شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب

شبِ قدر کے ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب، ندیم احمد انصاری

اللہ تبارک و تعالیٰ نے مکمل ایک سورۃ اس رات کی فضیلت کے بیان میں نازل فرمائی،اس کے علاوہ احادیثِ مبارکہ میں حضرت نبی کریم ﷺ نے بھی بہت سی روایات میں اس کی عظمت و فضیلت ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں: جب رمضان المبارک آیا تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : تم پر رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہے ، یہ ایک مبارک مہینہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض قرار دیے ہیں۔اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اورشیاطین قید کر لیے جاتے ہیں۔اس ماہ میں ایک رات ہے ،جو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔جو اس کی خیر و برکات (کو حاصل کرنے)سے محروم رہا ،وہ حقیقی محروم ہے۔ (مسنداحمد ابن حنبل)

’ایک ہزار مہینوں سے بہتر ‘ کے معنی
’ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس رات کا نیک عمل اوراس کی نمازوروزہ وغیرہ ایسے ایک ہزار مہینوں کے نماز و روزے سے افضل ہے ،جن میں شبِ قدر نہ ہو،مفسرین کا یہی ارشاد ہے۔امام ابن جریر ؒ نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے کہ یہ رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے،جن میں لیلۃ القدر نہ ہو۔ یہی قول درست ہے، اس کے علاوہ کوئی قول ٹھیک نہیں۔(ابن کثیر)

شبِ قدر کا قیام
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من قام لیلۃ القدرایماناً واحتساباً غفر لہ ماتقدم من ذنبہ الخ۔(بخاری،مسلم)
جو شخص ایمان وثواب کی امید کے ساتھ شبِ قدر میں قیام کرے ،اس کے گذشتہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
یہاں گناہوں سے مراد صغیرہ گناہ ہیں، نیز اس رات میں جو عبادت چاہے کی جا سکتی ہے، کسی خاص عبادت کی کوئی ترغیب نہیں کہ فلاں نماز فلاں طریقے سے اتنی رکعتیں پڑھے۔

شبِ قدر کی دعا
شبِ قدر کی ایک مخصوص دعا کا احادیث سے پتہ چلتا ہے، جیسا کہ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا :اگر میں شبِ قدر کو پاؤںتو کیا دعا کروں ؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم اس طرح دعا کرو؛
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاَعْفُ عَنِّی۔ (ترمذی)
اے اللہ!آپ بہت معاف فرمانے والے اور معافی کو پسند فرمانے والے ہیں،پس مجھے بھی معاف فرما دیجیے۔

ایک اہم بات
شبِ قدر میں بکثرت مذکورہ دعا پڑھنا مستحب ہے ۔اس کے علاوہ تلاوتِ قرآن یا دیگر ماثور دعاؤں میں مشغول رہنا بھی مستحب ہے۔نیز امام شافعیؒ نے ایک بہت پیاری بات ارشاد فرمائی ہے ،جس سے اکثر لوگ غفلت برتتے ہیں،وہ یہ کہ اس دن میں بھی اسی طرح کوشش ومحبت سے دعا وغیرہ میں مشغول رہنا چاہیے جس طرح رات میں مشغور رہتے ہیں۔یہ بھی مستحب ہے کہ اس رات میں مسلمانوں کی مہمات و مشکلات کی آسانی کے لیے بھی دعا کرے،کیوں کہ صالحین اور اللہ تعالیٰ عارفین بندوں کا شعار رہا ہے۔(کتاب الاذکار)

تعیین میں اختلاف کی وجہ
آخری بات یہ کہ اتنی اہم رات کو متعین طور پر کیوں نہیں بیان کیا گیا؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا کوئی امر حکمت سے خالی نہیں ہوتا،شبِ قدر کی تعیین کو پوشیدہ رکھنے میں بھی اس کی حکمتِ بالغہ کارفرما ہے۔اگر شبِ قدر کی تعیین کر دی جاتی تونیک لوگ بھی اسی ایک رات میں عبادت کرنے کو کافی سمجھتے اور گنہگار اگر اس مبارک رات کی خیر کو برکت سے واقف ہونے کے بعدبھی اپنے اعمال بد سے باز نہ آتے تو نہایت سخت خسارے میں رہتے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے تعیین کو مخفی رکھ کر دونوں طبقات پر نہایت کرم کا معاملہ فرمایا،اب نیک لوگ کئی کئی راتیں شوق سے شب قدر کی تلاش میں گزار دیتے ہیں ۔یہ اخفاء ایسا ہی ہے جیسے جمعے کے دن مقبول گھڑی کا اخفا،وہاں بھی اس راز کو پوشیدہ رکھنے کا مقصد یہی ہے اس مبارک دن میں انسان زیادہ سے زیادہ اپنے رب کی رضا جوئی کوشش کرے۔(التحریر والتنویر)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here