Pehle ke ambiya ki qaumo ke waqiaat se sabaq lena chahiye

پہلے کے انبیا کی قوموں کے واقعات سے سبق لینا چاہیے

مولانا شاہد معین قاسمی

اس پارے کے شروع کی آیات یعنی سورہ ٔ یوسف کی آیت :۵۳؍ میںاس بات کا تذ کرہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ جیل سے واپس نہ جانے کی وجہ بتاتے ہوئے یہ بھی فرمادیا کہ میں اپنے آپ کو ہر اعتبار سے پاک نہیں سمجھتا ہوں بل کہ دل میں تو طرح طرح کے خیالات آتے ہی رہتے ہیں لیکن اللہ اگر کسی کے ساتھ رحم کا معاملہ فرمائیں پھر اگر کسی کے دل میںکوئی برا خیا ل آجائے ساتھ ہی وہ اس پہ شرمندہ بھی ہوتو اللہ تعالی معاف کرنے والے ہیں ۔ نبی تو اپنے بارے میں یہ کہر ہے ہیں کہ میں مکمل طو رپہ اپنے آپ کو پا ک نہیں سمجھتا لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ہر حال میںاللہ کو خوش کرنے والے سمجھتے ہیں۔ آیت :۵۴،۵۵؍ میں بادشاہ کے حضرت یوسف کو بلانے اور ان سے گفتگو کا تذکرہ ہے کہ بادشاہ نے انہیں بلوایا اور گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے نزدیک بہت ہی معتبر اور بہت ہی صلاحیت مند ہیںحضرت یوسف ؑنے چوںکہ اپنی بصیرت سے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ آئندہ سالوں میں ملک میںجو قحط پڑ نے والا ہے اس میں انسانوں کی خدمت کے لئے مجھے کام کرنے کی ضرورت پڑ ے گی اور اس سلسلے میں جو بھی موقع ملے اسے ہاتھ سے نہیںجانے دیناچاہئے اس لیے حضرت ؑنے جب یہ دیکھا کہ الحمد للہ بادشاہ کو بھی میرے اوپر اعتما د ہے تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خدمت کے موقع کوحاصل کرلینا چاہئے اور فرمایا کہ مجھے زمین کے خزانے کا مالک بنادیں کیوں کہ میں نگرانی کرناجانتاہوں اور جانکارہوں بادشاہ نے فورا ہی انہیں یہ عہدہ دیدیا ۔آیت :۵۶اور۵۷؍میں اللہ تعا لی فرمارہے ہیں کہ اس تدبیر سے میں نے یوسف ؑ کو ملک میں طاقت دی اور انہیں اس لائق بنادیا کہ وہ جہاں چاہیں رہیں اورساتھ ہی اپنے عام ضابطے کااعلان بھی فرمادیا کہ یہ صرف یوسف کے لیے نہیں ہے بل کہ جو بھی انسان صبر سے کام لیتاہے ہم اسے اسی طرح بدلہ دیتے ہیں کہ دنیا میں بھی اسے بہتر ی عطا کرتے ہیں اور آخرت کا ثواب تو ہے ہی اس کے لئے ۔آیت :۵۸سے ۶۲؍ تک قحط سالی آنے کے بعد حضر ت یوسف کے بھائیوں کے غلے کے لیے مصر آنے کا ذ کر ہے ۔ جس کا خلا صہ یہ ہے کہ جب قحط پڑا توچوںکہ حضرت یوسفؑ نے بہت پہلے سے ہی بڑی حکمت کے ساتھ غلہ جمع کررکھا تھا اس لئے اب آپؑ تقسیم فرمارہے تھے اور لوگ دور دور سے مصر غلہ لینے کے لئے آنے لگے اور حضرت یوسف بڑے ہی حکیمانہ طریقے سے دے بھی رہے تھے قحط سات سالوںتک تھا اور حضرت یوسف کے ابا محترم حضرت یعقوبؑ کا شہر کنعان بھی اس سے متاثر تھا اس لئے ان کے بھائی بھی غلہ لینے کے لئے یوسف ؑ کے پاس آئے جب یہ لوگ حضرت یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف ؑ انہیں پہچان گئے لیکن یہ لوگ یوسفؑ کو نہیں پہچان سکے۔