Jitne bhi ambiya tashreef laye sabki taleemaat asl ke lihaaz se ek hi thi

جتنے بھی انبیاتشریف لائے سب کی تعلیمات اصل کے لحاظ سے ایک ہی تھیں

مولانا شاہد معین قاسمی

چھٹے پارے کے شروع میں سورۂ نساء کی آیت ۱۴۸ سے ۱۵۲ تک سب سے پہلے تو مظلوموں کوخود پر بتے مظالم کو سچائی کے ساتھ دوسروں سے بیان کرنے کی اجازت کا تذ کرہ ہے۔ اس کے بعد جو لوگ دین کی کچھ چیزوں کومانتے ہیں اور کچھ چیزوں کا انکار کرتے ہیں اور پھر بھی دین پر باقی رہنے کا دعو ی کرتے نہیں تھکتے ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہی لوگ بڑے کا فر ہیں اور ان کے لئے عذاب یقینی ہے ساتھ ہی مکمل طور پر دین کو ماننے والے لوگوں کی تعریف بھی کی گئی ہے۔آیت ۱۵۳سے ۱۵۴ تک اللہ کے نبی ﷺ کو یہودیوں کی ایک حماقت سے نہ گھبرانے کی نصیحت کی گئی ہے کہ انہو ںنے آپ ﷺ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ہمار ے لئے ایک خاص کتا ب آسما ن سے منگوا دیجیے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا مطالبہ یہودیوں کے لئے کوئی بڑی چیز نہیں ہے یہ تو موسی ؑ سے اس سے بھی بڑ ا مطالبہ کرچکے ہیں کہ آپ اللہ کو ہمیں با لکل کھلی آنکھو ں دکھادیں ۔اس کے بعد ۱۵۵؍سے ۱۵۹؍ تک کی آیتوں میں خاص طور سے یہودیوں کے حضرت عیسی ؑ کے قتل کے دعو ے کوغلط ٹھہر اتے ہوئے یہ بتایا گیاہے کہ انہوں نے حضرت ؑ کو قتل کیا ہے اور نہ ہی سولی دی ہے بل کہ خود ان کو ہی سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے اور وہ اس سلسلے میں گمان سے ہی کام لے رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے آپ ؑ کو دنیا سے اٹھا لیا ہے جس کا ہر یہودی بھی مرنے سے پہلے اقرار کرے گا اور حضرت عیسی ؑ بھی ان کے خلاف گو اہی دیں گے ۔آیت ۱۶۰سے لیکر ۱۶۲؍ تک میں اس بات کا ذکر ہے کہ یہودیوں کی مسلسل شرارتوں اور خاص طورسے ان کے سو د کھا نے اور لو ٹ مار کرنے کی وجہ سے بہت ساری حلال چیزیں ان کے لئے حرام کر دی گئیں لیکن کچھ یہودی ایسے بھی ہیں جوعلم میں پختہ ہیں اور اس کی وجہ سے وہ اپنی کتا ب تورات میں اللہ کے نبی ﷺ کی نشانیاں پڑھکر آپ ﷺ سے پہلے آئی ہو ئی چیزوں پہ بھی یقین رکھتے ہیںاور ان چیزون پر بھی جو خود آپﷺ پر بھی اتاری گئیں ساتھ ہی آپ کے لائے ہو ئے دین پر مکمل طورپر عمل بھی کرتے ہیں۔ یعنی اسلام قبول کرلیتے ہیں ظاہر ہے انہیں اپنے نیک عمل کا ثواب ضرور ملے گا۔
آیت ۱۶۳ سے ۱۷۰؍ تک یہ فرمایا گیا ہے کہ اسلام کو ئی نئی چیز نہیں ہے بل کہ اس سے پہلے کے تمام انبیاکو جو چیزیں دی گئی تھیں وہی چیزیں (جزوی تبدیلی کے ساتھ)اسلام میں بھی ہیں اوراللہ تعالی خو دہی گواہی دیتے ہیں کہ جو چیزیں بھی انہوں نے محمد ﷺ پر اتاری ہیں وہ اپنے علم سے اتاری ہیں تو پھر اسلام کے صحیح ہونے پر اللہ تعالی سے بڑا گواہ کون ہوسکتا ہے؟ اس لئے نہ صرف یہودیو ں کے لئے بل کہ پوری دنیا کے انسانوں کے لئے نجات اسی میں ہے کہ وہ اسلام کو اپنا دین بنالیں۔ اس کے بعد آیت ۱۷۵؍تک عیسائیو ں کے عقیدے کی تردید کی گئی ہے کہ عیسائی حضرت عیسیؑ کو خد امان کر اللہ تعالی کے بارے میں جھوٹ نہ بولیں سچائی یہ ہے کہ خود حضرت عیسیؑ بھی اپنے آپ کو اللہ کا بند ہ ماننے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے تو پھر تمہیں حضرت عیسی کو اللہ کا بندہ کہنے کی بجائے خد ا کا شریک کہنے کا کیا حق ہے اور تمہیں کیوں شرم آتی ہے اور اگر شرم آتی ہے تو پھر تمہاری شرم کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی پوری دنیا کے انسانوں کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ ان کہ رب کی طرف سے بالکل کھلی ہو ئی دلیل آچکی ہے جو دین اسلام کو قبول کرلے گااس پہ اللہ کی رحمت کی بارشیں ہوں گی اور وہ صحیح راستے پہ ہوگا۔اس سورت کی آخری آیت میں اس شخص کی میراث کا حکم بتلا یا گیا ہے جس کی موت کے وقت نہ تو اس کے ماں باپ زندہ ہوں اور نہ ہی کوئی اولاد ۔
سورہ ٔ ما ئد ہ کی پہلی دوآیتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے خود اپنے اور انسانوں کے وعدوں کو پورا کرنے کا حکم دیتے ہوئے حلال وحرام جانوروں کاتذکرہ فرمایا پھر اپنی نشانیوں،احترام والے مہینوں، قربانی کے لیے کعبے کی طرف بھیجے جانے والے اورگلے میں پٹے ڈالے گئے جانور اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے مسجد حرام جارہے لوگوں کے احترام کا حکم فرمایا ہے ۔ساتھ ہی احرام کھولنے کے بعد شکار کھیلنے کی بھی اجازت دی اور یہاں تک کہ اپنے دشمن کو بھی ناحق ستانے کی بجائے اچھے اور نیک کامو ں میں خود ان کی بھی مدد کرنے اور برے کاموں میں کسی کی بھی مدد نہ کر نے کا حکم دیا۔ جب کہ آیت ؍۳ میں حرام جانور کی فہرست بتلاتے ہوئے جان بچانے کی مجبوری کے بغیر ان کا گوشت کھانے کو بڑا گنا ہ بتلایا اوراسلام کے ہر اعتبار سے مکمل ہونے کا اعلان فرمایا گیا۔آیت ؍۴ میں شکاری کتے کے ذریعے کیے گئے شکار کا حکم بیان کیا گیاہے۔ آیت ؍۵میں اس بات کا بیان ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہود ونصار ی کا کھانا، کھا نا جائز ہے اور ان کے لئے مسلمانوں کا کھا نا،کھانا بھی جائز ہے اسی طرح ان کی لڑکی سے نکاح کو جائز بتلایا گیا ہے جب کہ نکاح کی دوسری شرطیں بھی پوری ہو رہی ہوں اورباضابطہ طورپر زندگی گزارنا مقصو دہو نہ کہ پیسے دیکر وقتی طورپر خواہش پوری کرنا ۔آیت ۶؍۷ میں غسل اور وضو کے احکام کو بیان کیا گیا ہے اور ان کو اللہ کی طرف سے نعمت قرار دیا گیا ہے ساتھ ہی یہ بھی بتلایاگیاہے کہ ایک انسان جس دن اسلام قبول کرتا ہے اسی دن اللہ تعالی کے تما م احکام پر عمل کرنے کا اللہ تعالی سے عہد کرلیتاہے اس لیے اللہ تعالی کے ساتھ کیے ہو ئے اس عہد کو یا د رکھتے ہو ئے اللہ تعالی کے حکموں پہ اخلاص کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔آیت ؍۸اور۹؍ میں انصاف کو اللہ کی معرفت و خشیت کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے یہ کہا گیا ہے کہ انہیں خوب مضبوطی کے ساتھ انصاف کرنا چاہئے اگرچہ اس انصاف کا فا ئدہ دشمن کو ہی کیوں نہ پہنچے اور نیک عمل کرنے والے مسلمانو ں سے مغفرت اور بہت زیادہ ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے او ر یہ کہا گیا ہے کہ ایمان نہ لانے والوں کے لئے جہنم متعین ہے۔