Islam me kisi insaan ki ibadat ke sawaab ki kami beshi ka madaar us ke mukhlis aur ghair mukhlis hone par

 

اسلام میں کسی انسان کی عبادت کے ثواب کی کمی بیشی کامدار اس کے مخلص اورغیر مخلص ہونے پر

مولانا شاہد معین قاسمی

بائیسویں پارے کی شروع کی آیات یعنی سورہ ٔ احزاب کی آیت :۳۱ سے ۳۴؍تک باری تعالی نے حضور پاک ﷺ کی پاکدامن و پاک طینت بیویوں کے بارے میں کچھ خاص اور عام احکام بیان فرمائے ہیں سب سے پہلے یہ فرمایاگیا ہے کہ تم میں سے جو بھی نبی ﷺ کی زوجیت میں رہ کر اللہ اور خو د رسول ﷺ کی فرمان برداری کرے گی اسے دہرا ثواب ملے گاپھر ان کا وقار اور منصب بیان فرماتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ تم لو گ دنیا کی عام عورتوںکی طر ح نہیں ہوتمہیں تو اللہ تعالی نے نبیوں کے سردار اور دنیا کے سب سے بڑے اور محترم انسا ن کی بیوی ہونے کا مرتبہ اور شرف بخشا ہے اس لئے تمہیں دوسری عورتوں کے مقابلے میں زیادہ قربانیا ں دینا ہو ں گی۔ عورت کی شرافت کے لئے جتنی چیزیں ضروری ہیں انہیں تمہیں سب سے زیادہ اپنا ناہوگاچناںچہ تمہیں اپنی آواز نکالتے وقت یہ خیال رکھنا ہو گا کہ وہ اس طرح سے نکلے جس سے کسی غلط انسان کے دل میں تمہار ے خلاف کوئی غلط ارادہ اور گندی نیت پید ا نہ ہو۔ نہ تو بلا ضرورت گھروں سے نکلو اور نہ ہی بوقت ضرور ت نکلنے کی صورت میں اسلام سے پہلے کی طرح ڈھنگ سے پردہ کئے بغیر گھوموپھرو۔نماز و زکات کی ادائیگی کے ساتھ ہی اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے دوسرے تمام احکام میں بھی ان کا اتباع کرو اللہ تبارک وتعالی تمہارے ساتھ یہ پابندیاں لگا کر تمہیں اللہ اور ان کے رسول کی نافرمانی اور برے اخلاق کی گندگی سے پاک رکھنا چاہتے ہیں اور قرآن کریم کی آیات اور احکام کو یا د کروجن کا تمہارے گھروں میں چرچا ہوتاہے۔ اللہ تبارک وتعالی تمہیں یہ دو عظیم نعمتیں دینا چاہتے ہیںوہ قیامت تک کے لئے تمہیں دنیا کی پاکدامن ترین عورتیں بنانا چاہتے ہیں او ر تمہیں دین اسلام کو سیکھنے سکھانے کے لئے فارغ رکھنا چاہتے ہیںاور اللہ تبارک وتعالی نے ان پابندیوں کو ان دونوں مبارک کاموں کیلئے تمہاری فراغت اور ان میں تمہاری یکتا کامیابی کے لئے تدبیر وحکمت کے طورپر عائد کیا ہے ۔اگرچہ یہ آیا ت براہ راست نبئی پاک ﷺ کی پاکباز بیویوںکو مخاطب کرکے نازل کی گئی ہیں لیکن حکم تما م مؤمن عورتوں کو عام ہوگا ۔ اور اِن آیتوں سے دوباتیں سمجھ لینی چاہئیں :پہلی بات تو یہ کہ اللہ تبارک وتعالی ان پابندیوں کے ذریعے مسلمان عورتوں کو پاکدامن رکھنا چاہتے ہیں کہ ہر زمانے کی مسلمان عورتیں پاک ترین عورتیں رہیں ۔دوسری بات یہ کہ عورتوں کو اللہ تبارک وتعالی نے مکمل طور پہ دین کی خدمت کے لئے قبول کرتے ہوئے انہیں ہر طرح سے روزی کی تلاش اور گھر کے باہر کی الجھنوں سے فارغ کردیا ۔