mere walid, mere dost (Mohd. Yameen Ansari)

(رحلت: 28 ذو الحجہ 1438ھ ؍ 20 ستمبر 2017ء)
خاکہ: محمد یامین انصاریؒ
میرے والد، میرے دوست
ندیم احمد انصاری

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کرنے کی جرات آج تک کوئی نہیں کر سکااور نہ کبھی کر سکے گا۔ جنھوں نے نبی اور خدا کا انکار کیا،اُنھیں بھی اس اٹل حقیقت کو ماننا ہی پڑاکہ جو کوئی اس دنیاے فانی میں نمو دار ہوا ہے، اسے ایک نہ ایک دن لقمۂ اجل بننا ہی ہے۔اس کے باوجود اپنوں کے بچھڑ جانے کا غم ہونا بھی فطرت کے عین مطابق ہے، لیکن کچھ موتیں ایسی ہوتی ہیں جو زندوں کے لیے عبرت ناک اور قابلِ رشک ہوا کرتی ہیں‘ایسی ہی قابلِ رشک موت تھی میرے والد ماجد جناب محمد یامین انصاری صاحب کی‘ جنھوں نے خداے وحدہٗ لا شریک کے سامنے، مسجد کی پہلی صف اور فرض نماز کے آخری سجدے میں جبینِ نیاز خم کرتے ہوئے تا قیامت سجدہ ریز رہنے کا عزمِ مصمم کر لیا۔ ہمارے حق میں حادثہ ہی سہی، لیکن یہ ایسی مبارک موت تھی جس کی تمنا ہم جیسے نہ جانے کتنوں کے دلوں میں موج زن رہتی ہے کہ جب وقتِ اجل آئے زبان پر اللہ کا نام جاری ہو اور جبینِ نیاز خدا کے حضور رکھی ہوئی ہو۔اس قابلِ رشک موت کی گویا خبر پاتے ہی چرخ نے زار و قطار رونا شروع کر دیا تھا، اور اس آہ و بکا کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا،جب تک جنازے کو لے کر ہم گھر سے نہ نکلے، نیز اس کے اضطراب میں تلاطم اور تیزی آتی گئی، یہاں تک کہ قبرستان میں جنازہ پہنچنے تک روتے روتے اس کے آنسو خشک ہو گئے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کرنے کی جرات آج تک کوئی نہیں کر سکااور نہ کبھی کر سکے گا۔ جنھوں نے نبی اور خدا کا انکار کیا،اُنھیں بھی اس اٹل حقیقت کو ماننا ہی پڑاکہ جو کوئی اس دنیاے فانی میں نمو دار ہوا ہے، اسے ایک نہ ایک دن لقمۂ اجل بننا ہی ہے۔اس کے باوجود اپنوں کے بچھڑ جانے کا غم ہونا بھی فطرت کے عین مطابق ہے، لیکن کچھ موتیں ایسی ہوتی ہیں جو زندوں کے لیے عبرت ناک اور قابلِ رشک ہوا کرتی ہیں‘ایسی ہی قابلِ رشک موت تھی میرے والد ماجد جناب محمد یامین انصاری صاحب کی‘ جنھوں نے خداے وحدہٗ لا شریک کے سامنے، مسجد کی پہلی صف اور فرض نماز کے آخری سجدے میں جبینِ نیاز خم کرتے ہوئے تا قیامت سجدہ ریز رہنے کا عزمِ مصمم کر لیا۔ ہمارے حق میں حادثہ ہی سہی، لیکن یہ ایسی مبارک موت تھی جس کی تمنا ہم جیسے نہ جانے کتنوں کے دلوں میں موج زن رہتی ہے کہ جب وقتِ اجل آئے زبان پر اللہ کا نام جاری ہو اور جبینِ نیاز خدا کے حضور رکھی ہوئی ہو۔