وہ وہی ہے جس کو احناف نے اختیار کیا ہے ، محض گوشت خوری کی نیت سے قربانی کے جانور میں اگر کوئی شریک ہوگا تو اس سے دوسرے شرکا کی قربانی بھی خراب ہو جائے گی، اگر ثواب کی نیت سے شریک ہو اور قیمت بعد میں دے دے تو مضایقہ نہیں ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ) اگر بیوی صاحبِ نصاب ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنی چیز یں ہوں کہ ان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو اس پر باقاعدہ قربانی واجب اور لازم ہے کہ اپنی طرف قربانی کرے ، شوہرپر بیوی کی طرف سے قربانی کرنا ضروری نہیں ، البتہ اگر وہ بیوی کی اجازت سے کر دے ،تو بیوی کی طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی ۔دوسروں کی طر ف سے واجب قربانی اس کی اجازت کے بعد ہی درست ہوتی ہے ، البتہ اگر کسی علاقے میں عرف معمول کے مطابق اپنے متعلقین کی طر ف سے قربانی کرنے کا رواج ہو تو متعلقین کی باقاعدہ اجازت کی ضرورت نہیں۔(الاشباہ والنظائر)خلاصہ یہ کہ عورت اگر خود صاحبِ نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہے ، بیوی کی طرف سے قربانی کرنا مرد کے ذمّے ضروری نہیں، گنجائش ہو تو کردے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here