ندیم احمد انصاری
ایک دو روز کا قیام
فریدہ نے اپنی امی سے فون پر پوچھا:چچا دہلی میں کہاں رہتے ہیں؟امی نے کہا : شاید اوکھلا میں،میں کبھی وہاں گئی نہیں، تیرے ابّو گانو سے آتے ہوئے، ان سے مل آتے تھے۔کیا ان کے یہاں ایک دو روز کے لیے رہنے کا انتظام ہو سکتا ہے؟میں اور میرے شوہر ایک ضروری کام سے دہلی جانے والے ہیں، لیکن قیام کا مسئلہ ہے۔ فریدہ نے اپنی ماں سے درخواست کے لہجے میں پوچھا۔دس سالوں سے تیرے چچا وہاں رہتے ہیں، نہ وہ ہمارے یہاں ممبئی آئے، نہ ہم کبھی ان سے ملنے دہلی گئے۔ اچانک یوں منہ اٹھا کر انھیں قیام کے انتظام کے لیے کہوں‘ تو کیسا لگے گا؟
فریدہ کی ماں اپنی بیٹی کو سمجھانے لگی۔
۱۲؍۱۱؍۲۰۱۸ء
بے چاری
جوہو بیچ جاتے ہوئے جب گاڑی ہرا سگنل ہونے پر چلنے لگی، تو شیشے سے باہر راستے پر زید نے دیکھا کہ ایک خاصی موٹی لڑکی کسی ریسٹورنٹ کی وردی پہنے ہوئے،پوری جان لگا کر ایکٹوا اسکوٹر دوڑاتے ہوئے ، اپنی ہی دھن میں، اس کی کار کے قریب سے گزری۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ’ڈلیوری گرل ہوگی‘۔زید نے اس سے قبل ایسا کام کرتے ہوئے لڑکوں تو بہت دیکھا تھا، لیکن کسی لڑکی کو نہیں۔اس نے حیرت و استعجاب کے ساتھ اپنی امی سے کہا : اس لڑکی کو دیکھا ؟ وہ آہستہ سے بولیں: کوئی پریشان ہوگی، بے چاری!
۱۵؍۱۱؍۲۰۱۸ء
حادثہ
حمزہ تین بجے مجھ سے ملنے والا تھا۔ مجھے انتظار کی صعوبت سے نہ گزرنا پڑے ، اس لیے اس نے ڈھائی بجے کے قریب میرے موبائل پر فون کرکے کہا : آج میں نہیں مل سکوں گا۔ میرے چچازاد بھائی کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں نے جواباً انا للہ اور تعزیت کے کلمے کہے اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ اگلے دن جب حمزہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا : اچانک تمھارے بھائی کا انتقال کیسے ہوا؟ کیا اسے کچھ مرض لاحق تھا؟اس نے بتایا : میرا چچازاد بھائی تندرست تھا۔ اسے دیونار میں کچھ کام تھا۔ اس نے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے میرے ابا یعنی اپنے چچا کو راضی کیا، جب کہ وہ منع کر رہے تھے۔ پھر دونوں چچا بھتیجے بائک پر سوار ہو کر نکلے۔ دیونار میں ان کی بائک کو ایک بس سے ہلکی سی ٹکر لگی۔بائک میرے ابا چلا رہے تھے۔ انھوں نے بائک سنبھالتے ہوئے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو خدا جانے کب بھائی نیچے گرا ہوا تھا۔اس کے سر پر بس کا ٹایر چڑھ چکا تھا، اور اس کا دماغ باہر نکلا پڑا تھا۔
۳؍۱۲؍۲۰۱۸ء
کیا تم مجھے جانتے ہو؟
صدف ایک پڑھی لکھی اور نوکری پیشہ لڑکی ہے ، لیکن ان جان مَردوں سے بے وجہ بات چیت سے گریز کرتی ہے۔وہ طے شدہ وقت پر گھر سے آفس اور آفس سے گھر آتی جاتی ہے۔ایک ادھیڑ عمر کا شخص، جس کی دکان اس کی گلی کے موڑ پر ہی تھی، کچھ دنوں سے اس کے لوٹنے کے وقت بالکل راستے میں کرسی ڈال کر بیٹھ جایا کرتا تھا، اور جب بھی وہ گزرتی ،بلاوجہ اس سے کچھ بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ محض کوئی اتفاق تھا یا منصوبہ، یہ تو نہیں پتہ، لیکن صدف اسے اتفاق سمجھنے کو تیار نہ تھی۔ ویسے اس آدمی نے کبھی کوئی بے ہودہ حرکت تو نہیں کی، لیکن صدف کو روزانہ اس کا یوں ٹوکنا کھلنے لگا تھا۔ایک دن جب وہ آفس سے لوٹی، تو اس آدمی نے اپنی دکان پر ٹنگ رہے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کچھ لے لو! صدف اس سے تنگ آچکی تھی، وہ پوری طاقت کے ساتھ چلّا کر بولی : جسے تم سے کچھ خریدنا ہوگا، خرید لے گا۔ کیا تم مجھے جانتے ہو، جو بار بار مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہو؟ چند مرد اور عورتیں جو یہ سب دیکھ رہے تھے ، اس کے چلے جانے کے بعد اِدھر اُدھر ہو گئے۔
۳؍۱۲؍۲۰۱۸ء
کیا آفت پڑ رہی؟
گھٹنوں سے قدرے نیچی لنگی باندھے اور پوری آستین کی ڈھیلی ڈھالی شرٹ پہنے ہوئے تقریباً پچپن ساٹھ سال کا ایک بوڑھا شخص اسٹیشن سے باہر نکلتے ہوئے، اپنی اولاد کی کرتوت سے نالاں،اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا : ہم نے کیا نہ کرا؟ دکان بھی کری ! بھٹی بھی لگائی! اب بھی کر لیں گے ! پہلے جادا کرا کریں تھے، اب تھوڑا کم کر لیں گے! جب تک جندگی ہے کچھ تو کرنا ہی پڑے ہے!