پھر آیت ۱۱ اور ۱۲ میں ہر انسان اور ہر قوم یہاں تک کہ دشمن قوم کے ساتھ انصا ف کو مسلمانوں کے حق میں اپنی طرف سے بڑا انعام اور عظیم نعمت قرار دیتے ہوئے یہ فرمایا گیاہے کہ جب تم سب کے ساتھ انصاف کرتے رہے تو دشمن قوم اپنی پوری کوششوں کے بعد بھی تمہارا کچھ نقصان نہیں کر سکی بل کہ دوسرے لو گ تمہار ے ساتھ آگئے اور آخر کا رتمہے ہی مکمل عزت و غلبہ حاصل ہو ا۔ اس لیے مسلمانوں کو ہمیشہ ہی اللہ کی مدد پر یقین رکھتے ہوئے ہر حال میں ہر ایک کے ساتھ انصاف کرتے رہناچاہیے ۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ اللہ کے حکم پر چلنے کا عہد صرف تم سے ہی نہیں بل کہ اس سے پہلے یہودیوں سے بھی لیا گیا تھاجس کی شکل یہ ہو ئی تھی کہ ان کے بارہ خاندانو ں میں سے ہر ایک سے ایک سردار چن لیا گیا تھا ان سرداروں میں سے ہرا یک نے یہ وعدہ کیا کہ ہم خود بھی عمل کریں گے اور اپنے خاندان کے لوگوں سے بھی عمل کروائیں گے۔آیت ۱۳؍۱۴ میں یہ بتلا یا گیا کہ ان لوگوں نے اپنے وعدے کو پورا نہیں کیا جس کی وجہ سے ان پراللہ کی لعنت ہو ئی اور ان کے دل اللہ کی ہدایت قبول کرنے سے سخت کردیے گئے اب ان کا حال یہ ہے کہ اپنی مذہبی کتا ب کو اپنے من کے مطا بق بدلتے رہتے ہیں اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی گڑ بڑی کرتے رہتے ہیں لیکن مسلمانوں کو انہیں نفرت کی نگا ہ سے بہر حال نہیں دیکھنا چاہیے ۔اسی طر ح عیسائیوں نے بھی اپنا وعدہ بھولا دیا اس کے نتیجے میں ان کے آپس میں ہی دشمنی ڈالدی گئی اور وہ قیامت تک ایک دوسرے کے دشمن رہیںگے۔ آیت ۱۵سے ۱۸؍ میں خاص طورسے حضرت عیسیؑ کے خد اہونے کے عقیدے کارد کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ حضر ت عیسی ؑ،حضرت مریم اور دنیا جہان کے تمام انسانوں کو موت دینا چاہیں تو کیا تم میں سے کوئی روک سکتا ہے ؟جب کہ خد ا کا مطلب تو یہ ہے کہ اس پے کسی کا بس نہ چلے۔ اور اسے کوئی بھی موت نہ دے سکے تو پھر حضرت عیسی ؑ خدا کیسے ہوجائیں گے؟
آیت ۲۰سے ۲۶ تک یہود کی ایک نافرمانی اور اس کی سزا کا ذکر ہے کہ جب حضرت مو سی ؑ کی برکت سے فرعون دریا میں ڈوب گیا ا ور یہ لوگ اس سے نجات پا کر مصر پہ قابض ہوگئے تو اللہ تعالی کے حکم سے موسیؑ نے ان سے کہاکہ چلو ہمارے ساتھ مل کر جہاد کر و اور اپنے آبائی وطن شام کو قابض لوگوں سے چھوڑا لو تو انہوں نے انکار کردیا اور عجیب گستاخی کے انداز میں یہ کہا کہ آپ اپنے رب کو لیکر جایئے اور جہاد کیجیے ہم لو گ یہیں بیٹھتے ہیں جب ملک پے قبضہ ہو جائے گا تبھی ہم اس میں داخل ہو سکتے ہیں اس سے پہلے نہیں۔اس گستاخی کی سزا ان کو یہ ملی کہ یہ چالیس سالوں تک ایک ہی میدان میں گھِرے رہے اور حال یہ تھا کہ ایک آدمی صبح سے شام تک اس میدان سے نکلنے کیلئے چلتا رہتا لیکن صبح کو جہاں سے چلنا شروع کرتا شام کو وہیں کا وہیں ہوتا۔
