یومِ جمہوریہ منانا تو چاہتے ہیں، لیکن

image
یوم جمہوریہ ہم کیسے منائیں!
ندیم احمد انصاری( ممبئی)

یوم جمہوریہ؛ جو کہ امسال (۲۰۱۶ء میں) منگل کے روز ہے، ملک بھر میں اس کی تیاریاں نہایت اہتمام سے کی جا رہی ہیں، ایسے موقعوں پر عوام میں بھی خاصا جوش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ہماری طبیعت ہے کہ اس وقت بھی غم گین ہے اور ہمارے قلب و جگر پر ایک افسردگی چھائی ہوئی ہے، ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں کہ اس موقع پر جمہوری قانون کے نفاذ کی خوشیاں منائیں یا پھر اس قانون کی ہمارے ملک میں جو دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، اس پر ماتم کریں! آئین کی اہمیت سے انکار نہیں، وہ تو تمام ملکی قانون کا منبع ہے، ہمارے کرب کی وجہ تو یہ ہے کہ جس آئین کی رو سے مذہب و ملت، ذات پات، علاقہ اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق کیے بغیر ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو یکساںحقوق فراہم کیے جاتے ہیں، آج ہم اسی آئین کی پرواہ کیوں نہیں کرتے؟ کیوں ہم اس آئین کے یومِ نفاذ کی رسمی سی خوشیاں منانے کی تگ و دو میں تو لگے رہتے ہیںلیکن ہر دم اس آئین کی اہانت یا استہزا اور تمسخر بنائے جانے کو روکنے کی فکر نہیں کرتے؟
۲۶؍جنوری کا دن ہمیں ہندوستانی آئین کے نفاذ کی ’کوشش کی‘یاد دلاتا ہے۔ آزادی کے تقریباً ڈھائی برس بعد۲۶؍جنوری ۱۹۵۰ء کو وطنِ عزیز ہندوستان میں ہندوستانی آئین کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تھا، آج اس واقعے کو تقریباًچھیاسٹھ برس بیت گئے، اس کے باوجود پورے اہتمام سے اپنا قومی یومِ جمہوریہ منانے والے اس جانب کوئی پیس رفت کیوں نہیں کرتے کہ یہ آئین اصحابِ اقتدار کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر نہ رہے؟ بس انھیں سب وجہوں سے ہمارے لیے یومِ جمہوریہ خوشی اور غمی کا امتزاج ہے اور ہمارے دل میں آئین کے نفاذ کی خوشی اور ذہن میں آئین کے عدم نفاذ کی فکرہے؟ اور ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ آخر یوم جمہوریہ منائیں تو منائیں کیسے؟
’یومِ جمہوریۂ ہند‘ ایک قومی تعطیل ہے، جسے ملک بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس دن سے دستورِ ہند کی عمل آوری ہوئی۔ دستورساز اسمبلی نے دستورِ ہند کو مکمل طورسے ۲۶؍نومبر ۱۹۴۹ء کو مرتب کیا اور۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو اسے عمل آوری کے لیے پاس کردیا گیا۔ دستورِ ہند کی عمل آوری سے ہندوستان میں جمہوری طرزِ حکومت کی عمل آوری ہوئی۔ہندوستان میں عوامی تعطیلات کے اہم اور لازمی تین تعطیلات میں سے ایک یوم جموریہ ہے، جب کہ دیگر دو؛ یوم آزادیِ ہنداور گاندھی جینتی ہیں۔ اس مناسبت سے اہم اور خاص تقاریب تو نئی دہلی میں منعقد کی جاتی ہیں جس میں ہندوستان کے صدر کی صدارت اور موجودگی میں یہ تقاریب و اجلاس بڑے ہی دھوم دھام سے منائے جاتی ہیں۔دار الحکومت نئی دہلی میں راشٹرپتی بھون کے قریب ان تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے، جس کی شروعات میں، وزیرِ اعظم گل دستوں سے بابِ ہند (India gate)کے پاس، گم نام شہید فوجیوں کو خراج پیش کرتے ہیں، اس کے بعد صدر اس تقریب میں شریک ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ملک بھر میں ہر ریاست، ضلع یہاں تک کہ چھوٹے بڑے اسکول اور مدارس میں بھی یہ تقریب منعقد کی جاتی ہے بلکہ ملک کے باہر بھی، وہ ممامک اور مقامات جہاں ہندوستانی عوام رہتے ہیں، یہ تقریب مناتے ہیں۔ اس موقع پر اسکولوں کو سجایا جاتا ہے، ہفتوں پہلے سے اس کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، کھیل کود کے، ادبی اور سائنسی مقابلے رکھے جاتے ہیں، جیتنے والے طلباء کو انعامات اور اسناد تقسیم کیے جاتے ہیں اور اگر اسکول میں ائر ونگ، اسکاؤٹس اینڈ گائڈس، نیشنل گرین کوریا پھر کوئی ایسا خصوصی گروپ ہوتو ان کی پریڈ پیش کی جاتی ہیں۔ہندوستانی پرچم لہرایا جاتا ہے اوراس کو سلامی دی جاتی ہے۔ اس کے بعد تقاریر، انعامات پھر ثقافتی (کلچرل) پروگرام وغیرہ ہوتے ہیں اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
اہلِ لغت کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان میں جمہوریت کا لفظ اپنے عربی مآخذ’ الجمہور‘ کے لغوی مفہوم کی بنیاد پر معروف ہوا ہے، اس کے معنی ’اپنے ماحول سے بلند تر‘ اور ’اکثریت‘کے ہیں۔ عام بول چال میں جمہوریت سے مراد ’اکثریت(کی مرضی )کی حکومت‘ ہوتی ہے اور یہ انگریزی زبان کے لفظ Democracy کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور انگریزی کا لفظ ڈیموکریسی، یونانی لفظ ’ڈیموکریٹیا‘ سے مشتق ہے جو دو لفظوں ’ڈیموس‘یعنی لوگ اور ’کریٹیا‘ یعنی طاقت یا اقتدار سے مل کر بنا ہے، اس طرح جمہوریت کے معنی ہوئے: لوگوں کی طاقت یا لوگوں کا اقتدار یعنی ایک ایسا نظامِ حکومت جس میں اقتدار کی باگ ڈور لوگوں کے ہاتھوں میں ہو، نہ کہ فردِ واحد یا چند لوگوں کے ہاتھوں میں۔ شاید اسی لیے عوام میں ڈیموکریسی کی یہ عام سی تعریف بہت مشہور ہے:
Democracy is a government of the people, by the people and for the people.
یعنی عوام کی ایسی حکومت جو عوام کی بنائی ہوئی ہو اور عوام کے لیے ہو۔
آج جمہوریت کو دنیا تہذیب وتمدن کی علامت اور ایک فطری طرزِ حکومت کے طورپر تسلیم کرچکی ہے۔ بیش تر ممالک میں جمہوری نظامِ سیاست قائم ہوچکا ہے اور جہاں اب تک جمہوری نظام قائم نہیں ہوا، وہاں بھی جد وجہد جاری ہے لیکن ایک صدی قبل دنیا کو جمہوریت سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ آج تک پوری نہیں ہوسکیں۔ اس کی وجوہات شاید یہ ہیں کہ جمہوریت کے علَم برداروں اور اس کا خیر مقدم کرنے والوں نے درحقیقت اس کے مفہوم کو آج تک خود بھی نہیں سمجھا اور وہ اسی غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ بس اس نظام کی قائم ہوتے ہی از خود ہر طرف عدل وانصاف اور آزادی ومساوات کا دور دورہ ہو جائے گا، مگر یہ ان کا ایسا خواب تھا جو آج تک شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نظام کو قائم کرنے والوں نے حقیقی معنوں میں یہ نظام آج تک قائم ہی نہیں کیا۔
یومِ جمہوریہ کی مناسبت سے ہم اس وقت بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ وطنِ عزیز ہندوستان، جسے لوگ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر
جانتے ہیںاس میں جو مذہبی منافرت پھیلائی جا رہی ہے، ہمیں اس میں حقیقی جمہوریت کو قائم و مستحکم کرنے کی فکر و سعی کرنی چاہیے، جب تک ایسا نہیں ہو جاتا ان چند رسمی تقریبات کا منعقد کر لینا کچھ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا!

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here