Hajj se wapsi aur nabawi taleemaat, Nadeem Ahmed Ansari

حج سے واپسی اور نبوی تعلیمات، ندیم احمد انصاری

حج‘ اسلام کا عظیم ترین رکن اور اہم فریضہ ہے ، جو ہر مسلمان پر استطاعت ہونے کی صورت میں زندگی بھر میں ایک بار عائد ہوتا ہے ، جس میں مالی و جانی دونوں طرح کی قربانیاں پیش کرنی پڑتی ہیں، پھر بھی اکثر مسلمان مکہ مکرمہ میں واقع اللہ تعالیٰ کے اس گھر کے دیدار کو اپنے لیے نعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے ہیں، لیکن جہاں ہر سال لاکھوں لوگ اپنی تمناؤں کو ان آنکھوں سے پورا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، وہیں بہت سے افراد منوں مٹی تلے اس نیک ارادے کو دل ہی میں لے کر جا سوتے ہیں، اللہ ان سب کو غریقِ رحمت کرے ۔(آمین)اللہ تعالیٰ کے جن منتخب بندوں کو اس مبارک سفر کی دولت نصیب ہو، انھیں چاہیے کہ درجِ ذیل باتوں کا لحاظ رکھیں:حج‘ اسلام کا عظیم ترین رکن اور اہم فریضہ ہے ، جو ہر مسلمان پر استطاعت ہونے کی صورت میں زندگی بھر میں ایک بار عائد ہوتا ہے ، جس میں مالی و جانی دونوں طرح کی قربانیاں پیش کرنی پڑتی ہیں، پھر بھی اکثر مسلمان مکہ مکرمہ میں واقع اللہ تعالیٰ کے اس گھر کے دیدار کو اپنے لیے نعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے ہیں، لیکن جہاں ہر سال لاکھوں لوگ اپنی تمناؤں کو ان آنکھوں سے پورا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، وہیں بہت سے افراد منوں مٹی تلے اس نیک ارادے کو دل ہی میں لے کر جا سوتے ہیں، اللہ ان سب کو غریقِ رحمت کرے ۔(آمین)اللہ تعالیٰ کے جن منتخب بندوں کو اس مبارک سفر کی دولت نصیب ہو، انھیں چاہیے کہ درجِ ذیل باتوں کا لحاظ رکھیں:وطن کی محبت معیوب نہیں  حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس ہوتے اور مدینہ کی بلند جگہوں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کو تیز چلاتے اور اگر کوئی دوسری سواری ہوتی تو اسے حرکت دیتے ۔ ابوعبداللہ بخاری کہتے ہیں حارث بن عمیر نے حمید سے اس زیادتی کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حرکھا من حبھا یعنی مدینے کی محبت کے سبب اس کو حرکت دیتے تھے ۔ (بخاری) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی سفر سے واپس ہونے پر اپنے وطن و شہر کو دیکھ کر خوش ہونا معیوب نہیںبلکہ فطری عمل ہے ، جس کا ثبوت خود ذاتِ نبوی سے ملتا ہے ۔اہلِ خانہ کو مشقت میں نہ ڈالے  حج یا کسی بھی سفر سے واپس آنے والا شخص یہ بھی خیال رکھے کہ جہاں تک ممکن ہو گھر میں ایسے وقت پہنچے جس سے اہلِ خانہ کو مشقت کم سے کم ہو، جیسا کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضر ت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر میں رات کو نہ اترتے اور صبح یا شام کے وقت ہی داخل ہوتے تھے ۔ (بخاری، مسلم) واپسی کی دعا و اذکار حج سے واپس آنے والے کے لیے بعض اذکار کا بھی احادیث سے ثبوت ملتا ہے ، اس لیے ان کے اہتمام کی کوشش کرنی چاہیے ۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جہاد یا حج یا عمرہ سے واپس لوٹتے تو ہر بلند زمین پر تین تکبیریں کہتے پھر فرماتے :(ترجمہ)اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے اور اسی کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، ہم لوٹنے والے ، توبہ کرنے والے عبادت کرنے والے اور سجدہ کرنے والے، اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ سچا کیا، اپنے بندے کی مدد کی اور کافروں کی فوج کو تنہا شکست دے دی۔ (بخاری)حاجی کو پھولوں کا ہار پہنانا بعض جگہ رواج ہے کہ کوئی شخص حج یا عمرہ کے لیے جائے تواس کے احباب اسے پھولوں کے ہار ،اسی طرح واپسی پر بھی پھولوں یا نوٹوں کے ہار پہناتے ہیں، یاد رہے حاجی کو رخصت کرنے یا استقبال کے لیے جانے میں تو کوئی حرج نہیںمگر پھولوں کے ہار پہنانا محض ایک رسم ہے اور شریعت میں من گھڑت رسموں کی کوئی اصل نہیں۔ (زبدۃ المناسک)’اغلاط العوام ‘ میں مرقوم ہے کہ عام عادت ہے کہ جب کوئی شخص حج کے لیے اپنے گھر سے چلتا ہے تو لوگ پھولوں اور روپیوں کا ہار بنا کر اس کے گلے میں ڈالتے ہیں، جس میں اکثر کی نیت فخر اور شان کی ہوتی ہے ، جو کہ شریعت میں ممنوع اور نہایت مذموم ہے اور اگر اس میں ثواب کی نیت کی جاتی ہے تو اور بھی زیادہ قبیح اور برا عمل ہے ، جو واجب الترک ہے ۔(اغلاط العوام)غیر ضروری کو ضروری نہ سمجھیں حضرت ابوبراء سے روایت ہے ،یہ آیت:وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا  وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی، وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا۔(البقرۃ: 189)ہمارے متعلق نازل ہوئی‘ انصار جب حج کر کے واپس ہوتے تو اپنے گھروں کے دروازے سے داخل نہ ہوتے بلکہ گھروں کی پشت کی طرف سے داخل ہوتے تھے۔ ایک انصاری شخص حج سے واپس آیا اور اپنے گھر کے دروازے سے داخل ہو گیا تو اسے عار دلائی گئی،اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نیکی کی بات یہ نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں ان کی پشت سے آؤ بلکہ نیکی یہ ہے کہ گناہ سے بچو اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔(بخاری، مسلم) اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکل آیا کہ جس چیز کو شریعتِ اسلام نے ضروری یا عبادت نہ سمجھا ہو اس کو اپنی طرف سے ضروری اور عبادت سمجھ لینا جائز نہیں، اسی طرح جو چیز شرعاً جائز ہو اس کو گناہ سمجھنا خود گناہ ہے ، ان لوگوں نے ایسا ہی کر رکھا تھا کہ گھر کے دروازوں سے داخل ہونا جو شرعاً جائز تھا اس کو گناہ قرار دیا اور مکان کی پشت سے دیوار توڑ کر آیا جو شرعاً ضروری نہیں تھا اس کو ضروری سمجھا، اسی پر ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی۔ بدعات کے ناجائز ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ غیر ضروری چیزوں کو فرض وواجب کی طرح ضروری سمجھ لیا جاتا ہے یا بعض چیزوں کو حرام و ناجائز قرار دے دیا جاتا ہے ، اس آیت سے ایسا کرنے کی ممانعت واضح طور پر ثابت ہوگئی جس سے ہزاروں اعمال کا حکم معلوم ہوگیا۔(معارف القرآن )حاجی کی دعا حج اسلام کی ایک عظیم ترین عبادت ہے ، جس میں بندہ اپنی جان، مال اور وقت کی قربانی دے کر اپنے رب کو راضی کرنے کی پروانہ وار کوششیں کرتا ہے ، اور بشارتِ نبوی کے مطابق اسی لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا خاص اکرام بھی کیا جاتا ہے ۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے وفد ہیں اگر اللہ سے دعا مانگیں تو اللہ قبول فرمائیں اور اگر اللہ سے بخشش طلب کریں تو اللہ ان کی بخشش فرما دیں ۔(ابن ماجہ، ابن خزیمہ)نیز خلاصۂ کائنات نے ان الفاظ کے ساتھ ان کے لیے دعا فرمائی ؛اے اللہ حج کرنے والے کی مغفرت فرما دے اور اس کی بھی، جس کی مغفرت کی حاجی دعا کرے ۔ (الترغیب)نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے : جب تم کسی حاجی سے ملاقات کروتو اس سے مصافحہ کرو اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اپنے لیے مغفرت کی دعا کرواؤ، اس لیے کہ وہ بخشا بخشایا ہوا آیا ہے۔ (مسند احمد)حج کے بعد کیسے رہیں؟ ان سب کے بعد اہم مرحلہ آتا ہے ، حج کے بعد زندگی گزارنے کا۔ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :نماز قائم کرو ، زکاۃ ادا کرو ، حج و عمرہ کرو اور استقامت اختیار کرو تمھارے معاملات درست رہیں گے ۔ (الطبرانی الکبیر )معلوم ہوا اسلامی عبادات جیسے نماز، روز اور حج و زکوٰۃ وغیرہ کی سعادت حاصل ہونے پر بھی اگر کوئی نیکیوں پر استقامت اختیار نہ کرے تو یہ محرومی کی بات ہے ، اس سے جہاں یہ اندیشہ ہے کہ اس کی عبادت ہی قبول نہ ہوئی ہوکہ اس میں خوش گوار تبدیلی نہیں آئی، وہیں لوگوں کو یہ کہنے کا موقع دینا بھی ہے کہ’دیکھو یہ حاجی صاحب ہو کر ایسا کرتے ہیں، کیا فایدہ ایسے حج و عمرے کا؟