سیّدہ فاطمہؓ یعنی جگر گوشۂ رسولؐ، زوجۂ علیؓ، اُمِ حسنینؓاورخواتینِِ جنت کی سردار
ندیم احمد انصاری
(خادم الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تمام عورتوں کی سردار، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگر گوشہ اور نسبتِ مصطفائی، سید الخلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی اور حضراتِ حسنینؓکی والدہ ہیں۔(سیر اعلام النبلاء)آپؓکے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔‘(بخاری، مسلم )نیز وہ خود روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت مجھے یہ بشارت دی کہ ’تم جنّتی عورتوں کی سردار ہو، سوائے مریم بنتِ عمران کے۔‘ (ترمذی)
اسما و القاب اور ولادت ونکاح
’فاطمہ‘ آپؓ کا نام اور ’زہرا‘ اور ’بتول یہ دو آپ کے لقب تھے۔ حضرت سیّدہ کو بتول اس لیے کہا جاتا ہے کہ بتول ’بتل‘ بمعنی قطع سے مشتق ہے کہ اپنے فضل و کمال کی وجہ سے دنیا کی عورتوں سے منقطع تھیں، یا یہ کہ ما سواے اللہ منقطع اور علاحدہ تھیں اور بوجہ باطنی زہرت و بہجت و صفا و نورانیت ’زہرا‘کہلاتی تھیں۔ ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ آپؓ بعثت کے پہلے سال میں پیدا ہوئیں۔ ابن جوزی کہتے ہیں کہ بعثت سے پانچ سال پیش تر پیدا ہوئیں، جب کہ قریش خانۂ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام صاحب زادیوں میں حضرت فاطمۃ الزہرا سب سے چھوٹی ہیں، سب سے بڑی زینب، پھر رقیہ، پھر حضرت ام کلثوم، پھر حضرت فاطمہ ہیں۔سواے حضرت فاطمہ کے اور کسی صاحب زادی سے آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسل کا سلسلہ نہیں چلا۔
2ھ میں حضرت علیؓ کے ساتھ حضرت فاطمہ کا نکاح ہوا۔ پہلے قول کی بنا پر حضرت فاطمہ اس وقت پندرہ سال اور ساڑھے پانچ مہینے اور دوسرے قول کی بنا پر انیس سال اور ڈیڑھ مہینے کی تھیں۔ حضرت علیؓ کے متعلق اختلاف ہے کہ وہ کس سِن میں اسلام لائے، ایک قول یہ ہے کہ آٹھ سال کی عمر میں اور دوسرا قول یہ ہے کہ دس سال کی عمر میں اسلام لائے۔ پہلے قول کی بنا پر نکاح کے وقت حضرت علیؓکی عمر اکیس سال اور پانچ مہینے اور دوسرے قول کی بناپر چوبیس سال اور ڈیڑھ مہینے ہوگی۔(سیرۃ المصطفیٰ)
شادی شدہ زندگی
حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علیؓ سے ہوا اور نکاح کے بعد رسمِ عروسی کا وقت آیا تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے کہا کہ ایک مکان لے لیں، چناں چہ حارث بن النعمان کا مکان ملا اور حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کے ساتھ اس میں قیام کیا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے تعلقات میں خوش گواری پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے، چناں چہ جب حضرت علی اور حضرت فاطمہ میں کبھی خانگی معاملات کے متعلق رنجش ہو جاتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں صلح کرا دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ آپ گھر میں تشریف لے گئے اور صلح وصفائی کرادی، گھر سے مسرور نکلے، لوگوں نے پوچھا آپ گھر میں گئے تھے تو اور حالت تھی، اب آپ اس قدر خوش کیوں ہیں؟ فرمایا: میں نے ان دونوں شخصوں میں مصالحت کرا دی جو مجھ کو محبوب ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے ان پر کچھ سختی کی، وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر چلیں، پیچھے پیچھے حضرت علیؓ بھی آئے، حضرت فاطمہؓ نے شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹی! تم کو خود سمجھنا چاہیے کہ کون شوہر اپنی بیوی کے پاس خاموش چلا آتا ہے۔ حضرت علیؓ پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ انھوں نے حضرت فاطمہؓ سے کہا: اب میں تمھارے خلافِ مزاج کوئی بات نہ کروں گا۔ (سیرۃ النبی)
اولاد و واقعۂ وفات
حضرت فاطمہؓ کے پانچ اولادیں ہوئیں، تین لڑکے اور دو لڑکیاں؛ حسن، حسین، محسن، ام کلثوم، زینب۔محسن تو بچپن ہی میں انتقال کر گئے، حضرت ام کلثوم سے حضرت عمرؓ نے نکاح فرمایا اور کوئی اولاد نہیں ہوئی اور حضرت زینب کا نکاح عبد اللہ بن جعفر سے ہوا اور ان سے اولاد ہوئی۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے چھ مہینے بعد ماہِ رمضان 11ھ میں حضرت فاطمہ زہرا نے انتقال فرمایا، حضرت عباسؓنے نمازِ جنازہ پڑھائی اور حضرت علی اور حضرت عباس اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہم نے قبر میں اتارا۔(سیرۃ المصطفیٰ)
