اعتکاف کرنے والے کے لیے خاص رعایتیں

اعتکاف کرنے والے کے لیے خاص رعایتیں
ندیم احمد انصاری

اعتکاف یعنی رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سنت و ثواب کی نیت سے مسجد میں ٹھیرنا احادیثِ مبارکہ کی رو سے عظیم ثواب کا باعث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فضیلت بھی بیان فرمائی اور اپنے اصحاب کے ساتھ خود ہر سال اعتکاف کرکے اس کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں اس جانب بے توجہی عام ہے، اکثر شہروں کی گَھنی آبادی میں سے چند افراد ہی مسجد میں اعتکاف کرتے ہیں۔ کچھ تو اس لیے نہیں کرتے کہ انھیں اعتکاف سے گویا ایک خوف سا لگتا ہے، ان کا ماننا ہے کہ اعتکاف میں سر اٹھا کر یا کھڑکی سے آسمان کی طرف محض دیکھ لینے سے ان کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا یا اسی طرح اور کچھ ، دیگر کچھ ایسے حضرات بھی ہیں جو اس لیے اعتکاف نہیں کرتے تاکہ آزاد رہ کر دور سے اعتکاف کرنے والوں کو نصیحت بلکہ فضیحت کر سکیں کہ دیکھو اعتکاف میں یہ کرتے ہیں اور یہ نہیں کرتے۔ انھوں نے شاید اعتکاف کو اپنے زعم میں ایک ایسی چیز سمجھ رکھا ہے کہ پوری زندگی اور پورے سال دنیا میں چلنے پھرنے والا محض اعتکاف کی نیت کرلینے سے دوسری دنیا کا آدمی یعنی ایلین بن جاتا ہے، جس کے ضروریات و احساسات سب ختم ہو جاتے ہیں، اب اسے کسی ذی روح سے واسط نہ ہونا چاہیے، بس وہ معتکَف کے پردوں میں چھپا ہوا دن و رات کے ہر ہر گھنٹے اور ہر ہر لمحے میں اپنے رب کو یاد کرتا رہے۔ اسے نہ اس خاص گوشے سے باہر نکلنے کی اجازت ہے اور نہ کسی سے کچھ بول سکنے یا کچھ کر سکنے کی۔ اسی طرح کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے یہ مختصر مضمون سپردِ قلم کیا گیا، جس میں معتبر اہلِ فتویٰ کے ارشادات کو حسبِ ضرورت مع ترمیم و تغیر قرینے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ ان مسائل کو سمجھنے اور زیادہ سے زیادہ اعتکاف کی برکتوں سے محظوظ ہونے کی ہم سب کو توفیق نصیب فرمائے۔آمین

پوری شرعی مسجد میں کہیں بھی رہے

اکثر لوگ سمجھنے ہیں معتکِف ہر وقت معتکَف کے گوشے میں دبکا بیٹھا رہے، جب معتکف کے لیے مسجد میں کسی ایک جگہ ہی بیٹھنا لازم نہیں، (شرعی)مسجد کے کسی بھی حصّے میں جانے کی اجازت ہے، مثلاً اندر گرمی ہو تو صحن میں بھی آسکتا ہے۔(فتاویٰ محمودیہ مخرج) یعنی وہ جس مسجد میں معتکف ہے اس تمام مسجد میں جس جگہ چاہے رہ سکتا ہے اور سو سکتا ہے۔(فتاویٰ دارالعلوم) معلوم ہوا ہر وقت گوشے میں رہنا ضروری نہیں، بلکہ عبادتِ نافلہ و ذکر کرنے کے لیے اس میں رہنا بہتر ہے، باقی اوقات میں جہاں چاہے اٹھے بیٹھے۔(امداد الاحکام)

بشری تقاضوں کے لیے مسجد سے نکلنا

فقہا نے واضح طور پر لکھا ہے کہ چھوٹا بڑا استنجا تو بہ ہر حال مسجد سے باہر ہی ہوگا، غسلِ جنابت بھی باہر کرے گا، سحر و افطار (اور طعام) کی مسجد میں اجازت ہے اس کے لیے باہر نہ جائے، کوئی لانے والا نہ ہو تو مکان سے جا کر لے آئے، استنجا کے لیے اگر اپنے گھر ہی کا عادی ہو تو وہاں چلا جایا کرے۔(فتاویٰ محمودیہ مخرج)اسی طرح جو عورت گھر میں معتکف ہو،اگر اس کے لیے لیے کھانا پکانے والا کوئی نہ ہو تو مسجدِ بیت میں ہی وہ کھانا بھی پکا سکتی ہے۔(ایضاً)

