Ramazaan Sabr-o-Ghum Khwari ka maheena, Nadeem Ahmed Ansari (Islamic Scholar & Journalist)

image

رمضان صبر و غم خواری کا مہینہ، ندیم احمد انصاری (اسلامی اسکالر و صحافی)

ندیم احمد انصاری(اسلامی اسکالر و صحافی)

رسول اللہ ﷺکارمضان المبارک سے متعلق ارشاد ہے؛یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ غم خواری کا ہے۔اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔جو شخص اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے،یہ اس کے لیے گناہوں سے معافی اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور اس روزہ دار کے ثواب میں سے کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول !ہم میں سے ہر شخص تواتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے! رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص افطار کے موقع پر کسی روزہ دار کو ایک کھجور کھلا دے یا پانی کا ایک گھونٹ پلا دے یا ایک گھونٹ لسّی پلا دے۔۔۔اللہ تعالیٰ اس کو بھی یہ ثواب عنایت فرما دیتے ہیں۔۔۔جو شخص کسی روزہ دار کو افطار میں پانی پلا ئے،اللہ تعالیٰ اسے(قیامت کے دن)میری حوض(کوثر) سے پانی پلائیں گے(جس کے بعد)اسے (بالکل) پیاس نہیں لگے گی،یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو۔۔۔جس نے اپنی باندی یا غلام سے اس ماہ میں بوجھ ہلکا کر دیا،اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتے ہیں اور( جہنم)کی آگ سے آزاد فرما دیتے ہیں۔(صحیح ابن خزیمہ، شعب الایمان للبیہقی)
یہاں’’ صبر کا مہینہ ‘‘سے مراد یہ ہے کہ روزے کی وجہ سے مسلمان اس ماہ میں کھانے پینے اور دیگر بہت سی جائز چیزوں سے بھی رکے رہتے ہیں،صرف اس لیے کہ ان کے رب نے انھیں یہ حکم دیا ہے اور’’ غم خواری کامہینہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ چوں کہ مسلمان روزے کی حالت میں اپنے رب کے حکم سے بھوکا پیاسا رہتا ہے،اس سے اس کے دل میں مسکینوں اور غریبوں کے دردوتکلیف کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ’’بوجھ ہلکا کرنا‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ جو افراد اس کی خدمت وکام کاج میں لگے ہوئے ہوں،خواہ وہ غلام،باندی،نوکر چاکر یا بیوی بچے وغیرہ ہوں؛ان کے کام اور ذمہ داری کو کم کردے یا ان کا ہاتھ بنٹائے اوران کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کرے۔لیکن آج بہت سے لوگ اس پر عمل تو کیا کرتے بلکہ ظالم خود روزہ نہیں رکھتے اور اپنے ماتحت روزہ داروں سے سختی کا معاملہ کرتے ہیں۔انھیں اللہ سے ڈرنا چاہیے کہ جس بادشاہ نے تمھیں ان پر قابو دیا ہے،اس کا قابو سب پر چلتا ہے۔کب کس کے ساتھ کیا کرنا ہے وہ بخوبی جانتا ہے۔خیال رہے جو رحمن کے بندوں پر رحم نہیں کرتا ،رحمن بھی ان ظالموں پر رحم نہیں کرتا۔
اسی کومولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اس طرح لکھتے ہیں:
حضور ﷺ نے ایک چیز کی طرف خصوصیت سے رغبت دلائی ہے کہ آقا لوگ اپنے ملازموں پر اس مہینہ میں تخفیف رکھیں،اس لیے کہ آخر وہ بھی روزہ دار ہیں۔کام کی زیادتی سے ان کو روزہ میں دِقّت ہوگی۔البتہ اگر کام زیادہ ہوتو اس میں مضایقہ نہیں کہ رمضان کے لیے ہنگامی ملازم ایک آدھ بڑھا لے،مگر جب ہی کہ ملازم روزہ دار بھی ہو۔ورنہ اس کے لیے رمضان بے رمضان برابر۔اور اس ظلم و بے غیرتی کا تو ذکر ہی کیا کہ خود روزہ نہ رکھ کر بے حیا منہ سے روزہ دار ملازموں سے کام لے اور نماز،روزہ کی وجہ سے اگر تعمیل میں کچھ تساہل(سستی یا کمی) ہو تو برسنے لگے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور عنقریب ظالم لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیسی(مصیبت) کی جگہ لوٹ کر جائیں گے(مراد جہنم ہے)۔(فضائل رمضان)
آئیے ہم بھی ان باتوں پر غور کریں اور اگر ہم سے ان میں کوتاہی ہو رہی ہے تو توبہ کریں۔ایسا نہ ہو کہ ہمارے ان گناہوں کی وجہ سے رمضان کے بابرکت مہینہ میں بھی ہم محروم رہ جائیں،اور یہ مبارک مہینہ ہماری مغفرت کی بجائے ،پکڑ کا سبب بن جائے۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :ناک خاک آلودہ ہو وہ شخص،جسے رمضان کا مبارک مہینہ ملے اور وہ اس میں نیک اعمال کے ذریعے اپنی مغفرت نہ کرائے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس رمضان کو مغفرت کا ذریعہ بنائے اورہمارے حال پر رحم فرمائے۔آمین
[email protected]
اس ویب سائٹ کو دوسروں میں متعارف کرانے کی کوشش کریں تاکہ آپ بھی نیکی کے کام کے حصّے دار بنیں۔

[/pukhto]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here