جب حضرت یوسف نے غلہ دیدیا تو ان سے خیر خیریت معلوم کی ان لوگو ں نے سب کچھ بتایا اور یہ بھی کہا کہ میر ا ایک اور بھائی ہے جو اباجان کے پا س ہے حضرت یوسف نے خوب زور دیکر فرمایا کہ دیکھو ہم نے کس طرح تمہارے ساتھ عزت کا معاملہ کیا اور کم پیسے میںغلہ دیدیا تم ضرور اپنے بھائی کو لیکر آنا یا درکھو اگر اسے لیکر نہیںآئے تو غلہ دیناتودور کی بات ہے ہم تمہیں اپنے قریب بھی نہیں آنے دیںگے اور اس سے بڑ ا کام یہ کیا کہ اپنے خادموںسے کہاکہ جو پیسے ان سے لئے تھے وہ بھی چپ کے سے ان کے تھیلے میں ڈالدو تا کہ دوبارہ آنے کا اور زیادہ شو ق پید اہو۔خیر ان بھائیوں نے ابا محترم کے پاس پہنچ کر حضرت یوسف کی بہت تعریف کی اور بتایا کہ ایک تو ہمیں بلاقیمت غلہ بھی دیادوسرے یہ کہ ہماری مہمانی بھی کی اور ساتھ ہی دوبارہ بڑھا کر دینے کے لئے دوسرے بھائی کو لانے کی تاکید بھی کی اس لئے آپ ضرور یامین کو ہمارے ساتھ جانے دیںاباجان نے جواب دیا اس سے پہلے تم دھوکہ دے چکے ہو اس لئے اب تو یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب کہ تم اللہ کا نام لیکر وعدہ کرو کہ تم ضرور اسے واپس لاؤگے انہوں نے فورا ہی وعدہ کرلیا توحضرت یعقوب نے اجازت دیتے ہوئے نصیحت کی کہ تم لوگ شہر میں الگ الگ دروازوں سے جانا (خدا نہ خو استہ کہیں کوئی مصیبت آئے تو سب لوگ اس میں گرفتار نہیں ہو گے) اللہ تعالی فرمارہے ہیں کہ یہ( حضرت) یعقوب کی ظاہر ی تدبیر تھی لیکن اللہ کے حکم کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا ہاں اتنا ضرور ہوا کہ ممکن تدبیر ا ختیار کرکے انہوں نے اپنے آپ کو تسلی دے لی ۔حضرت یعقوب کے اس جملے سے کام ،صلاحیت اور کام کے طر یقوں میں اختلاف کا رحمت ہونا معلوم ہوتاہے جس سے فائدہ اٹھانے کی ایک شکل یہ ہے کہ ایک باپ کی تما م اولاد ذریعہ ٔ معاش کے طور پر ایک ہی کام نہ کریں بل کہ الگ الگ صلاحیتیں پید ا کریں اور الگ الگ کام اور میدا ن میں لگیں تاکہ اگر ایک کا م بند ہو جائے یا اس میں کامیا بی نہ مل سکے تو پھر تمام بھائی بے کا رنہ ہوجائیں اور پورا گھر بھوکہ نہ رہ جائے ۔بہر حا ل جب یہ لوگ حضرت یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دیدی اور یہ کہدیا کہ میں آپ کا بھائی یوسف ہو ںا س لئے ان لو گوں کے اعمال سے آپ پریشا ن نہ ہوںمیں آپ کو کسی نہ کسی بہانے اب اپنے پا س ہی رکھ لوں گا ۔اس کی تدبیر انہوں نے یہ کی کہ جب سب بھائیوں کو غلہ دیدیا تو پھر اپنے خادموں سے کہلواکر ایک شاہی پیالہ یامین کے سامان میںرکھوا دیا جب یہ لو گ چلنے لگے تو آواز لگوائی کہ رکو! رکو!