ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
ندیم احمد انصاری
امہات المؤمنین سیدہ حضرت خدیجہ طاہرہ وہ نیک بخت خاتون ہیں، جن سے خلاصۂ کائناتﷺ کا پہلا عقد ہوا اور جنھوں نے محمدبن عبد اللہ کو محمد رسول اللہ ہوتے ہوئے دیکھا۔آپ نے حضورﷺ کوامورِ خانہ داری سے فارغ کرکے دین کی وہ خدمت انجام دی، جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آپ تاحیات حضورﷺ کے نکاح میں رہیں اور آپ نے صحیح معنوں میں اپنا تن، من، دھن اللہ اور اس کے رسول ﷺپر نچھاور کر دیا۔
حضرت خدیجہ کی بعض خصوصیات
قریش کا قبیلہ بلکہ عام طور سے اہلِ مکہ بت پرستی کے شرک میں مبتلا تھے اور یہ شرک انھیں اتنا پیارا تھا کہ اس کے خلاف کوئی لفظ سننا بھی ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا ، لیکن جاہلیت کے اس دور میں گنتی کے دو چار آدمی ایسے بھی تھے جن کو فطری طور پر بت پرستی سے نفرت تھی؛ ان میں ایک حضرت خدیجہ بھی تھیں۔ اس دور کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ واحد خاتون تھیں جو شرک و بت پرستی سے بے زار تھیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان پر دوسرے بہت سے انعامات کے علاوہ دولت مندی کی نعمت سے بھی نوازا تھا۔ رسول اللہﷺکا حال اس کے برعکس تھا۔ انھوں نے اپنی پوری دولت گویا آپ کے قدموں میں ڈال دی اور آپ کو اس سلسلے کی فکروں سے آزاد کر دیا۔ قرآن مجید کی سورہ والضحیٰ میں اسی صورتِ حال کے بارے میں فرمایا گیا ہے: وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ۔اے پیغمبر ! تم کو تمھارے پروردگار نے مفلس اور نادار پایا، پھر مستغنی کر دیا۔ اس سلسلے میں یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ زید بن حارثہ ، حضرت خدیجہ کے زر خرید غلام تھے ، انھوں نے دیکھا کہ زید کو رسول اللہ سے خاص انس و محبت ہے اور آپ کا معاملہ بھی زید کے ساتھ خصوصی درجے کی شفقت و پیار کا ہے ، تو انھوں نے زید کو حضورﷺہی کی ملکیت میں دے دیا ، پھر آپ ﷺ نے ان کو آزاد کر دیا اور عربوں کے اس وقت کے رواج کے مطابق ان کو اپنا منہ بولا بیٹا ، بنا لیا یہاں تک کہ ان کو زید بن حارثہ کے بجائے زید بن محمد ہی کہا جانے لگا ۔پھر جب نکاح کے پندرہ سال بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکو شرفِ نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ ﷺپر وہ شدید غیر معمولی حالات آئے، تو اس وقت آپ ﷺکو جس طرح کی دانش مندانہ و ہمدردانہ تسلی کی ضرورت تھی، وہ اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق سے حضرت خدیجہ ہی سے ملی اور جب وہ آپ ﷺکو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں- جو مکہ کی پوری آبادی میں موحد، صحیح العقیدہ نصرانی اور توریت و انجیل کے عالم تھے- اور انہوں نے رسول اللہ ﷺسے غارِ حرا کی واردات اور سرگذشت سن کر یقین و وثوق کے ساتھ آپ کے مبعوث من اللہ نبی ہونے کی بات کہی، تو حضرت خدیجہ نے بھی ان کی اس بات کو دل سے قبول کر لیا ، بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ رسول اللہ ﷺکے حالات و اوصاف کے پندرہ سالہ تجربہ کی بنا پر پہلے ہی سے ان کا دل آپ کی ہر بات کی تصدیق کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ پوری امت میں وہ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺکے مبعوث من اللہ نبی ہونے کی تصدیق کرنے والی ہیں ۔