انتخابی مہم کے دس منکرات، مفتی محمد تقی عثمانی، الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا
انتخابات کا ہنگامہ ہمارے معاشرے میں بے شمار گناہوں اور بد عنوانیوں کا ایسا طوفان لے کر آتا ہے کہ جس کی ظلمت پورے ماحول پر چھا جاتی ہے، اور اس میں شریعت، اخلاق، شرافت اور مروّت کی بنیادوں پر اتنی متواتر ضَربیں لگتی ہیں کہ پورا ملک لرز کر رہ جاتا ہے۔ ان گناہوں اور بدعنوانیوں کا انتہائی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دلوں سے ان گناہوں کے گناہ ہونے کا احساس بھی مٹتا جا رہا ہے اور اقتدار طلبی کی اس اندھی دوڑ میں سب کچھ شیرِ مادر بن کر رہ گیا ہے، اور چوں کہ معاشرے میں ان برائیوں کا چَلن کسی روک ٹوک کے بغیر اتنا عام ہو گیا ہے کہ اب کوئی ان برائیوں کے خلاف بولتا بھی نہیں، اس لیے ایسے حضرات کو بھی ان کے برا یا گناہ ہونے کا خیال ہی نہیں آتا‘ جن کی نیت جان بوجھ کر بُرائی کرنے کی نہیں ہوتی، لہٰذا اس وقت ایسی چند برائیوں کا ذکر اس جذبے سے کیا جا رہا ہے کہ جو اللہ کا بندہ ان سے بچ سکے، وہ بچ جائے اور دوسرے حضرات کے دل میں کم از کم ان کے گناہ اور برائی ہونے کا احساس پیدا ہو جائے۔
(۱)انتخابات کے تعلق سے جو گناہ اور منکرات ہمارے ماحول میں پھیلے ہوئے ہیں‘ان سب کی بنیادی جڑ تو اقتدار کی ہوس اور کسی منصب تک پہنچنے کی حرص ہے، جس کا جواز تلاش کرنے کے لیے بعض اوقات ملک و ملّت کی خیر خواہی کی معصوم تاویل کر لی جاتی ہے، حالاں کہ حکومت و اقتدار کے بارے میں قرآن و سنت کی ہدایات یہ ہیں کہ وہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے جس کی طرف لپکنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کی جائے، بلکہ یہ دنیا و آخرت کی ذمّے داری کا وہ جُوا ہے جسے گردن پر رکھنے سے پہلے انسان کو لرزنا ضرور چاہیے، اور شدید مجبوری کے بغیر اپنے آپ کو اس آزمائش میں نہ ڈالنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے ان کے صاحب زادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نام زد کرنے کو کہا گیا تو انھوں نے ایک جواب یہ بھی دیا:
’’ذمّے داری کا طوق خطّاب کے خاندان میں بس ایک ہی شخص (یعنی خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کے گلے میں پڑ گیا تو کافی ہے، میں اپنے بیٹے کے گلے کو اس سے گراں بار کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
اگر کسی شخص کے دل میں واقعۃً اس گراں بار ذمّے داری کا کما حقہ احساس ہو تو بے شک اس کا جائز ذرائع سے اقتدار تک پہنچنا ملک و ملّت کی خیر خواہی کے جذبے سے ہوتا ہے‘ جو اس کی ادا ادا سے جھلکتا ہے، اور اس کے نتیجے میں کبھی وہ خرابیاں، بد عنوانیاں اور گناہ وجود میں نہیں آتے‘ جن کے زہریلے اثرات سے آج کی سیاسی فضا مسموم ہے، لیکن جب اقتدار کو ایک منفعت، ایک لذّت اور ایک مادّی مفاد سمجھ لیا جائے اور اسے حاصل کرنے کے لیے تن من دھن کی ساری طاقتیں لُٹائی جانے لگیں تو یہ اقتدار کی وہ حرص ہے جس کے بطن سے خیر و فلاح بر آمد نہیں ہو سکتی، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ گناہوں، برائیوں، خود غرضیوں اور بد عنوانیوں کو جنم دے کر معاشرے میں شر اور فساد کو پھیلاتا ہے۔