۸؍۱۲؍۲۰۱۸ء
عقل کا زوال
ارسلان دہرادون کی ایک فلم اکیڈمی سے کوئی فلم میکنگ کورس کر کے ممبئی میں قسمت آزمانے کے لیے آیا تھا۔ اسے فلمی دنیا کے ستاروں اور قلم کاروں کی زیارت کا انتہائی شوق تھا۔ کسی طرح جگاڑ لگا کر وہ ایک دن نوید اختر کے بنگلے پر پہنچ گیا۔ انھوں نے فراخ دلی سے ملاقات کی۔دورانِ گفتگو جب دونوں ذرا کھلنے لگے تو ارسلان سے نوید اختر صاحب نے پوچھ لیا: برخوردار!کیا کسی نشے کی لت ہے؟ اس نے کہا : نہیں۔نوید صاحب کہنے لگے : اس چمکتی دنیا میں بس نشے سے پرہیز کرنا۔ نشہ اور شراب عقل کو خراب کر دیتے ہیں۔ یہ بات ہم لوگوں کو بہت دیر سے سمجھ میں آئی۔
۸؍۱۲؍۲۰۱۸ء
لوکل ٹرین والے
ممبئی میں لوکل ٹرین عوام کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ کوئی مالی تنگی تو کوئی سرعتِ رفتار کے سبب اس میں سفر کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ لوکل ٹرین میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ روزانہ سفر کرتے ہیں کہ حکومت کو ایک خطیر رقم اسی سے ملتی ہوگی۔میرا دوست نوین روزگار کے سلسلے میں روزانہ نالاسوپارہ سے باندرہ آتا جاتا تھا۔ آج جب وہ باندرہ میں ہی تھا، اس کے گھر سے فون آیا کہ پاپا اچانک اس دنیا سے کوچ کر گئے۔اس نے مجھے بھی اس حادثے کی خبر دی، ہم دونوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جلدی سے ٹرین لی اورروانہ ہو گئے۔جب ہم گھر سے نکلے تھے، اس کے پاپا بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔انھیں دل کا دورہ پڑا، اور وہ آن کی آن میں پرلوک سدھار گئے۔ نوین پاپا کی یادوں کھویا ہوا تھا، اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ لوکل ٹرین میں کئی مہینوں بلکہ سال بھر سے صوتی اشتہار شروع جاری ہیں، جو کافی تیز آواز میں بجائے جاتے ہیں۔ جس سے امتحان دینے جا رہے طلبہ، مریضوں اور ضروری گفتگو وغیرہ کرنے والے تمام ہی لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، لیکن اکثر کوئی کچھ بولتا نہیں۔ نوین بھی روزانہ یہ آوازیں سنا کرتا تھا، لیکن برداشت کر لیتا تھا۔آج وہ اپنے پاپا کے غم میں نڈھال تھا، جب یہ آوازیں بار بار آنے لگیں، وہ تاب نہ لا کر بہت زور سے بولا : چاہے کسی کا باپ مر جائے، انھیں اپنے اشتہارسے مطلب! عوام کو پاگل کر کے چھوڑیں گے یہ لوگ! کوچ میں بیٹھے سب سوار اس کی طرف دیکھنے لگے۔
۱۲؍۱۲؍۲۰۱۸ء
ہینڈل
کئی مہینوں سے سودا سلف لینے جاتا ہوں تو کپڑے کا تھیلا ساتھ رکھ لیتا ہوں۔ سنا ہے کوئی شخص کھلے عام پلاسٹک کی تھیلی لے کر جاتے ہوئے نظر آجائے تو اسے پانچ ہزار تک کا جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے ۔کل شام بہت دنوں کے بعد اپنے ایک مشفق استاذ سے ملنے گیا تو خیال آیا کہ ان کی خدمت میں بہ طور ہدیہ مٹھائی پیش کر دوں۔ کپڑے کا تھیلا تو ساتھ تھا نہیں، کالج بیگ کندھوں پر لٹکا ہوا تھا۔مٹھائی والے سے کہا کہ مٹھائی اچھے سے پیک کر دے، تاکہ بیگ میں بہ آسانی رکھ لوں۔اس نے مٹھائی کا ڈبا سلیقے سے پیک کیا اور ایک ایسی تھیلی میں اسے ڈالا، جو شکل و صورت میں بعینہٖ اُنھی تھیلیوں جیسی تھی، جنھیں چند ما قبل ممنوع قرار دے کر بند کیا جا چکا تھا ۔میں نے دکان دار سے کہا : پلاسٹک کی تھیلی اب تک چل رہی ہے ؟یارکہیں پکڑوا تو نہیں دو گے ؟ اس نے معصومیت جواب دیا : اس میں ہینڈل نہیں ہے۔میں اسے اپنے بیگ میں رکھتے ہوئے سوچنے لگا: پلاسٹک بند ہے، یا ہینڈل؟
۱۳؍۱۲؍۲۰۱۸ء