مسجد میں ریح خارج کرنا

عام حالات میں فقہاء نے مسجد میں اخراجِ ریح کو منع کیا ہے کیوں کہ اس سے بدبو پھیلتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بدبو دار چیزوں کے لانے کو منع فرمایا ہے اور معتکف کو طبعی حوائج کے لیے باہر نکلنا جائز ہے اور یہ بھی طبعی حوائج میں داخل ہے ، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اگر پہلے سے اس کا تقاضا (محسوس) ہو تو استنجا کے بہانے باہر آجائے ، تاہم یہ حکم ازراہِ استحباب ہے واجب نہیں ، اس لیے جس شحص کو عذر ہو اس کے لیے مسجد سے باہر نہ آنے کی بھی گنجائش ہے،ہاں اگر کسی شخص کو گیسٹک کی بیماری ہو اور باربار خروجِ ریح کی نوبت آتی ہو اوراس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اعتکاف بھی کر رہا ہو ، تو خیال ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا اعتکاف میں نہ بیٹھنا بہتر ہے کیوں کہ اعتکاف سنتِ کفایہ ہے ، یعنی اگر ایک شخص نے بھی اعتکاف کر لیا تو سب لوگ ترکِ سنت کے گناہ سے بچ جائیں گے ، اور ایسے شخص کے اعتکاف کرنے میںبظاہر مسجد کی بےاحترامی معلوم ہوتی ہے اور اس سے اجتناب زیادہ اہم ہے۔ (کتاب الفتاویٰ)

سگریٹ، بیڑی اور تمباکو کا استعمال

اگر بغیر سگریٹ کے گذارہ نہیں تو اس کے لیے بھی باہر جا سکتا ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ پیشاب پاخانے کے لیے جائے تو یہ کام بھی کرلے، پھر منہ خوب مسواک سے صاف کرکے آجائے۔( فتاویٰ محمودیہ مخرج)یعنی اعتکاف کی فضیلت بھی بہت ہے اور منفعت بھی بہت ہے، اس کی طرف اہتمام سے توجہ کی جائے، جب قضاے حاجت (پاخانہ پیشاب) کے لیے رات کے وقت مسجد سے باہر جائے تو وہاں یہ حاجت (بیڑی سگریٹ) بھی پورا کرتا آئے، اس کے بعد وضو اور مسواک وغیرہ سے منہ خوب صاف کرے، بدبودار منہ لے کر مسجد میں نہ آئے۔(ایضاً)نیز تمباکو پان وغیرہ مسجد میں کھا سکتا ہے، جب کہ بدبو دار نہ ہو۔(ایضاً)مختصر یہ کہ بیڑی ، سگریٹ اور گٹکھا استعمال کرنا عام حالات میں بھی کراہت سے خالی نہیں ، تاہم اگر اس کا ایسا عادی ہو چکا ہو کہ اس کے استعمال کے بغیر چین نہ آتا ہو ، یا کوئی شخص ایسا خوگر ہو کہ اس کے بغیر اجابت نہ ہوتی ہو ، تواب اس کی حیثیت کھانے پینے کی طرح طبعی ضرورت کی ہوگی اور طبعی ضرورت کے لیے معتکف مسجد سے باہر جاسکتاہے،اس لیے اس مقصد کی غرض سے بھی باہر نکل سکتا ہے ،البتہ پھر اچھی طرح منہ صاف کر کے مسجد میں آئے، کیوں کہ بد بودار چیز کھاکر مسجد میں آنے کی ممانعت ہے ۔(کتاب الفتاویٰ)

دعا و سلام اور ملاقات

معتکف بیت الخلاء سے نکل کر کسی (غیر طبعی/شرعی/اضطراری)کام کے لیے مستقلاً نہ ٹھہرے، چلتے چلتے (رفتار سُست کرکے)ضروری بات، سلام و دعا کر سکتا ہے، کوئی لانے والا نہ ہو تو ضروری اشیا مکان سے لا سکتا ہے۔(فتاویٰ محمودیہ مخرج)مسجد میں باہر کے حضرات ملاقات کے لیے آئیں تو ان سے بھی بات چیت، خیریت اور دوسرے غائب حضرات کے حالات معلوم کر سکتا ہے۔(ایضاً)خطوط غیرہ کے جواب لکھنے کی نوبت آئے تو ڈاک مسجد میں لا کر پڑھے، مسجد میں ہی جواب لکھے۔(ایضاً)

درس و تدریس اور تعلیم

معتکِف کومعتکَف کے پردے سے باہر یعنی مسجد کے جماعت خانے (جو شرعی مسجد میں ہی داخل ہو) میںبھی نمازِ سنت و نفل و تلاوتِ قرآن یا کسی کتاب کا دیکھنا اور جماعت خانے میں کتاب کا سنانا ، اذان دینا، تکبیر کہنا، وعظ کہنا، عمدہ اخبار کا دیکھنا اور دینی مضامین کا ترجمہ کرنا سب درست ہے۔(فتاویٰ محمودیہ مخرج) اسی طرح وہ قرآن مجید ناظرہ (وغیرہ حالتِ اعتکاف میں بلا مضایقہ)پڑھا سکتا ہے، لیکن اگر بچّے اتنے چھوٹے ہوں کہ پاکی ناپاکی کو نہ سمجھتے ہوں تو ان کو مسجد میں نہ بٹھایا جائے۔(ایضاً)

