مولانا عاشقِ الٰہی میرٹھی اردو کے صغیر سن مترجمِ قرآن

ندیم احمد انصاری

مولانا عاشقِ الٰہی بن یادِ الٰہی بن رحمِ الٰہی بن فضلِ الٰہی کی ولادت 5 رجب 1299ھ مطابق 3جون 1881ء یومِ جمعہ کو میرٹھ میںہوئی۔چار سال کی عمر میں ’الف، ب‘ شروع کی اور سال بھر تک مکتب میں پڑھتے رہے ،اور فقط چھ سال کی عمر میں’مرأۃ العروس‘ اور ’بنات النعش‘و’ توبۃ النصوح‘ختم کر لی، جو فی زمانہ ایم اے اردو وغیرہ کے نصاب میں شامل ہے ۔ اسی مدّت میں ریاضی بھی سیکھی اور اربعہ و ستہ کے سوال حل کرنے لگے ۔ چھ مہینے میں کلام اللہ ختم کیا اور1305ھ میں جب کہ عمر چھ سال ہوئی مولوی نور اللہ سے جو کہ نہایت متوکل و متقی بزرگ تھے ، عربی شروع کر دی۔ چند مہینے میں ’میزان منشعب‘ پڑھنے پر استعداد اتنی ہو گئی کہ مولانا تلاوت کرتے ہوئے قرآن مجید کے صیغے ان سے دریافت کرتے اور وہ بتاتے رہتے ۔ فارسی اس وقت تک بالکل نہیں پڑھی تھی، اس لیے مولانا کے مشورے پر مولوی عباس علی سے ’آمد نامہ‘ شروع کیا اور چند مہینے میں ’گلستان‘،’ بوستان‘ تک پڑھ لیا۔مولانا کی ذہانت دیکھ کر ان کے ماموں منشی وزارت علی ‘جو کہ تحصیلی اسکول میں مدرسِ دوم تھے ، اردو مڈل پاس کرانے کے شوق میں مولاناکو اپنے ساتھ لے گئے اور چوتھی جماعت میں ان کا نام لکھوا دیا۔ دو سال تک ان سے تعلیم حاصل کرتے رہے اور پھر دو سال صدر المدرسین منشی یعقوب علی کے پاس تعلیم پاکر 1310ھ مطابق دسمبر 1892ء کے امتحانِ مڈل میں شریک ہو گئے ۔ جس طرح اس سے قبل کسی امتحان میں ناکامی نہیں ہوئی تھی، اسی طرح ورنیکلر مڈل میں بھی ناکام نہ رہے اور فقط ساڑھے گیارہ سال کی عمر میں مڈل کی سند حاصل کر لی۔اس کے بعد چھ مہینے تک پھر فارسی پڑھی اور حافظ امداد حسین سے مضمون نویسی کی مشق کرتے رہے ۔
اس وقت ’مشن اسکول‘ میں ایک درجہ کھولا گیا تھا، جس میں مڈل پاس بچّوں کو داخل کرکے صرف انگریزی زبان کی تعلیم دی جاتی اور دو سال میں انگریزی مڈل کا امتحان دلانے کا اعلان تھا، چناں چہ مولانا بھی اس میں داخل ہو گئے ، مگر اس جماعت میں اتنے طلبہ نہ آئے جن کی فیس سے مدرس کی تنخواہ نکل سکتی، اس لیے چھ مہینے بعد ہی وہ درجہ ٹوٹ گیا اور مولانا ’ فیضِ عام اسکول‘ کی ساتویں جماعت میں داخل ہو گئے ۔ داخلے کو چوتھا دن تھا کہ استاد نے ایک معمولی غلطی پر اسکول کے رواج کے موافق انھیں بینچ پر کھڑا کر دیا اور ہتھیلی پر دو رول مارے ، چوں کہ عمر بھر میں یہ پہلا اتفاق تھا اس لیے ان کی غیرت نے ضرورت سے زیادہ اس کا اثر لیا اور گھر آکر والدہ سے رو کر کہا کہ مجھے عربی شروع کروا دو، میں اسکول کی تعلیم کے قابل نہیں ہوں۔ چناں چہ وسط جمادی الثانیہ 1311ھ مطابق دسمبر 1893ء میں، جب کہ ان کی عمر تیرہ سال تھی ’مدرسہ قومی، میرٹھ‘ میں داخلہ لیا اورمولانا عبد المومن صاحب دیوبندی سے جو کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ کے بہنوئی تھے ’میزان‘ شروع کی۔ وسطِ شعبان میں مدرسے کا سالانہ امتحان ہوا تو مولانا صدیق احمد ممتحن نے ’میزان، منشعب‘ اور’ صرفِ میر‘ و’ نحوِ میر‘ کا از اول تا آخر امتحان لیا اور بے حد خوش ہوکر مولانا سے فرمایا کہ یہ طالبِ علم بہت ہونہار ہے ، اس کو خاص توجہ سے پڑھانا۔ اس کے بعد مدرسے کی بڑی تعطیل ہو گئی، مگر رمضان میں مولانا قاری محمد اسحاق صاحب میرٹھی سے ’شرح مأۃ عامل‘ باترکیب ختم کر لی۔
10شوال کو مدرسہ کھلا اور مولانا کے شفیق استاد نے عربی کا ہشت سالہ نصاب بعض درمیانی غیر ضروری کتابوں کو حذف کرکے خاص طرز پر خاص توجہ کے ساتھ پڑھانا شروع کیا اور مولانا روزانہ چار پانچ کتابوں کا سبق زیادہ مقدرار میں لینے لگے ، اس طرح سات مہینے میں صرف و نحو ختم ہو گئی۔ اب وقت آیا کہ چار طلبہ کا ہم جماعت بن کر حدیث شروع کر دیں، چناں چہ ربیع الثانی 1312ھ میں جب کہ ان کی عمر چودہ برس سے کم تھی اور عربی شروع کیے ہوئے دس مہینے گزرے تھے ، ’مشکوٰۃ شریف‘ شروع ہو گئی، اور دو سال میں صحاحِ ستہ اور دینیات کی تمام کتابیں ختم ہو گئیں۔ آخری امتحان، جس میں ’بیضاوی شریف‘ بھی تھی مولانا میر احمد حسن صاحبؒ امروہوی نے لیا اور پرچۂ جوابات پڑھ کر خوشی سے فرمایا کہ گو معقول کی بعض کتابیں باقی ہیں مگر دینیات کی تعلیم ختم ہو چکی، اس لیے بے اختیار میرا دل چاہتا ہے کہ اتباعاً للاسلاف اس کی دستاربندی کر دوں، اور پھر ایسا ہی کیا۔ اس وقت مولانا کی عمر صرف سولہ سال کی تھی۔
اسی سال ماہِ ربیع الثانی 1315ھ میں مولانا کا نکاح ہو گیا اور نکاح سے تین ماہ بعد مدرسۂ قومی سے سندِ تکمیل لے کر 24 رجب 1315ھ مطابق 19دسمبر1897ء کو لاہور روانہ ہوئے ۔ بڑے دن کی تعطیلات کے بعد ’اورینٹل کالج‘ کھلنے پر وہاں امتحان دے کر مولوی فاضل کلاس میں داخلہ لیا، جس کے پروفیسر مولانا مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی تھے ۔ 3اپریل 1898ء مطابق 11ذی قعدہ 1315ھ یومِ دو شنبہ سے امتحان شروع ہوا، جس کے پرچے چار دن میں ختم ہوگئے اور مولانا امتحان سے فارغ ہو کر اپنے خالو مظفر حسین صاحب کے پاس سیالکوٹ ہوتے ہوئے وطن آگئے ۔ سوا مہینے بعد 10ذی الحجہ کو عین عید کے دن لاہور سے خط آیا کہ تم تمامی طلبہ سے اوّل رہے اور اتنے نمبروں سے کامیاب ہوئے کہ مفتی عبد اللہ صاحب کے بعد اتنے نمبر کبھی کسی طالبِ علم کے نہیں آئے یعنی 600نمبروں میں 465۔
بعدہ مولانا محمد علی صاحب(ناظم ندوۃ العلماء) کے تقاضے پر مولانا لکھنؤ چلے گئے ، جہاں جلسۂ انتظامیہ کے فیصلے پر 26محرم 1317ھ سے ان کا تقرر ایک سو بیس روپئے مشاہرے پر دارالعلوم کی دوم مدرسی پر ہو گیا۔ چھ مہینے گزرے تھے کہ مولانا کے جسمانی و روحانی بزرگوں نے ان کی جسمانی دوری گوارا نہ کر کے قیامِ وطن پر مجبور کیا تو آخر رجب میں اس طرح رخصت ہوئے کہ طلبہ مولانا کی روانگی پر اور مولانا ان کی پریشانی دیکھ کر رو رہے تھے ۔
ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے بعد غالباً مولانا نے کسی ادارے میں مستقل تدریسی خدمات انجام نہیں دیں، بلکہ طباعت،تصنیف و تالیفاور تراجم کو اپنا مشغلہ بنالیا۔لکھنؤسے وطن آکر کچھ روپیہ قرض لیا اور 12جون 1900ء مطابق 14صفر 1318ھ کو ’خیر المطابع‘ نامی مطبع کھولا، جس میں اجرت پر دینی کتابیں طبع کرانے لگے اور ساتھ ہی مفید کتابوں کے تراجم میں مشغول ہوگئے ۔سب سے اول قرآن مجید کا سلیس اردو میں ترجمہ کیا ، متعدد تفاسیر وکتبِ معتبرہ سے مفید حواشی اس پر چڑھائے اور 1319ھ میں بہ صورتِ حمائل اس کو طبع کروایا۔ حق تعالیٰ نے اس کو مقبولیت بخشی اور وہ ہاتھوں ہاتھ ہدیہ ہو گیا۔ 1320ھ میں حمائل دوبارہ پہلے سے اچھی حالت میں طبع ہوئی اور اس کے ساتھ ہی سوانح محمدیہؐ جدید طرز پر مرتب کرکے ’اسلام‘ نام رکھ کر اسے طبع کروایا۔
1322ھ میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے ارشاد پر امام غزالیؒ کی ’اربعین‘ کا ترجمہ کیا اور بہ نام ’تبلیغِ دین‘ اس کو طبع کرایا۔ اس کے ساتھ ہی بچوں کے لیے بلا ترجمہ نہایت صاف اور صحیح قرآن مجید طبع کیا۔2محرم 1326سے اپنے دینی بزرگوں کے ارشاد اور احباب کے اصرار پر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی سوانح مرتَّب کرنی شروع کی اور شریعت و طریقت کے دو مستقل حصّے بنا کر بہ نام ’تذکرۃ الرشید‘ 30ذی الحجہ 1326ھ کو شایع کر دیے ۔ 1327ھ میں حضرت ممدوح کے دستی خطوط جو بعض طالبین، سالکین کے نام گئے تھے ، فراہم کر کے طبع کیے اور ’مکاتیبِ رشیدیہ‘ نام رکھا، جس میں اس خط کا بہ جنسہٖ فوٹو بھی شامل کیا جو شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب اور خلیفۂ اول مولانا خلیل احمد صاحب کے نام دیوبند گیا تھا۔
1331ھ میں مولانا کا کیا ہوا ترجمہ و حواشی بڑی تقطیعِ کلام مجید پر طبع ہوئے اور اسی درمیان میں ’قصۂ یوسف علیہ السلام‘تالیف کیا، جو سورۂ یوسف کی شرح تھی۔1332ھ میں ایک ماہ وار مذہبی رسالہ سہارنپور سے نکالنے کی تجویز ہوئی اور مولانا کی ادارت و مضمون نگاری میں ربیع الاول سے بہ نام ’الرشاد‘ اس کا اجرا ہوا، مگر اس کی عمر ایک سال سے زیادہ نہ ہوئی اور صفر 1333ھ میں اس سے دست بردار ہونا پڑا۔اسی درمیان میں رسالہ ’امداد السلوک‘ کا اردو ترجمہ ’ارشاد الملوک‘ کے نام سے طبع کروایا، اس کے بعد پیرانِ پیر کے مواعظ یعنی ’الفتح الربانی‘ کے ترجمے میں مشغول ہو گئے اور اسے نہایت سلیس ترجمہ کرکے حامل المتن بہ نام ’فیوضِ یزدانی‘ طبع کروایا۔ 1334ھ میں حمائل کے چوتھی مرتبہ طبع کی ضرورت ہوئی اور اس سے فارغ ہو کر اہلِ رنگون کی فرمائیش پر ’البصائر‘ کا ترجمہ شروع کر دیا، جو ’الجواہر الزواہر‘ کے نام سے دو ہزار طبع ہوا اور وہیں تقسیم ہو گیا کہ اکثر شائق اس کی زیارت سے بھی محروم رہے۔ 