Hajj se pehle karne ke 4 kaam, Nadeem Ahmed Ansari (Islamic Scholar & Journalist)


حج سے پہلے کرنے کے چار کام

ندیم احمد انصاری

(اسلامی اسکالر و صحافی)

ماہِ شوال سے ہی حج کے مبارک سفر کی تیاریاںکی جانے لگتی ہیں، اسی لیے اس کا شمار اشہرِحج میں کیا جاتا ہے،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے :

  الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ، فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ، وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللہُ،  وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى، وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ۔

حج کے مہینے مقرر ہیں، اس لیے جو شخص ان میں حج لازم کرے وہ اپنے بیوی سے میل ملاپ نہ کرنے ، گناہ کے کرنے اور جھگڑے لڑائی کرنے سے بچتا رہے اور تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالی باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہترین توشہ اللہ کا ڈر ہے اور اے عقل مندو مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔(البقرۃ:۱۹۷)

  علامہ ابن کثیرؒاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓسے جزم کے ساتھ تعلیقاً روایت کی ہے کہ اشہرِمعلومات سے مراد شوال، ذی القعد ہ اور عشرۂ ذی الحجہ ہیں ۔(تفسير ابن کثیر)

اسلام کے پانچ ارکان

  اسلام کے جو پانچ ارکان ہیں، حج ان میں سے ایک ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے؛

(۱) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔

  (۲) نماز قائم کرنا۔

  (۳)زکوٰۃ ادا کرنا۔

  (۴) حج کرنا

  (۵) رمضان المبارک کے روزے رکھا۔(بخاری)

حج کے فضائل

حج کے فضائل بھی احادیث میں بڑی کثرت سے وارد ہوئے ہیں، حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص رضاء الہٰی کے لیے حج کرتا ہے، اس طرح کہ اس میں کسی قسم کی فحش اور برائی کی بات نہ کرے اور کسی قسم کی معصیت اور گناہ میں مبتلا نہ ہو تو وہ حج کے بعد اپنے گھر، گناہوں سے اس طرح پاک ہوکر واپس لوٹے گا، جس طرح پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک، دنیا میں آیا تھا۔ (بخاری) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایمان اور جہاد کے بعد سب سے افضل عمل وہ حج ہے جو ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہو۔ (بخاری) ایک حاجی کو اپنے خاندان کے ۴۰۰ لوگوں کے لیے شفاعت کا اختیار دیا جائے گا۔ (ترغیب) حج میں مال خرچ کرنا جہاد میں مال خرچ کرنے سے بھی۷۰۰ گنا افضل ہے۔ (ترغیب) نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے قافلے ہیں، اگر وہ دعا کرتے ہیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی دعا قبول فرمالیتے ہیں۔ (ابن ماجہ) حج اور عمرہ تسلسل سے کرنا فقر وفاقہ اور گناہوں کو ایسے دور کردیتا ہے، جیسے آگ کی بھٹی لوہے، سونے اور چاندی سے میل کو۔ (مسند احمد)

سفرِ حج سے پہلے

ظاہر ہے جب حج اتنی اہم ترین عبادت ہے، جس پر اتنے عظیم ثواب کے وعدے ہیں، تو اس کی تیاری اور ادایگی بھی اسی اہتمام کے ساتھ کی جانی چاہیے اور چوں کہ حج میں خاصا وقت اور مال وغیرہ بھی صَرف ہوتا ہے، تو جب یہ نعمتِ بے بہا میسر آئے تو اسے پورے اخلاص کے ساتھ اکمل طریقے سے ادا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھنا چاہیےتاکہ اس مبارک سفر کی برکات سے وافر حصہ نصیب ہو۔ حج میں جانے سے پہلے مندرجہ ذیل باتوں کا اطمینان کرلیں:

استخارہ

استخارے کے متعلق حضرت نبی کریم ﷺ کے بہت سے ارشادات وارد ہوئے ہیں، اس لیے کسی بھی اہم کام کو انجام دینے سے پہلے استخارہ کرلینا بہت مناسب ہے، اس سے انسان اپنے کیے پر پشیمان وشرمندہ نہیں ہوتاکیوں کہ استخارہ کامطلب ہی ہے ’اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنا‘ لیکن استخارہ انھیں امور میں مشروع ہے، جس کے دونوں پہلو جائز اور برابر ہوں، اس لیے فرض حج کے متعلق ہرگز یہ استخارہ نہ کرے کہ حج کو جائوں یا نہیں بلکہ یہ استخارہ مناسب ہے کہ کس ذریعے یا کس طریقہ سے جائوں، کس ٹور وغیرہ سے جانا مناسب ہوگا وغیرہ۔ نفلی حج میں یہ استخارہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس رقم سے نفلی حج کروں یا کسی دوسرے دینی مصرف میں خرچ کروں۔