انتقال کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر 29سال تھی، ویسے سن کی تعیین میں سخت اختلاف ہے، بعضوں نے 24سال، بعضوں نے 25سال اور بعضوں نے 30سال بتایا ہے، لیکن زرقانی نے لکھا ہے کہ پہلی روایت زیادہ صحیح ہے۔ اگر 41کو سالِ ولادت قرار دیا جائے تو اس وقت ان کا یہ سن نہیں ہو سکتا تھا، البتہ اگر 24سال کی عمر تسلیم کی جائے تو اس سن کو سالِ ولادت قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن یہ روایت صحیح مان لی جائے کہ وہ پانچ برس قبلِ نبوت میں پیدا ہوئیں تو اس وقت ان کا سن29سال ہو سکتا ہے۔ (سیرۃ النبی)
حضرت سیدہ کے فضائل و مناقب بیان کرنے کے لیے ایک مستقل تصنیف درکار ہے، اس لیے اس مختصر مضمون میںصحیحین سے چند ایسی احادیث پیش کرنے پر اکتفا کریںگے، جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپؓ کے خصوصی تعلق پر روشنی پڑتی ہے۔
والد کی فکر و پروا
عبداللہ بن مسعودؓنے فرمایا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبے کے قریب نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے چند دوست بیٹھے ہوئے تھے، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص فلاں قبیلے کی اونٹنی کی اوجھڑی لے آئے اور اسے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت پرجب وہ سجدہ میں جائیں‘ رکھ دے۔ پس حاضرین میں سب سے زیادہ بدبخت عقبہ اٹھا اور وہ اوجھڑی لے آیا اور دیکھتا رہا، جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے، فوراً ہی اس نے اسے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا۔ میں یہ حال دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کرسکتا تھا، کاش میرے ہم راہ کچھ لوگ ہوتے (تو میں مخالفت کرتا)۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر وہ لوگ ہنسنے لگے اور ایک دوسرے پر (مارے ہنسی کے) گرنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں تھے، اپنا سر نہ اٹھا سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت فاطمہؓ آئیں اور انھوں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیٹھ سے اتار پھینکا۔ (بخاری،مسلم)
باپ بیٹی کا تعلقِ خاطر
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ایک روز حضرت فاطمہؓ آئیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چال کی طرح تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیٹی خوش آمدید! اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنی داہنی طرف یا اپنی بائیں طرف بٹھا لیا، پھر آہستہ سے کوئی بات کہی، تو وہ رونے لگیں۔ میں نے ان سے پوچھا: تم روتی کیوں ہو ؟ پھر ایک بات ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آہستہ سے کہی تو وہ ہنسنے لگیں۔ میں نے کہا: آج کی طرح میں نے خوشی کو رنج سے اس قدر قریب نہیں دیکھا۔ میں نے دریافت کیا: آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا فرمایا تھا ؟ حضرت فاطمہؓ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راز کو افشا کرنا پسند نہیں کرتیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی تو میں نے حضرت فاطمہؓسے پوچھا تو انھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی مرتبہ مجھ سے فرمایا تھا کہ جبرئیل علیہ السلام ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن کا دَور کیا کرتے تھے، اس سال انھوں نے مجھ سے دو بار دور کیا ہے، اس سے میرا خیال ہے کہ میری موت کا وقت قریب آگیا اور تم میرے تمام گھر والوں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی تو یہ سن کر میں رونے لگی، پھر دوسری مرتبہ فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمام جنتی عورتوں کی یا تمام مومنات کی سردار ہوںگی، اس وجہ سے مجھے ہنسی آگئی۔ (بخاری،مسلم)
