Ghuloo : maani-o-mazammat, hukam-o-usool, asbab-o-ilaj aur tabah kariyaan, Nadeem Ahmed Ansari, Al Falah Islamic Foundation, India

ghuloo-article

غُلو:معنی و مذمّت، حکم و اصول، اسباب و علاج اور تباہ کاریاں

ندیم احمد انصاری

دینِ اسلام دینِ فطرت اور ہر قسم کے افراط و تفریط سے پاک و صاف، اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت تک آنے والے انسانوں کے حق میں پسند کیا ہوا مبارک دین ہے، جس میں کسی کمی بیشی کی گنجائش ہے اور نہ افراط و تفریط کی۔ دین میں کی جانے والے افراط و تفریط ہی کو گویا ’غلو‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے محبوب، رحمۃ للعالمین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دین کو قیامت تک کے لیے چور دروازوں سے محفوظ کرنے کی خاطر غلو جیسے مہلک امراض کی نہ صرف مکمل نشان دہی کی بلکہ اہلِ اسلام کو ان سے احتراز کرنے کی خصوصی تاکید بھی فرمائی، مگر افسوس! فی زمانہ امت کا ایک بڑا طبقہ مختلف بلکہ تمام شعبوں میں غلو فی الدین کا شکار ہے۔ غلو انسان کو صراطِ مستقیم سے منحرف کر دیتا ہے اور دیگر برائیوں کے بالمقابل غلو کی سب سے بڑی نحوست یہ ہے کہ اس کا کرنے والا یعنی ’غالی‘ اپنے عمل کو ہر آن درست ٹھہرانے بلکہ دوسروں پر تھوپنے کے در پے ہوتا ہے، جس سے دین میں بدعات کا دروازہ کھلتا ہے اور اس کی اصل صورت ہی مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ غلو کے اسباب میں سے جہالت و ناواقفیت کے علاوہ ہواے نفسانی کی پیروی اور غیر مستند و غیر معتبر باتوں پر اعتماد کرنا اور علاج صحیح علم حاصل کرنا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی دعائیں کرنا ہے۔اس لیے داعیہ پیدا ہوا کہ اس نازک و اہم ترین موضوع پر قرآن و سنت کی روشنی میں ایک جامع تحریر سپردِ قلم کی جائے کہ باذوق قارئین مستفید ہوسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو غلو کی تباہ کاریوں سے مکمل طور پر محفوظ رکھے۔ آمین

غلو کی مذمت قرآن و احادیث میں

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:)مفہوم)اور ان سے یہ بھی کہو کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوئے، بہت سے دوسروں کو بھی گمراہ کیااور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔ (المائدہ:77)

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ، اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ، اَلْقٰىهَآ اِلٰي مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ، فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ، وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ، اِنْتَھُوْا خَيْرًا لَّكُمْ،اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ،سُبْحٰنَهٗٓ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ، لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ،وَكَفٰي بِاللّٰهِ وَكِيْلًا۔

اے اہلِ کتاب اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو محض اللہ کے رسول تھے اور اللہ کا ایک کلمہ تھا جو اس نے مریم تک پہنچایا، اور ایک روح تھی جو اسی کی طرف سے (پیدا ہوئی) تھی۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ مت کہو کہ ( خدا) تین ہیں۔ اس بات سے باز آجاؤ کہ اسی میں تمھاری بہتری ہے، اللہ تو ایک ہی معبود ہے وہ اس بات سے بالکل پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے اور سب کی دیکھ بھال کے لیے اللہ کافی ہے۔ (النساء:171)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں بھی غلو کی مذمت فرمائی ہے،حضرت عبداللہ سے روایت ہے:

قَالَ رَسُولُ اللہ ﷺ هَلَکَ الْمُتَنَطِّعُونَ قَالَهَا ثَلَاثًا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا غلو کرنے والے ہلاک ہوگئے۔(مسلم)

حضرت ابوموسی اشعری فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

‏‏إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللہِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ۔

اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور بزرگی ہے کہ سفید بالوں والے مسلمان کا اکرام کیا جائے اور قرآن کریم کے حامل کا اکرام کیا جائے، سوائے اس میں غلو اور کمی (افراط وتفریط) کرنے والے کے اور عادل بادشاہ کا اکرام کیا جائے۔ (ابوداؤد)

حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے :

قال رَسُولُ اللہﷺ غَدَاةَ الْعَقَبَةِ وَهُوَ عَلَى نَاقَتہ الْقُطْ لِي حَصّیً ‏‏‏‏‏‏فَلَقَطْتُ لَهُ حَصَيَاتٍ هُنَّ حَصَى الْخَذْفِ فَجَعَلَ یَنْفُضُھُنَّ فِیْ کَفِّہِ وَ یَقُوْلُ أَمْثَالِ هَؤُلَاءِ، فَارْمُوا ثُمَّ قَالَ:إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ۔