کا ش کہ ہماری مائیں اور بہنیں اس شرف اور احسان کو اللہ کے لاکھ لاکھ شکریے کے ساتھ محسوس کرتیںاوردنیا کی دیگر ماؤں او ر بہنوںکے لئے قابل رشک بنتیں۔آیت :۳۵؍ میں اللہ تعالی نے ایمان واسلام کے بعد آٹھ اعمال کے نام لیے ہیں اور فرمایا کہ مردوعورت جوبھی انہیں کرے گا سب کو اللہ تبارک وتعالی بے انتہا ثواب سے نوازیںگے ۔اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام میں کسی انسان کی عبادت کے ثواب کی کمی بیشی کامدار اس کے مخلص اورغیر مخلص ہونے پر ہے نہ کہ مرد یا عورت ہونے پر ۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہو گیاکہ ثواب میںآپ ﷺ کی بیوں کازیادہ ہونا صرف بیوی ہونے کی وجہ سے نہیں بل کہ اس لئے ہے کہ وہ نبی کی صحبت کی برکت سے مجاہدہ بھی زیادہ پیش کریںگی اور اخلا ص بھی زیا دہ اپنائیں گی تو اصل عبادت واخلاص ہو انہ کہ صرف نبی کی بیوی ہونا۔
حضرت زینبؓ سے نکاح کا واقعہ : آیت :۳۶ سے ۴۰؍میں حضرت زید بن حارثہ سے حضرت زینب کے نکاح ،نکاح کے بعد طلاق اور طلاق کے بعد پھر حضور ﷺ سے ان کے نکاح کے بہت اہم واقعے کی طرف اشارہ فرمایاجس کاخلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی پھو پھی زاد بہن زینب بنت جحش کا نکاح زید بن حارثہ سے طے فرمایا جوایک تو آپ ﷺ کے آزاد کئے ہوئے غلام تھے اور دوسرے آپ کے منھ بولے بیٹے بھی لیکن نہ حضرت زینبؓ اپنے لئے اس رشتے کو پسند کررہی تھیں اور نہ ہی ان کے بھائی۔ اللہ بتارک وتعالی نے وحی بھیجی اور اس میں یہ حکم فرمایا کہ جب اللہ اور ان کے رسول ﷺ کسی چیز کا فیصلہ فرمادیں تو کسی بھی ایمان والے مردو عورت کو اسے انکار کرنے کاحق نہیں اب اللہ تعالی کا یہ حکم سننا تھا کہ یہ دونوں بھائیؓ بہن ؓحضور ﷺ کے فرمان ومشورے کے مطابق زید سے رشتے پے را ضی ہوگئے اورالحمدللہ رشتہ ہوبھی گیا لیکن دونوں کے مزاج کے نہ ملنے کی وجہ سے ازدواجی زندگی پرلطف نہیں ہوپارہی تھی (اور مزاج کا اختلاف طبعی ہے اورحضرت زید ؓکے دل میں حضرت زینب کا احترام وشفقت بھی تھی اس لیے) حضرت زید نے ( بلا کبیدگیٔ خاطر) طلاق دینا چاہی اور آپ ﷺ سے مشورہ بھی کیا آپ ﷺ نے نصیحت فرمائی کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کرو اور جہاں تک ہوسکے اپنی بیوی کے ساتھ( مزید )نرمی سے پیش آؤ لیکن با ت نہ بن سکی اور پھر واپس حضرت زید حضور ﷺ کے پا س آئے اور طلاق دینے کے سلسلے میں اپنے پختہ ارادے کوظاہر کیا اسو قت آپ ﷺ سے اللہ تبارک وتعالی نے بتلادیا کہ زید ضرور طلاق دیدیںگے اور اب زینب کا نکاح آپ سے ہوگا اللہ تعالی کی اطلاع وحکم کے مطابق آپ ﷺ نے بھی نکاح کا ارادہ فرمالیا تھاکیوں کہ آپ ﷺ یہ سمجھ رہے تھے کہ ایک توزینب کا نکاح زیدسے طبعی میلان کے بغیر ہواتھا جس کی وجہ سے وہ پہلے سے ہی کبیدہ خاطر ہیں اس پہ اگر طلاق بھی ہوجائے تو ان کی تکلیف اور بڑھ جائیگی اور وہ کچھ ٹوٹ سی جائیں گی اس تکلیف کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ میں زینب سے نکاح کرلوں لیکن آپ ﷺاس ارادے کو لوگوں سے ظاہر نہیں فرمارہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ جب وقت آئے گا تو اللہ تعالی خود ہی ظاہر فرمادیںگے ۔