مفتی ندیم احمد انصاری
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور سے متعلق جو روایتیں وارد ہوئی ہیں ان سے استنباط و استدلال کرکے علماے اہلِ سنت و الجماعت نے ان سے متعلق عقائد و نظریات کو بالکل واضح کرکے زمانۂ قدیم ہی سے اپنی کتابوں میں درج کر دیا ہے۔ اس کے باوجود باطل نے عوام میں ہمیشہ اس بابت بہت سی غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشیشیں کی ہیں اور آج کل یہ مسائل پھر خصوصی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ عوام نہ تفصیلی مطالعے کے شوقین ہیں اور نہ عادی، اس لیے اس یہاں نہایت اختصار کے ساتھ چند باتیں پیش کی جا رہی ہیں۔
’مہدی‘ کے معنی
’المَہدِی‘عربی زبان کا لفظ ہے،جس کے معنی ہیں ’ہدایت یافتہ‘۔اس طور پر لفظی اعتبار سے ہر اس شخص کو مہدی کہہ سکتے ہیں جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہدایت عطا فرمائی ہو، لیکن اصطلاح میں مہدی ایک خاص شخصیت کا نام ہے ،جس کی بشارت خود رسول اللہ ﷺ نے دی ہے کہ جن کی آمد آخر زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل ہوگی۔(لسان العرب)
روایتیں تواترِ معنی کو پہنچی ہوئی ہیں
حضرت مہدی علیہ الرضوان سے متعلق احادیث متعدد طرق سے وارد ہوئی ہیں جنھیںبہت سے ائمۂ حدیث نے ذکر کیا ہے۔علامہ ابو الحسن الآجری ؒ فرماتے ہیں:اس سلسلے میں روایات اس کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ’تواترِ معنی ‘ کو پہنچ گئی ہیں۔علامہ سفارینیؒنے ’الوامع الأنوار البہیۃ‘میں اور علامہ شوکانیؒ نے ’التوضیح فی تواتر أحادیث المہدی والدجال والمسیح‘ میں بھی یہی لکھا ہے، البتہ کسی شخص کے لیے حتمی طور پر یہ کہنا کہ فلاں بن فلاں ہی مہدی ہے ‘جائز نہیں،جب تک کہ اس پر وہ تمام باتیں صادق نہ آئیں ،جن کا ذکر احادیثِ مبارکہ میں آیا ہے۔
چار قسم کی احادیث
شیخ صالح بن عثیمنؒ فرماتے ہیں،حضرت مہدی سے متعلق احادیث کی چار قسمیں ہیں:(۱)جھوٹی احادیث (۲) ضعیف احادیث (۳) حسن احادیث ،جو مجموعی اعتبار سے درجۂ صحت تک پہنچ جاتی ہیں کیوں کہ صحیح لغیرہٖ ہیں (۴) ضحیح لذاتہ۔لیکن جن احادیث میں حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ذکر آیا ہے، اس سے مراد وہ فرضی مہدی نہیں ہے جس کے بارے میں بیان کیا جاتاہے کہ وہ عراق کی کسی غار میں چھپا ہوا ہے کیوں کہ یہ بات بالکل بے اصل اور خرافات میں سے ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔وہ مہدی ؛جن کا ذکر احادیثِ مبارکہ میں آیا ہے دیگر انسانوں ہی کی طرح ایک انسان ہوںگے جو اپنے وقت پر پیدا ہوں گے اور اپنے وقت پر ان کا ظہور ہوگا۔(فتاویٰ ارکان اسلام)
حلیۂ مبارکہ اور دیگر تفصیلات
آگے علامہ عبد الحق حقانیؒ کے حوالے سے حضرت مہدی علیہ الرضوان کی حیات اور چند اہم کارنامے بیان کیے جاتے ہیں، جو انھوں نے اپنی مشہور کتاب ’عقائد الاسلام‘ میں رقم فرمائے ہیں:واضح ہو کہ مہدی لغت میں ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں ۔اس معنی کے اعتبارسے بہت سے مہدی ہو چکے ہیں اور بہت سے تا زمانہ ٔ مہدی موعود ہوںگے ،لیکن وہ مہدی کہ جن کا ذکر احادیث میں بہ کثرت آیا ہے وہ ایک خاص شخص ہیںجو دجال موعود کے وقت میں ظاہر ہوںگے اور اس سے پہلے نصاریٰ سے جنگ کرکے فتح یاب ہوں گے۔
