Paak daman Hazrat Yusuf ki paak damani zarra barabar bhi mutassir nahi hui

 

پاک دامن حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی ذرہ برابر بھی متاثر نہیں ہوئی

مولانا شاہد معین قاسمی

بارہویں پارے کی شروع کی آیات یعنی سورہ ٔ ہود کی آیت :۲۵؍ تک اللہ تبارک وتعالی نے نہ ماننے والوں کی چندناسمجھی کی باتوں کا تذکرہ فرما کر ان کے جوابات دیتے ہوئے اپنی بے شمار قدرتیں اور احسانات گنوائے پھرآیت: ۴۹؍تک حضرت نوح ؑ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ؑ اپنی قوم کے لوگوں کو مختلف انداز سے سمجھا تے رہے اور کھلے الفاظ میں ان سے یہ بتایا کہ تم لوگ اللہ کے راستے سے ہٹ چکے ہو میںتمہیں صحیح راستہ بتاتاہوں تم اسے قبول کرو۔ان کی قوم کے جن غریب لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کے بارے میں اسلام نہ لانے والے لوگ حضرت نوحؑ سے یہ کہتے تھے کہ ان کو آپ اپنے پاس سے ہٹادیں ورنہ اگر ہم اسلام قبول کرلیں تو ہم بھی ان ہی کی طرح چھوٹے ہوجائیںگے اور یہ ہمارے برابر ہوجائیں گے اللہ کے نبی حضرت نوح ؑنے فرمایا یہ نہیںہوسکتا ۔اور دیکھو کسی انسان کے نبی ہونے کے لئے ا س کا یا اس کے ساتھیوں کا مالدار ہونا اور اس کے پاس چھپی ہوئی چیزوں کا ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ میں کبھی اس کا دعوی کرتاہوں۔(ا س سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے کہ کوئی آدمی کسی عالم دین ،اللہ والے یا نیک کام کررہے لوگوں کے ساتھ جڑنے سے پہلے یہ دیکھے کہ ان کے ساتھ کون لوگ ہیں اگر ان کے ساتھ غریب اور کمزور قسم کے لوگ نظر آ ئے تو وہ یا تو ان کے ساتھ جڑتا ہی نہیں یا پھرجڑجانے کے بعد ان کمزوروں کو وہاں سے بھگانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد خود ہی بھاگ لے ہمیں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ جس عالم دین یا دوسرے دین کے خادم سے یہ کمزور لو گ جڑے ہوئے ہیں کیا اس سے ہماری دینی اور صحیح د نیوی ضررورت بھی پوری ہوسکتی ہے؟ اور کیا ہم بھی اس سے راہنمائی حاصل کرسکیںگے یا نہیں؟اگر وہ ہمارے لیے بھی مفید ہے تو ہمیںبھی نہ صرف اس سے جڑجانا چاہیے بل کہ ساتھ ہی پہلے سے جڑے ان کمزور وں کی ستائش اور حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی نے انہیںہم سے پہلے اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیااور ہم نے حق کے قبول کرنے میںاور اللہ کی نعمت سے فائدہ حاصل کرنے میںبلا ضرورت دیر کی۔
