Hindustan me shariat ki hifazat kese mumkin hai, Nadeem Ahmed Ansari

ہندوستان میں شریعت کی حفاظت کیسےکریں!

ندیم احمد انصاری

طلاقِ ثلاثہ سے شروع ہو کر جو بحث یونی فارم سول کوڈ تک جا پہنچی ہے، اس سے بے چینی تو یقینی ہے لیکن اس کا یہ فایدہ ضرور ہوا کہ مسلم عوام میں تحریک اور جماعتوں میں جوڑ نظر آنے لگا،کاش یہ اثرات دیر پا ہوں۔حال یہ ہے کہ جگہ جگہ شریعت کی حفاظت میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، حکومت سے شریعت میں مداخلت سے گریز کرنے پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، مختلف جماعتوں کے نمائندے ایک منچ پر نظر آنے لگے،وغیرہ وغیرہ۔جن حالات و مسائل کا اس وقت ملک کے مسلمانوں و اقلیتوں کو سامنا ہے، اس میں خاطی کہیں نہ کہیں وہ خود بھی ہیں، اس لیے کہ ان میں وحدت ہے، نہ دور اندیشی۔ جب تک پانی سر تک پہنچ جائے، ہر فرد اپنی ذات میں گم نظر آتا ہے اور شاید اصل وجہ یہ ہو کہ ہر پارٹی کا اپنا ایجنڈا ہے، اپنی تحریک ہے، اپنا نصب العین ہے، اپنا طرز ہے اور شاید اپنا مفاد، ورنہ بیس بائیس کروڑ کی آبادی کوئی ایسی معمولی شئے نہیں، جس کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جا سکے۔

