Laud speaker se hone wali takleef aur ulama-e-kiraam ke fatwe

 

لاؤڈ اسپیکر سے ہونے والی تکلیف اورعلماے اسلام کے فتوے

ندیم احمد انصاری

چند دنوں سے ہمارے ملک میں ایک گویّے کے سبب لاؤڈاسپیکر پر اذان وغیرہ کا مسئلہ زیرِ بحث ہے، جب کہ اسلام اور علماے اسلام نے پہلے ہی سے اس جانب توجہ مبذول رکھی ہے اور لاؤڈاسپیکر کے استعمال کے سخت اصول بنائے ہیں ، تاکہ کسی مسلمان ہی نہیں کسی انسان کو بھی اس سے کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے، جس کی تفصیل ہم نے اپنے ایک مضمون بعنوان حکومتی قوانین، اسلامی و شرعی ہدایات اور صوتی آلودگی میں پیش کر دی ہے، یہاں اس بابت صرف چند ایسے فتوے ذکر کیے جا رہے ہیں،جن سے واضح ہو گا کہ اذان جیسی چند منٹ کی عبادت کے سوا خود اسلام اور علماے اسلام نے لاؤد اسپیکر کے بے جا استعمال کی اجازت نہیں دی،اور لوگوں کے چین، سکون اور آرام کا بہت لحاظ رکھا ہے، اس کے باوجود بھی کوئی اذان جیسی مختصر سی عبادت پر غنڈہ گردی کا الزام لگائے، تو اسے اپنے دماغ کا علاج کروانے پر توجہ دینی چاہیے۔
m مفتیِ اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ رقم طراز ہیں:
لاؤڈ اسپیکر پر صرف پانچ وقت کی اذان کہیں، جس سے مقصود لوگوں کو نماز کے لیے بلانا ہو، بقیہ دوسری چیزوں کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کریں۔(فتاویٰ محمودیہ:15/35، جدیدمحقق)
m سابق مفتیِ اعظم گجرات، مفتی سیدعبد الرحیم لاجپوریؒ فرماتے ہیں:
(اگر بلا مائک اذان ناکافی ہو تو) بلا تردّد مائک کا استعمال جائز ہے، افضل تو یہی ہے کہ بلند آواز مؤذن کا تقررہو سکتا ہو تو مائک کا استعمال نہ کرے۔(فتاویٰ رحیمیہ:6/36)
m مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی شہیدؒ بڑی تفصیل کے ساتھ لکھتے ہیں:
اذان کے لیے (مسجد میں)اُوپر کے اسپیکر کھولنے کا تو مضائقہ نہیں کہ باہر کے لوگوں تک اذان کی آواز پہنچانا مطلوب ہے، لیکن نماز، تراویح، درس وغیرہ کے لیے اگر لاوٴڈ اسپیکر کے استعمال کی ضرورت ہو تو اس کی آواز مسجد کے مقتدیوں تک محدود رہنی چاہیے، باہر نہیں جانی چاہیے۔ تراویح کے لیے اور درس وغیرہ کے لیے باہر کے اسپیکر کھولنا عقلاً و شرعاًنہایت قبیح ہے، جس کے وجوہ حسبِ ذیل ہیں:
(۱)بعض مساجد اتنی قریب قریب ہیں کہ ایک کی آواز دُوسری سے ٹکراتی ہے، جس سے دونوں مسجدوں کے نمازیوں کو تشویش ہوتی ہے اور ان کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے، ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں کہ ایک مسجد کے مقتدی جو پچھلی صفوں میں تھے، دُوسری مسجد کی تکبیر پر رُکوع، سجدے میں چلے گئے، نمازیوں کو ایسی تشویش میں مبتلا کرنا کہ ان کی نماز میں گڑبڑ ہوجائے، صریح حرام ہے، اور اس حرام کا وبال ان تمام لوگوں کی گردن پر ہوگا جو نماز کے دوران اُوپر کے اسپیکر کھولتے ہیں۔
(۲)مسجد کے نمازیوں تک آواز پہنچانا تو ایک ضرورت ہوئی، لیکن نماز میں اُوپر کے اسپیکر کھول دینا جس سے آواز دُور دُور تک پہنچے، یہ محض ریاکاری ہے، جس سے عبادت کا ثواب باطل ہوجاتا ہے۔ رمضان مبارک میں بعض حافظ صاحبان ساری رات لاوٴڈ اسپیکر پر قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں، جس میں ریاکاری کے سوا کوئی بھی صحیح غرض نظر نہیں آتی۔