حضرت نوح ؑ کی ساڑھے نو سو برس تک جاری دعوت وتبلیغ کے بعد اللہ تبارک وتعالی نے حضرت نو حؑ سے فر ما یا کہ اب تک جتنے لوگ اسلام قبول کرچکے ہیں ان کے علاوہ اب دوسر ا کوئی بھی اسلام قبول نہیں کرے گا اس لئے آپ ان کے عمل کی وجہ سے خود مایوس نہ ہوں اور ایسا کریںکہ ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے کشتی بنائیں اب جتنے نافرمان ہیں وہ سب ڈوبیں گے آپ انہیں بچانے کی ہر گز فکر نہ کریںاور نہ ان کے بارے میں مجھ سے کوئی درخواست کریں ۔حضر ت نوح ؑنے اپنی کشتی بنانا شروع فر مادی جس میں وقت لگا اس دوران جب بھی ان کی قوم کے نافرمان لوگ گزرتے توحضرت نوحؑ کو کشتی بناتے دیکھ کر ان کا مذاق اڑاتے اور حضرت نوحؑ جواب میں فرماتے اگر تم ہمارا مذاق اڑارہے ہواور ہمیں بیوقوف سمجھ رہے ہوتو ہم بھی تمہیں بے وقوف سمجھ رہے ہیں او ر بس اب جلدہی یہ معلوم ہوجا ئے گا کہ کس پے ذلت کا عذاب آتا ہے؟پھر اللہ تعالی کا حکم ہوا اور جب عذاب کی نشانیاں نظر آنے لگیں اور زمین سے پانی ابلنا شروع ہوگیا تو اللہ تعالی نے حضرت نوح سے فرمایا آپ خود بھی کشتی میں سوار ہو جائیں، اپنے لوگوں کو بھی سوار کرلیں اور ساتھ ہی ہر قسم کے جوڑے والے جانوروںکا ایک جوڑ ابھی سوار کرلیں حضرت نوح نے ایسا ہی کیا کہ حکم کے مطابق جنہیں سوار کرنے کا حکم تھا انہیں سوار کرلیا اور سوار کرتے وقت اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کشتی کا چلنا اور ٹھہر نا سب اللہ تعالی کے ہی حکم سے ہوگا ساتھ ہی اس کشتی کے چلنے کی حالت بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ لہروں میں ڈانواں ڈول ہونے کی بجا ئے پہاڑ کی طرح اپنے راستے میں چل رہی تھی ۔اس میں ایک خاص چیز یہ بتلائی گئی ہے کہ حضرت نو ح کا ایک لڑکاآپ کے ساتھ کشتی میں سوار نہ ہوکر کشتی سے کچھ دوری پہ تھا حضرت نو ح نے اسے بلایاکہ ہمارے ساتھ کشتی میں آجاؤ وہ حضر ت نوح کی دعوت پر ایمان نہیںلایا تھا اس نے یہ کہتے ہوئے انکا ر کردیا کہ میں کسی پہاڑپہ چڑھ جاؤں گاتو وہ مجھے پانی سے بچا لے گا حضرت نو ح نے فرما دیا کہ آج تو بس اللہ تعالی جس کے ساتھ رحم کا معاملہ کریں گے وہی بچ سکے گاپھر نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک لہر بیچ میں آئی اور دونوں با پ بیٹے ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور بیٹا ڈوب گیا۔پھر جب اللہ تعالی کو منظور ہواکہ یہ طوفان ختم ہوجائے تو اللہ تعالی نے زمین سے کہا اپنا پانی نگل جاؤ اور آسمان سے فرمایا برسنا بندکردوپھر کشتی جودی پہاڑ پہ آکر ٹھہر گئی۔ حضرت ؑنے اپنے بیٹے کے بارے میں اللہ تعالی سے عرض کیا کہ اے اللہ آپنے تو وعدہ فرمایا تھا کہ ہم تمہارے گھر والوں کو بچالیںگے لیکن میر ا بیٹا ہلا ک ہوگیا (اس میں کیا مصلحت تھی؟ ) تو اللہ تعالی نے جواب یہ دیا کہ وہ بیٹاتمہاری نافرمانی کرکے تمہارے اہل سے نکل گیا تھا اس لئے آپ کو جس چیز کا علم نہیں ہے اس کے بارے میں سوال نہ کریں۔ قصے کے اخیر میں اللہ تبار ک وتعالی نے نبی ﷺ سے یہ فرمایا کہ یہ سب نوح ؑسے متعلق وہ خبریں ہیں جنہیں نہ آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم کے لوگ بل کہ اللہ تبارک وتعالی نے ہی آپ کو بتلایا تو جس طر ح نو ح نے ساڑھے نوسو برس تک صبر کیا آپ بھی صبر فر مائیں ۔آیت :۵۰؍سے ۶۸؍تک دو پیغمبروں حضرت ہود اور حضرت صالح کاتذ کرہ ہے۔جب حضر ت ہو د ؑنے اپنی قوم سے کہا کہ تم صرف اللہ کی عبادت کر و اور اس سے توبہ کر و اللہ تعالی اس کے بدلے دنیا میں بھی نوازیں گے اور آخرت میں بھی کہ خوب بارش ہوگی اور جس قحط کے تم شکار ہو وہ ختم ہو جائے گی اور ساتھ ہی دوسرے اعتبارسے بھی تم مضبوط ہوجاؤ گے تو انہوں نے جوابدیا کہ آ ُپ کے کہنے سے ہم بتوں کو نہیں چھوڑ سکتے بل کہ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمار ے معبودوں کو بر ابھلا کہنے کی سزا میں آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے اس لئے آپ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں۔حضرت ہود ؑنے اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے انہیں سمجھا یا لیکن وہ نہیں سمجھے تو ان پے بھی عذاب آیا ۔اسی طرح حضرت صالح ؑنے اپنی قوم سے اللہ کے احسانات اور ان کی بزرگی بیان کرتے ہوئے انہیں اللہ کی طرف بلایا تو انہوں نے جو اب دیا کہ پہلے تو آپ ہماری نظر میں ایک اچھے انسان تھے اور ہمیںآپ سے اچھے کاموں کی امید تھی لیکن آپ نے یہ کیا کرنا شروع کردیا اگر آپ ہماری اس پہاڑی سے دس ماہ کی گابھن گائے نکا ل دیجیے تو جانیں !اللہ کے نبی نے دعا کی ،اس پہاڑ سے ایک چٹان کے پھٹنے کے ساتھ وہ گائے نکلی۔حضرت ہودنے اس گائے کی عزت وحفاظت کی نصیحت کی تھی لیکن ان لوگوں نے اسے ذبح کر ڈالا تو ان پر عذاب آیا کہ تین دنوں تک وہ گھر وں میں پڑے رہے اورپھر چوتھے دن زلزلہ اور حضرت جبریل کی چیخ سے سب کے سب تباہ ہو گئے ۔
آیت: ۶۹ سے ۷۳؍تک فرشتوں کے حضرت ابراہیم کے پاس انسانی مہمانوں کی شکل میں آنے کا تذکر ہ ہے حضرت ابراہیم نے انہیں واقعتا انسان سمجھ کران کی میزبانی کے لئے ایک بھناہو ابچھڑا لاکر ان کے سامنے ر کھا جب دیکھا کہ یہ لوگ کھانہیں رہے ہیں تو انہیں تھو ڑ ی سے اجنبیت محسوس ہوئی فرشتو ں نے کہا ہم انسانی مہمان نہیں ہیںبل کہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور ابھی قوم لوط کے پاس جانا ہے آپ کے لئے خوشخبری یہ ہے کہ آپ کو اللہ تبارک وتعالی اسحق اور اسحق کے بعد یعقوب نامی اولاد عطا کریںگے بیوی حضرت سارہ بھی وہیں تشریف رکھتی تھیں ان کوبھی بڑا تعجب ہوا کہ ایسا کیسے ہوگا ہم دونو ں ہی بوڑھے ہیںفرشتوں نے کہا اللہ کی قدرت وفیصلے میں تعجب کی کیا بات ہے۔