1338ھ میں ’فیوضِ یزدانی‘ کے چالیس وعظ کی جدید طرز پر شرح لکھی، جو بہ نام ’انوارِ سبحانی‘ طبع ہوئی۔ 1340ھ میں ’فیوض‘ اور ’تبلیغ‘ کو نظرِ ثانی کے بعد طبع کروایا۔مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور ایک عظیم عالمی شہرت یافتہ دینی درس گاہ ہے ، جس کی سرپرستی یقیناً قابلِ رشک اور عظیم منصب ہے ، اس پر مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کے ایما و حکم پر مولانا 1344ھ میں فائز ہوئے اور رکنِ شوریٰ کی حیثیت سے تا حیات یعنی تقریباً سولہ سال تک اس منصبِ جلیل پر فائز رہے ، اور انھیں خدمات کو کرتے کرتے یکم شعبان1360ھ بہ مطابق 25اگست 1941ء بہ روز دو شنبہ ، صبح چھ بجے انتقال فرما گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
صغر سن مفسر و مترجمِ قرآن
نثری ہو یا منظوم‘ ترجمہ نگاری سہل نہیں بلکہ دِقت طلب اور صبر آزماں کام ہے ۔ کسی بھی فن پارے کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کے عمل کو لفظِ ترجمہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، جس کے ذریعے مترجمہ فن پارے میں معانی کے تمام پہلوؤں کے ابلاغ و ترسیل کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے ، محض لفظی ترجمہ کر دینا کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہوا کرتا اور معاملہ جب قرآن مجید کے ترجمے کا ہو تو احتیاط کا تقاضا اور بھی بڑھ جاتا ہے ، اس لیے کہ اول تو عربی زبان کی وسعت دوسرے کلامِ ربانی کی فصاحت و بلاغت، یہ دونوں باتیں غایت درجے احتیاط کی متقاضی ہیں، اس کے باوجود اغلب یہ ہے کہ مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ کو اردو زبان میں سب سے کم عمر مترجم و مفسرِقرآن ہونے کا شرف حاصل ہے ۔مولانا نے تقریباً انیس سال کی عمر میں یہ عظیم خدمت انجام دی،جس پر بعضوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ ان میں تو ترجمۂ قرآن کی صلاحیت ہی موجود نہ تھی، محض دنیوی منفعت کی خاطر انھوں نے یہ کام کیا، جیسا کہ پروفیسر مجیب اللہ قادری کا خیال ہے :
’’مولوی عاشق الٰہی نہ تو کسی معروف مدرسے سے فارغ ہیں اور نہ اتنی دینی صلاحیت کے ماہر ہیں کہ20 سال سے بھی کم عمر میں قرآنِ کریم کا اردو ترجمہ کرلیا، یقیناً یہ تعجب خیز عمل معلوم ہوتاہے کہ ایک شخص جو صرف مولوی فاضل کی کتابیں پڑھا ہواہے ، اس میں کہاں سے یہ استعداد آگئی کہ اس نے قرآن پاک کا صرف20 سال کی عمر میں ترجمہ مکمل کرلیا۔ محسوس یہ ہوتاہے کہ اپنا مطبع اس لیے قائم کیا کہ ترجمۂ قرآن کو زیادہ سے زیادہ شایع کیا جائے لیکن یہ ترجمہ عام لوگوں میں مقبول نہ ہوسکا ۔ دوسرا تعجب یہ ہے کہ آپ نے اور کوئی قابلِ ذکر علمی تصنیف یادگا ر نہ چھوڑی جس سے آپ کی علمی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ ہو تاکہ واقعی آپ کم عمر میں ترجمۂ قرآن کرنے کے اہل تھے ۔‘‘
