Ramazaan zuhad-o-taqwe ka alami mausam

 

رمضان زہد وتقوی ، عبادت وریاضت ، ذکرو تسبیح، اخوت وہمدردی اور بہی خواہی کا عالمی موسم
فیروز عالم ندوی
روزہ اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے ۔یوں تو سارے بنیادی ارکان اسلام کے ستون ہیں جن پہ اسلام کی بے مثال ولازوال عمارت قائم ہے۔ ان میں سے کسی بھی ستون میں نقص پیدا ہونے سے اس عظیم الشان محل میں خلل واقع ہوگا، لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں فطرتِ سلیم کے ساتھ غور کرنے سے ان گنت فائدوںاورخاصیتوںکاعلم ہوتاہے، اس کے بے شمارر روشن پہلو آشکارا ہوتے ہیں۔یہ چیزیں مثالی زندگی کی تعمیرمیں بہت زیادہ معاون ومددگار ثابت ہوتی ہیں۔اس کاسب سے روشن پہلو یہ ہے کہ یہ اپنے حامل شخص کو تمرد نفس کی فروکشی،بہیمی خواہشات کی تقلیل، ملکوتی صفات کی تکثیر، ترکِ مرغوبات کے ذریعہ حکم الٰہی کی بجاآوری اور بہی خواہی وغم گساری کی تربیت کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ان خصائل حمیدہ سے آراستہ ہونے کا ذریعہ مہیا کرتا ہے ۔
ملائکہ ایسی مخلوق ہیں جنھیں کوئی بھی ایسی ضرورت پیش نہیں آتی ہے جو اس کرۂ ار ض کی مخلوقات کو درپیش ہوتی ہیں۔وہ ہمیشہ عبادت و اطاعت پر مامور ومسخرہیں۔ ایک لحظہ کے لیے بھی اللہ سبحانہ وتعالی کی تسبیح وتحلیل اور تقدیس سے غافل نہیں رہتے ہیں۔ وہ اس کی حکموں کی بجاآوری سے نہ تھکتے ہیںنہ اکتاتے ہیں۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جوانسان کو کسی بھی درجہ میں اس مخلوق کے مشابہ بنادیتی ہے۔ انسان اپنی خواہشات وضروریات، احساسات وجذبات اور تکوینی حاجات کے ہوتے ہوئے بھی بحالتِ روزہ اس مخلوق کے مانند ہوجاتا ہے ۔
رمضان زہد وتقوی ، عبادت وریاضت ، ذکرو تسبیح، اخوت وہمدردی اور بہی خواہی کا عالمی موسم ہے۔ اس کی عالمیت ایسی ہے کہ قطبِ جنوبی پر رہنے والا مسلمان قطبِ شمالی پر رہنے والے کے ساتھ ،مغربِ بعید میں رہنے والا مشرقِ بعید میں بسنے والے کے ساتھ بیک وقت بیک آن اس میں شامل رہتا ہے۔ اس کی برکتیں گاؤں گاؤں بستی بستی پر محیط ہوتی ہیں۔ ہر گھر میں رمضان ہوتا ہے خواہ وہ بنگلہ ہو یا جھونپڑی ، عالی شان فلیٹ ہو یا معمولی گھر۔ ہر کوئی اس کی برکتوں کو حاصل کرنے کا اہل ہو تا ہے خواہ وہ فقیر ہو یا مالدار ، مقیم ہو یا مسافر ، مقصر ہو یا مجاہد ۔
روز مرہ کی زندگی میں عملی کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں۔ دینی امورمیں غفلتیں ہو تی رہتی ہیں ۔ مادی عیش وآرام کا حصول ، دنیوی لذات سے سیرابی اور نفسانی خواہشات کی برآوری ایسی چیزیں ہیں جن کو پورا کرنے کی خاطر کبھی ہم جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ، کبھی دھوکہ دھڑی کا ، کھبی حق تلفی کا ،کبھی ظلم کا تو کبھی غیبت اور بدگوئی کا۔ اس طرح زندگیاں اخلاق کی سطحیت ، اعمال کی رذالت اور دل کی قساوت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے رمضان کی صورت میں ایک ایسا سنہرا موقع عنایت فرمایا ہے کہ ہم اس کو غنیمت جان کر ان گناہوں اور برائیوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں ۔ اس کا پورا پورا استعمال کر کے نہ صرف ملائکہ کے مشابہ ہو سکتے ہیں بلکہ ان سے آگے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ وہ خواہشات و ضروریات سے مبرا ، اطاعت الٰہی پر مامور ہیں اور ہم حاجات ورغبات اور ملذات کے ساتھ با اختیار ۔