حجامت بنانا یا بنوانا

معتکف مسجد کے فرش پر بیٹھ کر حجامت بنوا سکتا ہے، البتہ بال وہاں نہ گرنے پائیں۔(فتاویٰ محمودیہ مخرج)یعنی اپنی حجامت خود بنانا جائز ہے، حجام سے بنوانے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ بدون عوض کام کرتا ہے تو مسجد کے اندر اس سے بنوانا بھی جائز ہے اور اگر بالعوض کام کرتا ہے تو معتکف مسجد کے اندر رہے مگر حجام مسجد سے باہر بیٹھ کر حجامت بنوئے، مسجد کے اندر اجرت سے کام کرنا جائز نہیں۔(احسن الفتاویٰ)

دنیوی معاملات و علاج و معالجہ
مسجد دنیوی باتوں، کاروبار اور معاملات کے لیے نہیں بنائی گئی، نہ مطب کے لیے بنائی گئی ہے، اس لیے یہ سب چیزیں مسجد میں مکروہ ہیں، مگر ان سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ ضرورت کے موقع پر کوئی دوسرا آدمی کام کرنے والا نہیں اور مثلاً دکان دار مسجد میں نماز کے لیے آیا، اس سے معتکف نے کہہ دیا کہ فلاں چیز اپنی دکان سے ہمارے مکان پر بھجوا دو، تو اس کی اجازت ہے، اسی طرح کوئی مریض اتفاقیہ آیا، اس کو حکیم صاحب نے دوا تجویز کر دی جو ان کے مطب سے مل گئی، تو مضائقہ نہیں، مگر مستقل یہ مشغلہ وہاں اختیار نہ کیا جائے۔ (فتاویٰ محمودیہ مخرج)

چہل قدمی و وزرش

چہل قدمی ایک تو تفریحاً کی جاتی ہے ، اس نقطۂ نظر سے مسجد میں ٹہلنا مناسب نہیں ، البتہ بعض لوگوں کو طبی اغراض کے تحت چہل قدمی کرنی ہوتی ہے، خاص کر ریاحی تکلیف یا شوگر وغیرہ کی وجہ سے ، اس مقصد کے تحت چہل قدمی کرنا درست ہے ،کیوں کہ یہ علاج کے قبیل سے ہے اور انسان کی بنیادی حاجات میں داخل ہے اور معتکف کے لیے مسجد میں ضروری امور انجام دینے کی اجازت ہے (البتہ ہیئت میں مسجد کے آداب ملحوظ رکھے)۔ (کتاب الفتاویٰ)حتی کہ اگر کوئی شخص روزانہ ورزش کا عادی ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے، یعنی مسجد میں ورزش کرنا اصلاً تو خلافِ ادب ہی ہے، لہٰذا زمانۂ اعتکاف میں اس کو ترک کر دے اگر تکلیف نہ ہو، اگر تکلیف زیادہ ناقابلِ برداشت ہو تو بہ مجبوری خلوت کے وقت کر لیا کرے۔(امداد الاحکام)

پلنگ یا چارپائی پر سونا

اب تو اگر اعتکاف کرنے والا گدّا ڈال کر بھی سونا چاہے تو اسے تیکھی نظروں سے دیکھا جاتا ہے کہ اللہ کے گھر میں دیکھو کیسے ٹھاٹھ کرتا ہے، جب کہ علما نے لکھا ہے کہ معتکف اپنے اعتکاف کی جگہ چار پائی بچھا سکتا ہے اور اس پر لیٹ سکتا ہے، مگر آج کل عرفاً مسجد میں چار پائی بچھانا خلافِ احترام سمجھا جاتا ہے، اس لیے احتیاط چاہیے۔(فتاویٰ محمودیہ)

فون کا استعمال

یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے کہ ضرورت کے تحت اعتکاف میں فون لانے یا گھر پر فون کرنے کو بھی بالکل عیب سمجھا جاتا ہے، جب کہ حق بات یہ ہے کہ حالتِ اعتکاف میں فون وغیرہ مسجد میں لانے سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے، لیکن دینی یا جائز دنیوی ضرورت کی وجہ سے مجبوراً لانا پڑے تو اس میں بیکار باتیں نہ کریں‘ صرف ضرورت کی بات کرکے بند کردیں۔( مجموعہ فتاوی دار العلوم کراچی)

بیوی سے گفتگو

اسی طرح فون پر یا بالمشافہ بیوی سے بات چیت کرنے کی بھی اجازت ہے، معتکف کے لیے صرف جماع اور دواعیِ جماع کی ممانعت ہے ، ملاقات اور بات چیت میں قباحت نہیں ، جب کہ (شوہر)مسجد کے اندر ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حالتِ اعتکاف میں جاکر ملاقات کرنا ثابت ہے اور بخاری شریف میں ایک سے زیادہ مواقع پر یہ روایت آئی ہے۔(بخاری، کتاب الفتاویٰ) تاہم حالتِ اعتکاف میں بیوی سے پیار و محبت کی باتیں کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔(فتاویٰ حقانیہ)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here