دس ذی الحجہ کی صبح کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا تم یہاں آجاؤ اور تم میرے واسطے کنکریاں چن کر لاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ چناںچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لیں جو کہ انگلیوں سے پھینکی جاسکتی ہیں، جب میں نے کنکریاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ میں دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ایسی ہی کنکریوں سے رمی کرو اور دین میں غلو سے بچنا کیوں کہ تم سے پہلے امتیں دین میں غلو اختیار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔(ابن ماجہ)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےدیکھا کہ مسجدِ نبوی میں ایک رسّی بندھی ہوئی ہے۔ آپ کے دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ اسے ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بندھوایا ہے، رات میں نفل نمازوں کی کثرت سے جب وہ تھک جاتی ہیں تو اس کا سہارا لے لیتی ہیں۔ آپ نے رسّی کھلوادی اور فرمایا :

لَاحُلْوهُ ليصل أحَدُكُمْ نَشَاطَهٗ فَإذَا فَتَرَفَلْيَقْعُد۔

جب تک آدمی نشاط محسوس کرے تب تک نماز پڑھے، جب تھک جائے تو سو جائے۔ (بخاری:1150،مسلم:784)

غلوکے لغوی معنی

علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں:

الغُلُوْ‘ کے معنی کسی چیز کے حد سے تجاوز کر جانے کے ہیں، اگر یہ اشیا کے نرخ میں ہو تو اسے ’غَلَاءٌ‘ (گرانی) کہا جاتا ہے اور قدر و منزلت میں ہو تو اسے ’غُلُوْ‘ اور اگر تیر اپنی حدود سے تجاوز کر جائے تو اسے ’غَلْوٌ‘ کہتے ہیں،مگر ان ہر تین اشیا کے متعلق فعل’ غَلا، یغلو‘ ہی استعمال ہوتا ہے۔(دیکھیے المفردات القرآن)

اردو زبان کی مشہور لغت ’فرہنگِ آصفیہ‘ میں لکھا ہے:

حد سے گزرنا‘ ۔ علمِ معانی کی اصطلاح میں مبالغے کی ایک قسم۔

غلو کے شرعی معنی

غلو کے معنی حد سے نکل جانے کے ہیں۔ دین میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ اعتقاد و عمل میں دین نے جو حدود مقرر کی ہیں ان سے آگے بڑھ جائیں، مثلاً انبیاء کی تعظیم کی حد یہ ہے کہ ان کو خلقِ خدا میں سب سے افضل جانے۔ اس حد سے آگے بڑھ کر اُنھی کو خدا یا خدا کا بیٹا کہہ دینا اعتقادی غلو ہے۔

انبیاء اور رسل کے معاملے میں بنی اسرائیل کے یہ دو متضاد عمل کہ یا تو ان کو جھوٹا کہیں اور قتل تک سے دریغ نہ کریں،یا یہ زیادتی کہ ان کو ہی خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیدیں، یہ وہی افراط وتفریط ہے جو جہالت کے لوازم سے ہے۔ عرب کا مشہور مقولہ الجاہل أما مفرِط أومفرِّط یعنی جاہل آدمی کبھی اعتدال اور میانہ روی پر نہیں رہتا، بلکہ یا افراط میں مبتلا ہوتا ہے یا تفریط میں۔ افراط کے معنی حد سے آگے بڑھنے کے ہیں اور تفریط کے معنی ہیں فرض کی ادایگی میں کوتاہی اور کمی کرنے کے۔یہ افراط وتفریط یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی دو مختلف جماعتوں کی طرف سے عمل میں آئی ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی جماعت کے یہ دو مختلف عمل مختلف انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوئے ہوں کہ بعض کی تکذیب و قتل تک نوبت پہنچ جائے اور بعض کو خدا کے برابر بنادیا جائے۔ ان آیات میں اہلِ کتاب کو مخاطب کر کے جو ہدایت ان کو اور قیامت تک آنے والی نسلوں کو دی گئی ہیں وہ دین و مذہب اور اس کی پیروی میں ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہیں کہ اس سے ذرا اِدھر اُدھر ہونا انسان کو گمراہیوں کے غار میں دھکیل دیتا ہے۔(معارف القرآن)

امام حصاص نے ’احکام القرآن‘ میں فرمایا :