،، تم لو گ چور ہو وہ لوگ ان کی طر ف آگے بڑھے اور کہا تمہا را کیا گم ہوگیا ہے انہوں نے کہا ارے بھائی شاہی کٹورا نہیں مل رہا ہے اور جو اسے لادے گا اسے ایک اور اونٹ مال ملے گا ان لوگو ں نے اپنی صفائی پیش کی تو سوال یہ ہوا کہ اگر پکڑے گئے تو؟کہا جو پکڑا جائے گا اسے قید کرلیا جائے اب تلاشی شروع ہوئی تو پیا لہ یامین کے سامان میں نکلاان لوگوں نے ایک طرف تو حضرت یوسف اور یامین دونوں کی ہی ایک وقت میں برائی بیا ن کردی اور کہنے لگے اس نے چوری کی ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیںہے یوسف نامی ا س کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا اس نے بھی چوری کی تھی لیکن دوسری طرف پریشانی یہ تھی کہ یامین کو چھوڑکر بھی نہیں جاسکتے تھے اس لئے اب کہنے لگے بادشا ہ سلامت رحم کھایئے ہم میں سے کسی کو بھی اس کی جگہ لے لیجئے لیکن اسے چھوڑدیجیے کیوں کہ اس کاایک بوڑھا باپ ہے حضرت یوسف نے کہا ,کرے کوئی اور بھرے کوئی، رکھا تو چور کو ہی جائے گا ۔ آخر کا ر یہ لوگ یامین کو لے جانے سے مایوس ہوکر چلے او ر مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئے اس بار ابا کو کیا منھ دکھائیں گے ان کے بڑے بھائی نے کہا بھائی تم کو جاناہو جاؤ میں تو نہیں جاسکتا مگر یہ کہ اللہ تعالی کاہی حکم ہوجائے یا ابا جان اجازت دیدیں تم لوگ جاؤ اور اباسے کہو کہ ہمارے ذہن میںتویہ تھا کہ وہ کوئی غلطی نہیںکریں گے اورہم بھی ان کی پور ی پو ری حفاظت کریں گے لیکن جب انہوںنے خود ہی چوری کرلی تو ہم کیا کرسکتے تھے حضرت یعقوب نے کہا جس طرح تم نے یوسف کے معاملے میں چا ل چلی تھی اسی طرح اس مسئلے میں بھی کر رہے ہو اتنا کہکر ان سے چہرہ پھیر لیا، آنکھوں میں آنسو بھر گئے! اور تکلیف و غصے میں فرمایا ہائے یوسف !ان بیٹوں نے کہا آپ تو بس یوسف کو ہی یاد کرتے رہتے ہیںاور ا یسا لگتا ہے کہ آپ اسی کی فکر میںخود کوختم بھی کرلیںگے حضرت یعقوب نے فرمایامیں اللہ ہی سے اپنی شکایت کرتاہوں اورمجھے جو باتیں معلوم ہیں وہ تمہیں نہیں معلوم تم جاؤ اور یامین کے ساتھ ساتھ یوسف کو بھی ڈھونڈواور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو نا کہ ا تنے دنوںگذر جانے کے بعد یوسف نہیں مل سکتے ۔بہر حال یہ لوگ گئے اور یوسف ؑ کے پاس پہنچ کربہت ہی عاجزی کے ساتھ یہ کہنے لگے کہ قحط کی وجہ سے ہم پریشان ہیںاور جو پیسے ہمارے پاس ہیں وہ بھی کھوٹے ہیںلیکن ہم آپ کے احسان کو دیکھ کر امیدکرتے ہیں کہ آپ ہمیں غلہ دے ہی دیںگے اور یہ آپ کی طرف سے صدقہ ہوگا۔اس وقت حضرت یوسف نے بات کھولدی اور کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے ناسمجھی میں اپنے بھائی کے ساتھ کیاکیا تھا اب ان لوگوں کو شک ہو ا کہ ہونہ ہو یہی یوسف ہوں اور پوچھ بیٹھے کہ آپ ہی تو یوسف نہیں؟