Islam zameer aur etiqaad ki azadi ka sabse bada alam bardaar, Nadeem Ahmed Ansari

islam-zameer-ki-azadi-ka-sa

اسلام ضمیر اور اعتقاد کی آزادی کاسب سے بڑا عَلم بردار

ندیم احمد انصاری

(خادم الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)

جمہوری ملک ہندوستان؛ جس کی جمہوریت کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے، آج بعض شر پسند عناصر کے ایسے نرغے میں ہے کہ اس کے دستور سے ’سیکولر‘ جیسے الفاظ نکال پھینکنے کی بات کہی جا رہی ہے،حیرت اس بات پر یا ان کے کہنے والوں پر نہیں، حیرت تو اُن لوگوں پر ہے، جو سیکولرزم کے ڈھول پیٹتے ہیںلیکن ایسے بیانات کے خلاف سکوت میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ امریکہ صدر باراک اوبامہ، جنھیں یومِ جمہوریہ(۲۰۱۵ء) کے موقع پر ہندوستان مدعو کیا گیا تھا، اُن کی آمد پر بعض حلقوں میں ناراضگی بھی دیکھی گئی تھی، بعض علاقوں میں ان کے پُتلے بھی نذر آتش کیے گئے لیکن ان کے اسپیچ رائٹر نے ان کی لاج رکھ لی اور انھوں نے ہندوستان کو مذہبی رواداری اپنانے کا نہ صرف مشورہ دیابلکہ ملک کی ترقی کے لیے اسے لازم و ضروری بھی قرار دیا۔ اس کے بعد ان کے بیان کی ستائش بھی ہوئی اور لوگوں نے انھیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ ’مذہبی روادری‘ کا یہ پیغام اصلاً وہ پیغام ہے، جسے رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ نے آج سے پندرہ صدیوں پہلے مدینہ منورہ میں عام کیا تھا، آج اسلام و مسلمانوں پر نکتہ چینی کرنے والے، اسی ذاتِ پاک کے خوشہ چین ہیں ، جو کہ تمام عالَموں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور ساری دنیا انھیں کی زندگی سے سبق حاصل کرتی ہے، خواہ پس پردہ ہی ہو۔

اس مضمون کے ذریعے اصلاً ہم اسلامی رواداری کا مفہوم پیش کرنا چاہتے ہیں، اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں افراط و تفریط بہت عام ہے، بعض لوگ تو کسی بات کے بالکل قائل ہی نہیں ہوتے ، جب کہ بعض اسی چیز میں غلو کی حد تک جاپہنچتے ہیں، یہ دونوں ہی راہیں جادۂ اعتدال کے کناروں سے نکلی ہوئی ہیں۔

اسلام میں رواداری کا مفہوم سمجھتے ہوئے،یہ جملہ ضرور ذہن میں رہنا چاہیے کہ ’’ اسلام میں رواداری کا مطلب، دین بے زاری ہرگز نہیں‘‘۔ ’اسلام‘ خالقِ حقیقی کا بنایا ہوا دین ہے، جس میں مخلوق کی فطرت و کمزوریوں کا پورا خیال رکھا گیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اگر چاہیںتو ساری انسانیت کو بیک وقت ایک مذہب پر جمع کر سکتے ہیں، اس کے لیے تو کچھ بھی مشکل نہیں، وہ تو لفظِ ’کُن‘ کا بھی محتاج نہیںلیکن اس نے انسانوں کو کچھ نشانیاں دکھا کر ، عقل و شعور دے کر اور پیغمبر بھیج کر اس معاملے میں بالکل آزاد چھوڑ دیا ،یہ کہتے ہوئے:

إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا۔

اور اُسے رستہ بھی دکھا دیا، اب وہ خواہ شکر گزار ہو، خواہ نا شکرا۔

اسلام ضمیر اور اعتقاد کی آزادی کے متعلق روادار ہی نہیں بلکہ سب سے بڑا علم بردار ہے، تبھی تو مدینہ منورہ میں ساری حکومت رسول اللہﷺ کے ہاتھوں میں ہونے کے باوجود، آپﷺ نے یہودیوں پر اسلام لانے کے لیے کوئی جبر نہیں کیا اور ’میثاقِ مدینہ‘ عالم کا پہلا ایسا منشور قرار پایا، جس میں انسانیت کے حقوق کا سب سے زیادہ پاس و لحاظ رکھا گیا تھا۔معلوم ہوا، اسلام یہ فیصلہ خود انسان پر چھوڑتا ہے کہ وہ کفر و ایمان میں سے جو راہ چاہیں اختیار کر یں۔اسلام نے ہمیشہ مذہبی رواداری کا سبق دیا اور مذہبی دل آزاری سے منع کیا ہے، ارشاد ربّانی ہے:

وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ۔

ان کو برا بھلا نہ کہو ،جنھیںیہ لوگ اللہ کے ماسوا معبود بنا کر پکارتے ہیں۔

ہاں یہ خیال رکھنا چاہیےکہ اسلام میں جہاں مذہبی دلآزاری سے منع کیا گیا ہے، وہیں برہان و دلائل سے حکمت کے ساتھ تنقید کرنا اور اختلاف کرنا، آزادیٔ اظہار کے حق کے زمرے میں رکھا گیا ہے، ساتھ ہی مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اہلِ کتاب یا کسی بھی مذہب کے پیروکاروں سے جب گفتگو کی جائےتو تحمل اور رواداری کا مظاہرہ کیا جائے اور احسن انداز اپنایا جائے :

وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ۔

اہلِ کتاب سے مجادلہ نہ کرو مگر احسن طریقے سے۔

معلوم ہوا کہ اسلام میں ’رواداری‘ کا تصور یہ نہیں ہے کہ مختلف اور متضاد باطل خیالات کو درست قرار دے دیا جائےبلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ، ان کو ہم برداشت کریں ، ان کے جذبات کا لحاظ کر کے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں، جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو اور انھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔اس قسم کے تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے،لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں اور خود ایک دستور العمل کے پیرو ہوتے ہوئے، دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوں سے کہیں کہ آپ سب حضرات برحق ہیں تو اس منافقانہ اظہارِ رائے کو کسی طرح ’رواداری‘ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔

اس آیت میں(لا تسبوا) لفظ ’سبّ‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں، گالی دینا۔ رسول کریم ﷺ تو اپنے فطری اخلاق کی بنا پر پہلے ہی اس کے پابند تھے، کبھی بچپن میں بھی کسی انسان، بلکہ کسی جانور کے لیے بھی گالی کا لفظ آپﷺ کی زبان مبارک پر جاری نہیں ہوا، ممکن ہے بعض صحابہ کرامؓ کی زبان سے کبھی کوئی سخت کلمہ نکل بھی گیا ہو، جس کو مشرکینِ مکہ نے گالی سے تعبیر کیا اور قریشی سرداروں کے اس وفد نے حضورﷺ کے سامنے اس معاملے کو رکھ کر یہ اعلان کر دیا کہ آپﷺ ہمارے بتوں کو سبّ و شتم کرنے سے باز نہ آئیں گے تو ہم آپ کے خدا کو سب و شتم کریں گے۔ اس پر قرآنی حکم نازل ہوا، جس کے ذریعے مسلمانوں کو روک دیا گیا کہ مشرکین کے معبوداتِ باطلہ کے متعلق کوئی سخت کلمہ نہ کہا کریں۔۔۔ رہا یہ معاملہ کہ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں بتوں کا تذکرہ سخت الفاظ میں آیا ہے اور وہ آیات منسوخ بھی نہیں، ان کی تلاوت اب بھی ہوتی ہے؛ اس کا جواب یہ ہے کہ آیاتِ قرآنی میں جہاں کہیں ایسے الفاظ آئے ہیں، وہ بطورِ مناظرہ کسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے وارد ہوئے ہیں، وہاں کسی کی دل آزاری نہ پیشِ نظر ہے اور نہ کوئی سمجھ دار اس سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اس میں بتوں کو بُرا کہنا یا مشرکین کو چڑانا منظور ہے اوریہ ایک ایسا کھُلا ہوا فرق ہے ، جس کو ہر زبان کے اہلِ محاورہ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ فقہاء رحمہم اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص اس آیت کو بھی مشرکین کو چڑانے کے سبب سے پڑھے تو اس کے لیے اس وقت یہ تلاوت کرنا بھی سبّ ِممنوع میں داخل اور نا جائز ہے، جیسے مواضعِ مکروہہ میں تلاوتِ قرآن کا ناجائز ہونا سب کو معلوم ہے۔

اس لیےضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو صحیح پس منظر میں نہ صرف سمجھیںبلکہ اس پر عمل کر کے دنیا کے سامنے صحیح نمونہ بھی پیش کریں اور ایسا کرتے وقت نہ کسی جہالت کا شکار ہوں اور نہ کسی منافقت کا۔

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here