Zaroorat ke bawajood mard ya aurat ko dusra nikah karne se rokne ke nuqsanaat

ضرورت کے باوجود مرد یا عورت کو دوسرا نکاح کرنے سے روکنے کے نقصانات
ندیم احمد انصاری

موجودہ معاشرے میں جہاں دیگر بہت سے غلط باتیں رواج پاچکی ہیںمن جملہ ان کے یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ سِرے سے دوسرا نکاح کرنے کو برا سمجھتے ہیں، ان کے خیال کے مطابق اگر کسی مرد یا عورت کا ایک دفع نکاح ہو گیا، اب اس نکاح کے ختم ہوجانے یعنی طلاق یا میاں بیوی میں سے کسی ایک کے انتقال کے بعدبھی انسان کو اکیلا رہنا اس مقدّر بن جاتا ہے ، اُسے گویاباقی زندگی میں خوش رہنے یا دوسرا نکاح کرنے کا کوئی حق نہیں، جب کہ یہ خیال قرآن و احادیث اور سیرتِ نبویہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں غلط اور بالکل بے اصل ہے ۔اس لیے کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور فطری طور پر انسان کو کسی پارٹنر کی ضرورت ہوا کرتی ہے ، یہ ضرورت انسان کے تخلیق کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ رکھی گئی ہے کہ مَرد اور عورت ایک دوسرے کی زندگی کے اکیلے پن کو دور کریں اور ایک دوسرے کے لیے اُنس و مودّت کا ذریعہ بنیں۔یہی وجہ ہے کہ مختلف زبانوں میں بیوی کے لیے شریکِ حیات، اردھانگنی، بیٹر ہاف (Better half) جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے سماج کا المیہ یہ ہے کہ اکثر ہمارے نوجوان طبقے کی اس بنیادی ضرورت پر کما حقہ توجہ نہیں دی جاتی اور رسم و رواج میں قید ہو کر اس حقیقت سے منہ چھپانے کی کوشش کی جاتی رہتی ہے ۔ ظاہر ہے جہاں پہلے نکاح سے متعلق یہ صورتِ حال ہو، وہاں دوسرے نکاح کو کیوں کر بڑھاوا دیا جا سکتا ہے ،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں اندر ہی اندر سڑاند و تعفن پیدا ہوتی رہتی ہے اور اس کا علاج کرنے کے بہ جائے ہم فضا میں عطر چھڑکنے کو کافی سمجھتے ہیں۔اس مضمون کے ذریعے اسی رسمِ بد کا قلع قمع کرنے کے لیے قرآن مجید کی ایک آیت کی مختصر تفسیر بیان کی جا رہی ہے ، امید کہ اس کے سمجھ لینے سے نکاحِ ثانی کو رواج دینے میں مدد ملے گی۔ان شاء اللہ

ارشادِ ربانی ہے :وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ،ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِر،ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَاَطْھَر،وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ اور جب طلاق دی تم نے عورتوں کو پھر پورا کر چکیں اپنی عدت کو تو اب نہ روکو ان کو اس سے کہ نکاح کرلیں اپنے انہی خاوندوں سے جبکہ راضی ہوجاویں آپس میں موافق دستور کے یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو کہ تم میں سے ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اس میں تمہارے واسطے بڑی ستھرائی ہے اور بہت پاکیزگی اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ (البقرۃ:232)اس آیت میں اس ناروا ظالمانہ سلوک کا انسداد کیا گیا ہے جو عام طور پر مطلقہ عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ان کو دوسری شادی کرنے سے روکا جاتا ہے ۔ پہلا شوہر بھی عموماً اپنی مطلقہ بیوی کو دوسرے شخص کے نکاح میں جانے سے روکتا اور اس کو اپنی عزت کے خلاف سمجھتا ہے اور بعض خاندانوں میں لڑکی کے اولیا بھی اس کو دوسری شادی کرنے سے روکتے ہیں اور ان میں بعض اس طمع میں روکتے ہیں کہ اس کی شادی پر ہم کوئی رقم اپنے لیے حاصل کرلیں۔ بعض اوقات مطلقہ عورت پھر اپنے سابق شوہر سے نکاح پر راضی ہوجاتی ہے ، مگر عورت کے اولیا و اقربا کو طلاق دینے کی وجہ سے ایک قسم کی عداوت اس سے ہوجاتی ہے ، وہ اب دونوں کے راضی ہونے کے بعد بھی ان کے باہمی نکاح سے مانع ہوتے ہیں۔ آزاد عورتوں کو اپنی مرضی کی شادی سے بلاعذرِ شرعی روکنا خواہ پہلے شوہر کی طرف سے ہو، یا لڑکی کے اولیا کی طرف سے بڑا ظلم ہے اس ظلم کا انسداد اس آیت میں فرمایا گیا ہے ۔(معارف القرآن عثمانی)

