Masjid ke zaaid Qur’an aur boseeda samaan ka kya kiya jaye

مسجد کے زائد قرآن اور بوسیدہ سامان کا کیا کیاجائے ؟
ندیم احمد انصاری

ہمارے معاشرے کا ایک عجیب مرض یہ پایا جاتاہے کہ لوگ جن چیزوں کو پیدائشی طور پر نیکی سمجھتے ہیں،اس کے علاوہ امور میں نیکی کی نشان دہی کیے جانے پر بھی اسے نیکی ماننے تک کو تیار نہیں ہوتے ۔ مثال کے طور پر آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے افراد کو جب اپنے مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب کے طور پر جب کچھ کر گزرنے کا خیال آتا ہے تو ان میں سے اکثر قرآن پاک کے پاروں کی پیٹی لاکر مسجد میں رکھوا دیتے ہیں، جس کے اوپر اکثر مرحوم کا نام بھی لکھوا دیاجاتا ہے ، خواہ وہ مَرد ہو یا عورت۔ بعض لوگ مسجد میں ہر سال اسی جذبے کے تحت سورۂ یٰس، قرآن مجید کے نسخے اور دیگر اشیا اس کثرت سے وقف کرتے ہیں کہ ذمہ داران اُن کی حفاظت سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ بعضے دیوار گھڑی، اگر وہ پہلے سے موجود ہو تو ڈجیٹل کلاک، اگر وہ بھی ہو تو کچھ نئے فیچر والی گھڑیاں کہ جس میں تاپ مان اور موسم وغیرہ کی بھی اطلاع حاصل ہو سکے ، لگانے کو ایسی نیکی سمجھتے ہیں کہ اس سے زیادہ ضرورت کے کاموں میں ہرگز خرچ نہیں کرتے ۔سب جانتے ہیں کہ ایک مسجد میں ایک وقت میں ایک ہی امام ہوتا ہے ، جس کے مقام کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لیے عموماً علاحدہ مصلیّٰ یا جا نماز بچھا ئی ہے ، اس کے باوجود ہم نے دیکھا کہ اسی طرح کی نیکی کے شوق میں ایک صاحب درجنوں مصلّے ایک مسجد میں وقف کر گئے ۔ اب آپ ہی بتلائیں کے اوقاف کے مسائل سے واقف کار اور خدا کا ذرا بھی خوف رکھنے والا، ان اشیا کی حفاظت کس طرح کرے ؟

ایک شناسا نے چند روز قبل دریافت کیا کہ کیا مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لیے مسجد میں قرآن مجید رکھ سکتے ہیں، تو ہم نے اسے برملا جواب دیا کہ اگر ضرورت ہو تو ضرور رکھیں، ورنہ کوئی اور نیک کام انجام دیں۔ ابھی اس گفتگو کو چند ہی روز گذرے تھے کہ ایک مسجد کے صدر متولّی صاحب کا فون آیا اور انھوں نے کہا کہ ہماری مسجد میںقرآن کے نسخے یا پیٹیاں ضرورت سے بہت زیادہ ہیں اور کچھ بوسیدہ پردے وغیرہ بھی ایسے ہیں جو استعمال میں نہیں آتے ، ہم ان کا کیا کریں؟ کئی لوگوں سے معلوم کیا، انھوں نے ان چیزوں کی حفاظت کا ہی امر فرمایا،جو کہ ہمارے لیے مشکل ہے ، آپ کوئی گنجائش نکل سکتی ہو تو ضرور مطلع فرمائیں۔ بس ایسی ہی افراد کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے یہ ایک مختصر مضمون سپردِ قلم کیا گیا، جس میں ان مسائل کا آسان حل موجودہو۔اس کی ضرورت اس وقت یوں بھی ہے کہ رمضان المبارک میں خصوصیت سے نئے طبع شدہ قرآن وغیرہ لا کر مسجدوں میں رکھنے کا عوام کا معمول ہے ۔آگے اصل مسئلہ اکابر علما کی عبارتوں کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے :

ایک مسجدِ آباد کا سامان دوسری مسجد میں [بھی]لے جانا اور استعمال کرنا درست نہیں ہے ، مگر بہ ضرورت و مجبوری کے مضایقہ نہیں ہے ۔(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند)جو چیزیں شرعاً قف ہو گئیں ان کو فروخت کرنا درست نہیں، ہاں اگر وہ بالکل ہی قابلِ انتفاع نہ رہیں تو ایسی حالت میں اس کو فروخت کرکے اور اس کی قیمت سے ایسی ہی کار آمدشے مسجد کے لیے خرید کر وقف کر دی جائے ۔(فتاویٰ محمودیہ)قرآن مجید کے نسخوں یا اس کے پاروں کی پیٹیوں سے متعلق مفتی کفایت اللہ دہلویؒ صاحب ( مفتیِ اعظم ہند)نے یہ اجازت دی ہے کہ زائد قرآن مجیدوں کو دوسری مساجد یا مدرسوں میں پڑھنے کے لیے دے دیا جائے ، کیوں کہ ان کے وقف کرنے والوں کی غرض یہی ہے کہ ان قرآن مجیدوں میں تلاوت کی جائے ۔(کفایت المفتی)

