کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہ اور اس کے فضائل و برکات

مفتی ندیم احمد انصاری

کلمۂ تقویٰ

حضرت ابی بن کعبؓحضرت نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں-﴿وَاَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى﴾ اور ان کو کلمۂ تقویٰ پر جمائے رکھا، اور وہ اسی کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے-اس میں کلمۂ تقویٰ سے مراد لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ ہے۔ [ترمذی]

اسلام کی تازگی کا ذریعہ

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے ابوہریرہ ! اسلام کو تازہ کرتے رہو لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی شہادت کے ساتھ۔[کنزالعمال]

ایمان کی تجدید

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر میرے بندے میری اطاعت کرنے لگیں تو میں رات کو انھیں بارش سے سیراب کروں، دن میں ان پر سورج کو روشن کروں، اور انھیں بادلوں کی گرج نہ سناؤں۔ اور حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حسنِ ظن بھی حسنِ عبادت کا ایک حصہ ہے۔ اور حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہا کرو! کسی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! ہم اپنے ایمان کی تجدید کیسے کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ کثرت سے کہا کرو۔[مسند احمد]

کلمے کی برکت سے مغفرت

حضرت شداد بن اوسؓسے روایت ہے، جس کی تصدیق مجلس میں موجود حضرت عبادہ بن صامتؓنے بھی فرمائی کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ ﷺنے پوچھا: کیا تم میں کوئی شخص اجنبی اہلِ کتاب میں سے ہے؟ ہم نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسول !آپ ﷺنے دروازے بند کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ہاتھ اٹھا کر لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ کہو۔ چناں چہ ہم نے اپنے ہاتھ بلند کر لیے۔ تھوڑی دیر بعد آپ ﷺنے اپنے ہاتھ نیچے کر کے فرمایا: الحمدللہ ! اے اللہ ! تو نے مجھے یہ کلمہ دے کر بھیجا تھا، مجھے اسی کا حکم دیا تھا، اس پر مجھ سے جنت کا وعدہ کیا تھا اور تو وعدے کے خلاف نہیں کرتا! پھر فرمایا: خوش ہوجاؤ کہ اللہ نے تمھاری مغفرت فرما دی۔[مسند احمد]

ایمان کا مزہ دینے والا کلمہ

حضرت عبداللہ بن معاویہ غاضری سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین باتیں ہیں جو شخص ان کو کرے گا وہ ایمان کا مزا پائے گا؛ (۱) صرف ایک اللہ کی عبادت کرے (۲) لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ کا اقرار کرے (۳)ہر سال اپنے مال کی زکوۃ خوشی خوشی ادا کرے، زکوۃ میں بوڑھا، خارشی، بیمار اور گھٹیا جانور نہ دے بلکہ اوسط درجے کا دے کیوں کہ اللہ تعالیٰ تم سے محض عمدہ مال چاہتا ہے اور گھٹیا مال کو پسند نہیں کرتا۔[ابوداود]

جہنم حرام، جنت واجب

حضرت سہیل بن بیضاؓبیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ سفر کر رہے تھے، میں آپ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے سہیل بن بیضا! آپ ﷺنے دو یا تین مرتبہ بلند آواز میں پکارا۔ ہر مرتبہ حضرت سہیلؓنے آپ کو جواب دیا۔ جب لوگوں نے آپ ﷺکی آواز سنی تو انھیں اندازہ ہو گیا کہ آپ ﷺ لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ آگے تھے وہ رک گئے اور جو پیچھے تھے وہ آکر شامل ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب وہ لوگ اکٹھے ہو گئے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی گواہی دے ، اللہ تعالیٰ اُس کو جہنم پر حرام قراردے دے گا اور اس کے لیے جنت کو واجب کر دے گا۔[مجمع الزوائد]

توبہ کے ساتھ کلمۂ طیبہ کی برکت

حضرت ابوذرؓ نے بیان کیاکہ میں حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسمِ مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے۔ پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہوچکے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس بندے نے بھی کلمہلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا، وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو؟ چاہے اس نے چوری کی ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے پھر عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو؟ چاہے اس نے چوری کی ہو؟ آپ ﷺنے فرمایا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے پھر عرض کیا: چاہے اس زنا کیا ہو؟ چاہے اس نے چوری کی ہو؟ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو! حضرت ابوذرؓ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو حضرت نبی کریم ﷺ کے الفاظ:وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍّ! ضرور بیان کرتے۔امام بخاریؒ نے فرمایا: یہ صورت کہ (صرف کلمے سے جنت میں داخل ہوگا) اس وقت ہوگی جب موت کے وقت یا اس سے پہلے (گناہوں سے) توبہ کر لی ہو اور لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہا ہو،اس کی مغفرت ہوجائے گی۔ [بخاری]

اللہ تعالیٰ کے عذاب سے امن

ایک حدیثِ قدسی ہے، حضرت علی بن ابی طالبؓفرماتے ہیں؛ میں نے حضورﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: آپﷺ فرما رہے تھے کہ میں نے جبریلؑسے سنا؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کے لایق نہیں ۔ اے میرے بندو ! جو میرے پاس اس حال میں آیا کہ اخلاص کے ساتھ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی شہادت دے رہاہو، وہ میرے قلعےمیں داخل ہوجائے گا، اور جو میرے قلعے میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے مامون ہوگیا۔[کنزالعمال]