پھر جب آپ نے بحکمِ خداوندی توحید اور دینِ حق کی دعوت کا کام شروع کیا تو پوری قوم آپ کی دشمن بن کر کھڑی ہو گئی۔ ہر ممکن طریقے سے آپ کو ستانا برسوں تک ان بدنصیبوں کا محبوب ترین مشغلہ رہا۔مظلومیت کے اس پورے دور میں حضرت خدیجہ نہ صرف آپ کی غم خوار و غم گسار بلکہ پوری طرح شریکِ حال رہیں ، یہاں تک کہ جب ان ظالموں نے مکہ کی قریباً پوری آبادی کو اپنے ساتھ لے کر آپﷺ کا اور آپ کے خاندان بنو ہاشم کے ان تمام لوگوں کا بھی- جنھوں نے اگرچہ آپ کی دعوت اسلام کو قبول نہیں کیا تھا، لیکن نسبی اور قرابتی تعلق کی وجہ سے آپ کی کسی درجے میں حمایت کرتے تھے- بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور آپﷺ اور آپ کے وہ قریبی رشتے دار بھی شعبِ ابی طالب میں محصور کر دیے گئے اور ایسی ناکہ بندی کی گئی کہ کھانے پینے کی ضروریات بھی ان کو نہ پہنچ سکیں ، یہاں تک کہ ان لوگوں کو کبھی کبھی درختوں کے پتے کھا کر گذارہ کرنا پڑا۔ اس حالت میں بھی حضرت خدیجہ شعب ابی طالب میں آپ کے ساتھ رہیں، حالاں کہ ان کے لیے بالکل ممکن تھا کہ وہ ان دنوں اپنے گھر ہی رہتیں۔(معارف الحدیث) تو آئیے یہاںاختصار کے ساتھ اس نیک خاتون کا ذکرِ خیر کریں۔
نام و نسب
خدیجہ نام، اُمّ ہند کنیت، طاہرہ لقب۔ سلسلۂ نسب یہ ہے: خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعز۔ّیٰ بن قصی۔ قصی پر پہنچ کر ان کا خاندان رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا اورلُؤی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھیں۔حضرت خدیجہ کے والد اپنے قبیلہ میں نہایت معزّز شخص تھے، مکہ آکر اقامت کی۔ عبدالدار بن قصی کے جو اُن کے ابن عمّ تھے حلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنتِ زائدہ سے شادی کی، جن کے بطن سے عام الفیل سے 15 سال قبل حضرت خدیجہ پیدا ہوئیں۔سنِ شعور کو پہنچیں تو اپنے پاکیزہ اخلاق کی بنا پر طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ (سیرۃ الصحابہ)
رسول اللہﷺ سے نکا ح
باپ نے ان صفات کا لحاظ رکھ کر شادی کے لیے ورقہ بن نوفل کو- جو برادر زادہ اور تورات و انجیل کے بہت بڑے عالم تھے- منتخب کیا، لیکن پھر کسی وجہ سے یہ نسبت نہ ہوسکی اور ابوہالہ بن نباش تمیمی سے نکاح ہوگیا۔ابو ہالہ کے بعد عتیق بن عابد مخزومی کے عقدِ نکاح میں آئیں۔ اسی زمانے میں حرب الفجار چھڑی، جس میں حضرت خدیجہ کے باپ لڑائی کے لیے گئے اور مارے گئے۔ یہ عام الفیل سے ۲۰ سال بعد کا واقعہ ہے۔ باپ اور شوہر کے مرنے کے بعد حضرت خدیجہ کو سخت دقت واقع ہوئی۔ ذریعۂ معاش تجارت تھی جس کا کوئی نگراں نہ تھا۔ تاہم اپنے اعزّہ کو معاوضہ دے کر مالِ تجارت بھیجتی تھیں۔ ایک مرتبہ مال کی روانگی کا وقت آیا تو ابو طالب نے آنحضرتﷺ سے کہا کہ تم کو خدیجہ سے جاکر ملنا چاہیے، ان کا مال شام جائے گا، بہتر ہوتا کہ تم بھی ساتھ جاتے۔ میرے پاس روپیہ نہیں، ورنہ میں خود تمھارے ساتھ سرمایہ مہیا کردیتا۔
رسول اللہﷺ کی شہرت ’امین‘ کے لقب سے تمام مکہ میں تھی اور آپ کے حسنِ معاملت، راست بازی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا عام چرچا تھا۔ حضرت خدیجہ کو اس گفتگو کی خبر ملی تو فوراً پیغام بھیجا کہ ’آپ میرا مالِ تجارت لے کر شام کو جائیں جو معاوضہ میں اوروں کو دیتی ہوں آپ کو اس کا مضاعف دوں گی۔‘ آنحضرتﷺنے قبول فرمالیا اور مالِ تجارت لے کر میسرہ (غلام خدیجہؓ) کے ہمراہ بصرْیٰ (شام میں ایک جگہ) تشریف لے گئے۔ اس سال کا نفع سالہائے گذشتہ کے نفع سے مضاعف تھا۔