خیر! جب حضرت زیدؓنے حضرت زینبؓ کو طلاق دیدی اور عدت بھی گزرگئی تو اللہ تبارک وتعالی نے خودہی فرشتوں کے بیچ زینب کانکاح آپ ﷺ سے فرمادیااور ساتھ ہی یہ بھی بیان فرمادیا کہ اس رشتے کا مقصد ایک مصیبت اور تنگی کو ختم کرنا ہے کہ لوگ اپنے منھ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کو حرام سمجھنا چھوڑدیں۔اور جو لوگ اعتراض کررہے تھے ان سے صاف کہدیا کہ محمد ﷺ (زید سمیت) تم میں سے کسی کے بھی باپ نہیں ہیں اس لئے زید کی بیوی سے نکاح میںمحمد ﷺ کے لئے کوئی حرج نہیں ۔ آیت :۴۱سے ۴۸؍ تک مسلمانوں کو اللہ تعالی کا خوب خوب ذکر کرنے کی نصیحت فرماتے ہوئے ان کی ایک بڑی ہی قابل رشک فضیلت یہ بیان کی ہے کہ اللہ تبارک وتعالی اور فرشتے ان پہ رحمت بھیجتے ہیں ساتھ ہی آپ ﷺ کو اپنا منصب بتلاتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ منافقین یا کا فر کی با ت نہ مانیںاور وہ جو تکلیفیں دیتے ہیںان کونظر اند از کردیں اور ان پہ زیادہ توجہ نہ دیں ۔ آیت: ۴۹؍ میں عورت کی طلاق ہو نے پر مستحب اور واجب متعہ کا بیان ہے ۔آیت: ۵۰سے ۵۲؍ تک نکاح کے ان خصوصی احکام اور سہولتوں کا بیان ہے جو آپ ﷺ کو دی گئی ہیں۔
آیت: ۵۳ سے ۵۸؍ تک صحابہ کو آپ ﷺ کی راحت وآرام کے خیال کرنے کا حکم فرمایاگیا ہے ۔ہو ایہ تھا کہ آپ ﷺ نے حضرت زینبؓ کے نکاح پر ولیمہ کیا تھااور لوگوں کی دعوت کی تھی مگر لوگوں نے کھانے کے بعد آپﷺ کے یہاں ہی بیٹھ کر بات چیت شروع کردی جب کہ آ پ ﷺ کو آرام کا تقاضاتھا آپ ﷺدوتین مرتبہ خودہی مجلس سے اٹھ گئے تاکہ آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اٹھ کر اپنے گھروں کوچلے جائیںلیکن اس کے باوجود بھی کچھ لوگ بیٹھے رہ گئے اور کچھ لوگ تو پہلے سے ہی جا کر بیٹھ گئے تھے اور کھانہ تیار ہونے کا انتظا کرتے رہے ۔اس آیت میں یہ کہا گیا کہ جب تک نبی اجازت نہ دیں ان کے گھر وں میں داخل نہ ہوا جائے بل کہ جب کھانہ تیار ہو جانے پہ بلایا جائے تبھی آؤ اور پھر کھانے کے فور ا بعد ہی وہا ں سے واپس آجاؤ اور وہاں بیٹھ کرباتیں نہ کرواور جب کبھی نبی ٔ پاک ﷺ کی پاک بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو ۔نہ تو تمہیں نبی ﷺکو تکلیف پہنچا نے کی اجازت ہے اور نہ ہی ان کی بیوں سے نکاح کرنے کی ہا ں ان کے باپ ماں، بھائی بہن اور بھتیجے وبھانجے وغیرہ کے لیے آنا جانا جائز ہے اورکسی بھی اعتبار سے اللہ اور ان کے رسول کو تکلیف پہنچانے والے ملعون ہیں دنیا اور آخرت دونوں میں ان پہ اللہ کی لعنت ہوگی ۔ سورۂ نور اور سورۂ حجرات کی طرح سورۂ احزاب کی ان آیتوں میں بھی انسانی تمدن وتہذیب کے بڑے ہی صحت بخش اور روح افز ااصول و قواعد بیان کے گئے ہیں جن کا مطالعہ بڑاہی معلوماتی اور باعث خیر وبرکت ہوگاان میں سے ایک قاعدہ یہاں پہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ہمیں کہیں کھانے ،چائے یا ناشتے وغیرہ کی دعوت ملے تو ہمیں وقت سے پہلے وہاں نہیں پہنچنا چاہئے بل کہ جب کھانا تیار ہوجائے اور کھلانے والا کھانے کے لئے بلائے تبھی جانا چاہئے اور جوں ہی کھانے سے فارغ ہوجائیں فورا وہاں سے واپس ہوجانا چاہئے کھانے کی تیاری سے پہلے پہنچنے میں خود اس تیاری میں بھی میزبانوں کو دقت پیش آئے گی اگر مہمانوں کی خاطر تواضع کی جائے تو دوسرے ضروری کاموں کے لیے افراد کم پڑجائیں اور جگہ کی دقت بھی ہو سکتی ہے اور اگر ان چیزوں کی تیاریوں میں مصروف ہو اجائے تو پھر مہمانوں کو اچھا نہیں لگیگا اسی طرح اگر کھانے سے فراغت کے بعد وہاں دیرتک بیٹھا جائے تو بڑے مجمع میں دوسرے لوگوں کو کھلانے اور بٹھانے کے لیے جگہ نہیں رہے گی اور خاص کر شہروں میں اس حکم کی اہمیت اور ہی بڑھ جاتی ہے کہ یہاں یا تو کھانا کھلانے کے لیے بڑا مہنگا ہال بُک کیا جاتاہے اور کبھی کبھی اس کا وقت بھی محدود اور تھوڑا ہوتا ہے ایسے میں اگر کھانے کے وقت سے بہت پہلے پہنچاگیا یا کھانے کے بعد وہاں دیرتک بیٹھا گیا تو پھر میزبان کے لیے نظام پہ قابو پانا بہت مشکل ہوجائے گا کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوگا کہ دوگنے اور سہ گنے پیسے خرچ کر کے بھی شرمندگی کے علاوہ اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا کیوں کہ ایک ہی ہال ایک ہی دن میں کئی کئی پروگراموں کے لیے بُک ہوتا ہے خلاصہ یہ کہ اس کے بہت سارے نقصانات ہیں اس لیے قرآن کریم (جوانسانوں کو ہر طرح کے نقصان ،بد نظمی اور بے امنی سے نکالنا چاہتاہے) نے اس سے منع کردیا…۔
اس کے ساتھ ہی مسلمان عورتوں اور خاص طور سے مسلمان باندیوں کو راستہ چلتے تکلیف پہنچانے اور ان کے ساتھ گستاخی کرنے والوں کو دنیا میں ہی سخت سے سخت سزا کی دھمکی دی گئی ہے اور ایک طر ف اس سے بچنے کے لئے پردے کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری طر ف اپنی غلطی سے باز نہ آ نے والوں کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ انہیںمدینہ سے نکال باہر کیا جائے اس کے بعد جہاں پکڑ جائیں وہیں قتل کردئے جائیں جس سے خواتین کی عزت وعصمت کے تعلق سے اسلام کی حساسیت وہ بیدار مغزی کا علم ہو تا ہے بلا شبہ یہ وہ حساسیت ہے کہ اگر موجودہ دنیا ایک مرتبہ بھی اپنے اندر پیدا کرلے تو پوری دنیا پھر ایک بار عورتوں کے لیے جنت نما بن جائے۔ آیت :۶۳؍ سے۶۸؍ تک آپ ﷺ کا مذاق اڑانے کی غرض سے آپ سے قیامت کے بارے میں معلوم کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ پہلے توآپ یہ فرمادیں کہ اس کی صحیح خبر اللہ کو ہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیں کہ جب ہوگی تو نہ ماننے والوں کا بہت ہی بر احشر ہوگاکہ وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں ہوں گے اور وہ کہیں گے کہ اے کاش ہم رسول کی با ت مان لئے ہوتے او ر اپنے سرداروں کی بات میں نہ آتے اور یہ بھی کہیں گے کہ ان سرداروں کو دوگنا عذاب دیجئے ۔
