Sabse paak-o-be laus rishta ‘Maa’, Nadeem Ahmed Ansari (Islamic Scholar & Journalist)

16

image

ماں اور اولاد کے رشتے میں بے لوثی و اخلاص سب سے زیادہ

ندیم احمد انصاری

مئی کے دوسرے اتوار میں ’عالمی یومِ مادر‘ کے موقع پر خصوصی پیش کش

دنیا میں انسان کا سب سے پہلا رشتہ جس سے جڑتا ہے،اولاد کی پہلی حرکت کا جسے احساس ہوتا ہے،اولاد کودنیا میں لانے کی خاطر خوشی خوشی جو تمام تکلیفیں برداشت کرتی ہے،جو اپنے خونِ جگر سے اپنے بچّے کی پر ورش کرتی ہے،جو خود گیلے بستر پر سو کر ، اولاد کو سوکھے بستر میں سُلاتی ہے، جو گندگی کر دینے پر نہلا دُھلا کر پھربچے کو سینے سے لگالیتی ہے، جو تُتلاتی ہوئی زبان میں اس سے باتیں کرتی ہے،جو اولاد کی غَیبت میں بھی طعام و آرام کی فکر کرتی ہے،جو ہر غمی وخوشی میں برابر کی شریک رہتی ہے،جو بسترِ مَرگ پر بھی اپنے بچوں کی فکر کرتی ہے۔۔۔ وہ ماں ہوتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ دنیا کاسب سے زیادہ اخلاص سے پُر رشتہ جو ایک انسان کا دوسرے انسان سے ہوتا ہے،وہ ماں کا اولاد سے ہے۔ اسی لیے ہر عقل مند انسان، انسانوں میں جس کا سب سے زیادہ احسان مند ہوتا ہے، وہ ماں ہوتی ہے اور تقریباً ہر مذہب کے ماننے والے، دانشوران اور ادبا و شعرا اسی لیے ماں کے گُن گاتے رہے ہیں۔اس لیے جن کی مائیں زندہ ہیں، انھیں ان کی قدر کرنی چاہیے اور جن کی مائیں داغِ فراق دے گئیں انھیں ان کے لیے ایصالِ ثواب کرکے ان کی خوشی کا سامان کرنا چاہیے۔ کسی نے کیا خوب قدر پہچانی ہے:
ماں تیرے بعد بتا کون لبوں سے اپنے
وقتِ رخصت مرے ماتھے پہ دعا لکھے گا
کس قدر بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی اُس ماں کو جِھڑکتے ہیں، جس نے انھیں بولنا سکھایا اور کتنے نا ہنجار تو اپنی اس ماں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، جن کے خون کو چوس کر اس کا جسم و بدن تشکیل پایا۔ وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جس گردن کو لمبی کرکے یہ چلتا ہے، ایک وقت تھا کہ ایسی کمزور تھی کہ اِدھر اُدھر کو لُڑھک جاتی تھی، جسے ماں ہی بہت سہیج کر رکھتی تھی۔ جب یہ بیمار ہو جاتا تھا، تو جو اس کے سرہانے بیٹھ کر پوری رات آنکھوں میں گزار دیتا تھا وہ اور کوئی نہیں ماں ہی تھی۔ رات گئے سب کے سو جانے پر تنہا بیٹھ کر جو اپنے بیٹے کے آنے کا انتظار کرتی تھی، وہ ماں ہی تھی! خدمت گذا ر بیوی کی طرح پوچھنے کے بجائے بیٹے کی آہٹ پاکر جو اٹھ کر کھانا گرم کرنے لگتی تھی، وہ بھی ماں ہی تھی!ماں سے اولاد کا رشتہ ہوتاہے، ماں کی شخصیت ایسی ہوتی ہے، جس کے احسانات کو ذرا انصاف کے ساتھ یاد کروتو آنکھیں ڈب ڈبا جاتی ہیں اور جنھوں نے اپنی ماں کی زندگی میں اس کی قدر نہیں کی ان کے دل لرز اٹھتے ہیں کہ ہائے! انھوں نے کیسی نعمتِ غیر مترقبہ گَنوا دی۔
اس وقت اس موضوع کو چھیڑنے کا سبب یہ ہوا کہ آج کل ہم نے بہت سی چیزوں کے اپنے طور پر کچھ خاص دن مقرر کر لیے ہیں اور بہ زعمِ خود سمجھتے ہیں کہ ان دنوں میں کچھ رسمیں نبھا لینے سے ہم اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہو جائیں گے، جب کہ ایسا ہرگز ممکن نہیں اور عقل کے بھی خلاف ہے، سو الگ۔ عالمی پیمانے پر مئی کا دوسرا اتوار ’یومِ مادر‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس دن کو منانے کا آغاز1870ء میں ہوا جب کہ جولیا وارڈ نامی ایک عورت نے اپنی ماں کی یاد میں اس دن کو منایا، جولیا وارڈ اپنے عہد کی معروف شاعرہ اور سوشل ورکر تھی۔اس کے بعد 1877ء میں امریکہ میں پہلی دفعہ یومِ مادر منایا گیا۔1970ء میں امریکی ریاست فلاڈیفیا میں اینا ایم جاروس نامی اسکول ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو منانے کی رسم جاری کی اور یہ دن منانے کی قومی سطح پر تحریک چلائی۔ اس تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے امریکی صدر وڈ رولسن نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا، تب سے یہ دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ یہ روایت دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی اور اس تاریخ میں عالمی طور پر یومِ مادر منایا جانے لگا۔ مغربی ممالک کے یہ یومِ مادر کا دم بھرنے والے ، جو کہ اپنے بوڑھے والدین کو گھر کی بجائے اولڈ ایج ہوم میں رکھتے ہیں، اس دن وہاں جا کر اپنی ماں سے ملاقات کرتے اور ان کو سرخ پھولوں کے تحفے پیش کرتے ہیں اور جن لوگوں کی مائیں اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہوں، وہ سفید پھولوں کے ساتھ اپنی ماں کی قبروں پر جاکر گلدستے سجاتے ہیں۔خدا کا شکر ہے ابھی برصغیر میں ایسی نوبت نہیں آئی لیکن مغرب پرستی جس زور سے ہم پر حاوی ہے، اس کے چلتے دھیرے دھیرے ایسے حالات کا پیدا ہو جانا کچھ بعید بھی نہیں۔
بقولِ شخصے ماؤں کے نام ایک دِن منانے کا یہ عمل مذہبی اقدار کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع ریاست نیپال میں اِس دن کا رشتہ ماتا ترتھی انوشی سے جڑا ہواہے، جس کو ماں کی زیارت کا پندرہ واڑہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان دنوں میں مندروں میں خصوصی پوجا پاٹ کے علاوہ زندہ ماں کو تحفے اوروفات پا چکی ماں کو بڑی عقیدت اور محبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دن کو ہندو دیوتا مہاراج کرشن کی والدہ دیوکی سے بھی منسلک کیا جاتا ہے اور اُن کے نام کی نذرو نیاز بھی کی جاتی ہے، شاید اسی بنا پر ہندو مت میں ماں کوزمین پر خدا کا ایک روپ قرار دیا جاتا ہے۔اسی تناظر میں ایران میں یومِ مادر جگر گوشۂ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یوم ولادت کے دِن منایا جاتا ہے، جواسلامی سال میں جمادی الثانیہ کو واقع ہوتا ہے۔ اس روایت میں دیگر کئی ملکوں کے بعض اہلِ تشیع بشمول لبنان، پاکستان اور خلیجی ریاست اوربحرین وغیرہ نے بھی اپنا نام درج کرا لیا ہے۔ جب کہ مذکورہ بالا باتیں اہلِ اسلام کو اس طرح کے کسی بھی خاص دن کو منانے کاجواز فراہم کرنے کے بجائے اسے ممنوع قرار دیتی ہیں البتہ اسلام نے ہر وقت اور ہر دم ماں بلکہ ماں باپ کے احسانات یاد رکھنے اور ان کی ہر ممکن خدمت کرنے کی فہمائیش ضرور کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ جوڑ کر والدین کے حقوق کی یاد دہانی کروائی ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام دینِ الٰہی ہے، اس لیے وہ انسان کی خوشی اور غمی دونوں کے مواقع خود طے کرتا ہے، جس سے انسان کو بہت راحت بھی ملتی ہے۔ اس لیے ہم بھی یومِ مادر یا اس طرح کے کسی دن کو منانے کے تو قائل نہیں البتہ موقع کی مناسبت سے چند اسلامی تعلیمات پیش کرنے کے خواہاں ضرور ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:(مفہوم)ہم نے انسان کو وصیت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرے۔(العنکبوت:۸)ایک مقام پر فرمایا::(مفہوم)ا ور(یادکرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔(البقرہ :83)ایک اور مقام پر فرمایا: :(مفہوم)اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔(النساء:36)ایک اور مقام پر فرمایا::(مفہوم)اور آپ کے رب نے حکم دیاہے کے تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرواور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔(الاسراء :23)نیز فرمایا::(مفہوم)اگر تمھارے والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں،تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں ’اْف‘بھی نہ کہنااور نہ انھیں جھڑکنااور ان کے ساتھ ادب کے ساتھ بات کرنااور تواضع و انکساری کے ساتھ بازو جھکاے رکھنا اور ا ن کے لیے یوں دعا کرتے رہنا؛اے میرے ر ب!ان پر ایسے رحم فرما،جیسے انھوں نے بچپن میں(شفقت سے) مجھے پالا۔(الاسراء:23-24)
والدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے، بوڑھے ہوں یا جوان لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے اور انھیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔ اس حالت میں وہ خدمت کے محتاج ہوتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا خصوصی طور پر ذکر فرمایااور انسان کو اس کاوہ بچپن کا زمانہ یاد دلایا جب اسے بھی اپنے والدین کی ایسی ہی بلکہ اس سے بہت بڑھ کرحاجت تھی۔اس لیے خیال رہے والدین سے حسن سلوک کرنا اسلام کی اساسی تعلیم ہے، جس کے لیے قرآن مجیدمیں لفظ ’احسان‘ استعمال کیا گیا ہے۔سورہ لقمان میں ماں باپ کا حق بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر بالفرض کسی کے ماں باپ کافر ومشرک ہوں اور اولاد کو بھی کفر وشرک کے لیے مجبور کریں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کے کہنے سے کفر وشرک تو نہ کرے، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک اور ان کی خدمت کرتی رہے۔(آیت: 15)
احادیثِ مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق کی تاکید کی گئی ہے؛
*حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو ! کسی نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔(مسلم: 2551)بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت کو نفلی جہاد سے بھی افضل قرار دیا۔
* حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تمھارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا: ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’بس تم والدین کی خدمت کرکے جہاد کا ثواب حاصل کرو‘۔(بخاری:2842)
یوں تو ماں باپ ہر دو کے احسانات ایسے ہیں جن کی کوئی حد نہیں البتہ ماں چوں کہ اولاد کی ولادت سے لے کر تعلیم و تربیت تک ہر میدان میں زیادہ مشقت برداشت کرتی ہے، اس لیے بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ماں کے حقوق باپ سے مقدم اور زیادہ ہیں۔
* حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے؛ ایک شخص نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تمھاری والدہ۔اس نے پھر عرض کیا:پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تمھاری والدہ۔اس نے عرض کیا:پھر کون؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تمھاری والدہ۔اس نے پھر عرض کیا:اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمھارے والد۔(بخاری:5626)
بعض علماء نے اس حدیث کے الفاظ سے یہ مسئلہ نکالاہے کہ کسی شخص پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور بھلائی کرنے کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں،ان میں ماں کا حصہ باپ سے تین گنا بڑھا ہوا ہے۔جس کی مندرجۂ ذیل تین وجہیں ہیں؛(۱) وہ حمل کا بوجھ اٹھاتی ہے(۲) ولادت کی تکلیف ومشقت بردا شت کرتی ہے (۳)دودھ پلاتی ہے۔
فقہ کی کتابو ں میں لکھا ہے کہ اولاد پر والدہ کا حق والد کے حق سے بڑاہے اور اُس کے ساتھ سلوک و بھلائی اور اس کی خدمت و دیکھ بھال کرنا زیادہ واجب اور زیادہ ضروری ہے اور اگر ایسی صورت پیش آجاے،جس میں بیک وقت دونوں کے حقوق کی ادائیگی دشوار ہو جائے ؛مثلاً: والدین کے درمیان کسی وجہ سے اَن بَن ہو اور لڑکا اگر ماں کے حقوق کی رعایت کرتا ہے تو باپ ناراض ہوتا ہو اور اگر باپ کے حقوق کا لحاظ کرتا ہے تو ماں آزردہ ہوتی ہوتو ایسی صورت میں یہ درمیانی راہ نکالی جائے کہ تعظیم واحترام میں تو باپ کے حقوق کو فوقیت دے اور خدمت گزاری نیز مالی امداد وعطا میں ماں کو فوقیت دے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے والدین کو راضی رکھنے اور ہر جائز امر میں ان کی اطاعت کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here