اس آیت کا شانِ نزول بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کی شادی ایک شخص کے ساتھ کردی تھی، اس نے طلاق دے دی اور عدت بھی گذر گئی۔ اس کے بعد یہ شخص اپنے فعل پر پشیمان ہوا اور چاہا کہ دوبارہ نکاح کرلیں، اس کی بیوی یعنی معقل بن یسار کی بہن بھی اس پر آمادہ ہوگئی، لیکن جب اس شخص نے معقل سے اس کا ذکر کیا تو ان کو طلاق دینے پر غصہ تھا، انھوں نے کہا کہ میں نے تمھارا اعزاز کیا، اپنی بہن تمھارے نکاح میں دے دی، تم نے اس کی یہ قدر کی کہ اس کو طلاق دے دی،اب پھر تم میرے پاس آئے ہو کہ دوبارہ نکاح کروں، خدا کی قسم! اب وہ تمھارے نکاح میں نہ لوٹے گی۔

اسی طرح ایک واقعہ جابر بن عبداللہ کی چچازاد بہن کا پیش آیا تھا۔ ان واقعات پر آیتِ مذکورہ نازل ہوئی جس میں معقل بن یسار اور جابر کے اس رویّے کو ناپسند و ناجائز قرار دیا گیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے سچے عاشق تھے ، آیتِ کریمہ کے سنتے ہی معقل بن یسار کا سارا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور خود جاکر اس شخص سے بہن کا دوبارہ نکاح کردیا اور قسم کا کفارہ ادا کیا، اسی طرح جابر بن عبداللہ نے بھی تعمیل فرمائی۔
اس آیت کے خطاب میں وہ شوہر بھی داخل ہیں جنھوں نے طلاق دی ہے ، اور لڑکی کے اولیا بھی، دونوں کو یہ حکم دیا گیا کہ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بالْمَعْرُوْفِ یعنی مت روکو مطلقہ عورتوں کو اس بات سے کہ وہ اپنے تجویز کیے ہوئے شوہروں سے نکاح کریں، خواہ پہلے ہی شوہر ہوں جنھوں نے طلاق دی تھی یا دوسرے لوگ، مگر اس کے ساتھ یہ شرط لگا دی گئی:اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بالْمَعْرُوْفِیعنی جب دونوں مرد و عورت شرعی قاعدے کے مطابق رضامند ہوجائیں، تو نکاح سے نہ روکو ۔جس میں اشارہ فرمایا گیا کہ اگر ان دونوں کی رضامندی نہ ہو، کوئی کسی پر زور زبردستی کرنا چاہے ، تو سب کو روکنے کا حق ہے ، یا رضامندی بھی ہو مگر شرعی قاعدے کے موافق نہ، مثلا بلا نکاح آپس میں میاں بیوی کی طرح رہنے پر رضامند ہوجائیں، یا تین طلاقوں کے بعد ناجائز طور پر آپس میں نکاح کرلیں، یا ایامِ عدت میں دوسرے شوہر سے نکاح کا ارادہ ہو تو ہر مسلمان کو، بالخصوص ان لوگوں کو جن کا ان مرد و عورت کے ساتھ تعلق ہے روکنے کا حق حاصل ہے ، بلکہ بہ قدرِ اسطاعت روکنا واجب ہے ۔