اس قابلِ رشک موت کی گویا خبر پاتے ہی چرخ نے زار و قطار رونا شروع کر دیا تھا، اور اس آہ و بکا کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا،جب تک جنازے کو لے کر ہم گھر سے نہ نکلے، نیز اس کے اضطراب میں تلاطم اور تیزی آتی گئی، یہاں تک کہ قبرستان میں جنازہ پہنچنے تک روتے روتے اس کے آنسو خشک ہو گئے۔ خدا یا قسمت سے مجھے کوئی شکوہ نہیں، رونا اپنی اس غفلت پر آتا ہے کہ والد ماجد کی زندگی میں دنیا کے جھمیلوں میں اس قدر الجھا رہا کہ انھیں اتنی خوشیاں نہ دے سکا جس سے زیادہ بوسے انھوں نے میرے رخسار و پیشانی پر دیے۔ بچپن سے لے کر اب تک میرے روٹھ جانے پر والد ماجد جس محبت کے ساتھ مجھے مناتے تھے، اس محبت کا عشرِ عشیر بھی کوئی اور نہیں دے سکتا! اُن کے سامنے میری بڑی سے بڑی پریشانی منٹوں میں کافور ہو جایا کرتی تھی، کچھ ان کی شفقتوں کے سبب اور کچھ ان کی دعاؤں کے اثر سے۔ خاتمِ اولاد ہونے کی وجہ سے مجھے پدرانہ شفقتوں سے کچھ زیادہ ہی حصہ ملا، افسوس یہ ہے کہ اس کی  مدت کم رہی۔ چھوٹی اولاد ہونے کا یہ خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑتا ہے، اے خدا والد ماجد کی قبر کو ٹھنڈا رکھ اور والدہ ماجدہ کی زندگی میں عافیت کے ساتھ خوب برکت نصیب فرما!(آمین) ہجری سال 1438ھ ہمارے حق میں ’عام الحزن‘ ثابت ہواکہ ایک ہی سال میں پہلے 7جمادی الاولیٰ( 5فروری 2017ء) کوبڑے بھائی کے جانے سے میری کمر ٹوٹ گئی، اور اس کے ساڑھے سات ماہ بعد28ذوالحجہ( 20 ستمبر 2017ء) کو والد ماجد کی رحلت کی صورت میں ٹھنڈا سایہ سر سے جاتا رہا۔ والد ماجد کی حیات میں جب ’برادرِ اکبر‘ کے عنوان سے میں نے بڑے بھائی کا خاکہ لکھ کر شائع کیا، جسے بصائر و عبر کے سبب پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا‘جس کے پیشِ نظر ایک دن ان کے سامنے کہہ گزرا کہ ’خالد بھائی انتقال کے بعد بھی مشہور و مقبول ہو گئے‘، تو والد ماجد نے فوری اصلاح کرتے ہوئے فرمایا تھا’ اصل تو عند اللہ اور آخرت کی مقبولیت ہے، اللہ اُسے وہ بھی نصیب کرے!‘۔آج والد ماجد کا خاکہ لکھنے بیٹھا تو ان کا یہ ارشاد ذہن میں گردش کرنے لگا، پھر خیال ہوا کہ جو مسجد کی پہلی صف میں اللہ کو پیارا ہوا ہو، اس کی عند اللہ مقبولت میں شبہ کرنا غیر مناسب ہے کہ احادیث کے مطابق ’جس کی جیسی زندگی ہوگی، ویسی موت ہوگی، اور جیسی موت ہوگی، قیامت میں اسی حال میں اسے اٹھایا جائے گا‘۔اس لیے خدا کی ذات سے قوی امید ہے کہ جناب حمزہ کی شہادت کی گواہی احُد کا میدان اور جناب عثمان کی شہادت کی گواہی خدا کا قرآن دے گا، تو میرے والدماجد کی شہادت کی گواہی بھی مسجد کی پہلی صف دے گی اور ضرور بالضرور وہ قیامت میں خدا کو سجدہ کرتے ہوئے حاضر ہوں گے۔ جس کی نیکیوں پر خدا نے کثیر مخلوق کو شاہد و گواہ بنا دیا، آخر کیوں اس سے نسلیں واقف نہ ہوں!  والد ماجد نے غیر اختیاری سنتِ نبوی کی پیروی میں تقریباً تریسٹھ سال کی عمر میں قفسِ عنصری سے پرواز کی اور پس ماندگان میں بہ شمول میرے چار اولادیں اور میری والدہ ماجدہ کو چھوڑا، جب کہ ایک بیٹے یعنی میرے بڑے بھائی خالد انصاری نے ان کی زندگی ہی میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی تھی۔ میرے والد ماجد نہایت شریف، سادہ لوح اور نیک انسان تھے۔ گو بہت پڑھے لکھے نہ سہی لیکن ضروریاتِ دین و دنیا سے غافل نہ تھے۔ یقینا گم نام زندگی گزاری، لیکن نیک نام اور ایسی عمدہ وفات پائی کہ اہلِ علم و دانش بھی رشک کریں۔انھوں نے کبھی کسی سے کوئی مَیل دل میں نہیں رکھا، ہماری تربیت کرتے ہوئے ہمیشہ فرمایا کرتے کہ ’جانے دے یار، اللہ سب دیکھتا ہے‘۔ والد ماجد بڑوں کے بیان کے مطابق‘ اپنے والدین کے لاڈلے اور فرماں بردار بیٹے تھے۔ دادا مرحوم کا زمانہ تو ہم نے نہ پایا، لیکن دادی مرحومہ کی خدمت کرتے ہوئے بہ چشمِ خود دیکھا ہے۔کبھی دادی اچانک بیمار ہوجاتیں،تو ہمت سے بڑھ کر اپنی گود میں لے‘ ڈاکٹر کے یہاں دوڑتے۔ایسا نظارہ بھی کم ہی دیکھنے کو ملے گا۔دادا مرحوم کی خواہش پر اُنھیں نبیوں کے واقعات اور شیریں زبان میں قرآنِ پاک سنایا کرتے تھے، دادا مرحوم لطف لیے جاتے اور دعائیں دیتے جاتے تھے۔ والد ماجد نے نیک شوہرکے فرائض اور بیوی کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بھی گویا مثال قائم کی،زمانے کی عام روش سے گریز کرتے ہوئے بیٹیوں کو بیٹوں جتنا لاڈ پیار کیا۔ اولاد کے ساتھ سخت نہیں بلکہ نیک صحبت ہم نشین کی سی زندگی گزاری اور ان کی لغزشوں کو جلد بھول جانے بلکہ معاف کر دینے کی روش اختیار کی۔ احترامِ علما، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کرنے میںکبھی کوتاہی کرتے ہوئے نہیں دیکھا، حتّٰی کہ اولاد کی عمر کے افراد سے بھی ’آپ‘ اور ’جی‘ سے گویا ہوتے۔ والد ماجد کی شخصیت میں سنجیدگی و متانت خوب رچی بسی تھی، البتہ زمانۂ طفولیت میں بھائی بہن اور دوستوں کے ساتھ مل کر فطری شرارتیں بھی کیں، لیکن اس سے آپسی رشتے و محبت میں پختگی ہی آئی، یہی وجہ تھی کہ آخری دم تک اپنے بھائی بہنوں کی بہت فکر کیا کرتے تھے۔ ان کے ایک بڑے بھائی ’محبوب‘ کا تقریباً بائیس سال قبل مختصر علالت کے بعد انتقال ہو گیا تھا‘ جب کبھی انھیں یاد کرتے، دل زور زور سے دھڑکنے لگتا۔علاوہ ازیں بچپن کے ہم نشینوں اور دوستوں سے بھی تعلقات ہمیشہ استوار رکھے۔کسی اہم کام کو بغیر مشورے کے کرنے کے عادی نہ تھے، کوئی اہلِ رائے نہ ملتا تو مجھ نابکار کی رائے معلوم کرتے۔  