حلیہ مبارک ان کایہ ہے :قد مائل بہ درازی ،قوی الجثہ ،رنگ سفید سرخی مائل ،چہرہ کشادہ ،ناک باریک و بلند ،زبان میں قدرے لکنت کہ جب کلام کرنے میں تنگ ہوں گے تو زانو پر ہاتھ ماریں گے اورآپ کا علم لدنی ہوگا(’لدُنی‘ وہ علم ،جو سیکھے بغیر وحی یا الہام وغیرہ کے ذریعے حاصل ہو)۔چالیس برس کی عمر میں ظاہر ہوں گے ،اس کے بعد سات یا آٹھ برس علی اختلافِ روایات زندہ رہیں گے ۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہوں گے ،مدینے کے رہنے والے ہوںگے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:دنیا تمام نہ ہوگی جب تک کہ میرے اہلِ بیت میں سے ایک شخص عرب کا مالک نہ ہو گا۔اس کا نام میرا نام اور اس کے والدکا نام میرے والد کا نام ہوگا۔اس حدیث میں حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عرب کا مالک ہوگا، حالاں کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان تمام زمین کے مالک ہوں گے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب اسلام کا مرکز اور پایۂ تخت ہے ،اس لیے اس کا ذکر کافی ہوا ۔ایک حدیث میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی ،جب تک میری اولاد میں سے کشادہ پیشانی اور ستواں ناک والا ایک آدمی خلیفہ نہ بن جائے ۔وہ زمین کو عدل وانصاف سے ایسے بھر دے گاجیسے کہ اس سے پہلے جور و ظلم سے بھر گئی تھی ۔ ان کے زمانے میں آسمان سے خوب بارشیں ہوں گی،زمین اپنی نباتات میں سے کوئی چیز ذخیرہ کرکے نہیں رکھے گی یعنی بھر پور پیداوار ہوگی اور مال کی فراوانی ہوگی۔ایک شخص حضرت مہدی علیہ الرضوان سے آکر کہے گا :مجھے کچھ دیجیے ؟وہ اس کے کپڑوں میں اتنا کچھ بھر دیں گے کہ اس کے لیے اٹھانا مشکل ہو جاے گا۔(مسند احمد)
المختصر ! امام مہدی مدینہ سے مکہ آئیں گے ،لوگ ان کو پہچان کر ان سے بیعت کریں گے اور اپنا بادشاہ بنائیں گے اور اس وقت غیب سے یہ آواز آئے گی: ہذا خلیفۃ اللّٰہ المہدی فاستمعوا وأطیعواکہ یہ اللہ کے خلیفہ ’مہدی‘ ہیں ،ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔دوسری علامت یہ ہوگی کہ اس سال جو رمضان ہوگااس میں چاند اور سورج گرہن ہوگا کذا ذکرہ مولانا رفیع الدین ؒ۔ابدال وعصائب آکر ان سے بیعت کریں گے اور عرب کی فوج ان کی مدد کو جمع ہوگی اور کعبے کے دروازے کے آگے جو خزانہ مدفون ہے جسے ’تاج الکعبہ‘کہتے ہیں ،اسے نکالیں گے اور مسلمانوں میں تقسیم فرما دیں گے۔ جب یہ خبر مسلمانوں میں پھیلے گی تو ایک امیر خراسانی کہ جس کی فوج کا سپہ سالار منصور نامی شخص ہوگا،حضرت مہدی علیہ الرضوان کی مدد کے لیے آئے گا ۔ابوداود نے روایت کیا ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماوراء النہریعنی ملکِ خراسان سے ایک شخص حارث حراث، جس کی فوج کے آگے ایک شخص منصور ہوگا ،محمد کے اہلِ بیت یعنی حضرت مہدی علیہ الرضوان کی مدد کے لیے آئے گا ،جیسا کہ قریش نے نبی ﷺ کی مدد کی ہے، وہ بھی آپ کی مدد کرے گا، ہر مسلمان پر اس شخص کی مدد واجب ہے۔
