اعتکاف پر اجرت لینا دینا

اعتکاف پر اجرت لینا دینا
ندیم احمد انصاری

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا ایک عظیم سنت اور عبادت ہے،اور عبادت پر اجرت کا لین دین جائز نہیںہے، بلکہ مساجد میں خالص ثواب کی نیت سے اعتکاف کرنا بستی والوں کی ذمے داری ہے، جس میں غفلت برتنے سے گناہ کا اندیشہ ہے۔یہ دور مادیّت کا دور ہے، جس میں آخرت کے ثواب کی امید پر کام کرنا کم ہوتا جا رہا ہے، بعض لوگ خود کبھی اعتکاف میں نہیں بیٹھتے، لیکن یہی لوگ معتکف کی ہر چھوٹی بڑی لغزش گنگوانے کے در پہ تو ہوتے ہیں، جس سے ہر سال اعتکاف میں بیٹھنے والوں کی گنتی میں بھی کمی نظر آرہی ہے۔ علما و فقہا نے صراحت کی ہے کہ اعتکاف میں کسی قسم کوئی اجرت لی جائے اور نہ دی جائے،اس کے بعد بھی اگر کوئی بغیر عُرف کے کچھ دے ہی دے، تو بات اور ہے۔اگر محلّے والوں میں کوئی بھی کسی عذر کی بنا پر اعتکاف کے لیے تیار نہ ہو تو کسی دوسرے محلّے سے ہی کسی کو راضی کرکے اعتکاف میں بٹھادیں، اس سے بھی گناہ سے بچ جائیں گے۔ان شاء اللہ
والأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لا یجوز الاستیجار علیہا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکوتیۃ)
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:
اجرت دے کر اعتکاف کرانا جائز نہیں ہے، کیوں کہ عبادات کے لیے اجرت دینا اور لینا دونوں ناجائز ہیں۔ ہاں اگر بغیر اجرت ٹھہرائے اعتکاف کرایا اور اعتکاف کراکے اجرت دینا وہاں معروف بھی نہ ہو تو کچھ پیش کرنا جائز ہے، بلکہ یہ امر بالمعروف میں داخل ہوگا۔(فتاویٰ دارالعلوم:6/512، مسائلِ اعتکاف)
فتاویٰ دارالعلوم کراچی میں ہے:
اجرت لے کر اعتکاف میں بیٹھنا گناہ ہے، اس طرح اعتکاف کی سنت ادا نہیں ہوتی، اگر بستی میں کوئی بھی بلا اجرت اعتکاف میں نہ بیٹھا تو اپس بستی کے تمام مرد گنہ گار ہوں گے۔ (فتاویٰ دارالعلوم کراچی)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here