پھر آیت۲۷ سے ۳۳تک میں شادی کے مسئلے کو لیکر حضرت آدم کے بیٹے قابل کے ہاتھو ں ان کے دوسرے بیٹے ہابیل کے قتل کا تفصیلی قصہ اور اس کے بعد قتل کی مذمت کا بیا ن ہے۔ اور اسی کے ساتھ ڈاکہ ڈالنے کی سز ا بھی بیا ن کی گئی ہے۔اورآیت ۴۰؍تک یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ کا انکار کرنے والوں اور صحیح دین کو قبول نہ کرنے والوں کو موجودہ دنیا اور اس جیسی ایک اوردنیا بھرکی چیزیں مل جاتیں اور وہ ان تمام کو دیکر اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے تو بھی قبول نہ کیا جاتا اور یہ عذاب سے نہیں بچ پاتے اور اب تو انہیں دردناک اور خطرناک عذاب ہوگا ۔اور ساتھ ہی چوری کی سزاہاتھ کاٹنے کا بھی بیان ہے جو دنیا میں چوری کے جرائم کے خاتمے کے لیے رکھی گئی ہے ورنہ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے چور کو دل سے توبہ کرنا پڑے گی۔
آیت ۴۱،۴۲اور۴۳ میں یہود یوں کی طر ف سے شرارت کے دو خا ص واقعوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کو ان کی شرارتوں سے غمگین ہونے ،ان سے ڈرنے یا ان کے ایمان کی فکر میں گھلنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے بل کہ ہر موقع پے اپنا کام کرتے رہیںیہ خودہی دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل ہوجائیںگے اور یہی ہو ابھی ۔ پہلے واقعے کا خلاصہ کچھ اسطرح ہے کہ بنو قریضہ اور بنو نضیر دونوں ہی یہودی قبیلے تھے اوردونوں ہی مدینے میں آباد تھے لیکن چوں کہ بنو نضیر مال دار اور طاقتور قبیلہ تھا اس لیے اس کے لوگ بنو قریظہ پہ طرح طرح کے مظالم کرتے تھے اور قتل کے معاوضے کے بارے میں انہوں نے زبردستی یہ قانون بنا رکھا تھا کہ اگر بنونضیر کا کو ئی آدمی بنوقریظہ کے کسی آدمی کو قتل کردیتا تو اس کے بدلے میں انہیں صرف ستر وسق (یعنی تقریبا پانچ من دس سیر ) کھجوریں دینا ہوتیں اور بس ورنہ ان میں کے قاتل کو اِن کے مقتول کے بدلے قتل کرنے کا حق نہیں تھا اور اگر بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی آدمی کو قتل کردیتا تو ا س کے قاتل کو بھی قتل کیا جاتا،اور ان سے چالیس وسق کھجوریں بھی لی جاتیںصرف یہی نہیں بل کہ بنونضیر کی عورت مقتول کے بدلے بنو قریظہ کے مرد کو قتل کیا جاتا ،اس کے ایک مرد مقتول کے بدلے بنو قریظہ کے دومردوں کو قتل کیا جاتا، اس کے غلام کے بدلے بنو قریظہ کے آزاد کو قتل کیا جاتااور اسی طرح اس کے کسی آدمی کے ایک ہاتھ کے بدلے بنوقریظہ کے آدمی کے دوہاتھ اور اُس کی ایک ناک کے بدلے اِس کی دوناکیں کاٹی جاتیں ہوا یہ کہ آ پ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے وقت بنو قریظہ کے ایک آدمی نے بنو نضیر کے دوسرے آدمی کوقتل کیا تو معاہدے کے مطابق اس بار بھی انہوں نے وہی ظالمانہ مطالبہ کیا کہ ہم تو تمہارے دو آدمیوں کو قتل کریں گے لیکن اسلام آچکا تھا ( جس کی بر کت سے برسوں سے مظالم سہ رہے مظلوموں کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ ملنے لگا تھا اس لیے اگر چہ ان دونوں قبیلوں میں سے کوئی بھی اسلام نہیں لایا تھا لیکن اسلام کی انصاف پروری کا علم تھا اور نبی ﷺ نے مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے جو تحریک چھیڑ رکھی تھی اس کی خو ب شہر ت تھی ) اس لیے بنو قریظہ نے بھی خود پے ہورہے ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت جٹالی اور کہا کہ اب ایسا نہیں ہوگا ہم نے بہت مظالم برداشت کیے ہیں ہم دنوں ایک ہی قبیلے، ایک ہی شہر اور ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہیں پھر قتل کی سز امیں یہ فرق کیوں؟ اب ظاہرہے کہ ظالم کو برداشت کہا ںہوسکتا تھا اس لیے بنونضیر کے لوگ بھڑک گئے اور قریب تھا کہ دونوں قبیلوں میں جنگ چھڑجائے لیکن کچھ بڑے بوڑھوں نے سمجھا یا کہ لڑنے سے اچھا ہے کہ اس معاملے کو محمد (ﷺ ) کے پاس لے جایاجائے بنو قریظہ تو چاہتے ہی یہی تھے اس لیے وہ دل سے تیار ہوگئے ا ور بنو نضیر کو معلوم تھا کہ محمد (ﷺ) کے پاس جانے میں ان کا نقصان ہے اس لیے دل سے تو نہیں چاہتے تھے مگر مجبور ہو کر گئے اور ساتھ ہی سازش یہ کی کہ کچھ منافقوں کو پہلے آپ ﷺ کے پاس بھیجدیا تا کہ یہ لوگ کسی طرح مقدمہ سے پہلے ہی اس سلسلے میں آپ ﷺ کا نظریہ معلوم کر لیں کہ کیا فیصلہ دیںگے اور ان سے کہدیا کہ اگر ہمارے موافق فیصلہ دیں تو مان لینا ورنہ نہیں(مسند احمد و ابوداؤد وغیرہ) ۔دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ خیبر کے یہودیوں میں دولوگوں سے زنا کا جرم ہوگیا ان لوگو ں نے توارت کی زنا کی سزا(سنگسار کیے جانے ) کو بدل رکھا تھا کہ مالدار زناکاروں کو ہلکی سز ادی جاتی اور غریبوں کو سنگسا رکیاجاتا اس مرتبہ بھی یہ زناکار مالدار تھے اس لیے انہوں نے چاہا کہ اسلام چوں کہ بہت نرمی کرنے والا مذہب ہے اس لیے محمد ﷺ کے پاس یہ مقدمہ لے چلتے ہیں وہ تو کوئی ہلکی ہی سزا دیں گے لیکن جب آپ ﷺ نے بھی سنگسار ہی کیے جانے کی سز ا سنائی تو ماننے سے انکار کرنے لگے۔اس واقعے سے یہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام سے اس کے دشمنوں نے بھی فائدہ اٹھایا ہے اور یہی ا س کی ایک بہت بڑی تاریخی اور ناقابل انکار خوبی بھی ہے کہ اس سے دنیا میں، اسے مذہب کے طور پے قبول کرنے والے ،اس کا انکار کرنے والے اور یہاں تک کے اسے مٹانے کی ہر ممکن کوششیں کرنے والے بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔
آیت:۴۴؍ سے ۵۰؍ تک کاخلاصہ یہ ہے کہ شروع کی دوآیتوں میں یہود کی طرف سے تورات میں تبدیلی کرنے کی مذمت کا بیان ہے اورخاص طور سے قصاص کا ذکر فرمایا گیا کیوں کہ پچھلی آیتوں میں تورات میں موجود قصاص کے حکم میں تبدیلی ہی کا واقعہ پیش آیاتھا اور انہیں اس عمل کی وجہ سے کافر اور ظالم کہا گیا، تیسری آیت میں اہل انجیل یعنی عیسائیوں کو بھی ا س میں رد وبدل سے منع کرتے ہوئے ایساکرنے والوں کو سرکش اور نافرمان بتلایاگیا،چوتھی ،پانچویں اور چھٹی آیت میں نبی ﷺکو متوجہ کرکے مسلمانوں کو اس بات کی ہدایت کی گئی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان بھی یہودونصار ی کی اس بیماری کے شکار ہوجائیں اور وہ بھی اللہ کے حکموں کو بدلنا شروع کردیں یا اللہ تعالی کے قانون کے خلا ف اپنی طرف سے کوئی قانون بیان کرنے لگیںساتھ ہی ایک اہم بات یہ بتلائی گئی ہے کہ جتنے بھی انبیا ؑتشریف لائے سب کی تعلیمات اصل کے لحاظ سے ایک ہی تھیں سب کے سب ایک ہی عقیدے اور طریقے کے پابندرہے لیکن حکمت اور بندوںکی مصلحت کی وجہ سے ہر نبی کو اپنے زمانے کے لحاظ سے کچھ جزوی اور فروعی مسائل واحکام الگ الگ بھی دیئے گئے۔