تیرہ چودہ سال قبل شیخِ شریعت و طریقت مفتی احمد خان پوری صاحب کے ہاتھ پر بیعتِ توبہ کی، اور ارشاد فرمودہ معمولات و وظائف پر ایسی پابندی کی کہ شاید و باید۔ شیخ کی محبت و احترام کا یہ عالَم تھا کہ ان کے آمد کی خبر پا کر چہرے پر رونق کے آثار نمایاں ہوجاتے، لیکن کبھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرنے کی جرات تو کیا زیادہ دیر سامنے بیٹھنے کی ہمت نہ کر سکے۔ایک بار بیان کیا کہ میں نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے، پھر قریب جا کر دیکھتا ہوں تو حضرت خانپوری متشکل تھے‘ جس کی تعبیر مولانا منیر احمد صاحب (کالینا) نے یہ بتائی کہ یہ خان پوری صاحب کی کمالِ اتباعِ سنت پر دالّ ہے۔ اس کے بعد تو والد ماجد کے دل میں شیخ و مرشد کا احترام اس درجے گھر کر گیا‘جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔شیخ کے عمومی ارشادات پر بھی دل و جان سے فدا رہتے،اور اُنھیں عملی جامہ پہنانے میں کبھی کوتاہی نہ کرتے۔ اس مبارک نسبت اور عالی سلسلے کی برکت سے نمازِتہجد کا اہتمام، آہِ سحر گاہی کی پابندی، نمازِ باجماعت کی حد درجے فکر، تلاوتِ قرآن سے عشق اور ڈھلتی عمر میں حفظِ قرآن کا شوق پوری آب و تاب کے ساتھ ان کی زندگی میں نمایاں رہا۔ پچپن سال سے زائد عمر میں سورۂ بقرہ، سورۂ یٰس، سورۂ واقعہ وغیرہ اورآخری تین پارے حفظ کیے۔رمضان المبارک میں توسنت کی اتباع میں عبادتوں و تلاوتِ کلام پاک کا یہ عالَم ہوتا کہ دیگر معمولات سے تقریباً کنارہ کش ہو جاتے، اور ہم جیسے جتنی عبادتیں اعتکاف میں رہ کر نہیں کر سکتے، وہ بغیر اعتکاف بہ آسانی کر لیا کرتے تھے۔ غیر رمضان میں بھی چار پانچ پارے یومیہ تلاوت کا عام معمول تھا، جو حافظ نہ ہونے کے باوجود رمضان کے مبارک مہینے میں پندرہ بیس پاروں تک پہنچ جاتا۔ضروری کاموں کے علاوہ رمضان و غیر رمضان میں آنکھ کھلتے ہی مصلّے پر آجانا اور نیند میں گُم ہو جانے تک تلاوت و تسبیحات وغیرہ میں مشغول رہنا، ان کی طبیعت بن چکا تھا۔ سلامتیِ طبع کا اندازہ اس سے لگائیے کہ میرے زمانۂ طفلی میںجب ممبئی سے بجنور جاتے اور میں اپنے ننھیں ہاتھ میں ان کی پیاری انگلی پکڑ کر کہیں جاتا، تو تمام راہ گیروں کو سلام کرتے ہوئے گزرتے ، جس سے مختصر مسافت بھی قدرے زیادہ وقت میں طے ہوتی،جو کبھی ہم نادانوں کو گراں گزرتی تو بہت پیار سے ہمیں مناتے، نیز راستے پر تکلیف دینے والی کوئی چیز پڑی ہوتو یاد نہیں پڑتا کہ والد ماجد کبھی اس سے صرفِ نظر کرکے گزر گئے ہوں، ممکن ہوتا تو پاؤں سے اسے ایک کنارے کردیتے، ضرورت پڑتی تو جھک کر اپنے ہاتھوں سے اسے ہٹاتے اور راستے کو صاف کرتے۔ یہی روش آخر دم تک رہی۔ سلام میں پہل کرنا، لایعنی سے بچنا، اپنے کام سے کام رکھنا، اہلِ خانہ کا خیال رکھنا اور فرائضِ منصبی کا اہتمام کرنا‘ گویا سرشت میں داخل تھا۔ ہر عام آدمی کی طرح والد ماجد نے بھی زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے، لیکن کبھی ہمت اور خدا پر یقین کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔اولاد کو بھی نیکی اور صلاح کی وصیت کرتے، مشکلوں سے جوجھنے کا حوصلہ دیتے، پریشانی کے وقت میں سوج بوجھ اور خدا سے مدد طلبی کی تلقین کرتے۔ والد ماجد کی ولادت تو اور بھارت کے زر خیز علاقے ’شہر بجنور‘ میں ہوئی تھی، دینیات اور اسکولی تعلیم وہیں حاصل کی، پھر بڑے بھائیوں کی فہمائش پر ممبئی چلے آئے۔ اس سے قبل ہی افلاس کے چلتے حصولِ معاش میں مشغول ہو چکے تھے،مختلف تجربے کرتے ہوئے ایک عرصے تک بجنور میں ٹرنر وغیرہ کا محنت کش پیشہ اختیار کیا،تب جاکر ممبئی آوری ہوئی، لیکن دریں اثنا میرے دادا مرحوم اور اُن کے والدِ بزرگ وار انتقال کر گئے، اور اُن کی آخری زیارت سے محروم رہنے کا والد ماجد کو ایسا صدمہ لگا کہ ممبئی کو خیرباد کہہ دیا۔ بجنور میں کئی سال تک محنتیں کرتے رہے، لیکن قسمت نے یاری نہ کی، اور ایک بار پھر ممبئی کا رخ کیا۔ اس کے بعد اس خطۂ زمین کو ایسا مستقر بنایا کہ بالآخر اسی خاک کے پیوند ہو گئے۔دیگر مشغلوں کے علاوہ کھار جامع مسجد کے جوار میں طویل عرصے تک کپڑے کی تجارت کی اور کبھی کسی کام کو چھوٹا نہیں سمجھا، نیز جو کام کیا پوری امانت و دیانت اور دل لگی کے ساتھ ہمہ تن مشغول ہو کر کیا۔ دوسروں کو بھی محنت و ایمان داری اپنانے، شارٹ کٹ اور غلط طریقوں سے محترز رہنے کی ترغیب دیتے اور کسی کو کچھ غلط کرتے ہوئے دیکھتے تو دل ایسا کڑھتا کہ آثار چہرے پر نظر آنے لگتے ۔ لوگوں کی خفیہ امداد کرنا وغیرہ بہت سے نیک کام کیے،کسی کو حالات سے گِھرا دیکھتے تو بے چین ہو جاتے، ہر ممکن تعاون کیے بغیر چین سے نہ بیٹھتے، لیکن احسان جتانے اور شہرت حاصل کرنے سے ہمیشہ مجتنب رہے۔ آخری دور میں بیٹے کی طویل علالت نے مالی حالت خستہ کر دی تھی، ورنہ خود کبھی کسی سے تعاون حاصل نہ کیا، نیچے والے ہاتھ کے مقابلے میں اوپر والے ہاتھ کی فضیلت و اہمیت ذہن و دماغ پر پوری طرح چھائی ہوئی تھی۔ وقت اور وعدے کے نہایت پابند تھے اور دوسروں سے بھی ایسی ہی توقع رکھتے، جس کے باعث بہت سی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں۔آسانی سے کسی پر اعتماد کر لینا بھی گویا ان کی خصلت تھی۔