اسی طرح کوئی لڑکی بلا اجازت اپنے اولیا کے اپنے کفو کے خلاف دوسرے کفو میں نکاح کرنا چاہے ، یا اپنے مہرِ مثل سے کم پر نکاح کرنا چاہے ، جس کا اثر خاندان پر پڑتا ہے جس کا اس کو حق نہیں، تو یہ رضا مندی بھی قاعدۂ شرعیہ کے مطابق نہیں، اس صورت میں لڑکی کے اولیا کو اس نکاح سے روکنے کا حق حاصل ہے ، اِذَا تَرَاضَوْا کے الفاظ سے اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح بغیر اس کی رضا و اجازت کے نہیں ہوسکتا۔
آیت کے آخر میں تین جملے ارشاد فرمائے گئے :

٭ ایک یہ کہ ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِر، یعنی یہ احکام ان لوگوں کے لیے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، اس میں اشارہ فرما دیا گیا کہ اللہ پر اور روزِ قیامت پر ایمان رکھنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آدمی ان احکامِ الٰہیہ کا پورا پابند ہو اور جو لوگ ان احکام کے اتباع میں کوتاہی کرتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ ان کے ایمان میں خلل ہے ۔
٭دوسرا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَاَطْھَریعنی ان احکام کی پابندی تمھارے لیے پاکی اور صفائی کا ذریعہ ہے ، اس میں اشارہ فرمایا گیا کہ ان کی خلاف ورزی کا نتیجہ گناہوں کی غلاظت میں آلودگی اور فتنہ و فساد ہے ، کیوں کہ عاقلہ بالغہ جوان لڑکیوں کو مطلقاً نکاح سے روکا گیا تو ایک طرف ان پر ظلم اور ان کی حق تلفی ہے اور دوسری طرف ان کی عفت وعصمت کو خطرے میں ڈالنا ہے ۔تیسرے اگر خدانہ خواستہ وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوں تو اس کا وبال ان لوگوں پر بھی عائد ہوگا جنھوں نے ان کو نکاح سے روکا، اور وبالِ آخرت سے پہلے بہت ممکن ہے کہ ان مجبور عورتوں کا یہ ابتلا خود مَردوں میں جنگ وجدال اور قتل و قتال تک نوبت پہنچا دے ، جیسا کہ رات دن مشاہدہ میں آتا ہے ۔ اس صورت میں وبالِ آخرت سے پہلے ان کا عمل دنیا ہی میں وبال بن جائے گا اور اگر مطلقاً نکاح سے تو نہ روکا، مگر ان کی پسند کے خلاف دوسرے شخص سے نکاح پر مجبور کیا گیا، تو اس کا نتیجہ بھی دائمی مخالفت اور فتنہ و فساد یا طلاق وخلع ہوگا، جس کے ناگوار اثرات ظاہر ہیں، اس لیے فرمایا گیا کہ ان کو ان کے تجویز کیے ہوئے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکنا ہی تمھارے لیے پاکی اور صفائی کا ذریعہ ہے ۔(معارف القرآن عثمانی)

بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اگر باوجود باہمی رضامندی اور رغبت کے تم نے عورتوں کو نکاح سے روکا تو شیطان طرفین کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسے ڈالے گا اور اس طرح سے دلوں کی طہارت اور نزاہت کو مکدّر کرے گا، اور عجب نہیں کہ نکاح سے روکنا خود اہلِ خانہ سے ناجائز تعلقات کا ذریعہ نہ بن جائے ، ذالکم ازکی لکم کے یہ معنی ہیں۔(معارف القرآن ادریسی)

دقیق حکمتوں اور حقیقی مصلحتوں کا علم ہمہ بیں، ہمہ دان، خداے تعالیٰ کو ہوسکتا ہے ، یا علم کے ناقص، عقل کے ناقص گندے بندوں کو ؟ اس لیے فرمایا گیا: ازکی لکم واطھر یعنی مفید حکیمانہ قابلِ عمل، آسان احکام، ذاتی وملی ہر اعتبار سے ۔ شخصی سیرتوں اور اجتماعی مصلحتوں دونوں معاشرتی، اجتماعی فوائد کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کے قانون پر عمل کیا جائے ۔(تفسیرِ ماجدی)