حضرت موسی کو اذیت دینے کا واقعہ :
آیت: ۶۸، ۶۹؍ میں مسلمانوں سے آپ ﷺ کو اذیت نہ دینے کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت موسی کے ایک قصے کی طر ف اشارہ فرمایا ہے جس کا خلاصہ بخار ی وغیرہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ موسی ؑ کی قوم کے لوگ ایک دوسرے کے سامنے ننگے بدن غسل کیا کرتے تھے اور موسی ؑ پردے میں حضرت موسی کو ننگے بدن نہانے پہ مجبور کرنے کے لیے ان کی قوم نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اصل میں موسی کے بدن میں عیب دار مرض ہے اسی کو چھپانے کے لئے یہ لوگوں کے سامنے ننگے بدن غسل نہیں کرتے اس وجہ سے اللہ تعالی نے اس لئے تا کہ یہ لوگ موسی ؑ کو یہ الزام دینا بند کردیں اِس کی تدبیر یہ فرمائی کہ جب ایک مرتبہ حضرت موسی نے تنہائی میںکپڑے اتار کر پتھر پہ رکھدیئے اور غسل کرنے لگے تو اللہ کے حکم سے اس پتھر نے حضرت کے کپڑ ے لیکر بھاگنا شروع کردیا اب حضرت موسی ا س کے پیچھے ہولئے انہوں نے یہ سمجھا کہ یہاں خالی میدان میں کوئی نہو گا اور اسی ننگے بدن کے ساتھ دوڑنے لگے لیکن ہو ا یہ کہ اتفاق سے ان کی قوم کا ایک گروپ وہا ں موجود تھا اور اس پتھر نے بھی اللہ تعالی کے حکم سے گویا کہ بڑی ہوشیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ انہی لوگوں کے پاس پہنچ کر دم لیا اور اس سے پہلے حضرت موسی آواز لگاتے رہے لیکن ان کی ایک بھی نہ سنی بہر حال جب حضرت بھی ا س کے پیچھے پہنچے تو ان لوگوں نے حضرت کو سر سے پاؤں تک دیکھ لیا کہ ان کے بدن میں کہیں کوئی عیب نہیں او ر ان لوگوں کا منھ بند ہو گیا۔(بخاری شریف کتاب التفسیر وکتاب الانبیاء) قوم موسی کی طرف سے حضرت موسی کو دی گئی اذیتیوں کی لمبی فہرست ہے اس آیت میں ان سب کی طرف بھی اشارہ ہوسکتاہے اللہ تعالی نے فرمایا کہ جس طرح موسی کی قوم موسی ؑ کو طرح طرح سے تکلیف پہنچایا کرتی تھی تم لوگ اس طرح مت کرو۔اس کے بعد سورت کے اخیر تک یہ بیان فرمایا کہ اسلام اور اس کے احکام کو اللہ تعالی نے پہلے آسمان وزمین پہ پیش کیاتھا لیکن یہ دونوں اسے برداشت نہ کرسکے اور انسان نے اسے قبول کرلیا۔
سورۂ سبا میں مجموعی طور پہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنی نشانیاں بیان فرمائی ہیں نہ ماننے والوں کو اس با ت سے ڈرایا بھی گیاہے کہ انہیں زمین میں دھنسا بھی سکتے ہیں اور ان پہ آسمان کے ٹکڑے بھی گرا سکتے ہیں ،حضرت داؤد کے بارے میں یہ فرمایا کہ ہم نے ان پہ دنیا و آخرت کے اعتبار سے فضل کا معاملہ کیا تھا پہاڑوں اور پرندوں سے کہہ رکھا تھا کہ جب داؤد میری تسبیح بیان کریں تو تم بھی ان کے ساتھ میری تسبیح بیان کرنا۔جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اِدھر حضرت داؤد اپنی سریلی آواز میں اللہ کی تسبیح بیان کرنا شروع کرتے اُدھرپہاڑوں اور پرندوں پہ بھی ایک خاص حالت اوروجد طاری ہوجاتا وہ بھی حضرت داؤو کی آواز میں آواز ملا کر اللہ کی تعریف بیان کرنا شروع کردیتے۔اللہ تعالی نے حضرت داؤد کے لیے لوہے جیسی چیز کو نرم کردیاتھا ۔اور بتایا جاتاہے کہ لوہا حضرت ؑکے ہاتھ میں اس طرح نرم ہوجاتا کہ جیسے کپڑے کا د ھاگہ اس لئے زرہ بنانے کے لیے نہ تو بھٹی میں ڈالنے کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی ہتھوڑے چلانے کی اسی طرح زرہ بنانے کا علم بھی خود اللہ تعالی نے ہی سکھا یاتھا کہ کڑیاں ٹھیک ٹھیک رکھیںحلقے چھوٹے نہ ہوں کہ ٹھیک ٹھیک نہ بیٹھیں اور اتنے بڑے بھی نہ ہوں کہ ڈھیلے ہوجائیں پھر حضرت داؤد کے بیٹے حضرت سلیمان کے بارے میں یہ فرمایا کہ ہم نے ہوا کو ان کے تابع کردیاتھا جس کی وجہ سے ایک ماہ کے برابرکا سفر صبح صبح ہی طے ہوجایا کرتا اوراتنا ہی لمبا سفر شام میں بھی ہوجاتا علامہ ابن کثیر نے ا س کی مثال یہ دی ہے کہ جیسے پوری فوج اور سامان کے ساتھ دمشق سے تخت اڑایا اورتھوڑی دیر میں اصطخر پہنچادیاجو تیز سوار کے لیے بھی مہینے بھر کا سفر تھا اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑایا اور شام ہی کوکابل پہنچادیا اسی طرح تانبے کو پانی کی طر ح بنا کر اللہ تعالی نے ان کے لیے اس کے چشمے جاری کردئے تھے جس سے جس طرح ،جس وقت اور جتنا چاہتے بڑی آسانی سے کام لیتے، انہیں جناتوں پہ قابو دے رکھا تھاجن کی نگرانی خود اللہ تعالی بھی فرماتے اس لیے وہ ذرا بھی گڑبڑ نہیں کرسکتے تھے ان جناتوں کے چند کام بھی یہاں بیان کئے گئے ہیں کہ وہ بڑی بڑی عمارتیں ،مجسمے ،حوضوں کے برار کھانابنانے کی بڑی بڑی دیگیں اور نہ ہلنے والے چو لھیں تیار کرتے ۔ اور خاص طور سے دوواقعے بھی ذکر کئے ہیں :
پہلا واقعہ حضرت سلیمان کی وفات کا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں ہر چیز پہ حکومت دی تھی جنات بھی ان کے کام میں لگے رہتے تھے اوروہ ان کے سامنے سے ہل نہیں سکتے تھے چناں چہ اخیر عمر میں جب جنات کام میں لگے ہوئے تھے اورحضر ت سلیمان اپنی مو ت کے قریب اپنی لاٹھی پکڑ کر اپنے تخت پہ بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی حالت میں آپ کا انتقال ہوگیا لیکن آپ اسی طرح اسی لاٹھی پہ ٹیک لگا ئے رہے جناتوں کی ہمت نہ ہوتی کہ قریب سے جا کر دیکھیں کہ زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں بل کہ ا نہیں تو اس کی بھی ہمت نہ تھی کہ دور سے بھی بہت زیاد ہ نظر جماکر حضرتؑ کو دیکھ سکیں اس لئے وہ یہ سمجھکر کہ حضرت ا بھی زندہ ہیں ان کے مرنے کے بعد بھی ایک سا ل تک کام کرتے رہے پھر جب ان کی لاٹھی کو گھون نے کھالیاتو حضرت ایک سال کے بعد گرے پھر ان لوگوں کو حضرت کی وفات کاپتہ چلاتو بہت ہی پریشان ہوئے اور افسوس کرنے لگے کہ کاش ہمیں حضرت کی وفات کا علم پہلے ہی ہوجاتاتوہم ایک سال پہلے ہی اس نوکری اور غلامی سے بچ جاتے۔