حضرت مہدی کے زمانے میں اسلام
ام المؤمنین حضرت امِ سلمہؓ کی روایت ہے ،حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایک بادشاہ کے مرنے سے اختلاف پڑ جائے گا تو مدینہ کا رہنے والا ایک شخص وہاں سے نکل کر مکہ آ جائے گا ۔اہل ِ مکہ اس کے انکار کرنے کے باوجود ، اسے گھر سے بلا کررکن ِ یمانی اور مقامِ ابراہیم کے درمیان بیعت کریں گے اور شام کی فوج اس پر چڑھائی کرے گی۔ وہ فوج مکہ اور مدینہ کے درمیان مقامِ بیداء میں زمین میں دھنس جائے گی۔جب لوگ یہ حال دیکھیں گے تو ابدال شام سے ،عصائب عراق سے آکر ان سے بیعت کریں گے۔ پھرقوم قریش سے ایک شخص؛جس کی ننھیال قبیلۂ کلب ہوگی، حضرت مہدی علیہ الرضوان پر فوج بھیجے گا،وہ سب مغلوب ہو جائیں اورحضرت مہدی علیہ الرضوان اور ان کے اَتباع غالب آئیں گے اوریہ فوج کلب کہلائے گی۔امام مہدی سنت ِنبویہ ﷺ پر عمل کریں گے اور زمین پر خوب اسلام پھیلے گا اور سات برس تک امام مہدی زندہ رہیں گے پھر انتقال کریں گے اور مسلمان ان کے جنازے کی نماز پڑھیں گے۔
حضرت مہدی دمشق میں
القصہ !حضرت مہدی علیہ الرضوان لشکر ِ اسلام کے ساتھ مکہ سے مدینہ میں حضرت نبی کریم ﷺ کی قبر شریف کی زیارت کے لیے جائیں گے پھر وہاں سے ملکِ شام میں دمشق تک پہنچیں گے اور نصاریٰ اسّی نشان کے نیچے بارہ ہزار کی فوج ہوگی–لے کر مقابلے کے لیے آئیں گے، جیسا کہ امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے اور دمشق کے قریب دابق یا اعماق میں آکر ٹھیریںگے اور ان کے مقابلے کے لیے حضرت مہدی علیہ الرضوان دمشق سے فوج لے کر باہر نکلیں گے ۔وہ کہیں گے:جن مسلمانوں نے ہمارے لوگ پکڑے ہیں ان کو ہمارے حوالے کر دو،ہم انھیں کو قتل کریں گے۔حضرت مہدی علیہ الرضوان فرمائیں گے: اللہ کی قسم ! ہم اپنے بھائیوں کو نہ دیں گے۔پس مسلمانوں کے تین فریق ہو جائیں گے؛ایک فریق نصاریٰ کے خوف سے بھاگ جائے گا،ان کی توبہ اللہ تعالیٰ کبھی قبول نہیں فرمائیں گے یعنی وہ حالتِ کفر میں مریں گے اور انھیںاسلام نصیب نہ ہوگا۔ایک فریق شہید ہو جائے گااور عند اللہ افضل شہداء کا مرتبہ پاے گا اور تیسرا فریق فتح پاے گا اور ہمیشہ فتنے سے امن میں رہے گا۔اسے امام مسلم ؒ نے روایت کیا ہے لیکن مسلم شریف میں شہرِ دمشق کے بہ جاے لفظِ مدینہ بہ معنی شہر آیا ہے لیکن علماء نے اسے دمشق ہی کہا ہے،لہٰذا اسی کویہاں لکھ دیا۔اس فریق کی نصاریٰ پر فتح یاب ہونے کی تفصیل ؛جیسا کہ امام مسلم ؒ نے عبد اللہ ابن مسعود ؓ کی روایت نقل کیا ہے،یہ ہے؛
نصاریٰ سے جنگ
