Janwar ki qurbani musalmano ka deeni fareeza aur dastoori haq hai, Nadeem Ahmed Ansari (Islamic Scholar & Journalist)

جانور کی قربانی مسلمانوں کا دینی فریضہ اور دستوری حق ہے!

ندیم احمد انصاری

عیدِ قرباں قریب ہے، جس میں پہلے سے ہی گائے کی قربانی کرنے سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے، اب حال ہی میںماحول کشیدہ کرنے والی چند خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ایک خبر ہے کہ طلاقِ ثلاثہ کے بعد اب عدالتِ عظمیٰ میں یوپی کے سات وکیلوں نے مفادِ عامہ کی ایک عرضی داخل کر مطالبہ کیا ہے کہ عیدِ قرباں کے موقع پر جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کی جائے،اس بابت ہمیں قوی امید ہے کہ دستورِ ہند کا پاس و لحاظ رکھا جائے گا، جس میں تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کی مکمل آزادی ہے،اس لیے اس پر مزید گفتگو کی ضرورت نہیں۔دوسری خبر یہ ہے کہ مراٹھی فلموں کے اداکار اور شیو سینک و آر ایس ایس کے حامی جو کہ سناتن سنستھا نامی ہندو تنظیم سے بھی جڑے ہوئے ہیں ’شرد پونکشے‘ نے سوشل میڈیا پر یہ مشورہ دیا ہے کہ جس طرح ماحولیات کے تحفظ کے لیے ایکو فرینڈ گنپتی بنائی جاتی ہے، اسی طرح مسلمان بھی مٹی کا بکرا بنا کر قربانی ادا کریں، جس پر اپوذیشن اور مسلم قوم کی طرف سے ناراضگی کا ماحول بنا ہواہے، ویسے اس بحث کو زیادہ طول دینا اس لیے ضروری نہیں کہ جنھوں نے یہ مشورہ دیا ہے، ان کا تعلق عدلیہ سے ہے نہ مقننہ سے، نیز نہ ہی وہ ملک کی کوئی ایسی بڑی یا اہم پارٹی ہے جس کی بات پر کان دھرنے کی ضرورت ہو۔انھیں گلہ اس بات کا ہے کہ ان کے گنپتی اور دہی ہنڈی جیسے تہواروں پر گر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تو وہ بھی بدلے میں مسلمانوں کے تہوار پر پابندیاں عائد کریں گے، جب کہ ہر ہوش مند جانتا ہے کہ اول تو مسلمان اپنے تمام ملکی بھائیوں کے ساتھ ایثار و رواداری کا معاملہ کرتے ہیںاور ان کے مذہبی معاملات میں کوئی دخل نہیں دیتے، جس کی مثالیںپورے ہندستان میں ماضی بعید سے لے کر ہر سو عیاں ہیں، دوسرے جن معاملات یعنی گنپتی وسرجن یا دہی ہنڈی جیسے تہواروں میں انھیں جن پابندیوں کو لے کر شکایت ہے، وہ مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ عدالت کی عائد کردہ ہیں، جن کے لیے مسلمان کسی طور ذمے دار نہیں۔

مسلمانوں کے دو ہی اہم تہوار ہیں ایک عید الفطر دوسرے عیدِ قرباں۔ پہلی میں نمازِ عید کے سوا ایسی کوئی عبادت ہی نہیں جس کو اجتماعی طور پر کیا جاتا ہو یا جس پر کسی کو کوئی اعتراض ہو سکے، رہی عیدِ قرباں جو سال میں ایک دفعہ آتی ہے، اس پر بھی ہر سال اتنی لے دے ہونا، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ گائے کی قربانی جو کہ اسلامی شریعت کی رو سے بالکل جائز ہے، اس سے مسلمانوں کا رک جانا صرف امن و سلامتی کا خوگر ہونے اور شریعت میں اس کی رخصت ہونے کے باعث ہے، اسے ان کی کوئی کمزوری یا مجبوری نہیںسمجھنا چاہیے، لیکن اس پر بس نہ کرکے اگر یہ مشورہ دیا یا یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ دیگر جانوروں کی قربانی کے بہ جائے مٹی کے بکرے ذبح کرکے علاماتی طور پر قربانی انجام دینے پر اکتفا کریں تو اسے جبر و زیادتی سے تعبیر کیا جائے گا، جس کی اجازت ملک کا جمہوری دستور کسی کو نہیں دیتا۔مسلمان شریعت کی رخصت پر عمل کرتے ہوئے پہلے ہی گائے کی قربانی سے رکے ہوئے ہیں، اس کے بعد انگلی پکڑ کر پہُنچا پکڑنا یعنی اس سے زیادہ کی توقع کرنا بے سود ہے۔اچھی طرح سمجھ لیں کہ قربانی کرنا محض گوشت کھانے کے لیے نہیں، بلکہ یہ خدا و رسول کے احکام و سنت کی اتباع ہے۔

بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی تھی تو مسلمان معصوم جانوروں کی قربانی نہ دے کر اپنی اولاد کی قربانی کریں، تو یہ سرے سے درست نہیں۔ اول تو اس کائنات کی تمام اشیا کو خدا نے پیدا ہی انسان کی خدمت کے لیے کیا ہے، دوسرے حضرت ابراہیمؑ نے خود کو اپنے بیٹے کی قربانی دیتے ہوئے خواب میں دیکھا ضرور تھا لیکن قربانی دنبے کی ہی دی گئی تھی اور ہمارے آخری پیغمبر نے ہمیں اس بابت واضح حکم ہی نہیں دیا بلکہ اپنے دستِ مبارک سے ایسا کرکے دکھایا ہےاور ہمیں اپنے نبی کے حکم و عمل کے بعد کسی سے اس کی تشریح یا اس بابت مشورے کی چنداں ضرورت نہیں۔

ایک اعتراض یہ سننے میں آیا کہ عمران خان نامی کوئی فلمی اداکار بھی فقط بازار سے لاکر جانور ذبح کر دینے کو قربانی نہیں سمجھتے، ان کا کہنا ہے کہ قربانی اپنی پسندیدہ و محبوب چیز کو قربان کرنے کا نام ہے۔ اس کے جواب دو طرح سے ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ دینی و مذہبی مسائل میں کسی فلمی اداکار کی ذاتی رائے کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں، وہ بھی جب کہ وہ رائے کم علمی یا کج فہمی پر مبنی ہو۔ یہ درست ہے کہ قربانی اپنی پسندیدہ و محبوب اشیا ہوتی ہے، پر چوں کہ ہر انسان کو اپنا مال بہت محبوب ہوتا ہے اور بازار سےبکرا خرید کر قربان کرنا بھی اپنی محبوب شئے کی قربانی ہی ہے، دوسرے محبوب و پسندیدہ چیزوں کو قربان کرنا یہ قربانی کے لیے بہتر ضرور ہے لیکن ہر مسلمان کے لیے اصل خدا و رسول کا حکم ہے، جو ہر حال میں قابلِ عمل و اتباع ہے۔ اسی لیے جس شخص پر قربانی واجب ہو، اس کی طرف سے قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے کے بجائے بہ قدر قربانی نقد قیمت صدقہ کردینے کی بھی علما اجازت نہیں دیتے اوراگر مال کے صدقے کی شدید ضرورت واقعہً پیش ہو تو یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ پورا بکرا خرید کر قربانی کرنے کے بجائے بڑے جانور میں حصہ لے لیا جائے اور بقیہ رقم ضرورت مند پر صدقہ کر دی جائے لیکن اگر پوری رقم محض صدقہ کر دی گئی اور جانور کی قربانی نہیں کی گئی تو ایسے شخص سے قربانی کا وجوب ساقط نہیں ہوگا،اس لیے کہ خدا و رسول کا حکم انسانی عقلوں میں آنے والے خیالات سے یقیناًاوپر ہے۔

اس لیے ہم اپنے وطنی بھائیوں سے درخواست کریں گے کہ جس طرح مسلمان آپ کے سال کے بارہ مہینوں میں جاری رہنے والے تہواروں کو ایثار و روادار ی سے برداشت کرتے ہیں، آپ بھی ان کے ایک یا دو تہواروں میں اپنی قوتِ برداشت کا مظاہرہ کریں، تاکہ ملک کی سالمیت و امن برقرار رہے اور فخریہ کہا جاتا رہے؎

سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here