خلاصہ یہ ہے کہ نکاح میں کوئی شرعی نقص نہ ہو اور جانبین کی باہمی رغبت ہو اور لڑکی اور لڑکا رضا مند ہوں تو اس میں مزاحمت کرنا اور روکنا موجبِ فتنہ اور موجبِ خطرات ہے ، اسی لیے فرمایا اس سے باز رہو، یہ تمھارے لیے بہت صفائی اور پاکیزگی کی بات ہے اور کسی معصیت میں مبتلا ہونے سے حفاظت ہے۔۔۔ عام طور پر مسلمان ان تمام نزاکتوں کو سمجھتے ہیں جن کی طر ف قرآنِ کریم نے اپنے خاص انداز میں ارشاد فرمایا اور سبحان اللہ کیا خوب ارشاد فرمایا ہے۔ ہم نے ازکیٰ کا ترجمہ صفائی کیا ہے ، بعض حضرات نے اس کا ترجمہ زیادہ نافع کیا ہے ۔ جب کھیتی بڑھتی ہے اور اس میں نموہوتا ہے تو عرب کہتے ہیں زکا الزاع، اس محاورے سے یہ معنی کیے گئے ہیں ۔ بہ ہر حال ترجمہ صفائی کیا جائے یا نافع کیا جائے مطلب میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور یہ جو فرمایا کہ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ نصیحت کرنے کے اہل ہیں اور ان ہی سے توقع ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نصائح کو قبول کریں گے اور ان سے فایدہ اٹھائیں گے ۔(ماخوذ ا زکشف الرحمان)

٭تیسرا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ یعنی تمھاری مصلحتوں کو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں، تم نہیں جانتے ۔ اس ارشاد کا منشا یہ ہے کہ جو لوگ مطلقہ عورتوں کو نکاح سے روکتے ہیں وہ اپنے نزدیک اس میں کچھ مصالح اور فوائد سوچتے ہیں، مثلاً اپنی عزت و غیرت کا تخیّل یا یہ کہ ان کی شادی کے بدلے کچھ مالی منفعت حاصل کی جائے ، اس شیطانی تلبیس اور بے جا مصلحت اندیشی کے ازالے کے لیے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمھاری مصلحتوں اور فایدوں سے خوب واقف ہیں، ان کی رعایت کرکے احکام دیتے ہیں اور تم چوں کہ حقائقِ امور اور معاملات کے انجام سے بے خبر ہو اس لیے اپنے ناتمام غور وفکر اور ناقص رائے سے کبھی ایسی چیزوں کو مصلحت اور فایدہ سمجھ لیتے ہو، جس میں تمھاری ہلاکت و بربادی ہے ۔ تم جس عزت و غیرت کو تھامتے پھرتے ہو اگر مطلقہ عورتیں بے قابو ہوگئیں، تو سب عزت خاک میں مل جائے گی اور مالی منافع کے ناجائز تصورات ممکن ہے کہ تمھیں ایسے فتنوں اور جھگڑوں میں مبتلا کردیں، جن سے مال کے ساتھ جان کا بھی خطرہ ہوجائے ۔