(۲)اسی شر و فساد کا ایک حصہ یہ ہے کہ ہماری انتخابی مہمّات میں ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بہتان طرازی کو شیرِ مادر سمجھ لیا گیا ہے۔ اپنے مقابل کو چِت کرکے اپنی فتح کا ہاتھ بلند کرنے کے لیے اُس پر بلا تحقیق ہر قسم کا الزام عائد کرنا حلالِ طیّب قرار پا چکا ہے، بلکہ یہ اس سیاسی جنگ کا لازمی حصہ ہے، جس کے بغیر سیاسی فتح کو ناممکن سمجھا جاتا ہے۔[جب کہ] اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی برا ہو، لیکن اس پر کوئی ایسا الزام عائد کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، جس کی سچائی کی مکمل تحقیق نہ ہو چکی ہو، لیکن انتخابی جلسوں کی شاید ہی کوئی تقریر اس قسم کے بلا تحقیق الزامات سے خالی ہوتی ہو، جو بہتان کے گناہِ کبیرہ میں داخل ہیں۔ پھر بعض اوقات اس بہتان طرازی کے لیے اتنی گھٹیا اور بازاری زبان استعمال کی جاتی ہے کہ وہ دشنام طرازی کا گناہ بھی سمیٹ لیتی ہے۔ ایک حدیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مسلمان کی جان، مال اور آبرو کو کعبۃ اللہ سے زیادہ مقدّس قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کی جان، مال یا آبرو پر ناروا حملہ کرنا (معاذ اللہ) کعبے کو ڈھانے سے بھی زیادہ سنگین گناہ ہے،لیکن انتخابی مہم کے جوش میں مدِّ مقابل کا کعبۂ آبرو گلی گلی میں ڈھایا جاتا ہے، اور اخباروں کے صفحات سے لے کر انتخابی جلسوں اور کارنر میٹنگز تک کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جو بہتان تراشی اور دشنام طرازی کی عفونت سے بدبو دار نہ ہو۔
(۳)پھر چوں کہ انتخابات کا موقع ایسا ہوتا ہے کہ کسی امید وار کے بارے میں حقائق منظرِ عام پر لانے کی واقعی ضرورت بھی ہوتی ہے، تاکہ عوام کو دھوکے اور نقصان سے بچایا جا سکے، اس لیے کسی امیدوار کے حقیقی اوصاف بیان کرنے کی توجیہ کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے اوّل تو یہ ضروری ہے کہ کوئی بات ضروری تحقیق کے بغیر نہ کہی جائے، اور دیانت داری اور انصاف سے ہر حال میں کام لیا جائے، دوسرے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ناگوار فریضہ صرف بہ قدرِ ضرورت ہی انجام دیا جائے، اسے محض مزے لینے اور مجلس آرائی کا ذریعہ نہ بنایا جائے، ورنہ اگر وہ بہتان نہ ہو‘ تب بھی غیبت کے اس گناہِ عظیم میں داخل ہے جسے قرآنِ کریم نے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مجلس میں کسی شخص نے حجّاج بن یوسف کی بُرائیاں بیان کرنی شروع کر دیں۔ حجاج کا ظلم و ستم لوگوں میں مشہور تھا، لیکن چوں کہ اس مقام پر بُرائی کرنے کا کوئی صحیح مقصد یا فایدہ نہیں تھا، اس لیے حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ نے فرمایا:
’’یہ غیبت ہے، اور اگر حجاج نے بہت سے لوگوں پر ظلم کیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب ہر شخص کے لیے اس کی غیبت حلال ہو گئی ہے، یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ اگر حجاج سے بے گناہوں کے خون کا حساب لے گا تو اس کی نارَوا غیبت کا بھی حساب لے گا۔‘‘