وطنِ عزیز میں ایسے مسائل کا پیدا ہونا محض ایک اتفاق نہیں بلکہ خدائی تنبیہ ہے کہ جہاں سر کی ٹوپیوں کے ڈیزائن سے کسی کا مسلک و مذہب معلوم کیاجاتا اور اس سے سلام و کلام کیا جاتا ہے اور غیر ضروری بحثوں میں الجھ کر اپنی اور سامنے والے کی صلاحیتوں کو فنا کی نذر کردیا جاتا ہے۔ جہاں چند رسموں کا نام دین رکھ لیا گیا ہے اور دین و شریعت کے اکثر حصے کو دھکے مار کر خود ہم نےاپنے گھروں سے باہر نکال کھڑا کیا ہے۔ کسی پر طنز نہیں لیکن دل دکھتا ہے یہ دیکھ کر کہ نکاح و طلاق جیسے جن معاشرتی مسائل کے لیے اس وقت حکومت سے جنگ لڑی جا رہی ہے، خود مسلمانوں میں سے اکثران سے واقف نہیں اور نہ انھیں ان سے واقف کروانے کی کوئی قابلِ ذکر کوشش ہوتی کہیں نظر آتی ہے۔ اس میں جتنا قصور عوام کا ہے، اتنا ہی ان حضرات کا بھی ہے جو اس خدمت پر مامور ہیں، اس لیے کہ صرف شریعت شریعت چلانے سے تو شریعت کی حفاظت نہیں ہوگی، اگر واقعی دین و شریعت کو بچانا ہے تو ہم میںسے ہر ایک کو اپنی زندگی کے ہر ہر پہلو میں اس کا نفاذ کرنا ہوگا، ورنہ اس وقت جو مسائل در پیش ہیں، ان سے بڑے مسائل کا سامنا ہمیں کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمارا اور ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام قیامت تک کے لیے ہے، جس میں ترمیم و اصلاح کی ہرگز گنجائش نہیں، لوگوں نے آج کل اپنے واٹس ایپ اور فیس بک وغیرہ کے ڈی پی وغیرہ میں بھی یہی لکھ کر لگا رکھا ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ اس اعتقاد کے ساتھ کیا ہم واقعی دین و اسلام پر عمل بھی کرتے ہیں؟ مسلمانوں پر جو بھی حالات آتے ہیں، قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ خود ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہیں، جب کہ بہت سے گناہوں کو تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ اسی بنا پر عرض ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے مسلمانانِ ہند جن مسائل سے دو چار ہیں ، ان کے ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہیں، لیکن ہم شاید یہ ماننے کو تیار نہیں اور اگر مانتے ہیں تو اس کا تدارک کرنے کےلیے آمادہ نہیں۔واضح کر دیں کہ ہم کلی طور پر اسباب کے ترک کے قائل ہیں اور نہ ہی خدا کو چھوڑ کے بجائے اسباب و سائل پر اعتماد کرتے ہیں، بلکہ ہم اسلام کے دکھائے ہوئے اسی راستے میں خیریت جانتے ہیں جس میں اسباب کا مناسب استعمال بھی ہو اورلَو صرف اور صرف اللہ سے لگائی جائے۔اس لیے عرض ہے کہ حکومت کی بدنیتی سے اس وقت ہمارے معاشرتی مسائل میں جو دخل اندازی کی کوشش کی جا رہی ہے، جسےیونی فارم سول کوڈ کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے اور جس کے لیے اہم مسلم جماعتیں بر سرِ پیکار نظر آ رہی ہیں، یہ واقعی وقت کی ضرورت ہے،لیکن یقین جانیے کہ اس سے زیادہ ضرورت مسلمانوں کو حقیقی معنوں میں مسلمان بننے کی ہے، اس لیے کہ جب تک ایمان دلوں میں نہیں اترتا، اس وقت تک اسلام کی حقانیت پر شکوک و شبہات کی گنجائش رہتی ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ نے رائے مشورے سے مسئلے کے حل کے طور پر جس دستخطی مہم کا آغاز کیا ہے، ہم اس کے ساتھ ہیں، ہر ایک کو اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے،لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہر ہر مسلم فرد اسلام کی حقانیت کو دل کی گہرائیوں سے جانے اور مانے، انھیں ذہن نشین کرایا جانا چاہیے کہ اسلام کےدامنِ رحمت میں آکر کسی اور کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنا زیب نہیں دیتا۔ہر مسلمان جس طرح عبادات میں اللہ و رسول کے احکامات کا پابند رہتا ہے، اسی طرح اسے معاملات و معاشرت میں بھی ان احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے، کتنے باریش اور معاشرے میں نیک سمجھے جانے والے لوگوں کو ان گنہ گار آنکھوں نے خود اس طرح کے مسائل کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دیکھا ہے، جس سے توبہ کرنا لازم ہے۔علما و مفتیوں میں بھی ایسے متعدد افراد ان نگاہوں میں ہیں جو محض تن آسانی یا ذاتی روابط خراب ہونے کے اندیشے سے شریعت کے اہم مسائل پر عوام سے چشم پوشی کرتے ہیں، اس کے بعد بھی مسائل جنم نہ لیں تو اور کیا ہو! یہ بھی حقیقت ہے کہ فی زمانہ دنیاکی چکا چوند اور رنگینیوں نے معاشرے کو آخرت بے زاری کے جس مرض میں مبتلا کر دیا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ بعض مسلمانوں نے ہی ان معاملات میں عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا ہے۔بہ ایں وجہ جب تک ہم اسلام کے پیغام کو عام نہیں کریں گے، اپنی نسلوں میں اسلام کی حقانیت پیوست نہیں کریں گے، تب تک صحیح معنوں میں ہمارے لیے خطرہ بنا رہے گا۔ایک جملے میں کہیں تو بعض مسائل خارجی ہوتے ہیں اور بعض داخلی، صرف خارجی مسائل پر توجہ دینا اور داخلی مسائل سے عدم توجہی نہایت سنگین ہو سکتا ہیں۔

ہمیں مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی کی اس بات سے بھی انکار نہیں کہ مرکز کی بی جے پی حکومت اپنے انتخابی منشور میں یکساں سول کوڈ لاگو کرنے کے اپنے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کےلیے لا کمیشن کا استعمال کر رہی ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ لا کمیشن نے یکساں سول کوڈ کو لے کر جو سوالنامہ جاری کیا ہے، اس میں مسئلے کو انتہائی صفائی سے یکساں سول کوڈ کی طرف لے جایا گیا ہے۔ اس میں صاف کہا گیا ہے کہ ہندستان میں ’ڈایریکٹو پرنسپل 44‘ کی بنیادی قانونی ضرورت ہے، اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ لا کمیشن نے جو کیا ہے، وہ حکومت کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ہی کیا ہے۔ہم نے تو صرف آواز اٹھائی ہے کہ مذہبی قانون کو چیلنج نہ کیا جائے اور اس کے لیے آپ کا آئینی نظام ہے، اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ہم سب مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں اور دین و شریعت میں مداخلتِ بے جا کی مخالفت کرتے ہیںاور عزمِ مصمّم کرتے ہیں کہ اپنی داخلی و خارجی زندگی میں اسلامی احکامات کو سر آنکھوں پر رکھیں گے، آئیے آپ بھی ہمارے ساتھ ارادے اور عزائم کیجیے!

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here