اس کے بعد فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط ؑ کے پاس آئے وہاں پہنچتے ہی جب ا ن کی قوم کے لوگوں کو اس کی خبر ہوئی تو جس برے عمل کے وہ عادی تھے ان مہمانوں کے ساتھ بھی اسی کو کرنے کے لئے دوڑے حضرت لوطؑ کے گھر آ دھمکے حضرت لوطؑ بہت پریشان ہوئے اور کہا کہ بھائی تم لو گ مجھے اپنے مہمانوں کے بارے میں رسو ا نہ کرو بل کہ عورتوں سے نکاح کرکے اپنی ضرورت پوری کرو ان لوگوں نے اس سے صاف انکار کردیا اور مہمانوں کے ساتھ ہی غلط کام کرنے ُکے لئے ہر طرح کی کوشش کرتے رہے ۔حضرت لوط ؑ نے انتہائی پریشانی کے عالم میں فر ما یا کہ کاش کہ میرے پا س کوئی ذاتی طاقت یا کوئی جماعت ہی ہوتی جس سے ان لوگوں کو روکا جاتا۔ پھر ان لوگوں میں بھی آواز لگائی کہ کیا تم میں ایک آدمی بھی سمجھدارنہیں ہے فرشتوں نے حضرت لوط ؑ سے کہا گھبر انے کی بات نہیں ہے آپ کے پا س بڑی جماعت موجو د ہے ہم اللہ کے فرشتے ہیں ہم ان کو عذاب دینے کے لیے ہی آئے ہیں۔ آپ آج ہی رات اپنے گھروالوں کو لیکر نکل جائیں گھر والوں میں سے کوئی بھی جاتے وقت پیچھے مڑ کر نہ دیکھے لیکن آپ کی بیوی آپ کے ساتھ نہیں جائے گی اور صبح تک عذاب آجائے گا حضرت لوطؑ نے فرمایا صبح سے پہلے ہی ہوجانا چا ہیے فرشتوں نے کہا کہ صبح تو بس ہونے ہی والی ہے ۔پھر ہوایہ کہ ان کی پوری پوری بستیوں کو اٹھا کر اوپر لے جایا گیا اور پھر انہیں پلٹ کر ان پہ پتھر کی بار ش کر دی گئی ۔پھر آیت :۸۴سے ۹۵؍ تک حضر ت شعیب ؑ کا تذکرہ ہے جس میں آپ ؑ کی اپنی قوم سے نصیحت اور خا ص کرناپ تول میں کمی نہ کرنے کی ہدایت ہے قوم نے کہا آپ کی اکثرباتیں ہمیں سمجھ میں نہیں آتیں اگر ہم آپ کے خاندان کے لوگوں سے نہیں ڈرتے تو پتھر سے مار مار کر آپ کو ہلا ک کردیتے آپ نے فرمایا کہ ایسانہ ہو کہ میری دشمنی تم پہ عذاب آنے کاذریعہ بن جائے اور یہی ہوا کہ ان پر عذاب آیا اور حضرت جبرئیل کی آواز سے اپنے گھروں میں اوندھے پڑ ے رہ گئے۔ اس کے بعد سورہ ٔ ہود کے اخیر تک پہلے تو حضرت موسی ؑ کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قیا مت ،حساب وکتا ب اور جزا و سزا کے تذ کر ے کے ساتھ ایک طرف لوگوں کو ایمان کی دعوت دی گئی ہے تودوسری طرف نبیﷺ سے فرمایا گیا ہے کہ نبیوں کے یہ سب واقعات ہم آپ کو اس لئے سناتے ہیں کہ تا کہ آپ صبر کے ساتھ کام کرتے رہیں۔
اس کے بعد سورۂ یوسف ہے جس میں بہت ہی مشہوراور انتہائی پاک دامن پیغمبر حضرت یوسف ؑ کا قصہ بیان کیاگیاہے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ صحابہ ؓ نے نبی ﷺ سے درخواست کی کہ یارسول اللہ ﷺ اگر آپ ہمیں قصہ سنائیں تو بڑا اچھا رہے گا اس پہ یہ قصہ نازل ہوا یا یہ کہ یہود نے امتحان کے لئے آپ سے یہ قصہ پوچھا تھا (بیان القرآن عن الدرالمنثور وعن الخازن عن ابن عباسؓ و ابن کثیر ) شروع کی آیات میں یہ بتلایا گیاہے کہ اس (عالمی کتاب ) قرآن کریم کو (اس کے لیے سب سے زیادہ مناسب زبان) عربی میں نازل کیا گیااس آیت میں قرآن پاک کی یہ خوبی بتلائی گئی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں ہے چناں چہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک کتا ب لیکر حاضر ہوئے اورآپؓ اسے پڑھ کر کسی اور کو نہیں بل کہ خو د آپ ﷺ کو ہی سنانے لگے آپ ﷺ نے سخت ناراضگی کے عالم میں فرمایا,,خطاب کے بیٹے کیا تم اس میں مصروف ہوکر گمراہ ہونا چاہتے ہو؟