Logo ko islam ki haqeeqat hikmat ke zariye samjhani chahiye

 

لوگوںکو اسلام کی حقیقت حکمت کے ذریعے سے سمجھانی چاہیے

مولانا شاہد معین قاسمی
ساتویں پارے کے شروع میں سورہ ٔ مائدہ کی آیت: ۸۳ سے ۸۶؍ تک ان عیسائی حضرات کی تعریف کی گئی ہے جوحق بات کو قبول کرنے والے ہو تے ہیں اور ہٹ دھرم نہیں ہوتے جس کے براہ راست مصداق حبشہ کے وہ عیسائی ہیں جنہوں نے حبشہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا اور حبشہ میں ہی قرآن سنکر روئے پھر مسلمان ہو گئے اور تیس آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو قرآن پاک سنکر روئے ۔آیت: ۸۷؍ ۸۸؍ میں اچھی چیزوں کوکھانے کا حکم دیا گیاہے اور انہیں اپنے اوپر حرام کرلینے کو حرام بتلایا گیا ہے۔ آیت :۸۹؍میں غلط طریقے پر جان بوجھ کر قسم کھانے او ر پھر بلا ضرورت اسے توڑنے سے سختی سے منع کر تے ہوئے توڑنے پر کفارے کے ضرور ی ہونے کا بیان ہے۔ آیت:۹۰سے ۹۳؍تک شراب ،جوئے اور اس جیسے عمل کوشیطان کی طرف سے جھگڑا و فساد اور آپسی دشمنی و عداوت کا ذریعہ بتلاتے ہوئے حرام فرمایا گیااور نہ ماننے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کردیا گیا کہ رسول ﷺ کاکا م صر ف اللہ کے حکم کو تم تک پہنچادینا ہے ساتھ ہی صحابۂ کرام سے یہ بھی فر ما دیا گیا کہ اس سے پہلے جو پی لیا یااس کی جوکمائی کھالی وہ سب معاف ہے اس کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے پھر آیت: ۹۴سے ۹۶؍ تک مسلمانوں سے یہ کہا گیاہے کہ اللہ تعالی خاص حالات میں شکار کو حرام کرکے تمہیں آزمائیں گے کہ کون اللہ کے حکم پر عمل کرتاہے اور ان حالات میں شکار کے احکام بیان کئے گئے ہیں۔آیت :۱۰۰؍ میں اللہ تبارک وتعالی نے کعبہ ،احترام وا لے مہینے اور حرم میںقربان کئے جانے والے جانورجیسے کعبہ سے متعلق چیزوں کو لوگوں کے وجود و بقاء اور امن وسکون کا ذریعہ بتلایا۔حلال چیز کو ہی اپنا نے کاحکم دیا چاہے وہ کتنی ہی تھوڑی کیوں نہ ہو اور حرام چیز سے بچنے کا حکم دیا خواہ وہ کتنی ہی زیا دہ کیوں نہ ہو۔ (قر آن نے خبیث اور طیب کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیںاچھی اور بری جس سے قرآن پا ک یہ تعلیم دے رہا ہے کہ ایک انسان جس چیز کو بھی حاصل کرنا چاہتاہے اس میں اسے یہ دیکھناچاہئے کہ وہ چیز اچھی ہو چاہے وہ تھوڑی ہی ہو یہا ں تک کہ وہ اپنے دوستوں کے بارے میں بھی یہ سوچے کہ اس کے دوست کم ہی ہوں لیکن اچھے ہوں ۔ کسی بھی ادارے اور میدان میں کام کرنے والوںکی تعداد کم ہو لیکن وہ ماہر اور کمال والے ہوں کسی بھی مدرسے یااسکول کے اساتذہ اگر چہ تھوڑے ہوں لیکن ان میں کا ایک دوسرے دسیوں پر بھاری ہو اگر ہم کوئی چیز خرید رہے ہیں تو عام حالات میں یہ نہ دیکھیں کہ کون سی سستی اور کون سی مہنگی ہے بل کہ یہ دیکھیں کہ کون سی دیرپا اور زیادہ دنوں تک رہنے والی ہے کس کا فائدہ کم ہے اور کس کا زیادہ ہے ۔ آج کے زمانے میںجو کام چلاؤ اور پھینکو (use and throw ) کا ذہن بنتا جارہا ہے قرآ ن پاک کی رو سے اسے سراہا نہیں جاسکتا )۔آیت : ۱۰۱ سے۱۰۴؍ تک پہلی بات تو یہ بیان فرمائی کہ مسلمانوں کو کسی بھی ایسے مسئلے میں نہیں پڑنا چاہئے اور اس کے بارے میں کھوج کرید اور سوال نہیں کرنا چاہئے جس کا جاننا اور کرنا ضروری نہ ہواسی طرح اللہ تبارک وتعالی نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے ان کو خود سے حرام کرلینا ایک تو نعمت سے خود کو محرو م کرنا ہے دوسرے اللہ تبار ک وتعالے کے قانون کو بدلنا اور بگاڑنا ہے جوعمل نہ کرنے سے بھی زیادہ بڑا گنا ہ ہے۔ اور یہ بھی بتادیا کہ دین کے مقابلے میں کسی بھی بڑے بزرگ کی بات نہیں ماننی جائے گی چاہے وہ کوئی بھی ہو۔آیت :۱۰۵؍ میں مسلمانوں سے ایک بات بہت ہی کھلے انداز میں بیان کی گئی ہے کہ مسلمان اپنا کام کرتے رہیں اسلام پہ عمل اور حکمت کے ساتھ لوگوں کو اس کی دعوت دیتے رہیں تو لوگوں کے نہ ماننے سے ان کا کو ئی نقصان نہیں ہوگا۔ آیت :۱۰۶سے ۱۰۸؍ تک شام کے سفر میں تمیم واعدی کی موت ،ان کے اپنے دوساتھیو ں سے اپنے گھروالوں کو اپنا مال پہنچا دینے کی بلا گواہ وصیت کرنے اور ساتھیوں کی بے ایمانی کے واقعے کی طرف اشارہ ہے ۔اور عام آپسی معاملات کی طرح کسی کو مال کی و صیت کرتے وقت بھی مال کی مقدار وغیرہ کی تفصیل کے بارے میں دوگواہ بنالینے کو بہتر بتلایا گیا ہے اور گواہی کے شرعی طریقوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کیوں کہ اس عمل کی برکت سے نہ تو جس کے حوالے مال کیا گیاہے اور جسے وصیت کی گئی ہے اس کی طرف سے بے ایمانی کا ڈر ہو گا اور نہ ہی جس کے لیے وصیت کی گئی ہے اس کی طرف سے جھوٹے الزام کا خطرہ ۔آیت : ۹ ۱۰ ؍ میں یہ بتلا یا گیا ہے کہ تما م انبیاء سے اپنی اپنی امتوں کے بارے میں سوال ہو گا اور وہ یہ جواب دیدیں گے کہ ان کے ظاہری اعمال کو تو ہم جانتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں کیا تھا اسے تو بس آپ ہی جانتے ہیں ۔آیت:۱۱۰؍میں حضر ت عیسی ؑسے ان کی ماں اور خو د ان پے ہو ئے انعامات کا بیان ہے جیسے فرشتوں کے ذریعے ان کی تا ئید و مدد ،بچپن میں ہی لوگوں سے بات کرنا، کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دینا ، باری تعالی کے حکم سے گارے کا پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارکر اسے اڑتا پر ندہ بنا دینا ،نہ صرف ما ں کے پیٹ سے اندھا پید اہونے والے اورکوڑھ کے مریض کو صحیح کر دینا بل کہ مردوں کو زندہ کرنے کی صلاحیت اور بنی اسرائیل سے حفاظت جیسی نعمتیں ۔اس کے بعد آیت: ۱۱۵؍تک اس با ت کا بیا ن ہے کہ حضرت عیسیؑ کے ماننے والوں نے ان سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اللہ تبارک وتعالی سے یہ کہیں کہ کھانے سے بھر اہو ادرسترخوان ان کے لئے اتاردیں اور عیسیؑ نے اللہ تبارک وتعالی سے درخواست کی پھر ترمذی کی روایت کے مطابق دسترخوان اتارابھی گیا تھا۔آیت: ۱۱۸؍ سے سور ت کے اخیر تک اس بات کا تذ کرہ ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے روز حضرت عیسیؑ سے پوچھیںگے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہاتھا کہ میری ماں اور مجھکو معبود بنا لووہ صاف انکار کردیںگے کہ میں نے نہیں کہا تھا ۔