الغلو فی الدین ھو مجاوزۃ حد الحق فیہ۔

دین کے بارے میں غلو یہ ہے کہ دین میں جس چیز کی جو حد مقرر کی گئی ہے اس سے آگے نکل جائے۔

اہلِ کتاب یعنی یہود و نصاری دونوں کو اس حکم کا مخاطب اس لیے بنایا گیا کہ غلوفی الدین ان دونوں میں مشترک ہے اور یہ دونوں فرقے غلوفی الدین ہی کے شکار ہیں، کیوں کہ نصاریٰ نے تو عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے اور ان کی تعظیم میں غلو کیا، ان کو خدا یا خدا کا بیٹا یا تیسرا خدا بنادیا اور یہود نے ان کے نہ ماننے اور رد کرنے میں غلو کیا کہ ان کو رسول بھی نہ مانا، بلکہ معاذ اللہ ان کی والدہ ماجدہ مریم پر تہمت لگائی اور ان کے نسب پر عیب لگایا۔چوں کہ غلو فی الدین کے سبب یہود و نصاریٰ کی گمراہی اور تباہی مشاہدے میں آچکی تھی، اس لیے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو اس معاملے میں پوری احتیاط کی تاکید فرمائی۔(معارف القرآن بترمیم)

غلو کا حکم

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے غلو کو کبائر میں شمار کرتے ہوئے فرمایا:

مخلوق کے بارے میں غلو کرنا حتیٰ کے اس کے مقام سے تجاوز کیا جائے، بعض اوقات یہ غلو گناہِ کبیرہ سے شرک کی طرف لے جاتا ہے۔(اعلام الموقعین)

دین اصل میں چند حدود وقیود ہی کا نام ہے، اس حدود کے اندر کوتاہی کرنا اور کمی کرنا جس طرح حرام ہے اسی طرح ان سے آگے بڑھنا اور زیادتی کرنا بھی جرم ہے، جس طرح رسولوں اور ان کے نائبوں کی بات نہ ماننا ان کی توہین کرنا گناہِ عظیم ہے اسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ کی صفاتِ مخصوصہ کا مالک یا مساوی سمجھنا اس سے زیادہ گناہِ عظیم ہے۔(معارف القرآن)

اصولِ خمسہ

حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے غلو و بدعات سے بچنے کے نہایت اہم اصول لکھے ہیں، جن کو مختصراً نقل کرنا ضروری خیال ہوتا ہے، فرماتے ہیں:

(۱)کسی امرِ غیر ضروری کو اپنے عقیدے میں ضروری اور مؤکد سمجھ لینا یا عمل میں اس کی پابندی اصرار کے ساتھ اس طرح کرنا کہ فرائض و واجبات کی مثل یا زیادہ اس کا اہتمام ہو اور اس کے ترک کو مذموم اور تارک کو قابلِ ملامت و شناعت جانتا ہو، یہ دونوں امر ممنوع ہیں، کیوں کہ اس میں حکمِ شرعی کو توڑ دینا ہے۔

(۲)فعلِ مباح بلکہ مستحب بھی کبھی امرِ غیر مشروع کے مل جانے سے غیر مشروع و ممنوع ہو جاتا ہے، جیسے دعوت میں جانا مستحب بلکہ سنت ہے لیکن وہاں اگر کوئی امر خلافِ شرع ہو، اس وقت جانا ممنوع ہو جائے گا۔

(۳)چوں کہ دوسرے مسلمانوں کو ضَرر سے بچانا فرض ہے، اس لیے اگر خواص کے کسی غیر ضروری فعل سے عوام کے عقیدے میں خرابی پیدا ہوتی ہو تو وہ فعل خواص کے حق میں بھی مکروہ و ممنوع ہو جاتا ہے، خواص کو چاہیے کہ وہ فعل ترک کر دیں۔۔حدیثوں میں سجدۂ شکر کا فعل مباح ہے، مگر فقہاے حنفیہ نے حسبِ قول علامہ شامیؒ اس لیے مکروہ کہا ہے کہ کہیں عوام اس کو سنتِ مقصودہ نہ سمجھنے لگیں۔

(۴) جس امر میں کراہت عارضی ہو، اختلافِ ازمنہ و امکنہ و اختلافِ تجربہ و مشاہدۂ اہلِ فتویٰ سے اس کا مختلف حکم ہو سکتا ہے، یعنی یہ ممکن ہے کہ ایسے امر کو ایک زمانے میں جائز کیا جائے کیوں کہ اس وقت اس میں وجوہ کراہت کی نہیں تھیں اور دوسرے زمانے میں ناجائز کہہ دیا جائے، اس لیے کہ اس وقت علتِ کراہت کی پیدا ہو گئی، یا ایک مقام پر اجازت دی جائے دوسرے ملک میں منع کر دیا جائے۔۔حدیث و فقہ میں اس کے بے شمار نظائر مذکور ہیں۔