آپ نے فرمایا ہاں میں ہی یوسف ہو ں او ر یہ میرے بھائی ہیں اللہ تعالی نے ہم پہ احسان کیا اور اللہ تعالی کانظام ہی ہے کہ جو بھی اللہ تعالی سے ڈرتا اور آزمائش کے وقت میں صبر کرتاہے اللہ تعالی اسے ضائع نہیں کرتے بل کہ اسے اور زیادہ نواز تے ہیںاب ان بھائیوں نے کہا ہا ں بالکل اللہ تعالی نے آپ کو ہمارے مقابلے میں بڑائی اور فضیلت دی اورہم نے غلطی کی تھی اور حضرت یوسف نے کہا آج آپ کی کوئی پکڑ نہیں اللہ تعالی آپ کو معاف کریںمیرا یہ کرتا لیجائیں اور ابا جان کے چہرے پر ڈالدیں ان کی روشنی واپس آجائے گی اور پھر گھر کے تمام لوگوں کو لیکر آجائیںجب ان بھائیوں کا قافلہ مصر سے چلا ہے تو حضرت یعقوب ؑ کو حضرت یوسف کے کرتے کی خوشبو آنے لگی جب کہ انکا قافلہ ابھی آپ سے ۲۴۰؍میل کے فاصلے پر تھا اور ادھر حضر ت یوسف کی جدائیگی کے بھی اسی سال ہوگئے تھے(ابن کثیر عن ابن عباس ؓبحوالہ عبد الرزاق )تو اپنے پا س موجود بیٹوں سے کہا دیکھو اگر تم مجھے کمزور عقل والا نہ کہنے لگو تو میں بتاؤ ں کہ مجھے یوسف کی خوشبو محسوس ہورہی ہے بیٹوں نے کہا بس آپ تو یہی کہتے رہیںگے اسی سالوں کے بعد اب آپ کو یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔لیکن جب خوشخبری سنانے والے نے آکر وہ کرتا آپ کے چہرے پہ ڈالدیا تو پھر آپ کی آنکھ کی روشنی لوٹ آئی بیٹوں نے کہا ابا جان ہم سے غلطی ہوئی ہے آپ ہمار ے لئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں آپ نے فرمایا ہاں میں ایسا کروں گا پھر پورا خاندان یو سف ؑ کے پاس پہنچا تو پہلے اپنے ماں باپ کو اپنے پا س بیٹھایا اور کہا کہ یہاں اب ان شاء اللہ امن وسکون کے ساتھ رہیں پھر ابا اور اما ں کو اپنے شاہی تخت پر بیٹھایااور ماں باپ سمیت گیا رہ کے گیارہ بھائی ان کے سامنے جھک گئے تو حضرت یوسف نے کہا ابا جان یہی اس خواب کا مطلب ہے جو میں نے دیکھاتھا اور اللہ تعالی نے اسے سچا ثابت کردیا اس کے بعد اللہ تعالی کا شکر اد ا کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے جیل سے نکلوایااور آپ لوگو ں کوجنگل اور د یہا ت کی پریشانیوں سے نکال کریہاں مصر کے شہر میں داخل فرمایااور ایک بڑاا حسان یہ کیا کہ ہمارے درمیان شیطان نے جو جدائی پیدا کردی تھی وہ بھی ختم ہوگئی اور یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہو ا اللہ تعالی جو بھی کام کرنا چاہتے ہیں ا س کے لئے بہت ہی باریک بینی سے راستے بھی پیدا فرمادیتے ہیںپھر براہ راست اب اللہ تعالی سے دعا فرمارہے ہیں کہ ائے اللہ جس طرح آپ نے مجھے دنیا میں بہت نوازا اسی طرح آخرت میں بھی مجھے نوازئیے اورایمان پہ خاتمہ فرماکر نیک لوگوں میں شا مل فرمالیجئے ۔ حضرت یوسف کی اس دعا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا عہدہ اور اس کی بڑائی کوئی بری چیز نہیں ہے اگر اللہ استقامت دیں اور اس کا صحیح استعمال ہو(اور یہی بخاری شریف کتاب فضائل القرآن باب اغتباط صاحب القرآ ن سے سمجھ میں آتاہے اگراللہ اس سے دین کا کام لیں ) تو یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے اور ایسی نعمت ہے کہ اس کا حوا لہ دیکر اللہ تعالی کا شکریہ اد اکرتے ہو ئے یہ دعا کی جاسکتی ہے کہ ائے اللہ آپ نے جس طرح مجھے دنیا میں نوازا ہے اسی طرح آخرت میں بھی نواز یئے جو کچھ آپنے دیا میں اس کا مستحق نہ تھا وہ محض آپ کا کرم ہی تھاا س لئے محض اپنے فضل وکرم سے میر ی دنیاکی طر ح آخرت بھی سنوار دیجئے ۔اس قصے کے مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر اللہ تبار ک وتعالی نے قصے کے بیان کے مقاصد بیان کئے اور آپ ﷺ کو تسلی دی کہ یہ ساری چیزیں ہم آپ کو بتلارہے ہیں حالاں کہ جب یوسف کے ساتھ یہ سب کچھ ہو اتو آپ ان کے بھائیوں کے پاس نہیں تھے لیکن آپ چاہے جتنی بھی کوشش کرلیں مگر یہ ماننے والے نہیں ہیںپھر سورت کے اخیر تک یہ فرما یا گیا ہے کہ ان کو پہلے کے انبیا کی قوموں کے واقعات سے سبق لینا چاہئے کہ ہم نے ا ن کی کس طر ح پکڑ کی اور جوکچھ ہم بیان کررہے ہیں وہ سچ ہے۔
پوری سورہ ٔ رعد میں اللہ تبارک وتعالی نے زیادہ تر اپنی بے شمار قدرتوں اور ان گنت کمالات کو بیا ن فرما تے ہوئے انسانوں کو صحیح دین کی طرف بلایا ہے جن میں خاص کر پیٹ کے بچے کے تمام احوال کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ میں ہی ان احوال کو جانتاہوں(آیت ۸؍۹)اسی طرح ایمان کو ایک نافع چیز سے تعبیر کرکے یہ فرمایا کہ جو نفع پہنچانے والی چیز ہوتی ہے وہ باقی رہتی ہے (آیت ۱۷) اس لئے ایمان واسلام نافع ہونے کی وجہ سے باقی رہے گا لیکن صراحت کے ساتھ ایمان اور اسلام کا لفظ نہ لاکر اسے عام رکھا اور فرمایا کہ ہر نفع پہنچانے والی چیز باقی رہتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانوں میں بھی جو لو گ انسانوں کوفائدہ پہنچانے والے ہوتے ہیں وہ باقی رہتے ہیں جو قوم دنیا کو فائدہ پہنچانے والی ہوتی ہے وہ قوم بھی باقی رہے گی ا س لئے ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ ہم دنیا کی دوسری قوموں کے لئے اجتماعی اور انفرادی حیثیت سے فائدہ مندبنے رہیں ! پھر آیت :۱۸؍ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ کو نہ ماننے والوں کواگر پوری کائنات کی دولت بھی مل جائے اور وہ ان چیزوں کودیکر اپنے آپ کو عذاب سے بچانا چاہیں تو بھی نہیں بچاسکتے ۔ اسی کے ساتھ رشتہ توڑنے اور وعدہ پورا نہ کرنے کو کفر کے کاموں میںسے بتلایا گیا ہے اور ایک بات یہ بھی بتائی گئی ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی اور کامیابی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ خود اپنے اندر پائی جانے والی کمیوں کو دور کرکے ترقی اور کامیابی کے شرائط پوری کرنے کے لئے کوشش کرے تب بھی اللہ کی مدد آتی ہے۔