اللہ کی قسم یادرکھو! میں تمہارے پاس نہایت چمکدار اور روشن قرآن لیکر آیاہوں۔ خبر دار! اہل کتاب سے کچھ نہ پوچھو ہوسکتا ہے کہ وہ صحیح بات بتلائیں اور تم اسے نہ مانو اور ہو سکتاہے کہ وہ کوئی غلط بات بتادیں اور تم اسے مان لواللہ کی قسم اگر آج (حضرت)موسی بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کیے بغیر چارہ نہ تھا(ابن کثیر بحوالہ مسند امام احمد)اس حدیث سے صاف طور پہ یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حصول ِہدایت کے لیے قرآن کریم کے علاوہ کسی بھی دوسری کتا ب کا مطالعہ کریںیا اس کی ضرورت محسوس کریں کیوں کہ ایسا کرنے میں اس تعلق سے اسلام کے اندر نقص اور عدم جامعیت کے ایمان و اعتراف کا خطر ہ ہے … اگر غور کیا جائے تو اس حدیث شریف میں یہ بات بہت ہی بڑی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اُس زمانے میں اس قدرسختی سے اوروہ بھی ,,حضرت عمر،،ؓ جیسے صاحب بصیرت اور راسخ الایمان صحابی سے فرمایا کہ تم اِس میں مصروف ہو کر گمرا ہونا چاہتے ہو جب کہ تورات و انجیل میں تبدیلی اتنی زیادہ نہیں ہوئی تھی اور اب جب کہ لاکھوں کی تعد اد میں تبدیلیاں ہوچکی ہیںجن کا سلسلہ روکنے کا نام نہیں لیتا تو اس زمانے میں قرآنِ کریم کو چھوڑکر ان میں ہدایت کو ڈھونڈنا اور اسکا مطالعہ کرنا کس قدر خطرناک اور غیرت ِایمانی کے لیے کتنا نازیبا ہو گا اس کااندازہ کسی بھی غیر ت مند اور اپنے ایمان کی بقا کے تئیں حساس مسلمان کے لیے مشکل نہیں ہے ۔ہاں! جو گنے چنے راسخ الایمان والعلم اوردعوت و تحقیق کے میدان کے شہسوار ،اسلام کی سچائی کو ثابت یا واضح کرنے کے لیے بقدر ضرورت ان کا مطالعہ کریں تو اِن کے لیے خصوصیت کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی اور زمانے کے لحاظ سے اسے مستحسن بھی کہاجائے گا لیکن عام لوگوں کو اس کی اجازت نہیں دی جائیگی بل کہ عام لوگ اگر قرآن کریم کی صحیح تلاوت اور اس کے کماحقہ مطالعے کے لیے ہی اپنا وقت فارغ کر لیں تو زہے قسمت !…۔
پاکدامن حضرت یوسف ؑ کا قصہ :سورۂ یوسفؑ میں اس پار ے کے اخیر تک حضرت یوسفؑ کے قصے کا جو حصہ بیان کیا گیاہے اس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ آ پ نے یہ خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے آپ کا سجدہ کررہے ہیں جب یہ خواب اپنے والد حضرت یعقوب ؑسے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ تم یہ خواب اپنے بھائیوں سے نہ بتا نا ورنہ وہ تم سے حسد کرنے لگیں گے ۔