ندیم احمد انصاری
آواس یوجنا
موسم میں خنکی تھی۔ بس اسٹینڈ پر ایک عورت – آشیانے سے محروم، گذر گاہوں پر بسر کرنے والی- پھٹی ہوئی میلی سی چادر میں سمٹ کر بیٹھی تھی۔بالوں کی لٹیں چہرے پر بکھری ہوئی تھیں۔ اوپر کے چار دانت دراز ہونے کے سبب نیچے والے ہونٹ پر ٹِکے ہوئے تھے ۔ ہاتھ میں ایک پمفلٹ تھا، جسے دیکھ کر وہ مسکرا رہی تھی۔ میں نے جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی، تو دیکھا کہ اس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا : ’پردھان منتری آواس یوجنا‘۔
بورڈ امتحان
بارہویں کے امتحانات جاری تھے ۔ کالج کے صدر دروازے سے لے کر کلاس روم تک طلبہ کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی۔ اِکّا دُکّا پولس اہل کار بھی نظر آجاتا تھا۔ کالج میں تدریس سے منسلک ہوئے نیہا کا یہ پہلا سال تھا۔ اسے بھی امتحان میں نگرانی کی ذمے داری تفویض کی گئی تھی۔ وہ اسٹاف روم سے اپنا پرس لے کر ڈیوٹی کے لیے نکلی اور چند منٹ بعد تیزی سے لوٹی۔ایک رفیق نے پوچھا : کیا ہوا،واپس کیوں لوٹ آئیں؟سپروائزر کو بھی پرس یا موبائل فون وغیرہ الاؤ نہیں ہے ۔نیہا نے بتایا۔یہ سن کر اس کا رفیق مسکرا دیا۔ اس کی مسکراہٹ میں سسٹم پر ایک عجیب طنز نمایاں تھا۔
دو زیادہ ہیں یا تین
ممبئی میں رکشا کا میٹر اٹھارہ روپے سے شروع ہوتا ہے ، لیکن رکشا والے چھٹّے کا عذر کرکے اکثر اٹھارہ کے بجائے بیس روپے کاٹ لیتے ہیں۔ان میں سے بعض تو سوار سے معذرت کر لیتے ہیں، لیکن زیادہ تر دو روپے زیادہ لے کر بھی بغیر کچھ کہے سنے ، اس طرح رکشا آگے بڑھاتے ہیں، جیسے یہ ان کا حق ہو۔ طاہرہ کو بات بالکل اچھی نہیں لگتی۔ پہلے تو وہ پھر بھی برداشت کر لیتی تھی، لیکن اب وہ ہرگز اس کے لیے راضی نہیں ہوتی۔ہوا یوں کہ ایک دن میٹر کے مطابق اسے رکشا والے کو بیاسی روپے ادا کرنے تھے ۔ اس نے رکشا والے کو سو کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا : میرے پاس دو روپے کھلے نہیں ہیں۔رکشا ڈرائیور بولا: پانچ کا ڈالر ہے ؟اس نے اپنی جیب کی تلاشی لی، تو پانچ کا ایک سکہ نکل آیا۔رکشے والے نے وہ سکہ اپنی جیب میں ڈالا اور اسے بیس کا نوٹ پکڑا کر رکشا اسٹارٹ کرنے لگا۔طاہرہ نے کہا : اوہ بھیا!تین روپے ؟ڈرائیور کہ نے کہا : چھٹے نہیں ہیں؟ عجیب آدمی ہو بھیا! دو زیادہ ہوتے ہیں یا تین؟