سورۂ انعام کے شروع میں اللہ تبار و تعالی کی مختلف قدرتوں اور انسان کی حقیقت کے بیان کے بعد اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے ساتھ ہی ان سے یہ کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے کے لوگ جن کو میں نے تم سے زیادہ طاقت اور نعمتیں دی تھیں ان کو بھی ہم نے ہلاک کردیا تو تم کس کھیت کی مولی ہو؟اور ان کے کچھ مطالبات کوبیان کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ جو مطالبات یہ کر رہے ہیں اگر پورے کردیئے جائیں تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔پھر آیت: ۳۲؍تک اللہ تعالی کی مختلف قدرتوں اور قیامت وآخرت کا ذکر ہے ۔جب کہ آیت :۴۱؍ تک میں پیارے نبی ﷺ کو یہ کہکر تسلی دی گئی ہے کہ ہمیںیہ معلوم ہے کہ آپ کو ان کی باتوں سے تکلیف پہنچتی ہے لیکن آپ کو غمگین ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ لو گ آپ کو جھٹلا کر براہے راست ہما ری آیتوں کا انکار کررہے ہیں اور ہم ان کی خبر لے لیں گے ۔اس سے پہلے بھی لوگوں نے نبیوں کو جھٹلایا انہیں تکلیفیں دیں لیکن سب نے صبر سے کا م لیا پھراللہ تبار ک وتعالی نے ان کی مدد کی ۔ اور صاف اور دو ٹوک لہجے میں یہ فرمادیا کہ آپ ان کے ہر مطالبے کو پورا کرنے کی ہرگز نہ سوچیں۔اگر ایسا سوچتے ہیں تو پھر اگر آپ کو طاقت ہو اور آسمان میں پہنچ کر وہاں سے نشانیاں لاکر دکھا سکتے ہوں توآپ ہی ایسا کرلیں ۔اللہ تعالی کی طرف سے اپنے پیارے حبیب کے ساتھ اس سخت لہجے کے اختیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ان نہ ماننے والوں اور ہٹ دھرم لوگوں کی وجہ سے اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں ۔اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ اس سے پہلے قوموں کے پا س ہم نے نبیوں کو بھیجا اور نہ ماننے کی وجہ سے ان پہ سختی ہو ئی اس سختی کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اللہ کی طر ف لوٹ کر آتے لیکن ان کے دل اور سخت ہوئے پھر ہم نے ان پے نعمتوں کی بوچھا ر کردی پھر جب وہ خوش اور مگن ہو گئے اپنے مال ودلت پر اتر انے اور اکڑنے لگے تو ہم نے انہیںپو ری طر ح پکڑلیا۔پھر آیت :۶۷؍تک اللہ تعالی کی مختلف نشانیوںاور قدرتوں کو بیان کرکے اللہ کو ماننے کامطالبہ کیا گیا ہے ۔جب کہ آیت :۳۷؍تک یہ کہا گیا ہے کہ جس طر ح کوئی غلط کام کرنا غلط ہے اسی طر ح غلط کام کرنے والوں کے ساتھ غلط کرتے وقت بیٹھنا اور ان کے ساتھ ہونابھی غلط ہے۔