(۴)دوسروں کی برائی اور ان پر الزام تراشی کے علاوہ انتخابات میں کامیابی کے لیے یہ بھی ضروری سمجھاجاتا ہے کہ منہ بھر بھر کر خود اپنی تعریف اور اپنی خدمات کا مبالغہ آمیز تذکرہ کیا جائے، یاد رکھیے خود سنائی، نام و نمود اور دکھاوے کو مذہب و اخلاق کے ہر نظام میں گناہ یا کم از کم بُرا ضرور سمجھا گیا ہے، لیکن ہماری انتخابی سیاست کے مذہب میں یہ عمل کسی قید و شرط کا پابند نہیں رہا۔
(۵)عوام کو ووٹ دینے پر مائل کرنے کے لیے یہ بھی لازمی سمجھ لیا گیا ہے کہ اُن سے سوچے سمجھے بغیر خوش نما وعدے کیے جائیں، وعدہ کرتے وقت اس بات سے بحث نہیں ہوتی کہ اُن کو پورا کرنے کا کیا طریقہ ہوگا؟ اور اقتدار حاصل ہونے کے بعد وہ کس طرح رو بہ عمل لائے جا سکیں گے؟ مسئلہ صرف یہ ہے کہ وعدوں کے نیلام میں کس طرح دوسروں سے بڑھ چڑھ کر بولی لگائی جائے!۔۔۔ہم بر سرِ اقتدار آکر غریبوں کی قسمت بدل دیں گے، ہم پس ماندہ علاقوں کو پیرس کا نمونہ بنا دیں گے، ہم ہر ضلع میں ایک ہائی کورٹ قائم کر دیں گے، ہم غُربت اور جہالت کا خاتمہ کر دیں گے[وغیرہ وغیرہ]۔ اس قسم کے بلند و بانگ دعوے اخباری بیانات سے لے کر تقریروں تک ہر جگہ سنائی دیتے ہیں، اور ان جھوٹے وعدوں اور دعووں کے ذریعے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
(۶)جلسے جلوس اور اشتہار بھی انتخابی سرگرمیوں کا ایک لازمی حصّہ ہیں، اگر یہ جلسے جلوس اخلاق و شرافت کی حدود میں ہوں تو ناجائز بھی نہیں، لیکن جلسوں جلوسوں میں غنڈہ گردی روز مرّہ کا معمول بن چکی ہے، جس کے نزدیک سیاسی حریفوں کی جان، مال اور آبرو کوئی قیمت نہیں رکھتی، چناں چہ جس کا داؤ چل جائے، وہ دوسروں کو زَک پہنچانے میں کسر نہیں چھوڑتا۔
(۷)پھر بعض اوقات انتخابی جلسے جلوس ایسے عام اور مصروف راستوں پر منعقد کیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے شہر کی آبادی کے لیے نقل و حرکت محال ہو جاتی ہے اور ٹریفک کا ایسا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے جو بے گناہ شہریوں کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ نہ جانے کتنے ضعیف اور بیمار لوگ اس قسم کی بدنظمی کی وجہ سے اپنے علاج سے محروم رہ جاتے ہیں، کتنے ضرورت مند اپنے روزگار تک نہیں پہنچ پاتے۔اس طرح عام گزر گاہوں کو بلاک کرکے نہ جانے کتنے انسانوں کو ناقابلِ برداشت تکلیف پہنچانے کا گناہِ عظیم اس قسم کے جلسوں جلوسوں کے حصّے میں آتا ہے۔
(۸)دیواروں کو انتخابی نعروں سے سیاہ کرنا اور شخصی اور سرکاری عمارتوں پر اشتہارات چسپاں کرنا بھی انتخابی مہم کا جزوِ لا ینفک ہے، جس کے نتیجے میں شہر کی بیش تر عمارتوں متضاد نعروں اور اشتہارات سے داغ دار نظر آتی ہیں اور کسی اللہ کے بندے کو یہ خیال نہیں آتا کہ کسی دوسرے کی عمارت کو اس کی مرضی کے بغیر استعمال کرکے اس کا حُلیہ بگاڑنا در حقیقت چوری اور غصب کے مُترادف ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ــ’’کسی دوسرے کی ملکیت کو اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کرنا حلال نہیں۔‘‘
عمارتیں اور دیواریں کسی نہ کسی کی ملکیت ہوتی ہیں اور ان کو اپنے اشتہار کے لیے استعمال کرنا مالک کی اجازت کے بغیرہ حرام ہے، چہ جائے کہ ان کو خراب اور بد نما بنانا، لیکن غربت اور جہالت کے خاتمے کے دعوے دار بے تکان اس چوری اور غصب کا ارتکاب کرتے ہیں، اور اگر کوئی شریف انسان اس عمل سے روکنے کی کوشش کرے، تو اسے پتھروں اور [کبھی تو] فائرنگ کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔
(۹)ووٹوں کی خرید و فروخت اور اس غرض کے لیے لوگوں کو رشوت دینا اور جن لوگوں کے قبضے میں بہت سے ووٹ ہوں، ان کے ناجائز کام کرا دینا، [یا کم از کم] اس کا وعدہ کر لینا ایک مستقل جُرم ہے، جو خدا اور آخرت سے بے فکر امید واروں میں بہ کثرت رائج ہے اور اس نے معاشرے کو اخلاقی تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔
(۱۰)ظاہر ہے کہ ساری انتخابی مہم چلانے کے لیے ہر جماعت کو کروڑوں روپیہ د رکار ہوتا ہے، اس کروڑوں روپے کے سرمائے کے حصول کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، ان میں غیر ملکی طاقتوں سے گٹھ جوڑ اور ان کی دی ہوئی لائن پر کام کرنا ایک ایسی بیماری ہے‘ جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، اور جو لوگ باہر سے سرمایہ حاصل نہیں کرتے، یا نہیں کر پاتے، وہ اپنے ہی ملک کے بڑے بڑے دولت مند افراد سے اپنی جماعتوں کے لیے چندے وصول کرتے ہیں اور بسا اوقات یہ چندہ در حقیقت اس بات کی رشوت ہوتا ہے کہ بر سرِ اقتدار آنے کے بعد وہ چندہ دینے والوں کو خصوصی مُراعات دی جائیں گی، اور اگر وہ دینے سے انکار کریں تواُنھیں طرح طرح سے تنگ کیا جاتا ہے۔ جو جماعت جتنی زیادہ طاقت ور ہوتی ہے، اور اس کے اقتدار میں آنے کے جتنے زیادہ امکانات ہوتے ہیں، اس کی چندے کی اپیل اتنی ہی زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔
یہ دس موٹے موٹے گناہ محض مثال کے طور پر ذکر کیے گئے ہیں، لیکن اگر آپ باریک بینی سے غور فرمائیں تو نظر آئے گا کہ ان میںسے ہر گناہ بہ ذاتِ خود بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے اور انتخابی مہم کے دوران اسی قسم کے نہ جانے کتنے گناہوں کا ارتکاب دھڑلّے سے ہوتا ہے۔ اب غور فرمائیے کہ جن حکومتوں کی بنیاد میں جھوٹ، الزام تراشی، بہتان، غیبت، خود سنائی، جھوٹے وعدوں، دوسروں کے ساتھ غنڈہ گردی، مخلوقِ خدا کی ایذا رسانی، دوسروں کی املاک پر ناجائز تصرّف جیسے عظیم گناہ داخل ہوں‘ ان سے ملک و ملّت کو سُکھ چین کس طرح نصیب ہو؟ اور جس ماحول میں ان گناہوں کی ظلمت چھائی ہوئی ہو وہاں سے خیر و فلاح کی روشنی نمودار ہونے کی کیا توقع رکھی جائے!لیکن ان گذارشات کا مقصد محض تنقید براے تنقید نہیں، نہ اس کا منشا یہ ہے کہ لوگوں میں مایوسی پھیلائی جائے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ کم از کم ہم اپنی بیماریوں سے آگاہ تو ہوں، اور ان میں سے جس کسی بیماری کا سدِّ باب اپنی قدرت میں ہو اس سے دریغ نہ کریں، اور کم از کم عام مسلمان اُن گناہوں سے محفوظ رہنے کا اہتمام کریں، جن میں وہ بعض اوقات نادانستہ طور پر مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ اس ہنگامہ خیز طوفان میں ایک تنہا شخص خود کسی بُرائی سے رُک جائے تو اس سے معاشرے پر مجموعی طور سے کیا اثر پڑے گا؟ یاد رکھیے کہ معاشرے سے گندگی جس چھوٹی سے چھوٹی مقدار میں بھی کم ہو‘ غنیمت ہے،کیوں کہ معاشرہ در حقیقت افراد ہی کے مجموعے سے عبارت ہے، یہاں چراغ سے چراغ جلتا ہے، لہٰذا بعض اوقات کسی ایک شخص کا عزم و ہمت بھی معاشرے کی تبدیلی میں فیصلہ کُن کردار ادا کر سکتا ہے۔(فقہی مقالات،بترمیم)