دوسر ا واقعہ قوم سبا کا تھا جو علامہ ابن کثیر کے مطابق یمن کی رہنے والی تھی اور انہوں نے اس سلسلے میں لمبی تفصیلات بھی نقل کی ہیں۔اس قوم کی جس حالت کی طرف اس آیت میں اشارہ کیاگیاہے اس کاخلاصہ ہے یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے ان کی آبادی کے دونوں طرف پہاڑ قائم کئے تھے جہاں سے نہریں اور چشمے بہہ کر ان کے شہروں میں آتے تھے ان کے پہلے کے بادشاہوں میں سے کسی نے ایک مضبوط پشتہ بنوایاتھاجس کی دیوار کی وجہ سے پانی ادھر ادھر ہوجاتاتھا اور خوبصورت دریا جاری رہاکرتاتھا جس کے دونوں جانب باغات اور کھیتیاں لگادی تھیں پانی کی بھرپوری موجودگی اور زمین کی عمدگی کی وہ جے سے یہ علاقہ خوب ہرابھر ا رہا رہاکرتاتھا پھل اتنے زیادہ ہوتے کہ اگر کوئی خالی ٹوکڑی لیکر صرف کچھ دیر ان باغوں میں گذرجاتا تو اس کی ٹوکڑی بھر جاتی ان کے شہروں کی عمدگی کا عالم یہ تھا کہ ان کے یہاںمچھر مکھی اور دوسرے زھریلے جانور بھی نہ تھے اللہ تعالی نے انبیا کے ذریعے یہ کہلوادیاتھا کہ اللہ کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ خوب کھاؤ پیوں اور اللہ کا شکر اد ا کرو لیکن انہوں نے سورج کی پوجا شروع کردی اللہ تعالی کا عذا ب آیا اور جو دیوار انہوں نے بنائی تھی چو ہوں نے اسے کھوکھلی کردی جس کے نتیجے میں کمزور ہوکر بارش کے زمانے میں وہ گرگئی پھر کیاتھا!اب ہر طرف پانی ہی پانی تھا! دریاؤں،چشموں اور بارش کے نا لوں میںسے ہرایک کا پانی آپڑ ا ! ان کی بستیاں،مکانات،باغات اور کھیتاں سب اجڑگئیں پھر تو ایسی تباہی آئی کہ یاتو ان کے یہاںکوئی پھلدار درخت اگتاہی نہ تھایااگراگتا بھی تو کسی کام کا نہیں جیسے پیلو،جھاؤ،کیکر،ببول اور دوسرے بدمزے میؤں کے درخت ۔اگر کچھ بیر کے درخت نکل بھی گئے تو ان میں بہت زیادہ پھل نہیں ہوتے بل کہ بہت زیادہ خاردار ہوتے اللہ تعالی نے ان کی بستیوں کو اس انداز سے بسایاتھا ایک بستی سے دوسری بستی کے سفر میں رات ہویا دن انہیں کوئی دقت پیش نہیں آتی لیکن ان لوگوں کو یہ بھی پسند نہ تھا اور خود ہی دعا کر بیٹھے کہ ائے اللہ ہمارے سفر کو دوری والابنادے بہرحال یہ پہلے جتنے ہی خوش حال تھے اب اتنے ہی کنگال ہوگئے اور اتنے کہ کہاجاتا ہے کہ اگر کوئی قوم تین تیرہ ہوجائے تو عرب انہیں سبائیوں کی مثل سناتے ہیں ۔اس کے بعد پارے کے اخیر تک کا انتہائی مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی بے شمار نشانیوں اور آخرت کے عذاب وانعام کو بیان فرماتے ہوئے دین اسلام کی ا ہمیت بیان فرمائی ہے جس کے لئے یسین شریف کے دوسرے رکوع میں ایک واقعہ بھی بیان فرمایاہے ۔ ��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here