حضرت مہدی علیہ الرضوان جب اس جماعت سے مقابل ہوں گے تو مسلمان یہ قسم کھائیں گے کہ ماریں گے یا مر جائیں گے۔شام کے وقت تک جنگ جاری رہے گی، آخر دونوں قیام گاہوں پر لوٹ جائیں گے ۔دوسرے روز پھر بہت سے لوگ قسم کھا کر حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ہم راہ میدانِ جنگ میں آئیں گے ،دن بھر لڑتے رہیں گے،بہت سے جواں مَردی کی داد دے کر شہادت کا پیالہ پئیںگے، آخر دونوں فریق لوٹ جائیں گے۔تیسرے روز پھرکثیر جماعت اسی طرح قسم کھا کر میدانِ جنگ میں آئے گی، تمام دن کُشت و خون رہے گا ،دونوں فریق آخر شام کے وقت اپنے اپنے خیموں میں لوٹیںگے ۔چوتھے روز کچھ اہلِ اسلام جو باقی رہ گئے ہوں گے حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ہم راہ میدانِ جنگ میں آئیں گے اور دلیرانہ اس طرح جنگ کریں گے کہ نصاریٰ کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیں گے ،یہاں تک کہ ان لاشوں پر پرندہ اڑے گا تو(وہ لاشیں اس کثرت سے ہوں گی کہ پرندہ اڑتے اڑتے تھک جائے گا اور) اِس سرے سے اُس سرے تک نہ جا سکے گا۔آخر نصاریٰ کی بڑی شکست ہوگی۔ بہت سے جہنم واصل ہوں گے ،باقی بچے ہوئے حیران وپریشان ہوکر بھاگیں گے ۔پھر حضرت مہدی علیہ الرضوان بے شمار انعام دلاورانِ اسلام کو عطا فرمائیں گے الخ۔
قسطنطنیہ پر چڑھائی
اس کے بعد حضرت مہدی علیہ الرضوان بلد ِ اسلام کا انتظام اور لشکر جمع کرنے کا اہتمام کرکے قسطنطنیہ پر چڑھائی کریں گے تاکہ ان نصاریٰ کو جنھوں نے سلطان کو وہاں سے نکالا تھا ،شکست دیں۔ جب حضرت مہدی علیہ الرضوان کثیر فوج کے ساتھ قسطنطنیہ کا محاصرہ کریں گے تو اولادِ اسحاق علیہ السلام کے ستّر ہزار مسلمان اس کو گھیرے ہوئے ہوں گے، اُس کے ایک جانب دریا اور دوسری طرف خشکی ہوگی۔پس وہ اولادِ اسحاقؑ یہ آواز : لَا الٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْبلند کریں گے تو دریا کی طرف کی دیوار گر پڑے گی ۔جب دوسری بار تکبیر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْکہیں گے تو راہ کھُل جاے گی، وہ سب شہر میں داخل ہو جائیں گے اور کفار کو قتل کریں گے اور تلواروں کو زیتون کے درختوں سے لٹکا کر مالِ غنیمت تقسیم کررہے ہوں گے کہ اتنے میں کوئی پکارے گا کہ کیا بیٹھے ہو ؟ دجّال تمھارے گھروں میں آگیا ہے۔جب اس کی تحقیق کو نکلیں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ خبر جھوٹ اور شیطان کی آواز تھی،پھر جب لشکرِ اسلام ملکِ شام کی طر ف لوٹ کر آئے گا تو دجّال نکلے گا۔
فتحِ قسطنطنیہ کے بعد
قسطنطنیہ فتح ہونے بعد دجال نکلے گا ۔ایک بار اس کی جھوٹی خبر مشہور ہوگی تو حضرت مہدی علیہ الرضوان دس سوار اس کی تحقیق کو بہ طورِ طلیعہ کے بھیجیں گے ۔صحیح مسلم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ میں ان سواروں کے نام اور ان گھوڑوں کے رنگ پہچانتا ہوں اور وہ روے زمین پر اس وقت کے سب سواروں سے افضل ہوں گے لیکن معلوم ہوگا کہ و ہ خبر غلط ہے ،ابھی دجال نہیں نکلا۔اس کے بعد حضرت مہدی علیہ الرضوان آہستگی کے ساتھ ملک کا بند و بست کرتے ہوئے ملکِ شام میں آئیں گے پھر دجال نکلے گا۔جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل کریں گے۔