آیت :۵۸؍تک میں بیان کے گئے مضامین کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کی اصل روح تو ہے کہ مسلمان دنیا جہان کے تمام انسانوں کے ساتھ رواداری،ہمدردی اور انصاف کا معاملہ کریں لیکن ان سے اتنی محبت نہیں کی جائیگی جو اسلام اور اسلامی شعار پر باقی رہنے میں روکاوٹ بن جائے۔اور اگر مسلمانوں میں سے کچھ ایساکرتے ہیں تو اسلام کی اشاعت اور پھیلاؤ پہ اس کا کوئی فرق نہیں پڑے گا بل کہ نقصان خو د ایسا کرنے والوں کا ہی ہوگا۔اس کے بعد آیت:۶۳ تک میں یہ بتلایاگیا ہے کہ اہل کتاب کو مسلمانوں سے کوئی اور تکلیف نہیں بس تکلیف اس بات کی ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیااور ان میں سے کچھ منافق بھی ہیں جو مسلمانوں کے سامنے کچھ اوران کے غائبانے میں کچھ کہتے ہیں۔اس کے بعد یہ بتلایاگیاہے کہ ان میں سے اکثر تو برے ہی ہیں لیکن کچھ لوگ ا چھے بھی ہیں اور ان کے عوام کے ساتھ علماء بھی اچھے نہیں ہیں کہ وہ عوام کو غلطیوں سے روکتے نہیں اور ان کے سامنے حق کو ظاہر کرنے کی بجائے حق کو چھپاتے ہی ہیں۔آیت:۶۹؍ تک میں یہ بتلایا گیاہے کہ یہ اہل کتاب مسلمانوں سے صرف اسلام کی وجہ سے دشمنی کرتے ہیں ورنہ مسلمانوں کا کوئی دوسر ا قصور نہیں ہے اور سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے خو دتورات وانجیل پے ہی عمل نہیں کیا اس لیے ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے اگر یہ تورات وانجیل پے عمل کرتے تو پھر یہ اسلام کو ضرورقبول کرتے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتادیا کہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کس گھرانے میں پیدا ہوئے بس اسلام کے عقائدو احکام پہ عمل شروع کردیں تو وہ مسلمان ہوجائیں گے اور اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہوجائیں گے ۔ا س کے بعد پارے کے اخیر تک کئی مضامین بیان کئے گئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل کتا ب جان بوجھ کر جو حق کا انکار کرتے رہے اورجب بھی انبیا ان کے پاس آئے توان کو قتل کیا یا جھٹلادیااسکی وجہ سے ان میں سے اکثر ایسے ہوگئے جیسے اندھے بہرے ہوتے ہیں پھر یہ بتلایا گیاکہ حضرت عیسیؑ ابن مریم اور حضرت مریم کو خدا ماننے والے کافر ہیں خو د حضرت عیسی ؑ نے بھی شرک کرنے والوں کو جہنمی بتلایا ہے حضرت عیسی تو عام رسولوں کی طرح ایک رسو ل تھے وہ اور ان کی ماں مریم دونوں ہی انسان تھے کھاتے پیتے تھے،اسی طرح انہیں دین میں غلو کرنے سے بھی روکا گیا ہے اور یہ کہا گیاہے کہ بنی اسرئیل میں سے کافروں پہ خو د حضرت داؤد اور عیسی ابن مریم کی زبانی تورات وزبور میں بھی لعنت بھیجی جاچکی ہے اور ایک خاص بات یہ بتلائی گئی ہے کہ دوسرے غیرمسلموں کے مقابلے میں عیسائیوں میں عبادت گذار لوگ مسلمانوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ �

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here