قرآنِ کریم نے اس جگہ ایک قانون پیش فرمایا کہ مطلقہ عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق نکاح سے روکنا جرم ہے اس قانون کو بیان فرمانے کے بعد اس پر عمل کرنے کو سہل اور اس کے لیے عوام کے ذہنوں کو ہم وار کرنے کے واسطے تین جملے ارشاد فرمائے ، جن میں سے پہلے جملے میں روزِ قیامت کے حساب اور جرائم کی سزا سے ڈرا کر انسان کو اس قانون پر عمل کرنے کے لیے آمادہ فرمایا، دوسرے جملے میں اس قانون کی پابندی کی خلاف ورزی میں جو مفاسد اور انسانیت کے لیے مضرتیں ہیں ان کو بتلا کر قانون کی پابندی کے لیے تیار کیا، تیسرے جملے میں یہ ارشاد فرمایا کہ تمھاری اپنی مصلحت بھی اسی میں ہے کہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کی پابندی کرو، اس کے خلاف کرنے میں اگر تم کوئی مصلحت سوچتے ہو تو وہ تمھاری کوتاہ نظری اور عواقب سے بے خبری کا نتیجہ ہے ۔قرآنِ کریم کا یہ اسلوب اور طرزِ بیان صرف یہیں نہیں بلکہ تمام احکام میں جاری ہے کہ ایک قانون بتایا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے حساب و عذاب سے ڈرایا جاتا ہے ، ہر قانون کے آگے پیچھے اِتَّقُوا اللّٰہَ یا اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ، اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ وغیرہ جملے لگائے ہوئے ہیں۔ قرآن ساری دنیا اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے ایک مکمل نظامِ حیات اور ہر شعبۂ زندگی پر حاوی قانون ہے ، اس میں حدود وتعزیرات کا بھی بیان ہے ، لیکن اس کی ادا ساری دنیا کے قانون کی کتابوں سے نرالی ہے ، اس کا طرزِ بیان حاکمانہ سے زیادہ مربیانہ ہے ، اس میں ہر قانون کے بیان کے ساتھ اس کی کوشش کی گئی کہ کوئی انسان اس قانون کی خلاف ورزی کرکے مستحقِ سزا نہ بنے ، دنیا کی حکومتوں کی طرح نہیں کہ انھوں نے ایک قانون بنادیا اور شائع کردیا، جو کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اپنی سزا بھگتتا ہے ۔اس کے علاوہ اس اسلوبِ قرآن اور اس کے مخصوص اندازِ بیان سے ایک دور رس بڑا فایدہ یہ ہے کہ اس کو دیکھنے سننے کے بعد انسان اس قانون کی پابندی صرف اس بنا پر نہیں کرتا کہ اگر خلاف کرے گا تو دنیا میں اس کو کوئی سزا مل جائے گی، بلکہ دنیا کی سزا سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور آخرت کی سزا کی فکر ہوتی ہے اور اسی فکر کی بنا پر اس کا ظاہر و باطن خفیہ وعلانیہ برابر ہوجاتا ہے ، وہ کسی ایسی جگہ میں بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا جہاں کسی ظاہری یا خفیہ پولیس کی بھی رسائی نہ ہو، کیوں کہ اس کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جلِ شانہ ہر جگہ حاضر وناظر اور ذرہ ذرہ سے باخبر ہیں، یہی سبب ہے کہ قرآنی تعلیم نے جو اصولِ معاشرت تیار کیے تھے ہر مسلمان اس کی پابندی کو اپنا مقصدِ حیات تصور کرتا تھا۔

قرآنی نظامِ حکومت کا یہی امتیاز ہے کہ اس میں ایک طرف قانون کی حدود وقیود کا ذکر ہے ، تو دوسری طرف ترغیب وترہیب کے ذریعے انسان کی اخلاق و کردار کو ایسا بلند کیا گیا ہے کہ قانونِ حدود وقیود اس کے لیے ایک طبعی چیز بن جاتی ہیں، جس کے سامنے وہ اپنے جذبات اور تمام نفسانی خواہشات کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے ۔ دنیا کی حکومتوں اور قوموں کی تاریخ اور ان میں جرم وسزا کے واقعات پر ذرا گہری نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ نرے قانون سے کبھی کسی قوم یا فرد کی اصلاح نہیں ہوئی، محض پولیس اور فوج سے کبھی جرائم کا انسداد نہیں ہوا، جب تک قانون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خوف و عظمت کا سکّہ اس کے قلب پر نہ بیٹھے ، جرائم سے روکنے والی چیز دراصل خوفِ خدا اور خوف حسابِ آخرت ہے ، یہ نہ ہو تو کوئی شخص کسی سے جرائم کو نہیں چھڑا سکتا۔(معارف القرآن عثمانی)
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here