حضرت خدیجہ کی دولت وثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا اور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھا، لیکن کارکنانِ قضا و قدر کی نگاہِ انتخاب کسی اور پر پڑچکی تھی۔ آنحضرتﷺ مالِ تجارت لے کر شام سے واپس آئے تو حضرت خدیجہ نے شادی کا پیغام بھیجا۔ نفیسہ بنت منیہ (یعلی بن منیہ کی ہمشیرہ) اس خدمت پر مقرر ہوئیں۔ آپﷺ نے منظور فرمایا اور شادی کی تاریخ مقرّر ہوگئی۔ حضرت خدیجہ کے والد اگرچہ وفات پاچکے تھے، تاہم ان کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے۔ عرب میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ شادی بیاہ کے متعلق خود گفتگو کرسکتی تھیں، اسی بنا پر حضرت خدیجہ نے چچا کے ہوتے ہوئے خود براہِ راست تمام مراتب طے کیے۔تاریخِ معین پر ابو طالب اور تمام رؤسائے خاندان جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے، حضرت خدیجہ کے مکان پر آئے۔ حضرت خدیجہ نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کیا تھا۔ ابو طالب نے خطبۂ نکاح پڑھا۔ عمرو بن اسد کے مشورے سے 500 طلائی درہم مہر قرار پایا اور خدیجہ طاہرہ حرمِ نبوّت ہو کر اُمّ المومنین کے شرف سے ممتاز ہوئیں۔اس وقت آنحضرتﷺ پچیس سال کے تھے اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس برس کی تھی۔ یہ بعثتِ نبوی سے پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔ (سیرۃ الصحابہ) حضرت ابراہیمؓ کو چھوڑکر- جن کا انتقال بچپن ہی میں ہوگیا تھا-آپ ﷺ کی ساری اولاد اُنھی سے ہوئی۔ (ابن ہشام)
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کے نکاح کی سب سے اوَّل تجویز وَرَقہ بن نَوفَل سے ہوئی تھی مگر نکاح کی نوبت نہیں آئی، اِس کے بعد دو شخصوں سے نکاح ہوا۔اہلِ تاریخ کااِس میں اختلاف ہے کہ اِن دونوں میں پہلے کس سے ہوا؟ اکثر کی رائے یہ ہے کہ پہلے عَتیق بن عائِذ سے ہوا، جن سے ایک لڑکی پیداہوئی جن کانام ’ہند‘ تھا اور وہ بڑی ہوکر مسلمان ہوئیں اور صاحبِ اولاد بھی۔ اور بعضوں نے لکھاہے کہ عتیق سے ایک لڑکابھی پیداہوا جس کانام ’عبداللہ‘ یا ’عبدِمُناف‘ تھا۔ عتیق کے بعد پھر حضرت خدیجہ کانکاح ’اَبوہالۃ‘ سے ہوا، جن سے ’ہند‘ اور ’ہالہ‘ دو اولادیں ہوئیں۔ اکثروں نے کہا ہے کہ دونوں لڑکے تھے۔ بعضوں نے لکھا ہے کہ ہند لڑکا تھا اور ہالۃ لڑکی۔ ہند حضرت علی کے زمانۂ خلافت تک زندہ رہے، ابوہالۃ کے انتقال کے بعدحضورِ اکرمﷺ سے نکاح ہوا۔رمضان 10 نبوی میں پینسٹھ(65) برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔ان کا لقب اسلام سے پہلے ہی ’طاہِرہ‘ تھا، اِسی وجہ سے اِن کی اولاد جو دوسرے خاوندوں سے ہے، وہ بھی ’بَنُوالطَّاہِرَۃ‘ کہلاتی ہے۔ اِن کے فضائل حدیث کی کتابوں میں کثرت سے ہیں، اِن کے انتقال پر حضور ﷺنے خود قبرِمبارک میں اُتر کران کودفن فرمایاتھا۔ نمازِجنازہ اُس وقت تک مَشروع نہیں ہوئی تھی۔(ماخوذ از فضائلِ اعمال)
حضرت خدیجہ کی محبت کا اثر
ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے تین سال پہلے حضرت خدیجہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ آپﷺنے کم و بیش دو سال تو قف کیا، پھر حضرت عائشہ سے جب کہ ان کی عمر چھے برس کی تھی نکاح کرلیا اور پھر نو سال کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: تُوُفِّيَتْ خَدِيجَةُ قَبْلَ مَخْرَجِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى الْمَدِينَةِ بِثَلَاثِ سِنِينَ، فَلَبِثَ سَنَتَيْنِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ وَنَكَحَ عَائِشَةَ وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، ثُمَّ بَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ.(بخاری)
حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے جتنا رشک حضرت خدیجہ پر آتا، اتنا حضرت نبی کریمﷺ کی کسی بیوی پر نہیں آتا تھا (حالاں کہ) وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پاچکی تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ میں اکثر آپ ﷺکو ان کا ذکر کرتے ہوئے سنتی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے آں حضرتﷺ کو حکم دیا تھا کہ حضرت خدیجہ کو جنت میں موتی کے محل کی بشارت دیں اور آپ ﷺبکری ذبح کرتے تو حضرت خدیجہ کی ملنے والیوں کو اس میں سے بقدرِ کفایت بطور تحفہ بھیجتے تھے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ لِلنَّبِيِّ ﷺ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ هَلَكَتْ قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي لِمَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا وَأَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيُهْدِي فِي خَلَائِلِهَا مِنْهَا مَا يَسَعُهُنَّ.(بخاری)
ترمذی شریف میں اس طرح ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی کسی بیوی پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا حضرت خدیجہ پر کیا، اگر میں ان کے زمانے میں ہوتیں، تو میرا کیا حال ہوتا! اور یہ سب اس لیے تھا کہ آپ ﷺ انھیں بہت یاد کیا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ جب کوئی بکری ذبح کرتے تو حضرت خدیجہ کی کسی سہیلی کو تلاش کرتے اور اس کے ہاں ہدیہ بھیجتے۔عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ وَمَا بِي أَنْ أَكُونَ أَدْرَكْتُهَا، وَمَا ذَاكَ إِلَّا لِكَثْرَةِ ذِكْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَهَا، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيَتَتَبَّعُ بِهَا صَدَائِقَ خَدِيجَةَ فَيُهْدِيهَا لَهُنَّ. (ترمذی)
ایک روایت میں ہے کہفَرُبَّمَا، قُلْتُ: لَهُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيجَةُ، فَيَقُولُ: إِنَّهَا كَانَتْ وَكَانَتْ وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَد. (حضرت عائشہ فرماتی ہیں)میں کبھی تو حضرت نبی کریم ﷺسے کہہ دیتیںـ- جیسے دنیا میں خدیجہ کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں!- اس پر آپ ﷺفرماتے کہ وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں اور ان سے میرے اولاد ہے۔(بخاری)
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے ایک موقع پر فرمایا:مَا أَبْدَلَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا مِنْهَا قَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ كَفَرَ بِي النَّاسُ وَصَدَّقَتْنِي إِذْ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَوَاسَتْنِي بِمَالِهَا إِذْ حَرَمَنِي النَّاسُ وَرَزَقَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَدَهَا إِذْ حَرَمَنِي أَوْلَادَ النِّسَاءِ.اللہ نے مجھے اس کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر کررہے تھے، میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کررہے تھے، اپنے مال سے میری ہمدردی اس وقت کی جب کہ لوگوں نے مجھے اس سے محروم رکھا اور اللہ تعالی نے مجھے ان سے اولاد عطا فرمائی جب کہ میں دوسری بیویوں میں سے اولاد ہونے سے محروم رہا۔(مسند احمد)