(۳)تراویح میں باہر کے اسپیکر کھولنے میں ایک قباحت یہ ہے کہ چلتے پھرتے اور گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے کان میں سجدہٴ تلاوت کی آیات آتی ہیں، جن کی وجہ سے ان پر سجدہٴ تلاوت واجب ہوجاتا ہے، ان میں سے بہت سے لوگوں کو یہ معلوم بھی ہوگا کہ یہ سجدے کی آیت ہے، پھر بھی وہ لوگ سجدہ نہیں کرتے ہوں گے، ان بے شمار لوگوں کے ترکِ واجب کا وبال بھی سنانے والوں کی گردن پر رہے گا۔
(۴)لاوٴڈ اسپیکر کی بلند آواز سے پورے محلے کا سکون غارت ہوجاتا ہے، بیمار آرام نہیں کرسکتے، گھروں میں خواتین کا اپنی نماز پڑھنا دُوبھر ہوجاتا ہے، وغیرہ وغیرہ، اور لوگوں کو اس طرح مبتلائے اذیت کرنا حرام ہے۔
(۵) بعض قاری صاحبان اپنے لحنِ داوٴدی سنانے کے شوق میں تہجد کے وقت بھی لاوٴڈ اسپیکر پر تلاوت یا نعت خوانی شروع کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے تہجد کا پُرسکون وقتِ مناجات بھی شور و ہنگامے کی نذر ہوجاتا ہے، اس وقت اگر کوئی تہجد میں اپنی منزل پڑھنا چاہے تو نہیں پڑھ سکتا، اور بعض ظالم اس وقت تلاوت کا ریکارڈ لگاکر لوگوں کا سکون برباد کردیتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ جو لوگ اذان کے علاوہ پنج گانہ نماز میں، تراویح میں یا درس و تقریر میں باہر کے اسپیکر کھول دیتے ہیں، وہ اپنے خیال میں تو شاید نیکی کا کام کر رہے ہوں، لیکن ان کے اس فعل پر چند در چند مفاسد مرتب ہوتے ہیں اور بہت سے محرّمات کا وبال ان پر لازم آتا ہے، اور یہ سب محرّمات گناہِ کبیرہ میں داخل ہیں، اس لیے لاوٴڈ اسپیکر کی آواز حدودِ مسجد تک محدود رکھنا ضروری ہے، اور اذان کے علاوہ دُوسری چیزوں کے لیے باہر کے اسپیکر کھولنا ناجائز اور بہت سے کبائر کا مجموعہ ہے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل:3/398-399)
m مفتی سید نجم الحسن امروہیؒ (رئیس دارالافتا دارالعلوم یاسین القرآن، کراچی) لکھتےہیں:
اذان سے مقصود اعلان ہوتا ہے، لہٰذا اذان جتنی بلند آواز سے دی جائے اتنا ہی اچھا ہے،اگرچہ بغیر لاؤڈ اسپیکر کے بستی والوں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے، لیکن اگر لاؤڈ اسپیکر میں اذان دی جائے تو اذان کی آواز علی وجہ الکمال پہنچے گی۔(نجم الفتاویٰ:2/234)
m مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب رقم طراز ہیں:
اذان کا مقصود نماز کا اعلان اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کی اطلاع دینا ہے۔۔۔لاؤڈ اسپیکر چوں کہ اس مقصد کے لیے بہت مفید اور کار آمد ہے اور کسی شرعی ممانعت کے بغیر آسانی اور سہولت کے ساتھ دور دور تک اس کے ذریعے آواز پہنچائی جا سکتی ہے، اس لیے اس کا استعمال بہتر اور مستحسن ہوگا۔ (جدید فقہی مسائل:1/117-118)
m مفتی امین پالنپوری صاحب لکھتے ہیں:
اگر آبادی بڑییا پھیلی ہوئی ہو تو اذان کی آواز دور تک پہنچانے کے لیے لاؤڈاسپیکر پر اذان دینا جائز ہے،کفایت المفتی میں ہے:اذان کی آواز دور تک پہنچانے کے لیے منارے پر لاؤڈ اسپیکر لگانا مباح ہے۔(کفایت المفتی:3/13، آدابِ اذان و اقامت:43)
ان واضح ترین ہدایات کا ہی ثمرہ ہے کہ مسلمان اپنی عبادتوں میں لاؤڈاسپیکر کا استعمال کم سے کم اور ضرورت کے تحت ہی کرتے ہیں، للاکثر حکم الکل۔ ہاں جو مذکورہ بالا ہدایات میں کوتاہی کا مرتکب ہو،اسے ذاتی طور پر سمجھا دیا جانا چاہیے، لیکن کسی مذہب کے ایک فرد یا چند افراد کی غلطی کی وجہ سے پورے مذہب پر طعنہ زنی کرنا ہرگز مناسب نہیں۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here