سہل بن سعدؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوۂ احد کے دن زخمی ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ کا چہرۂ اقدس زخمی کیا گیا اور آگے سے ایک دانت ٹوٹ گیا اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک میں ٹوٹ گئی تھی۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاخون دھوتی تھیں اور حضرت علیؓبن ابی طالب ڈھال میں پانی لا کر ڈال رہے تھے، جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی سے خون میں کمی نہیں بلکہ زیادتی ہو رہی ہے، تو انھوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا، یہاں تک کہ راکھ بن گئی پھر اسے زخم پر لگا دیا جس سے خون رک گیا۔(مسلم، بخاری)
حضرت انسؓروایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرض کی زیادتی سے بے ہوش ہوگئے، حضرت فاطمہؓ نے روتے ہوئے کہا: افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج کے بعد پھر نہیں ہوگی۔ جب آپ کی وفات ہوگئی تو حضرت فاطمہؓ یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے والد، آپ کو اللہ نے قبول کرلیا ہے، اے میرے والد آپ کا مقام جنت الفردوس ہے، اے میرے ابا جان میں آپ کی وفات کی خبر جبرئیل کو سناتی ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دفن کیا جا چکا تو حضرت فاطمہؓ نے [غم سے نڈھال ہو کر]حضرت انسؓسے کہا: تم لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو ۔ (بخاری)
پدرانہ فکرو شفقت
حضرت علیؓسے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو جہیز میں ایک کالے رنگ کی چادر اور ایک مشک اور ایک تکیہ دیا، اس تکیے میں اذخر (عرب میں پیدا ہونے والی) ایک قسم کی گھاس بھری ہوئی تھی۔ (نسائی،ابن ماجہ)
اس روایت سے بعض لوگ جہیز کا جواز ثابت کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں، جب کہ یہ انتظام اس لیے فرمایا گیا کہ حضرت علیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرِ تربیت و پروردہ تھے، اس لیے بیٹی بیاہتے وقت پدرانہ فکر وشفقت کے باعث آپؐ نے یہ مختصر اشیا عنایت فرمائیں اور دوسری بیٹیوں کے معاملے میں اس طرح کا کوئی خاص اہتمام نہیں فرمایا گیا۔ نیز اگر اس روایت سے جہیز کا جواز ثابت ہو جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو مختصر چیزیں والد اپنی استطاعت کے مطابق اپنی خوشی سے بیٹی کے نکاح میں دینا چاہے، وہ کافی ہے، اس پر مزید اشارۃً، کنایۃً یا صراحتاً کسی قسم کا مطالبہ کرنا ہرگز درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے، اب تو مسلم معاشرے میں جہیز اس طرح دھڑلے سے لیا دیا جانے لگا کہ باقاعدہ کسی ڈیل کی طرح پوچھا جاتا ہے کہ تم بیٹی کے نکاح میں کیا کچھ دوگے!
حضرت فاطمہ کی عظمت
حضرت علیؓنے حضرت فاطمہؓکی موجودگی میں جب ابوجہل کی بیٹی سے منگنی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا: فاطمہؓ مجھ سے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ ان کے دین کے بارے میں ان کی آزمائش کی جائے گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو عبد شمس والے اپنے داماد کی تعریف کی اور فرمایا کہ جو بات انھوں نے کہی، وہ بالکل سچ کہی اور مجھ سے جو وعدہ انھوں نے کیا وہ ہمیشہ پورا کیا اور میں خود حلال چیز کو حرام اور کسی حرام چیز کو حلال کرنا نہیں چاہتا مگر اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور عدو اللہ کی بیٹی کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ (بخاری، مسلم)
یعنی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسرا نکاح کرنا تو مخصوص شرائط کے ساتھ حلال ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حلال کو حرام نہیں کرنا چاہتا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ فاطمہ جیسی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی اور سے نکاح کرنا حضرت علیؓ کو زیب نہیں دیتا، وہ بھی اللہ و رسول کے دشمن کی بیٹی سے۔یہ حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عظمت و فضیلت پر دال ہے۔