پہلی مسلمان خاتون
ترمذی شریف میں ہے کہ بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ مَردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر ہیں۔ حضرت علی آٹھ برس کی عمر میں مسلمان ہوئے، اور عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ ایمان لائیں۔وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُو بَكْرٍ، وَأَسْلَمَ عَلِيٌّ وَهُوَ غُلَامٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِينَ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النِّسَاءِ خَدِيجَةُ.(ترمذی)
سب سے افضل خاتون
حضرت علی سے روایت ہےوہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ (سابقہ) امت میں سب سے بہتر مریم بنتِ عمران ہیں اور (اس) امت میں سب سے بہتر حضرت خدیجہ ہیں۔ عَن عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ، يَقُولُ:خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ.(بخاری)
جنت کی خوش خبری
عبداللہ بن ابی اوفی روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺنے عمرہ کیا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ عمرہ کیا۔ جب مکہ پہنچے تو آپ نے طواف کیا ہم نے بھی طواف کیا۔آپﷺ صفا اور مروہ کے پاس پہنچے، ہم بھی آپ کے ساتھ وہاںآئے۔ ہمﷺ آپ کو اہلِ مکہ کی طرف سے آڑ میں لیے ہوئے تھے، اس لیے کہ کہیں تیر نہ ماردیں۔ میرے ایک ساتھی نے ابن ابی اوفی سے پوچھا کہ کیا آپ کعبہ میں داخل ہوئے تھے ؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ اس نے پھر کہا کہ ہم سے بیان کیجیے جو آپ نے خدیجہ کے متعلق بتایا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا: خدیجہ کو جنت میں ایک گھر کی خوش خبری سنادو، جو موتی کا ہوگا۔ اس میں شور و غل نہ ہوگا اور نہ کوئی تکلیف ہوگی۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَاعْتَمَرْنَا مَعَهُ، فَلَمَّا دَخَلَ مَكَّةَ طَافَ وَطُفْنَا مَعَهُ، وَأَتَى الصَّفَا والمروة وَأَتَيْنَاهَا مَعَهُ، وَكُنَّا نَسْتُرُهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَرْمِيَهُ أَحَدٌ، فَقَالَ لَهُ صَاحِبٌ لِي: أَكَانَ دَخَلَ الْكَعْبَةَ ؟، قَالَ: لَا.(بخاری) قَالَ: فَحَدِّثْنَا مَا قَالَ لِخَدِيجَةَ، قَالَ: بَشِّرُوا، خَدِيجَةَ بِبَيْتٍ مِنَ الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ.(بخاری)
ربِ کریم اور جبریلِ امین کا سلام
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ؊رسول اللہ ﷺکے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ حضرت خدیجہ ایک برتن لیے آرہی ہیں، جس میں سالن یا کھانا یا پینے کی کوئی چیز ہے، جب یہ آپ ﷺکے پاس آجائیں تو اللہ تعالیٰ کی اور میری طرف سے اُنھیں سلام کہیے اور جنت میں موتی کے محل کی بشارت دیجیےجس میں نہ شور و شغب ہوگا نہ تکلیف۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي، وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ. (بخاری)
٭٭٭٭