شہر مکہ مکہ کا قیام اور بیت اللہ کی تعمیرنو :
سورہ ٔ ابراہیم کی شروع کی آیات میں بھی اللہ بتارک وتعالی نے اپنی نشانیوں اور خاص طورسے آسمان وزمین کی پیدائش ،بارش کے نظام،نہروں اور سمندروں کے جاری کئے جانے ،سورج اور چاند کو مستقل کام میں لگانے جیسی نشانیوں کو بیان فرمایا اورجنت وجہنم کا تذکر ہ فر ماکر ایمان کی طرف بلایا ہے اور اہل مکہ کی بت پرستی کی مذمت کرتے ہوئے حضرت ابراہیم کا تذکر کیا اور فرمایا کہ اس شہر کے معمار اور اسے بسانے والے تو ابر اہیم ہیں اور ان کی توحید پرستی کی داستان یہ ہیکہ جب آپؑ کو ۸۶؍برس کی عمر میں( تفسیر حقانی ،ج؍۴،ص؍۲۴) پہلی او لاد حضرت اسماعیلؑ ہوئے،توا نھیں یہ حکم ہوا کہ آپ اپنی بیوی ہا جرہ ؓ اور اپنے دو دھ پیتے بچے اسماعیلؑ کو لیکر اپنے وطن شام سے نکل جائیے۔ یہ لو گ گھر سے نکلے ا ور ایسی جگہ جاکر ٹھہرنے کاحکم ہو ا جہاںکچھ بھی نہیں تھا ۔بالکل چٹیل میدان !نہ کہیں دور د ور تک پانی کا اتا پتہ تھا اور نہ درخت وہریالی کا نام و نشان! نہ گھراورجھاڑی تھی اور نہ کسی کے رہنے کامکان ! حضرت ابراہیم ؑسے اللہ تعالی نے کہا کہ یہیں ٹھہرکر اس دو دھ پیتے بچے او راس کی دو دھ پلاتی ماں کو چھوڑ کر آپ کو و اپس آجانا ہے ۔ حضرت ابراہیم جو تھو ڑی سی کھجور پانی لیکر گئے تھے اسی کے ساتھ د ودھ پیتے بچے او ر اپنی بیو ی کو کچھ بھی بتائے بغیر و ہاں سے آگئے …
اب حضر ت ہاجرہ اپنے بچے کے ساتھ اس سنسان بے جانو ر ،بے آدمی اور بے کھانے، پانی و الی جگہ میں رہنا شرو ع کردیتی ہیں۔جب حضرت ابراہیم ؑکچھ د ور نکل گئے اور یہ لو گ آپ علیہ السلام کی نظر سے اوجھل ہو گئے، توکعبے کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو ئے او ر دعا کی اے میرے رب میں نے اپنی اولاد کو آپ کے محترم گھر کے قریب ایسی و ادی میں ٹھہرایا ہے جہاں کچھ بھی نہیںہے بل کہ بنجر ہے اے اللہ! میں نے آپ کے حکم سے اس لیے ایسا کیا تاکہ و ہ لو گ نماز قائم کریںاس لیے کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف پھیردیجئے اور انھیں کھانے کوپھل دیجئے تاکہ یہ لو گ شکر اداکریں ۔ادھر حضرت ہاجرہؓ کے پاس جو تھو ڑا سا کھانا پانی تھا اسے ختم ہونا ہی تھا اور وہ ختم ہو بھی گیا،توخو د انھیں بھی اور دو دھ پی تے بچے حضرت اسماعیل ؑکوبھی پیاس لگی حضرت ہاجرہ ؓبے چین ہوگئیں آپ ؓ وہاں پہ مو جو د پہاڑیوں پرچڑھ تیں اوراترتیں تاکہ کہیں پانی نظر آجائے یا پھر کو ئی آدمی ہی نظر آجائے، جس سے پانی کے بارے میں کچھ معلوم ہو سکے۔ پریشانی کی حالت میں انہوں نے اس طرح سات چکر لگائے۔اور اسی مایوسی او رپریشانی کے عالم میں بچے کے پاس واپس آئیں تو دیکھا کہ زمزم کے پاس ایک فرشتہ ہے او رانہوں نے اپنے پیریا پر کے ذریعے سے زمین کورگڑا تو و ہاں سے پانی نکلنا شرو ع ہو گیا۔