شھر رمضان الذی أنزل فیہ القرآن ھدی للناس وبینات من الھدی والفرقان۔(البقرۃ ۱۸۵) رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کو نازل کیا گیا، لوگوں کے لیے باعثِ ہدایت اور ہدایت کی واضح نشانیاں ہیں۔ قرآن مجید کا اس مہینہ میں نزول اس کا اس ماہ سے خاص تعلق ومناسبت کو بیان کر تا ہے۔ یہ خیر وبرکت کا ایسا مجموعہ ہے کہ جس نے ان خاص ایام میں اپنے آپ کو ان سعادتوں سے مالامال کیا وہ پورے سال فیض یاب ہو تا رہے گا۔ جو اس مہینہ میں محروم رہ گیا پورے سال محرومی اس کا حصہ ہوگی ۔
عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : کل عمل ابن آدم یضاعف لہ ، الحسنۃ بعشرۃ أمثالھا الی سبع مأۃ ضعف، قال اللہ تعالی : الا الصوم ، فانہ لي وأنا أجزي بہ ، یدع شھوتہ وطعامہ من أجلي (متفق علیہ ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بنی آدم کے ہر ( نیک ) عمل کا ثواب بڑھا کر دیا جاتا ہے ، کسی ایک نیکی کے ثواب میں دس سے سات سو گنا تک اضافہ کیا جاتا ہے ، لیکن اللہ تعالی فرما تے ہیں کہ یہ روزہ کے علاوہ اعمال کے لیے ہے ، روزہ تو صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا، کیونکہ وہ اپنی خواہشات اور کھانے کو صرف میری وجہ سے چھوڑتاہے ۔
مذکورہ بالا حدیث اس عبادت کی اہمیت ، عظمت اور بلند مرتبتی کی ایک واضح دلیل ہے ۔ یہ مسلمانوں کی ایک ایسی عظیم دولت ہے جس سے بے شمار بڑے بڑے فوائد کا حصول ممکن ہے۔ خواہ وہ عام بشری اعمال کی درستگی ہو یا عبادت کی عمدگی، اجتماعی زندگی کے محاسن ہوں یا انفرادی زندگی کے محامد۔یہ مہینہ روزہ داروں کو دل کی پاکیزگی ، روح کی طہارت، شعور کی حساسیت ، اخلاق کی بلندی ، اعمال کی میانہ روی ، سلوک کی سلامتی ، دنیوی زندگی کی خوشحالی اور پورے سال کی برکت عطا کرتی ہے ۔
۳۰ یا ۲۹ دنوں کی روحانی اور نورانی سفر کے بعد جب یہ مہینہ ختم ہوتا ہے تب آتی ہے عید کی رات ۔ یعنی وہ شب جو پورے مہینہ کی عبادت وریاضت ، ذکر وتلاوت اور تسبح وتحلیل کے بعد انعام کی گھڑی۔ پھر صبح ہو تی ہے اور ہم دیدار کرتے ہیں عید کے دن کا جو خوشیوں سے بھرا ہو تا ہے۔ فرحت و انبساط کی ایک لہر دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے ، جسم وجاں کو گدگدا تے ہوئے چہرے سے پھوٹ پڑتی ہے ۔ایسی مسرت کا احساس کیوں نہ ہو کہ آج انعام کا دن ہے۔ خالق کون ومکاں اور مختار کل نے ہمیں ملنے والی مزدوری کی خوشی میں جشن منانے کا حکم دیاہے ۔
(استاذ شعبہ عربی، یونٹی پبلک اسکول، چنئی)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here