’اردو تراجمِ قرآن کا تقابلی مطالعہ‘کے عنوان سے یہ تبصرہ درجِ ذیل ویب سائٹ آور اردو ڈاٹ کام پر نظر نواز ہوا،جس میں پروفیسر صاحب کے قائم کیے ہوئے مذکورہ بالا اعتراضات درجِ ذیل چند وجوہ سے درست معلوم نہیں ہوتے ؛
(1)بلا تحقیق مولانا میرٹھی کی تعلیم و تربیت اور صلاحیتوں و کارناموں پرسوال اٹھایا جانا۔
(2)اول تو ’کسی مدرسے سے فارغ نہ ہونا‘ عدمِ صلاحیت پر دال نہیں، اصل فراغت نہیں بلکہ صلاحیت ہے ، دوم مولانا نے دینی و درسی نصاب کی با قاعدہ تکمیل کی ہے ، جس کا معترض کو شاید علم نہیں ہو سکا۔
(3)صرف مولوی فاضل کی کتابیں پڑھا ہوا‘یہ دعویٰ بھی بلا دلیل ہے ۔
(4) اپنا مطبع اس لیے قائم کیا کہ ترجمۂ قرآن کو زیادہ سے زیادہ شائع کیا جائے ‘یہ بھی محض الزام تراشی ہے ، جو معترض کی پست ذہنی کی غماز ہے۔ اہلِ علم اس طرح کے بے بنیاد الزام نہیں لگایا کرتے جن میں کسی کی ذات و اخلاص کو ہدف بنایا جائے اور جو بھی اشکال کرتے ہیں اس پر عقلی و نقلی دلائل قائم کرتے ہیں،جو یہاں ندارد ہیں۔
مذکورہ بالا اعتراضات کی حقیقت سمجھنے کے لیے اولاً مولانا کے وہ حالات جان لیناضروری ہے ، جو ہم ابتدامیں ذکر کر آئے ہیں، ثانیاً ’تذکرۃ المفسرین‘کا یہ اقتباس ملحوظ رہے توبہت سے اشکالات خود ہی رفع ہو جائیں گے :
’’ سولہ سال کی عمر میں درسِ نظامی کی کتابیں تکمیل فرما کر سندِ فراغت حاصل کر لی۔ ۔۔ دیگر تصانیف کے علاوہ قرآنِ عزیز کا ترجمہ اور حاشیہ لکھا جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ایک ایک کلمہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی نظر سے گزرا ہے ۔‘‘(ص:323)
اس اقتباس میں پروفیسر قادری کے تمام اعتراض کا اجمالی جواب آگیا اور واضح ہو گیا کہ
(1)مولانا میرٹھی ایک باصلاحیت اور عالم فاضل شخص ہیں اور ابتداے زندگی ہی سے انھیں علم کی فضا میسر آئی ہے ۔
(2)دوسرے یہ کہ مولانا میرٹھی اس زمانے میں بھی ایک روشن خیال اور مختلف علوم و فنون میں دل چسپی رکھنے والے شخص تھے ، عالم فاضل کی ڈگریاں حاصل کرنا ان کی اضافی خصوصیات ہیں۔
(3)تیسرے یہ ہے کہ ’ اپنا مطبع اس لیے قائم کیا کہ ترجمۂ قرآن کو زیادہ سے زیادہ شائع کیا جائے ‘اس میں اگر ترجمۂ قرآن کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے شکایت ہے تو یہ اعتراض خود حیران کُن ہے اور اگر اعتراض یہ ہے کہ اپنا خود کا کیا ہوا ترجمہ زیادہ سے زیادہ شایع کرنا مقصود تھا تو اس میں بھی ہمیں چنداں حرج معلوم نہیں ہوتا، ہر مصنف و مترجم اپنی قلمی کاوشوں کے لیے کوئی پلیٹ فارم تلاش کیا کرتا ہے ۔
(4)رہا یہ اعتراض کہ ’یہ ترجمہ عام لوگوں میں مقبول نہ ہوسکا ‘ محض دعویٰ بلا دلیل ہے جو درست نہیں۔اس لیے کہ اول تو مولانا میرٹھی کا بیان ہے:
سب سے اول میںنے قرآن مجید کا سلیس اردو میں ترجمہ کیا ، متعدد تفاسیر و کتبِ معتبرہ سے مفید حواشی اس پر چڑھائے اور 1319ھ میں بہ صورتِ حمائل اس کو طبع کرایا۔ الحمد للہ کہ حق تعالیٰ نے اس کو مقبولیت بخشی اور وہ ہاتھوں ہاتھ ہدیہ ہو گیا۔ 1320ھ میں حمائل دوبارہ پہلے سے اچھی حالت میں طبع ہوئی۔(الجواہر الزواہرقدیم)
دوسرے اگر پروفیسر صاحب کی بات مان بھی لی جائے تو اس کی اشاعت کا اہلِ علم و عوام کی طرف سے اصرار نہ ہونا چاہیے ، جب کہ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ حال ہی میں ایک بار پھر اس کی جدید اشاعت منظرِ عام پر آئی ہے ،نیز پروفیسر محمد نسیم عثمانی کا بیان ہے :
’’مولانا عاشق الٰہی میرٹھی [کا]اردو ترجمہ خیر المطابع، لکھنؤ میں 1320ھ مطابق1902ء میں چھپاتھا، اس کے بعد متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں۔‘‘(اردو میں تفسیری ادب)
عدمِ مقبولیت کے اعتراض کے ناقابلِ توجہ ہونے کے لیے ڈاکٹر نواز دیوبندی کی یہ وضاحت بھی ملاحظہ ہو :
’’ یہ ترجمہ نہایت سلیس اور صاف اردو میں ہے اور اہلِ علم میں مقبول ہے ۔ اس ترجمے کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کا ایک ایک حرف حضرت شیخ الہندؒ کی نظر سے گزرا ہے۔‘‘(سوانح علماے دیوبند)
(5)آخری بات یہ کہ’تعجب یہ ہے کہ آپ نے اور کوئی قابلِ ذکر علمی تصنیف یادگا ر نہ چھوڑی جس سے آپ کی علمی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ ہوتا‘یہ بھی پروفیسر صاحب کی جلد بازی یا عدمِ تتبع کا نتیجہ ہے ، اس لیے ہمیں خود ان کے اس تعجب پر تعجب ہے ، کیوں کہ آج سے تقریباً سوا سو سال قبل جب کہ کاغذ اور طباعت و اشاعت کی ایسی سہولیات میسر نہیں تھیں،مولانا میرٹھی سے ایک درجن سے زائد قلمی و علمی یادگار ہیں، جن کا مختصر تذکرہ اوپر ہم کر آئے ہیں، من جملہ ان کے حدیث کی ایک ضخیم کتاب ’جمع الفوائد‘ جس میں دس ہزار سے زائد حدیثیں ہیں، مولانا نے اس کا مکمل اردو ترجمہ کیا اور تشریحی نوٹ بھی قلم بند فرمائے ہیں،جس کے متعلق ڈاکٹر خالدمحمود کا کہنا ہے کہ ’دررِ فرائد اُردو ترجمہ جمع الفوائد، مولانا عاشق الٰہی نے یہ ترجمہ کیا ہے ۔ جمع الفوائد جیسی عظیم کتاب کو اُردو میں لے آنا ایک بڑا کام ہے ۔‘(آثار الحدیث)
مختصر یہ کہ مولانا میرٹھی اردو زبان کے سب سے کم عمر مترجمِ قرآن ہیں، انھوں نے فقط انیس سال کی عمر میں قرآن مجید کا مکمل ترجمہ مع فوائد و مختصر تفسیر پیش کیا، علاوہ ازیں حدیث کی ایک ضخیم کتاب ’جمع الفوائد‘ کو اردو میں منتقل کیا اور درجنوں اہم دینی کتابوں کی تصنیف و ترجمے کے ذریعے اہلِ علم و عوام سے دادِ تحسین حاصل کی۔ ان کا اصل میدان یقیناً دین و مذہب ہے ، اس کے باوجود ان کی متذکرہ خدمات سے یقیناً زبان و ادب میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے ۔
[email protected]
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here