(۵)اگر کسی امرِ خلافِ شرع کرنے سے کچھ فایدہ اور مصلحتیں بھی ہوں، جن کا حاصل کرنا شرعاً ضروری نہ ہو، یا [ان کا حاصل کرنا ضروری تو ہو لیکن] اس کے حاصل کرنے کے اور طریقے بھی ہوں اور ایسے فایدوں کے حاصل کرنے کی نیت سے وہ فعل کیا جائے، یا ان فایدوں سے مرتب دیکھ کر عوام کو اس سے نہ روکا جائے، یہ بھی جائز نہیں ۔ نیک نیت سے مباح تو عبادت بن جاتا ہے اور معصیت مباح نہیں ہوتی، خواہ اس میں ہزار مصلحتیں اور منفعتیں ہوں، نہ اس کا ارتکاب جائز، نہ اس پر سکوت جائز، اور یہ قاعدہ بہت ہی بدیہی ہے۔ (اصلاح الرسوم)

علمی تحقیق و تدقیق غلو نہیں

آیتِ متذکرہ میں لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ کے ساتھ لفظ غیر الحق لایا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ناحق کا غلو مت کرو، یہ لفظ محققین اہلِ تفسیر کے نزدیک تاکید کے لیے استعمال ہوا ہے، کیوں کہ غلو فی الدین ہمیشہ ناحق ہوتا ہے، اس میں حق ہونے کا احتمال ہی نہیں اور علامہ زمحشریؒ وغیرہ نے اس جگہ غلو کی دو قسمیں قرار دی ہیں؛ ایک ناحق اور باطل جس کی ممانعت اس جگہ کی گئی ہے، دوسرے حق اور جائز جس کی مثال میں انھوں نے علمی تحقیق و تدقیق کو پیش کیا ہے۔ جیسا کہ عقائد کے مسائل میں حضراتِ متکلمین کا اور فقہی مسائل میں فقہارحمہم اللہ کا طریقہ رہا ہے، ان کے نزدیک یہ بھی اگرچہ غلو ہے، مگر غلوِ حق اور جائز ہے اور جمہور کی تحقیق یہ ہے کہ یہ غلو کی تعریف میں داخل ہی نہیں۔ قرآن و سنت کے مسائل میں گہری نظر اور موشگافی جس حد تک رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ وتابعین سے ثابت ہے وہ غلو نہیں اور جو غلو کی حد تک پہنچے وہ اس میں بھی مذموم ہے۔(معارف القرآن)

غلو کا سدِّ باب کیوں اور کیسے؟

مسند احمد‘ میں حضرت فاروق اعظمؓ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا تطرونی کما أطرتِ النصاری عیسی ابن مریم فإنما أنا عبد فقولوا عبد اللہ و رسولہ۔

میری مدح وثنا میں ایسا مبالغہ نہ کر جیسا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کے معاملے میں کیا ہے، خوب سمجھ لو کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس لیے تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہا کرو(اس روایت کو بخاری اور ابن مدینی نے بھی روایت کیا ہے اور صحیح السند قرار دیا ہے )۔(معارف القرآن)

یعنی مدحِ نبوی میں بھی دو چیزوں کی رعایت رکھی جائے؛ ایک تو یہ کہ حضور کو خدا کے درجے تک مت پہنچائو ،دوسرے یہ کہ وہ امر ثابت کرو کہ روایات ثابتہ اس کی مساعد ہوں، ان دواَمروں کی رعایت کے بعد جو چاہو ثابت کرو کوئی منع نہیں کرتا۔ مختصر یہ ہے کہ اس باب میں نسبت الوہیت اور کذب سے احتراز رکھو لیکن چوں کہ ابنائے زماں ان دونوں باتوں سے اجتناب نہیں کرتے حضور کی شان کو ایسا بڑھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتے ہیں اور حکایات وواقعات وہ بیان کرتے ہیں کہ روایاتِ صحیحہ میں ان کا پتہ بھی نہیں اور اس کی اصلاح ضروری ہے۔ (اشرف التفاسیر)