کلمۂ طیبہ سے میزان بھاری ہوجائےگا

حضرت ابوبکر صدیقؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ استغفار کے وقت تمھارےگناہوں کو معاف کردیتے ہیں، جس شخص نے سچّی نیت کے ساتھ استغفار کیا اس کی مغفرت ہوجاتی ہے، جس نے لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہا اس کا میزان بھاری ہوجاتا ہے، جس نے مجھ پر درود بھیجا قیامت کے دن میں اُس کی شفاعت کروں گا۔[کنزالعمال]

میزانِ عمل کو جھکانے والا کلمہ

حضرت ابن عمرو ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن میزانِ عمل قایم کیے جائیںگے، ایک آدمی کو لا کر ایک پلڑے میں رکھاجائے گا، اس پر اس کے گناہ لاد دیے جائیںگے اور وہ پلڑا جھک جائےگا اور اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائےگا۔ جب وہ پیٹھ پھیرے گا تو رحمان کی جانب سے ایک منادی پکارے گا: جلدی نہ کرو، جلدی نہ کرو، اس کی ایک چیز رہ گئی ہے! چناں چہ کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس میں لکھا ہوگا: لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ،پھر اسے اس آدمی کے ساتھ ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ جھک جائےگا۔ [مسند احمد]

لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُکی برکت

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اخلاص کے ساتھ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہتا ہے اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (کلمہ) عرش تک پہنچ جاتا ہے اور یہ اسی صورت میں ہوتا ہے کہ کہنے والا کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔[ترمذی ]

اخلاص کا مطلب

حضرت زید بن ارقمؓسےروایت ہے،جس نے اخلاص کے ساتھ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ دریافت کیا گیا: کلمے کا اخلاص کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: وہ کلمہ تمھیں اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے روک دے۔[مجمع الزوائد]

نظرِ رحمت کا موجب

ایک حدیث میں ہے: کسی بندےنے اخلاص کے ساتھ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ نہیں کہا مگر یہ کہ وہ کلمہ اوپرجاتا ہے اور اُس کو کوئی حجاب مانع نہیں ہوتا، جب وہ بارگاہِ الٰہی میں پہنچتا ہے تو اللہ اس کے کہنے والے کی طرف رحمت فرماتے ہیں اور اللہ پر حق ہے کہ جب بھی اپنے کسی توحید پرست کی طرف نظر فرمائیں تو رحمت کی نظر فرماتے ہیں۔[کنزالعمال]

اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے والا کلمہ

عطا بن سائب، حضرت سعید بن جبیر ؓ اور حضرت ابن عباسؓمیں ایک سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جبریل علیہ السلام فرعون کے منھ میں مٹی ڈال رہے تھے تاکہ وہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ نہ کہہ سکے اور اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہ کردیں، یا فرمایا کہ اس خوف سے کہ اللہ کی رحمت اسے گھیر نہ لے۔[ترمذی]حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کو سمندر میں غرق کیا تو وہ کہنے لگا: میں ایمان لایا کہ اس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔ جبریلؑ نے فرمایا: اے محمد ﷺ! کاش آپ مجھے اس وقت دیکھتے جب میں اس کے منھ میں سمندر کا کیچڑ ٹھونس رہا تھا تاکہ (اس کلمے کے سبب) اللہ کی رحمت اسے گھیر نہ لے۔ [ترمذی]

گناہ کو مٹا دینے والا کلمہ

حضرت ام ہانیؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی عمل لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ سے بڑھ نہیں ہو سکتا اور یہ کسی گناہ کو (باقی) نہیں رہنے دیتا۔[ابن ماجہ]

کلمۂ طیبہ غلط بات کا کفارہ ہے

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص قسم کھائے اور قسم میں لات وعزی کا نام لے تو اسے لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُکہنا چاہیے۔[بخاری]

صبح سے شام تک کے گناہوں کا کفارہ

حضرت جابرؓسے روایت ہے: جس نے صبح کے وقت لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہا، پھر شام کے وقت بھی کہا، تو ایک منادی آسمان سے نِدا دیتا ہے: آخری کلمے کو پہلے کے ساتھ ملاؤ اور دونوں کے درمیان جو بھی (صغیرہ گناہ) ہے اُس کو چھوڑ دو۔[کنزالعمال]

کلمے کے بارے میں سوال ہوگا

حضرت انس بن مالکؓ-﴿‏ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ﴾ ‏‏‏تمھارے رب کی قسم! ہم ایک ایک کر کے ان سب سے پوچھیں گے۔‏‏‏‏﴿عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ کہ وہ کیا کچھ کیا کرتے تھے-کی تفسیر میں حضرت نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں: اس سے مراد لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ ہے۔ [ترمذی]

قبر میں سوال اور اس کا جواب

حضرت برا بن عازبؓسے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قبر میں مسلمان سے جس وقت سوال کیا جاتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے: لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لایق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، الحدیث۔ [بخاری]

فلاح دینے والا کلمہ

طارق بن عبداللہ محاربیؓفرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ذو المجاز بازار سے گزرتے ہوئے دیکھا، میں اپنا مال بیچ رہاتھا، آپ ﷺ گزرے اور آپ پر سرخ جبہ تھا، میں نے آپ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو ! لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ کہو فلاح پا جاؤ گے۔ اور ایک شخص آپ ﷺ کو پیچھے سے پتھر مار رہا تھا، اس کی ایڑھیاں گندم گوں تھیں، وہ ابو لہب تھا۔[سنن کبری بیہقی]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here