اصلاحِ نفس

اصلاحِ نفس کی یوں تو ہر شخص کو ہر وقت ضرورت ہے، خصوصاً وہ حضرات جنھیں ربِ کعبہ کے دربار میں حاضری کا موقعہ نصیب ہورہا ہو، تاکہ کی کرائی محنت پر پانی نہ پھر جائے۔ مثلاً: سفر میں ہونے والی ناگزیر صعوبتوں کے اثر سے جھگڑے اور فساد کی نوبت نہ آجائے یا دیگر کسی ضروری کام اور عبادتوں میں سستی وغیرہ کا شکار نہ ہوجائے۔

توبہ

توبہ کے اصل معنی ہیں؛ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو چھوڑ کر گذشتہ پر پچھتاوے کے ساتھ آئندہ نیکوکار بن کر زندگی گزارنے کا پختہ عزم کرنا۔ حج کے مبارک سفر میں روانہ ہونے سے پہلے اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ اللہ تعالیٰ کی ہر چھوٹی بڑی نافرمانی سے سچے دل سے توبہ کرچکے ہوں اور جن لوگوں کے حقوق واجب الادارہ گئے ہوں، انھیں ادا کر دیں۔ ایسا کرنے پر پہلے سے زیادہ نیکیوں کی توفیق اور ان میں حلاوت کا احساس ہوگا۔ ان شاء اللہ

  محققین کے نزدیک توبہ کمال کی شرط ہےیعنی اعمال میں نورانیت بغیر توبہ کے پیدا نہیں ہوتی، گو عمل قبول ہوجائے۔ اس کی مثال اس طرح سمجھیے کہ ایک غلام ہے، جس نے اپنے آقا کی نافرمانیاں کی ہیں، پھر وہ اپنے آقا کو راضی کرنا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ پہلے گذشتہ خطائوں کی معافی حاصل کرے، پھر خدمت کرے، ورنہ اس کی خدمت کا کچھ فائدہ نہیں، آقا خواہ فراخ دلی کی وجہ سے کچھ کہے یا نہ کہے اور چاہے خدمت سے برطرف بھی نہ کرے لیکن اس طرح آقا کا دل خوش ہوتا ہے نہ غلام کا، ایک کانٹا سا دونوں کے دلوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حج کے مبارک سفر میں روانہ ہونے سے قبل’توبہ‘ کا خصوصی اہتمام کرے۔

حقوق العباد کی ادایگی

نوافل کا اہتمام کرنے کے باوجود حقوق العباد کی کم لوگ پرواہ کرتے ہیں، جب کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا ادا کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ غور کیجیے تو بعض معنوں میں حقوق العباد کا ادا کرنا حقوق اللہ سے بھی زیادہ اہم ہے، اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات تو غنی ہے، اسے کسی کے سجدوں وغیرہ کی کوئی حاجت نہیں لیکن ہم سے متعلق اللہ کے بندے ہمارے ہی طرح ایک دوسرے کے تعاون کے محتاج ہیں۔ ایسے میں ان کی حق تلفی کرنا، نہایت سنگین ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ بھی حقوق العباد کے متعلق کوئی فیصلہ تب تک صادر نہیں فرماتے، جب تک انسان خود اپنے اہلِ تعلق سے اپنی کی ہوئی کوتاہی کی معافی نہ مانگ لے۔ حقوق العباد کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدر اہمیت ہے کہ کوئی اسلام قبول کرے، تو اس کے اس عمل سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ، مگر حقوق العباد اس سے بھی معاف نہیں ہوتے۔ مثلاً: کسی شخص کو ناحق تکلیف دی، کسی کا مال دبالیا وغیرہ، جب تک صاحبِ حق معاف نہ کر دے یہ حقوق معاف نہیں ہوتے۔ اسی کو کہا گیا کہ اسلام واعمالِ صالحہ سے ذنوب (گناہ) معاف ہوتے ہیں، حقوق معاف نہیں ہوتے۔

(اس ویب سائٹ کو عام کرکے دینی کو فروغ دینے میں ہمارا ساتھ دیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here