ان کے بھائیوں نے حسد کی وجہ سے انہیں ختم کرنے کے لئے حضرت یعقوبؑ سے کسی طرح اپنے ساتھ گھر سے باہر لیجانے کی اجازت لے لی کہ ہمارے ساتھ یوسف کھیلے کودے گا اور انہیں لیجا کر ایک کنویں میں ڈالدیا پھر اپنے جرم کو چھپانے کے لئے ان کے کرتے کو خون میںرنگ کر روتے روتے رات کو اپنے والد صاحب کے پا س پہنچے اور کہا کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام)کو اپنے سامان کے پاس بیٹھا دیا تھا اور ہم اتفاق سے دوڑ میں لگ گئے تھے کہ اتنے میں بھیڑیے نے یوسف کو کھالیا والد صاحب نے کہا یہ با ت سمجھ میں آنے والی نہیں ہے ضرور تم نے کوئی بہا نا بنایا ہے ۔اور جب ایک قافلے کے پانی کے ڈول میں حضرت یوسف کنویں سے باہر آئے تو انہی بھائیوں نے ہی حضرت یوسف کو اِن ہی کے ہا تھو ں بیچ بھی ڈالا ۔پھر قافلے والوں نے عزیز مصر کے ہاتھو ں حضرت یوسف کو پیچ دیا اور انہیںاپنے گھر لیکر پہنچے اپنی بیوی سے کہا کہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھنا۔ اللہ تعالی نے حضرت یوسف کو خوب سیرتی کے ساتھ بلاکی خوبصورتی بھی عطا فرمائی تھی جس کی وہ جہ سے عزیز مصر کی عورت حضرت ؑپہ فریفتہ ہوگئی تھی اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ ایک روزاپنے بس کی ساری تیاریاں اور بناؤسنگھار کرکے گھر کے سارے دروازے بند کردیئے پھر حضرت یوسف ؑ سے کہا آجاؤ یہ (ساری تیاریںاور اسقدر اہتمام ) تمہارے لیے ہی ہے لیکن چوں کہ حضرت یوسف ؑانسان ہونے کے ساتھ ایک نبی بھی تھے اس لیے اللہ کی توفیق سے انہوں نے اپنے آپ کو قابومیں رکھا اور نہ صرف یہ کہ اس شیطانی پیش کش کو بیک لخت ٹھکڑا دیا بل کہ ساتھ ہی اس عورت کو نصیحت بھی فرمائی (جوہرانسان کے لیے قابل رشک ہے اور جس کا تذکرہ خود ہمارے پیارے نبیؑ کی حدیث پاک میں بھی ملتاہے)کہ یہ پیش کش اور اس کی قبولیت خود صحیح انسان ہونے کے ناطے بھی شرمناک ہے اس لیے کہ تمہاری یہ عزت جسے تم مجھے پیش کرنا چاہتی ہو یہ تمہارے پاس تمہارے شوہر کی امانت ہے جس میں خیانت کرنا( جس طرح تمہارے لیے جائز نہیں ٹھیک اسی طرح) خود میرے لیے بھی شرمنا ک ہے ا س لیے کہ تمہارے شوہر نے میری پرورش کی اور اس تعلق سے اس کے مجھ پہ بڑے احسانات ہیں تو بھلا میرا ضمیر کیسے گوار ا کریگا کہ میں اپنے محسن کی امانت میں خیانت کروں اوراگر میں ضمیر فروشی اور احسان فروشی کے ساتھ اس کی اس امانت میں خیانت بھی کرجاؤ ںتویہ میری طرف سے اپنے اس محسن پہ ظلم ہوگا اور میں ظالم ہوں گا اور ظالم کا انجام ناکامی ہی طے ہے۔