خلاصہ یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور بشر ہونے میں سب کے ساتھ شریک ہوں، میرا سب سے بڑا درجہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، اس سے آگے بڑھانا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں مجھے شریک قرار دے دویہ غلو ہے، تم نصاریٰ کی طرح کہیں اس غلو میں مبتلا نہ ہوجاؤ اور یہود و نصاریٰ کا یہ غلو فی الدین صرف انبیا ہی کی حد تک نہیں رہا، بلکہ انہوں نے جب یہ عادت ہی ڈال لی تو انبیاء علیہم السلام کے حوارییین اور متبعین اور ان کے نائبین کے مقابلے میں بھی یہی برتاؤ اختیار کرلیا، رسول کو تو خدا بنادیا تھا، رسول کے متبعین کو معصوم کا درجہ دے دیا، پھر یہ بھی تنقید و تحقیق نہ کی کہ یہ لوگ حقیقتاً انبیاء کے متبع اور ان کی تعلیم پر صحیح طور سے قائم بھی ہیں یا محض وراثتہً عالم یا شیخ سمجھے جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں ان کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جو خود بھی گمراہ تھے اور ان کی گمراہی کو اور بڑھاتے تھے، دین اور تدین ہی کی راہ سے ان کا دین برباد ہوگیا، قرآنِ حکیم نے ان لوگوں کی اس حالت کا بیان اس آیت میں فرمایا ہے:

اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ۔(التوبۃ:31)

یعنی ان لوگوں نے اپنے مذہبی پیشواؤں کو بھی معبود کا درجہ دے دیا، اس طرح رسول کو تو خدا بنایا ہی تھا، اتباعِ رسول کے نام پر پچھلے مذہبی پیشواؤں کی بھی پرستش شروع کردی۔اس سے معلوم ہوا کہ غلو فی الدین وہ تباہ کن چیز ہے جس نے پچھلی امتوں کے دین کو دین ہی کے نام پر برباد کردیا ہے، اسی لیے ہمارے آقا و مولا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو اس وباے عظیم سے بچانے کے لیے مکمل تدبیریں فرمائیں۔(معارف القرآن)

غلو کی تباہ کاریاں

افسوس کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قدر اہتمام اور شریعت کی اتنی پابندیوں کے باجود آج امت مسلمہ اسی غلو کی بری طرح شکار ہے، دین کے سارے ہی شعبوں میں اس کے آثار نمایاں ہیں، ان میں سے بالخصوص جو چیز ملت کے لیے مہلک اور انتہائی مضر ثابت ہو رہی ہے وہ دینی مقتدا و پیشواؤں کا معاملہ ہے، مسلمانوں کی ایک جماعت تو اس پر گئی ہے کہ مقتدا و پیشوا، علماو عرفا کوئی چیز نہیں، کتاب اللہ ہمارے لیے کافی ہے، جیسے وہ اللہ کی کتاب سمجھتے ہیں ہم بھی سمجھ سکتے ہیں، ھم رجال ونحن رجال یعنی وہ بھی آدمی ہیں ہم بھی آدمی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ہوس ناک جو نہ عربی زبان سےواقف ہے نہ قرآن کے حقائق معارف سے، نہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان و تفسیر سے، محض قرآن کا ترجمہ دیکھ کر اپنے کو قرآن کا عالِم کہنے لگا۔ قرآنِ کریم کی جو تفسیر و تشریح خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا آپ کے بلاواسطہ شاگرد یعنی صحابۂ کرامؓ سے منقول ہے اس سب سے قطعِ نظر جو بات ذہن میں آگئی اس کو قرآن کے سر تھوپ دیا۔۔۔دوسری طرف ایک بھاری جماعت مسلمانوں کی اس غلو میں مبتلا ہوگئی کہ اندھا دھند جس کو چاہا اپنا مقتدا اور پیشوا بنا لیا، پھر ان کی اندھی تقلید شروع کردی، نہ یہ معلوم کہ جس کو ہم مقتدا اور پیشوا بنا رہے ہیں یہ علم و عمل اور صلاح وتقویٰ کے معیار پر صحیح بھی اترتا ہے یا نہیں ؟ اور نہ پھر اس طرف کوئی دھیان کیا کہ جو تعلیم یہ دے رہا ہے وہ قرآن و سنت کے مخالف تو نہیں ؟ شریعتِ اسلام نے غلو سے بچا کر ان دونوں کے درمیان طریقۂ کار یہ بتلایا کہ کتاب اللہ کو رجال اللہ سے سیکھو اور رجال اللہ کو کتاب اللہ سے پہچانو، یعنی قرآن و سنت کی مشہور تعلیمات کے ذریعے پہلے ان لوگوں کو پہچانو جو کتاب و سنت کے علوم میں مشغول ہیں اور ان کی زندگی کتاب و سنت کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے، پھر کتاب و سنت کے ہر الجھے ہوئے مسئلے میں ان کی تفسیر و تشریح کو اپنی رائے سے مقدم سمجھو اور ان کا اتباع کرو۔ (معارف القرآن)

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here