اب کیا تھا!! حضرت ہاجرہ اسے حو ض کی طر ح بنانے لگیں…۔کچھ دنوں بعد جر ہم قوم کے کچھ لو گ ا س جگہ کے قریب سے گذرے، انہو ں نے زمزم کے قریب چڑیوں کو اڑتے دیکھ کر دل میں سو چاکہ اس سے پہلے تو ایسا نہیں دیکھنے میں آیا ایسا لگتا ہے کہ وہاں پانی ہے پھر تحقیق کے بعدوہا ں پہنچ گئے وہاں پہنچ کر ان لوگوں نے و ہاں رہنے کی اجاز ت چاہی، تو حضرت ہاجرہ نے اجازت تو دیدی اس کے بعد یہ لوگ خو د بھی یہاں رہنے لگے اورساتھ ہی اپنے یہاں کے دوسرے لو گو ں کو بھی خبر کردی کہ ہم لوگ فلاں جگہ رہ رہے ہیںتوو ہ لو گ بھی آگئے اور ا سطرح یہ قوم یہاں آباد ہو گئی اور یہاں بہت سے گھر بن گئے۔جُرہُم کے لو گ یہاں آکر آباد ہو ئے،توحضرت اسماعیل ؑانہی کے ساتھ پلنے بڑھنے لگے اورچو ں کہ ان کی زبان عربی تھی اس لیے آپ ؑ بھی عربی سیکھ گئے اور اپنی زبان ،گفتگو کے طریقے اور رہن سہن سے ان لوگو ں کو اتنا متاثر کیا کہ جب آپ ؑ بالغ ہو گئے توانہو ں نے اپنی قوم کی کسی لڑکی سے ان کی شادی بھی کردی۔…پھر حضرت ا بر اہیم ؑو ہاں گئے او ر حضرت اسماعیل سے ملاقات کر کے ان سے کہا کہ اللہ تبار ک وتعالی نے ہمیں ایک کام کرنے کا حکم دیا ہے ۔حضر ت اسماعیل ؑ نے کہا رب کے حکم پر ضرور عمل کیا جائے ۔انہو ں نے فرمایا کیا تم میری اس کام میں مدد کروگے ؟جو اب دیا :ضرو ر!ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اپنے گھر کی تعمیر کا حکم دیا ہے ۔پھر ان د ونوں نے خانہ ٔ کعبہ کی د وبارہ تعمیر کی(بخاری شریف، کتاب الانبیاء با ب یز فون النسلان فی المشئی ج؍۱،ص؍۴۷۴)۔ تو پھر تم نے اس شہر سے بت پرستی کو کس طر ح جوڑدیا؟ پھر پارے اور سورت کے ا ختتام تک کے مضامین کچھ اس طرح ہیں کہ حضرتؑ اسماعیل کی پانچ دعاؤوں کوبیان کیاگیاہے ،یہ فرمایاگیا ہے کہ جن ظالموں کو عذاب نہیں ہورہاہے انہیں قیامت کے دن کے عذاب کے لیے روک کررکھا جارہاہے ، پھر قیامت کے دن کی ہولنا کی بیان کی گئی ہے کہ ظالموں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ،وہ دوڑ رہے ہوں گے ،سروں کو اوپر اٹھائے ہوںگے اور ان کے دل بالکل بدحواس ہوںگے ،نبی ؑ سے یہ کہا گیا ہے کہ لوگوں کو اس دن سے ڈراد یں جس دن عذاب آنے کے بعد یہ اللہ تعالی سے کہیں گے کہ اگر ہمیں تھوڑی مدت کے لیے بھی مہلت دیدی جائے تو ہم آپ کی دعوت قبول کرلیں گے اور آپ کے پیغمبر کا اتباع کرلیں گے لیکن جوا ب ملے گا کہ تم تو پہلے ظالموں کے عذاب کی جگہوں میں رہ کر آچکے ہو تو پھر تم نے ان کے عذاب سے عبرت کیوںحاصل نہیں کی؟ ایک خاص بات یہ بیان کی گئی ہے کہ نہ ماننے والے اپنی تدبیریں کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالی اپنی تدبیریں کرتے رہیں لیکن اللہ تعالی کی تدبیر غالب آتی ہے۔ �

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here