اللہ پاک نے سوفی صد پاک دامن حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی کے بیان کے لیے جو انداز اختیار کیا ہے اس سے دوباتیں بالکل دودو چار کی طرح واضح ہوجاتی ہیں اور کسی بھی ادنی سی عقل و دانش رکھنے والے انسان کو صرف آیت کے ترجمے سے ہی سمجھ میں آجائیںگی پہلی بات یہ ہے کہ یہ موقع یہ انتہائی پرفتن تھا جس میں پھنس جا نے کے بے شمار اسباب تھے دوسری بات یہ ہے کہ چوں کہ انبیاؑسب کے سب معصوم ہوتے ہیں اس لیے اللہ نے اپنی شایان شان اور نبوت کے سزوار راہنمائی فرمائی اور پاک دامن حضرت یوسفؑ کی پاکدامنی ذرہ برابر بھی متاثر نہیں ہوئی کہ آپؑ اس آزمائش سے نکلنے کے لیے دروازے کی طرف دوڑے ادھر اس عورت نے آپ کو پکڑکر پھسلانے کے لیے پیچھے سے آپ کا کرتا زور سے کھینچا جس سے کرتا پیچھے سے پھٹ گیا اور ساتھ ہی عزیز مصربھی دروازے پہ مل گیا شو ہر کو یکھتے ہی اس نے حضرت ؑپہ الزم لگاکر ان کے خلاف جیل یا کسی دوسری سخت سزا کا مطالبہ بھی پیش کردیا لیکن حضرتؑ کے وضاحتی بیان کی تائید میں خود اسی عورت کے خاندان کے ہی ایک دودھ پیتے پچے نے کہا کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ حضرت کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے یا آگے سے؟ اگر پیچھے سے پھٹا ہے تو حضرتؑ کی بات سچی ہوگی ورنہ اس عورت کی جب دیکھا گیا تو حضرت کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ملا اور موقع پہ ہی فیصلہ ہوگیا کہ پاکدامن حضرت یوسفؑ نے سخت آزمائش میں گھِر جانے کے باوجود اپنی پاک دامنی پہ حرف نہیں آنے دیا لیکن بے بنیاد بات بھی پھیل ہی جاتی ہے چناں چہ جب بات پھیلی اور عورتوں نے اس خاتون کو برابھلا کہا کہ اتنی عزت والی خاتون اپنے خریدے ہوئے انسان پہ لٹوہو گئی ! تو اِس نے ان سب کی دعوت کرکے ان کے سامنے سے حضرت یوسفؑ کو گذار کر ان کے حسن کی ایک جھلک انہیں دکھائی جسے مبہوت ہوکر ان تمام عورتوں نے اپنی چھری سے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے اور حضرتؑ کا جرم اگرچہ ثابت نہیںہوسکا لیکن آپ کی دعا اور بادشاہ کی مصلحت کی وجہ سے انہیں جیل میں جانا پڑ ا۔آپ وہا ں ایک بہترین انسان اور خواب کی تعبیر کے ماہر سے مشہور ہوئے جس کی شہرت بادشاہ کے دربارتک ہوگئی تھی بادشاہ نے ایک ڈراؤناخاب دیکھا جس کی تعبیر حضرت یوسف ہی بتاسکے اس سے بادشا ہ کو بہت خوشی ہوئی اور ان سے درخواست کی گئی کہ آپ جیل سے نکل آئیں حضرت یوسف نے کہا کہ جب تک مجھ پہ لگائے گئے الزام میں وہ عورتیں اپنے جھوٹی ہونے کا اقرار نہ کرلیں اس وقت تک میں جیل سے نہیںنکلوں گا تمام عورتوں نے اقرار کیا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے اور حضرت یوسف نے اپنے تقدس وپاکدامنی کے خلاف کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔پھر بادشاہ کے پاس پہنچ کر تعبیرپہ عمل کرنے کی شکل بتلائی اور وہ خود ہی وزیر خزانہ بنادیئے گئے پھر مصر اور اطراف میں قحط سالی کے زمانے جس طرح خلق خدا کو غلہ فراہم کیا وہ حکومتوں کے لیے لائحہ عمل ہے اسی کے ساتھ یہ ۱۲؍وہواں پارہ مکمل ہوگیا ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here