حضرت ابراہیم کے بچن کا واقعہ :
حضر ت ابراہیم ؑ نے دعوت کا کام اپنے گھرسے ہی شروع کیا اور پہلے اپنے والد سے یہ کہا کہ آپ بتوں کو معبود نہ بنا ئیں میر ی نظر میں آپ اور آپ کی قوم دونو ں ہی گمر اہ ہی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ایک مرتبہ حضرت ابراہیم نے رات کے اندھیر ے میںایک ستارے کو دیکھا تو اپنی قوم کے لوگوں کوسنا کریہ کہنے لگے کہ تمہارے خیال میں یہ ستارہ میر ا رب ہے اب تھوڑی دیر بعد اس کی حقیقت دیکھ لینا تھوڑی دیر کے بعد وہ ڈوب گیاتو اس کے کمزور ہونے کو بتلا نے کے لئے فرمایا میں توختم ہونے والی چیزوں سے محبت نہیں کرتا۔اس کے بعد پھر کسی دوسری رات میں چاند چمکتاہو انظر آیاتو آپ نے پھر اپنی قوم کو سنا کر وہی طریقہ اختیار فرمایااور کہا کہ تمہارے عقیدے کے مطابق یہ میرا رب ہے مگر اس کی حقیقت کچھ دیر بعد سامنے آجائے گی پھر ہوا یہی کہ وہ ڈوب گیا تو پھر فر ما یا کہ اگر میرے رب مجھے ہدایت نہ دیتے تو میں گمر اہ ہو جاتا اور چاند کو ہی اپنا رب سمجھ بیٹھتا۔اسی طرح انہوں نے ایک دن سورج کو نکلتے دیکھا اور اپنی قوم کو دکھا کر یہ فرمایا کہ تمہاری سمجھ کے لحاظ سے تویہ میر ارب ہے اور یہ تو سب سے بڑا ہے لیکن اس کی بھی حقیقت سمجھ میں آجائے گی اور ہوا یہی کہ سورج بھی اپنے وقت پہ ڈوب گیااور اب اصل مسئلے پر بات کی کہ دیکھو اللہ کے علاوہ کچھ بھی عبادت کے لائق نہیںاگر تم عبادت کرتے ہو تومیں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں ۔ حضر ت ابراہیم ؑ نے اللہ کے ایک ہونے کو عقلی انداز سے بیان فرمایا جس سے ہر صحیح مزاج رکھنے والا انسان قبول کرتا ہے ۔اس سے دعوت کا طریقہ معلو م ہوتا ہے کہ لوگوںکو اسلام کی حقیقت حکمت کے ذریعے سے سمجھانا چاہئے۔اس کے بعد پارے کے اخیر تک اللہ تبارک وتعالی کی مزید قدرتوں کو بیان فرماتے ہوئے ایک طرف اللہ کو ماننے کی دعوت دی گئی ہے تو دوسری طرف دوسرے مذاہب کے معبودوں ، لوگوں اور عام چیزوں بھی کو برابھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے ۔
خلاصے کا خلاصہ :(۱)عیسائیوں کی تعریف جنہوں نے ہجرت حبشہ میں ہی قرآن سنکر جوحق بات کو قبول کرنے والے ہو تے ہیں اور ہٹ دھرم نہیں ہوتے جس کے براہ راست مصداق حبشہ کے وہ عیسائی ہیں جنہوں نے حبشہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا اور حبشہ میں ہی قرآن سنکر روئے پھر مسلمان ہو گئے اور تیس آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو قرآن پاک سنکر روئے۔ (۲) ہر چیز میں اچھی کے انتخاب کی دعوت ۔(۳) مخالفین کی مخالفت پر نقصان دہ بے اطمنانی سے منع کیا گیاہے۔(۴) خدا کی طرف سے سختی پر نرم اور اطاعت گذار ہونا چاہئے۔(۵)دعوت دینے کا پیارا انداز۔ (۶)غیروں کو برا بھلا کہنے کی ممانعت ۔
��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here