ہمارے نزدیک عمدہ بات یہ ہے کہ باقاعدہ جمعے کے موقع پر ، کثیر مجمع کی موجودگی میں یہ اعلان کر دیا جائے کہ ضرورت کے لیے کافی قرآن مجید کے نسخے مسجد میں موجود ہیں، آیندہ کوئی صاحب اس مسجد میں قرآن مجید کے نسخے نہ رکھوائیں، اگر اس اعلان کے باوجود کوئی ایسا کرے گا تو ذمہ دارانِ مسجد اسے فروخت کرکے اس کی قیمت مسجد کی دوسری ضرورتوں میں لگانے کے مجاز ہوں گے ۔خیر الفتاویٰ میں اس کی اجازت ان الفاظ میں مذکور ہے کہ آیندہ کے لیے دہندگان کو سمجھایا جائے کہ مسجد میں قرآن پاک جمع نہ کروائیں اور یہ اعلان ضرور کریں کہ جو آدمی قرآن پاک دے گا، اسے فروخت کر کے اس کی قیمت مسجد میں استعمال کی جائے گی، تو پھر اس کی قیمت مسجد میں استعمال کرنا درست ہوگا۔

نیزآپ کے مسائل اور ان کا حل میں مرقوم ہے کہ مسجد کی جو چیزیں مسجد میں استعمال نہ ہوسکتی ہوں، ان کو فروخت کرکے قیمت مسجد پر لگادینا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے ، اور جس شخص نے وہ چیزیں خریدی ہوں، وہ ان کو بلاشبہ استعمال کرسکتا ہے ۔یعنی ایسی چیزیں جو مسجد کی تعمیر میں داخل نہیں یعنی دریاں، چٹائیاں وغیرہ، جس وقت مسجد میں کام نہ آئیں، پرانی ہو جائیں، تو وہ معطی کی ملک ہو جاتی ہیں، لہٰذا ان کی اجازت سے فروخت کر کے مسجد میں اس کا پیسہ لگایا جا سکتا ہے ، اگر وہ نہ ہو تو(اس کے)وارث کی اجازت سے فروخت ہو سکتی ہیں۔ اگر(معطی یا) وارث معلوم نہ ہو تو پھر اگر ایسی چیزیں مالِ وقف سے ہوں تو منتظمینِ مسجد فروخت کرکے مسجد پر صَرف کر سکتے ہیں۔ (خیر الفتاویٰ) فتاویٰ حکمت میں اس سوال کے جواب میں کہ کیا مسجد کے بے کار سامان کو فروخت کیا جا سکتا ہے ؟ ارشاد ہے :اگر یہ سامان پھر سے مسجد میں کام آنے والا نہیں ہے اور اس کے ضائع ہو جانے کا پورا خطرہ ہے تو اسے چند دیانت دار مسلمانوں کے سامنے مناسب ومعقول قیمت پر فروخت کر کے قیمت کو مسجد میں لگا دیں۔ نیز اسی میں ایک سوال و جواب یوں مرقوم ہے :

سوال: مسجد کی توڑپھوڑسے نکلا ہوا چونا،گارہ وغیرہ کہیں پھنکوایا جا سکتا ہے ، یا مسجد ہی میں دفن کرنا ضروری ہے ؟ کیا ایک مسجد کی کوئی چیز مثلاً نقشہ،گھڑی وغیرہ دوسری مسجد میں استعمال کرنا جائز ہے ، جب کہ مسجدِ اول میں اس کی ضرورت نہ ہو، اور مسجدِ ثانی میں ضرورت ہو؟
الجواب :ایک مسجد میں ضرورت نہ رہے تو بہتر ہے کسی قریب کی مسجد میں دے دی جائے ،وہاں بھی کار آمد نہ ہو تو کسی بھی مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ ٹوٹا ہوا یہ حصہ اگر تعمیرِ مسجد کے کسی حصّے میں کام آ سکے تو اس کام میں لے لیں، ورنہ فروخت کر کے اس کی رقم مسجد میں لگا دیں۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر کسی مسلمان کو دے دیں، وہ جس طرح چاہے کام میں لے آئے ، یہ بھی نہ ہو تو پھر اسے ضائع کر دیں۔

بعض علما نے یہاں تک لکھا ہے کہ مسجد کی بوسیدہ اشیا اگر مسجد کے کام کی نہ ہوں تو ان کو فروخت کرکے ان پیسوں کو مسجد کی ضروریات میں خرچ کرنے کی اجازت ہے ، اور اگر مسجد کی کوئی چیز(پردے وغیرہ)قابلِ فروخت بھی نہ ہو تو اس کو ویسے بھی پھینک سکتے ہیں۔(خیر الفتاویٰ)

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here