اُردو کہاوتیں اور اُن کے سماجی و لسانی پہلو‘ پروفیسر یونس اگاسکر کا کارنامہ

تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
کتاب : (۱) اُردو کہاوتیں اور ان کے سماجی پہلو(۲) اُردو کہاوتوں کے ادبی و لسانی پہلو
مصنف : پروفیسر یونس اگاسکر
ترتیب : ندیم احمد انصاری
قیمت:(۱)۳۳۰؍روپئے(۲۵۴؍صفحات)(۲)۳۳۰؍روپئے(۲۵۰ ؍صفحات)
باہتمام : الفلاح اسلامک فائونڈیشن ،انڈیا

بہت پہلے ۱۹۸۸ء میں ایک کتاب ’اُردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو‘ کے نام سے آئی تھی، اور آتے ہی اپنے انوکھے موضوع کے سبب علمی و ادبی حلقوں میں موضوع گفتگو بن گئی تھی۔ یہ کتاب پروفیسر یونس اگاسکرکی برسوں کی تحقیق کا ثمرہ تھی اور اس پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی تھی۔ ڈاکٹر یونس اگاسکر کانام اُردو دنیا کےلئے کوئی نیا نہیں ہے، موصوف عرصۂ دراز تک مہاراشٹر کالج اور ممبئی یونیورسٹی میں اُردو زبان و ادب کے استاذ رہے اور ان سے بڑی تعداد میں لوگ مستفیض ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ خاکسار بھی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی کتاب ادھر ایک عرصۂ سے کمیاب بلکہ نایاب تھی اور اس کی اشاعتِ نو کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ پر آج جبکہ اُردو زبان بالخصوص اُردو ادب کی کتابوں کے چھاپنے والے ایک کے بعد ایک اپنا بوریا بستر باندھ رہے ہیںکوئی پبلشر نظر نہیں آرہا تھا جو اسے دوبارہ شائع کرنے کی ہمت کرسکے۔ ۱۹۸۸ء کے علاوہ اس کا کوئی اور قانونی ایڈیشن شائع نہیں ہو سکا۔ لیکن اب ان کے ایک شاگرد ندیم احمد انصاری نے، جو ممبئی کے تاریخی اسماعیل یوسف کالج میں شعبۂ اُردو سے وابستہ ہیں اور بہترین علمی و ادبی ذوق رکھتے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف و مرتب ہیں، اس کتاب کو اپنے ادارے، الفلاح اسلامک فائونڈیشن انڈیا ‘سے ترتیب نوکے ساتھ کمپیوٹرائزڈکراکر (چونکہ پہلا ایڈیشن کتابت شدہ تھا) دو حصوں میں بہت ہی دیدہ زیب کور ڈیزائن کے ساتھ شائع کرنے کی ہمت کی ہے۔
ندیم احمد انصاری ’عرضِ مرتب‘ میں تحریر کرتے ہیں: ’راقم الحروف جب ایم فل کا طالب علم تھا، استاذ محترم نے ایک مرتبہ بڑے سوز و گداز کے ساتھ اس کتاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا، کاش اس کتاب کی ازسر نو اشاعت ہوجاتی‘۔ اس وقت سے دل میں یہ ارادہ تھا کہ خدائے پاک نے توفیق دی تو جو کچھ مجھ سے ہوسکے گا، اس کتاب کےلئے ضرور کروں گا۔ ۲۰۱۷ء میں جب اسماعیل یوسف کالج، ممبئی کے شعبۂ اُردو سے وابستہ ہوا تو استاذ ِمحترم اور ’الفلاح اسلامک فائونڈشن، انڈیا‘ کے ذمہ داران سے اجازت لے کر اس پرکام کرنا شروع کردیا‘۔
وہ مزید تحریر کرتے ہیں’ یہ ضخیم کتاب مصنف کی اجازت کے بغیر ہندوپاک سے شائع ہوتی رہی ہے، جس میں بعض غلطیاں بھی درآئی تھیں، اس ایڈیشن میں انہیں دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیز ’اُردو کہاوتوں کا سماجی، ثقافتی وحکایتی پس منظر، کے زیر عنوان مصنف نے ایک رسالہ بطور ضمیمہ اس موضوع پر رقم کیا تھا جو سابقہ اشاعتوں میں شامل نہیں ہوسکا تھا، اسے ایک باب کے طور پر شامل کتاب کرلیا گیا ہے‘۔
کتاب کے پہلے حصے میں چھ ابواب ہیں۔ پہلا باب ’کہاوت کیا ہے؟‘ کے عنوان سے ہے، اس میں کہاوت کی تعریف اور لفظ’ کہاوت‘ کی تحقیق کے ساتھ ساتھ ہندستان کی دیگر زبانوں میں لفظ کہاوت، لفظ کہاوت کے مترادفات، غیر ملکی زبانوں کے مترادفات، کہاوت کی قسمیں، کہاوت اور محاورہ اور کہاوت و تلمیح کے عنوانات پر روشنی ڈالی اور بحث کی گئی ہے۔ دوسرا باب ’کہاوت کی اہمیت‘کے عنوان سے ہے۔ اسے پانچ حصوں یعنی سماجی اہمیت، فلسفیانہ اہمیت، اخلاقی اہمیت، تاریخی اہمیت اور لسانی اہمیت میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سُرحرفیت، استعارہ، تلمیح اور وزن و قافیہ پر بات کی گئ ہے۔ تیسرا باب’کہاوت کا آغاز اور ارتقاء‘ اسباب‘ کے عنوان سے ہے۔ مصنف کے بقول ’سماجی زندگی کے لین دین اور اتھل پتھل نے زبان کی متعدد کہاوتوں کو اچانک ہی جنم دیا ہے لیکن ابتداء میں یہ کہاوتیں بڑی ان گھڑ اور خام تھیں کیونکہ وہ ایسے اشخاص کے منہ سے نکلے ہوئے جملوں کی حیثیت رکھتی تھیں جنہوں نے دنیوی تجربات و مشاہدات سے متاثر ہوکر اپنے فوری ذہنی رد عمل کو کسی حد تک پر زور فلسفیانہ انداز میں پیش کیا تھا۔ آگے چل کر ان جملوں کو جِلا ہوئی اور وہ کہاوتوں کے روپ میں سماج کے مختلف طبقوں میں رائج ہوئے۔پروفیسر یونس اگاسکرنےاس کی متعدد مثالیں دی ہیں۔
کتاب کا پانچواں باب’اُردو کہاوتوں کے سماجی پہلو‘ ہے۔ اس باب میں پہلے تو مشترکہ کلچر اور اردو زبان اور کہاوتوں کا سماجی و ثقافتی پس منظر، دیکھاگیا پھر ’ذات پات‘ اس کے بعد’پیشے اور کام‘ پھر زرعی معیشت، عورت، شادی بیاہ، ساس، بہو اور نند، رشتے ناتے، مہمان، خوردونوش، پوشاک اور زیور، صحت و علاج اور توہمات ان موضوعات پر بحث کرنے کے ساتھ ان پر بڑی تعداد میں کہاوتیں ڈاکٹر صاحب نے مثال کے طور پر پیش کردی ہیں۔ کتاب کے چھٹے باب کا عنوان ہے‘ اردو کہاوتوں کا سماجی، ثقافتی وحکایتی پس منظر‘ یہ وہ ضمیمہ ہے جو پہلے ایڈیشن میں شامل نہیں تھا۔
کتاب کا دوسرا حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب ’اُردو کہاوتوں کے ابتدائی نقوش‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ بڑا ہی اہم باب ہے۔ اس باب میں بزرگوں کے اقوال میں پائے جانے والے ’کہاوتی اسلوب کے حامل جملوں کو کہاوت کی کسوٹی پرکس کر اس بات کا اطمینان کرلیا (گیا ہے) کہ ان میں دانش مندی، تجربہ، ذہانت ، اختصار، چستی، برجستگی اور قبول عام جیسی خوبیاں کم و بیش موجود ہیں اور یہ ٹکڑے محض چلتے ہوئے فقرے، پھبتیاں، محاورے، تلمیحات یا خالص مذہبی وروحانی ہدایات نہیں ہیں‘۔ اس باب میں بابا فرید شکر گنج ؒ سے لے کر سلطان محمد بیگڑہ تک چھ بزرگوں کے اقوال پر بات کی گئی ہے۔ اس باب میں آگے ’دوہے‘ کبت اور شعر، اور ’لوک کہانیاں‘ پر بات کرتے ہوئے ’کہاوتوں کے ابتدائی نقوش‘ تلاش کئے گئے ہیں‘۔ اس باب میں اُردو کی اولین مثنوی کدم رائوپدم رائو کا حوالہ بھی ہے، اور اس پر فاررسی، اُردو اور مراٹھی کی کہاوتوں کے اثرات کاذکر بھی۔
دوسرا باب’اُردو کہاوتوں کے لسانی پہلو‘کے عنوان سے ہے اور تیسرا باب ’فہرست اشال‘ کے عنوان سے، اس میں کتاب کی تیاری کےلئے جو کہاوتیں سامنے آئیں ان سب کو جمع کردیا گیا ہے۔ آخری باب کا عنوان ہے ’کتاب اور صاحبِ کتاب‘ یعنی پروفیسر یونس اگاسکر کی شخصیت اور خدمات پر مضامین۔ یوسف ناظم، ڈاکٹر رئوف پاریکھ، ڈاکٹر خورشید نعمانی، ڈاکٹر حامد اللہ ندوی، اور ندیم احمد انصاری کے مضامین اس باب میں شامل ہیں۔ دونوں ہی حصوں میں’فہرست ماخذ‘ بھی شامل ہے۔ پہلے ایڈیشن کےلئے پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ’پیش رس‘ تحریر کیا تھا اور رشید حسن خان نے ’پیش گفتار‘ انہیں اس کتاب میں شامل رکھا گیا ہے۔ نارنگ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ’سماجیات و لسانیات کا خوبصورت سنگم ہے‘۔ رشید حسن خان لکھتے ہیں کہ ’یہ اُردو کی پہلی کتاب ہے جس میں ضرب الامثال کے متعلقات پر سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے‘۔’ عرض مصنف‘ بھی کتاب میں شامل ہے۔ پروفیسر یونس اگاسکر نے دل کی گہرائیوں سے ندیم احمد انصاری کو دعائیں دی ہیں۔ یہ کتاب پڑھی جانی چاہئے اور بار بار پڑھی جانی چاہئے تاکہ اُردو دنیا دوبارہ کہاوتوں کا استعمال سیکھ سکے۔

(یہ کتابیں فلپ کارٹ پر مصنف یا مرتب کا نام لکھ کر تلاش اور حاصل کی جا سکتی ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here