مسجد اور جوارِ مسجد کے ایسے شیدائی تھے کہ کسی اور مقام پر دل نہ لگتا ، یہاں تک کہ آخری سانسیں بھی مسجد ہی میں لیں،اورایسے شخص کے ایمان کی گواہی دینے کی تاکید خود احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ زندگی میں ایک بیٹی اور ایک بیٹے کا بیاہ اپنے ہاتھوں سے کیا، تیسری اولاد کوبہت جینا نصیب نہ ہوااور وہ جواں سالی میں رخصت ہو گئے،چوتھی اور پانچویں اولاد کے نکاح کی تمنا دل ہی میں رہی، جس کے لیے کوششیں کر رہے تھے۔ خدا کی ذات سے قوی امید ہے کہ اس بغیر باپ کی اولاد کی منہدم ہوتی ہوئی دیوار کی حفاظت کے لیے کسی خضر کو بھیجے گا اور وہ مالک الملک تو کسی خضر کا بھی محتاج نہیں۔ والدماجد کے ایما پر دس سال قبل ’الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا‘ نامی ایک تحقیقی، تصنیفی، دعوتی اور اصلاحی ادارے کا آغاز کیا گیا تھا، جس کا پہلا عظیم الشان اجلاس ان کی حیات ہی میں 19مارچ 2017ء کو وقوع پذیر ہوا، جوایک تاریخی اور کامیاب اجلاس رہا، اس موقع پر والد ماجد کی خوشی دیدنی تھی۔ اسی موقع پر ان کے اسمِ گرامی پر دس رسالوں کا مجموعہ ’رسائلِ ابنِ یامین‘ شائع کیا گیا، جس دم یہ کتاب ان کے ہاتھوں میں پہنچی‘ چہرے پر فرحت و انبساط کی ایسی لہر تھی، جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ظاہر ہے یہ سب اُنھیں کی نیک تربیت اور حوصلہ افزائی کا ثمرہ تھا کہ مجھ بے مایہ نے مختصر ہی سہی، کچھ کرکے اپنے والد کے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچائی۔26جون 2017ء کو جب میں نے بہ طور لیکچرراسماعیل یوسف کالج،ممبئی کے شعبۂ اردو میں خدمت انجام دینی شروع کی، تو والد ماجد کی خوشی کی انتہا نہ رہی،اور خوب خوب دعاؤں سے نوازا،جو میرے لیے عظیم سرمایۂ افتخار ہے۔ اس کے بعد ان کی زندگی نے کچھ خاص مہلت نہ دی اور 19-20ستمبر کی بارش ہماری زندگی میں ایسا طوفان لائی کہ ہم کچھ سمجھ پاتے اس سے قبل ہی یہ گھنا درخت ہمیشہ ہمیش کے لیے قبرستان پہنچ گیا۔ والد ماجد کو بارش سے کوئی نقصان نہیں پہنچا، نہ ہی اُنھیں کوئی بیماری یا کوئی مستقل عارضہ لاحق تھا، لیکن منظر اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک عاشقِ زار بندہ اپنے رب سے راز و نیاز میں مصروف تھا‘ اُس مقام پر جو کہ بندے کی قربت کی انتہا ہے، اور ملک الموت نے اپنا کام کر دیا۔والد ماجد ہمیشہ دعا کیا کرتے تھے کہ ’اللہ! چلتے ہاتھ پیر اٹھانا، کبھی کسی کا محتاج نہ کرفرمانا!‘ اور خدا نے ان کی اس دعا کو شرفِ قبولیت سے ایسا نوازا کہ جنازہ عام طور سے گھروں سے مسجد کو جاتا ہے، میرے والد ماجد کا جنازہ مسجد سے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اب اس جہان میں سب کچھ ہے، لیکن حالات کی تپش سے بچنے کے لیے وہ ٹھنڈا سایہ نہیں، جو ہمیشہ اس گناہ گار کے ساتھ رہتا تھا!

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here