‘لہٰذا حجاجِ کرام کو اللہ تعالیٰ کے مخصوص در پر حاضر ہوکرجو گناہوں سے پاک و صاف ہونے کی دولت ملی ہے ، اب پھر سے خود کو گناہوں سے آلودہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے ، حجِ مبرور کی علامت بھی یہی ہے ، جس پر جنت کے وعدے ہیں۔حاجی کی دعوت ہمارے معاشرے میں حج سے پہلے اور بعد میں حاجی کی دعوت کا بھی رواج عام ہوتا جا رہا ہے ، یہاں تک کہ کسی کو سفرِ حج میں رخصت کرنے کے لیے بہت عورتیں جمع ہو جاتی ہیں، جو بالکل خلافِ شرع اور سخت منع ہے اور غضب یہ ہے کہ بعض تو مستقل دعوت دے کر مجمع بناتے ہیں، جو کہ ریا و نمود کی دلیل ہے ، ان سب کو ترک کرنا چاہیے ۔(اغلاط العوام)اسی طرح حج سے واپسی پر بھی اگر ریا و نمود کا شائبہ پائے جائے تو دعوت کا اہتمام نہیں کرنا چاہیے ، البتہ اگر دعوت واقعی حج سے واپسی کے جشن میں نہ ہو اور کسی رسم کی پابندی مقصود ہو اور نہ اس میں کوئی منکر اور خلافِ شریعت بات ہو تو ایسی دعوت ممنوع نہیں ہوگی۔ان شاء اللہ جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں:جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں پہنچے تو بنی عبدالمطلب کے کئی لڑکوں نے آپ کا استقبال کیا، آپ نے ایک لڑکے کو اپنے سامنے اور دوسرے کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔(بخاری)اس حدیث کو امام بخاریؒنے ’کتاب العمرہ‘ میں جس باب کے تحت ذکر کیا ہے ، اس کا ترجمہ ہے : ’آنے والے حجاج کا استقبال کرنا اور تین افراد کا سواری پر بیٹھنا‘۔اس کے پیشِ نظر علما نے لکھا ہے کہ ’نقعیہ‘ بنانا مستحب ہے ،یعنی وہ کھانا جو مسافر کے آنے پر تیار کیا جائے اور اس کا اطلاق مسافر یا کسی اور کی طرف سے بنائے گئے کھانے ‘ سب پر ہوتا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ کہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اپ نے اونٹ یا گائے ذبح کی تھی۔(ہدا یۃ السالک)ویسے بھی اس طرح کے مسائل میں بہت زیادہ شدت اختیار نہیں کرنی چاہیے ، اس لیے کہ یہ ان کی خوشی میں شرکت ہے لیکن فضول خرچی سے بچے کہ شریعت میں اس سے روکا گیا ہے ۔ارشادِ ربانی ہے: وَلَا  تُسْرِفُوْا،اِنَّہٗ  لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن۔ فضول خرچی مت کرو، بے شک اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الانعام:141)حج پر افتخار و اشتہار نہ کرے ویسے تو حج کوئی مخفی عبادت نہیں، پھر بھی اپنے نفس کو ریا سے بچانے کا اہتمام کرنا چاہیے ، دیکھا جاتا ہے کہ حج سے واپسی پر بہت سے لوگ شیخی بگھارنے میں لگتے ہیں، یہ غیر مناسب ہے ۔حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اکثر لوگوں کو افتخار اور اشتہار کی عادت ہو جاتی ہے ، جہاں بیٹھتے ہیں اپنے حج کے تذکرے کرتے ہیں، تاکہ لوگ ان کو حاجی سمجھیں۔ لوگوں سے فخراً کہتے ہیں کہ ہم نے سفرِ حج میں اتنا روپیہ خرچ کیا، مکہ میںاتنا دیا، مدینہ میں اتنا خرچ کیا۔ یقول اہلکت مالاً لبداً۔ حق تعالیٰ کفار کی مذمّت فرماتے ہیں کہ کافر خرچ کرکے گاتا پھرتا ہے کہ میں نے مال کے ڈھیر خرچ کر دیے ،یہ وہ معاصی ہیں کہ خشک مولوی بھی یہاں تک نہیں پہنچتے ۔ حج میں افتخار اور اشتہار اور تعظیم و تکریم کی خواہش نہ ہونی چاہیے ، اس میں تواضع و مسکنت، ذلّت و خواری ہونی چاہیے ، یاد رکھو اس افتخار اور اشتہار سے سب کی کرائی محنت اکارت ہو جاتی ہے ۔بعض لوگ صراحتاً اپنے حاجی ہونے کا اگر ذکر نہیں کرتے تو کسی نہ کسی پیرایے میں مخاطب کو بتلاتے ہیں کہ ہم حاجی ہیں۔ ایک بزرگ کسی کے یہاں مہمان ہوئے تو میزبان نے خادم سے کہا کہ اس صراحی کا پانی لانا، جو ہم دوسرے حج میں ساتھ لائے تھے ! مہمان نے کہا کہ حضرت آپ نے ایک بات میں دونوں حج کا ثواب کھو دیا۔چوں کی اس بات میں اس نے بتلا دیا کہ میں نے دو مرتبہ حج کیا ہے ، یہ ریا نہیں تو اور کیا ہے ؟(اغلاط العوام) اللہ ہم سب کو بار بار حجِ مبرور کی توفیق مرحمت فرمائے اور ریا و نمود سے ہم سب کی مکمل حفاظت فرمائے ۔ آمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here